غضنفر پارہ چنار کے لا ابالی نوجوانوں کا سردار تھا ہٹا کٹا صحتمند خوبرو نوجوان اس کی زبان اور ہاتھ ایک جیسے چلتے تھے اس لئے مدرسہ کے طلباء تو درکنار اساتذہ بھی اس سے فاصلہ رکھ کر باتیں کرتے حالانکہ اس نے ابھی تک کسی استاد کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی تھی لیکن پھر بھی کیا اعتبار کب سنک سوار ہو اور کیا کر جائے؟
حسب معمول ایک روز غضنفر اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مگن تھا کہ بازار کی طرف سے ایک نوجوان آیا اور غضنفر سے بولا اوئے مٹی کے شیر تیری ماں تجھ پر روئے یہاں بیٹھا کیا کر رہا ہے، جا دیکھ ہلاکو خان سر بازار تیری بہن کو رسوا کر رہا ہے ابھی جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ غضنفر بجلی کی سرعت سے بازار کی جانب دوڑ پڑا۔
وہاں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ لوگ ہلاکو خان کو سمجھا رہے تھے کہ ایسا ظلم نہ کر یہ ہمارے گاؤں کی روایت کے خلاف ہے۔ گاؤں کی بیٹی سب کی بیٹی ہے۔ غضنفر کی بہن رضیہ منتیں کر رہی تھی کہ ہلاکو میرا دوپٹہ مجھے واپس کر دے میں اس کے بغیر کیسے جا سکتی ہوں؟ ہلاکو کا سفاکانہ قہقہہ فضا میں بلند ہو رہا تھا۔ چلو ہٹو ہمارے درمیان سے یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ اری سن چھوکری جا۔ اسی طرح اپنے گھر جا اور اپنے باپ سے کہہ کہ کب تک تجھے یونہی بن بیاہی بٹھائے رکھے گا، جا اس سے کہہ کہ میرا بیاہ ہلاکو خان سے کر دے اور پھر ایک بار اس کا زور دار قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔
اس سے پہلے کہ وہ تھمتا غضنفر نے پیچھے سے اس کا گریبان پکڑ لیا۔ ہلاکو نے بدک کر پیچھے دیکھا اور گرج کر پوچھا کون ہے جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہتا ہے؟
تیرا باپ! غضنفر بولا اور ایک گھونسا ہلاکو کو جڑ دیا۔ ہلاکو کو نہ جانے کتنے سال بعد یہ گھونسا پڑا تھا۔ وہ اس کی تاب نہ لا سکا اور فوراً زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ہلاکو ناک سے خون اور منہ جھاگ اگل رہا ہے۔ کسی نے کہا ارے اس کی تو آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ سانس بند ہو گئی ہے اور نبض بھی رک گئی ہے، او ہو یہ تو مر گیا ہے۔
رضیہ نے کچھ بھی نہیں سنا بس ہلاکو کی لاش سے اپنا دوپٹہ کھینچا اور اسے اوڑھ کر آنسو پوچھتی ہوئی گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
جیل میں غضنفر کی ملاقات زور آور خان سے ہوئی وہ بھی غضنفر کی طرح نوجوان تھا اور سردار دلاور خان کے گروہ میں کام کرتا تھا۔ اتفاق سے دلاور خان اسوقت جیل میں شاہانہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جیل کے اندر ہونے کے باوجود اس کی ٹھاٹ باٹ جیلر سے زیادہ تھی، زور آور پر کوئی الزام نہیں تھا وہ اور اس جیسے کئی گرگے محض سردار کی سیوا کیلئے جیل میں بند تھے اور اس کے اشارے پر دوڑتے پھرتے تھے۔ پولیس کی طرح یہ لوگ دلاور کی خدمت پر مامور تھے۔
ایک شام زور آور نے غضنفر سے پوچھا کہ آخر اسے جیل کی ہوا کیوں کھانی پڑی؟ تو غضنفر نے اپنی ساری کہانی سنا ڈالی اور پوچھا بھائی تمہیں بتاؤ میری کوئی غلطی ہے؟
زور آور نے کہا تمہاری اور میری غلطی یہی ہے کہ ہم غریب ہیں ورنہ ہلاکو نہ ایسی جرأت کرتا اور نہ ہلاک ہوتا۔
اگر ایسا ہے تو موت کے سایہ میرے سر پر کیوں منڈلا رہے ہیں؟
اس لئے کہ تم اپنا مقدمہ نہیں لڑسکتے۔
تو کیا اس کے باعث مجھے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے گا؟
نہیں! ہو سکتا ہے کہ تمہیں عمر قید ہو جائے اس لئے کہ اس طرح کے مقدمے میں اکثر عمر قید ہو جاتی ہے۔
کیا فرق ہے عمر قید اور سزائے موت میں؟
بڑا فرق ہے، زور آور بولا۔
اگر عمر قید بھی ہو جائے تو ساری عمر جیل کی چکی؟
ساری عمر نہیں صرف چودہ سال،
چودہ سال؟ غضنفر نے جملہ دوہرایا میرے لئے تو چودہ دن گذارنے مشکل ہیں تم چودہ سال کی بات کرتے ہو۔
ہاں یہ تو کم از کم ہے ویسے یہاں بھی دن گذر ہی جاتے ہیں جیل کی زندگی بھی کوئی ایسی بری نہیں ہے اب ہمیں دیکھو ہم تو بغیر کسی جرم کے یہاں دن کاٹ رہے ہیں ہمارا کام سردار کی خدمت کرنا ہے اگر وہ جیل کے اندر تو ہم بھی جیل کے اندر اس سے کیا فرق پڑتا؟
غضنفر نے حیرت سے پوچھا یار یہ بتا ؤ کہ تم نے یہ پیشہ کیوں پسند کیا کوئی اور کام کیوں نہیں کر لیتے؟
کیوں کیا خرابی ہے اس کام میں؟
جیل میں جو رہنا پڑتا ہے۔
جیل میں رہنا کوئی بہت بری بات ہے کیا؟ جیلر اور جیل کا عملہ بھی تو جیل کی چہار دیواری میں رہتا ہے۔
لیکن ان میں اور ہم ایک بہت بڑا فرق ہے وہ اپنی مرضی سے رہتے ہیں ہم ان کی مرضی سے رہتے ہیں
ہاں سو تو ہے لیکن پھر بھی دونوں رہتے تو ساتھ ہی ہیں مرضی ورضی کیا ہوتی ہے؟
کیوں نہیں ہوتی وہ اپنی مرضی سے چھوڑ کر جا بھی سکتے ہیں ہم نہیں جا سکتے۔
یہ تم نے صحیح کہا لیکن دوست جا تا کون ہے؟ سبھی جیلر ریٹائر ہوتے ہیں جب تک حکومت دھکے دے کر نہیں نکالتی کوئی نہیں جاتا، بلکہ ہر ایک چاہتا ہے کہ بڑی سے بڑی جیل میں اس کا تبادلہ ہو اور ملازمت میں زیادہ سے زیادہ ترقی ملے۔
غضنفر کو مزید تعجب ہوا۔ جو پابند ہے وہ جلد از جلد نکل جانا چاہتا ہے اور جو آزاد ہے وہ زیادہ سے زیادہ لگا رہنا چاہتا ہے یہ کیسی دنیا ہے جیل دنیا؟
زور آور بولا یار غضنفر تم سوچتے بہت ہو، جیسی جیل کی دنیا ہے ویسی ہی ہے دنیا کی جیل! کیا تم نے جیل کی دیوار پر لکھا وہ شعر نہیں پڑھا
کون سا شعر؟ غضنفر نے سوال کیا
زور آور بولا وہی ؎
فقط احساس آزادی سے آزادی عبارت ہے
وہی دیوار گھر کی ہے وہی دیوار زنداں کی
دونوں دوستوں کی بات چیت چل رہی تھی کہ سپاہی نے آ کر اطلاع دی غضنفر تمہارے گھر والے ملنے آئے ہیں۔ غضنفر ملاقات کے کمرے میں دوڑا ہوا آیا۔ اس روز رضیہ کھانا لے کر آئی تھی۔ شوخ چنچل رضیہ سنجیدگی کا پہاڑ بنی ہوئی تھی۔
غضنفر نے پوچھا رضیہ یہ تجھے کیا ہو گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ تم جیل میں قید ہو اور میں تم سے ملنے کے لئے آیا ہوں؟
رضیہ نے جواب دیا بھا ئی بات تو ایک ہی ہے تم جیل میں ہو یا ہم جیل میں ہوں، مجھے تو لگتا ہے ہم سب جیل میں ہیں۔
کیوں تمہیں کیا پریشانی ہے؟
ہمیں بہت پریشانی ہے، سارا گاؤں تمہاری تعریف کرتا ہے تم نے گاؤں والوں کو ہلاکو کے مظالم سے نجات دلا دی، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری وجہ سے تمہیں سزا ہو گئی یہی احساس جرم میری پریشانی ہے۔
غضنفر ہنسا اور بولا اری بے وقوف میری سزا کی بالواسطہ وجہ وہ مکا ہے جو میں نے اسے مارا اور بلا واسطہ وجہ ہلاکو کی وہ حرکت ہے جس کے باعث اسے گھونسا کھانا پڑا۔ اس میں تم کہاں سے آئیں تم تو نہ مکا مارنے والی ہو اور نہ کھانے والی؟
نہیں بھائی لیکن دوپٹہ تو میرا تھا!
تو کیا دوپٹہ اوڑھنا جرم ہے؟ در اصل ہماری عادت اپنے آپ کو کوسنے کی بن گئی ہے جرم دوپٹہ اوڑھنا نہیں چھیننا ہے، جس نے دوپٹہ چھینا اس کو اپنے کئے کی سزا ملی۔
بھائی وہ تو ٹھیک ہے لیکن کل سے تمہارا مقدمہ شروع ہونے والا ہے مجھے ہلاکو کی نہیں تمہاری سزا کی فکر ہے۔
میری سزا ۰۰۰۰۰ابھی تو تم کہہ رہی تھی کہ سارا گاؤں میری تعریف کر رہا ہے۔
وہ تو ہے لیکن مقدمہ کا فیصلہ گاؤں والے نہیں، جج صاحب کریں گے۔
تو کیا جج صاحب ہمارے گاؤں والے نہیں ہیں؟ اور پھر کیا وہ گاؤں والوں سے حقیقت حال نہیں معلوم کریں گے؟
جی ہاں۔ گاؤں والوں سے وہ ضرور پوچھیں گے اس کے بغیر فیصلہ نہیں کر سکتے لیکن ان کا سوال یہ نہیں ہو گا کہ گاؤں والے تم سے خوش ہیں یا ناراض ہیں؟ تم نے اچھا کام کیا یا برا کام کیا؟ اور کیا تو کیوں کیا؟
یہ کیوں نہیں پوچھیں گے؟
اس لئے کہ قضیہ کا فیصلہ کرنا ان کا فرض منصبی ہے۔ اس کام کے لئے تو انہیں جج کی کرسی پر فائز کیا گیا ہے اگر یہ سب وہ دوسروں سے پوچھنے لگیں تو ان کی ضرورت ہی کیا ہے؟
ہاں یہ بھی صحیح ہے تو پھر وہ کیا پوچھیں گے؟
رضیہ سوچنے لگی اسے ایک کے بعد ایک کئی فلمی مقدمے یاد آ گئے۔ اس نے کہا وہ پوچھیں گے کہ لوگوں نے کیا دیکھا؟ تم نے مکا مارا یا نہیں مارا۔ اس سوال کے جواب میں گاؤں والے کہیں گے تم نے مارا، بدمعاش مرگیا اور پھر اس کے بعد فیصلہ ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر رضیہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
غضنفر نے سمجھایا اری رضیہ تجھ کو تو فیصلے کا ایسا یقین ہے کہ جج صاحب کو بھی نہ ہو گا،
یہ تمہیں کیسے پتہ؟
سیدھی بات اگر انہیں یقین ہوتا تو براہِ راست فیصلہ سنا دیتے مقدمہ کیوں چلاتے۔ یہ مقدمہ ہے اور اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک کھیل ہے۔ فتح و شکست کا کھیل ہے، جس میں جیت بھی ہو سکتی ہے اور ہار بھی، اسی لئے تم نے سنا ہو گا کہ فلاں آدمی مقدمہ جیت گیا اور فلاں ہار گیا۔ تم نے تو بازی کے شروع ہونے سے قبل ہی ہار مان لی ہے۔
رضیہ کچھ نہ بولی حوالدار نے کہا ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔ رضیہ نے اپنے ایک شانے پر احساسِ جرم کو رکھا اور دوسرے پر شکست کے احساس کو، بھائی سے اجازت لی اور گھر کی جانب چل پڑی۔
غضنفر واپس آیا تو زور آور کو اپنے انتظار میں پایا۔ زور آور نے پوچھا کون تھا؟
میری بہن رضیہ۔
وہی رضیہ؟
ہاں، وہی رضیہ۔
یار غضنفر اس درمیان میں تمہارے بارے میں سوچ رہا تھا۔
اچھا تو کیا سوچا تم نے؟
یہی کہ ایک اچھا وکیل تمہیں رہا کروا سکتا ہے،
جی ہاں لیکن وہ اچھا وکیل آئے گا کہاں سے؟
اس بارے میں بھی میں نے سوچا ہے۔ جو وکیل دلاور کا مقدمہ لڑ رہ ہے مظفر فیصل اگر وہ تمہارا مقدمہ لڑے تو تمہیں آسانی سے بری کروا سکتا ہے۔
چھوڑو یار جو وکیل دلاور کو نہیں چھڑا سکتا وہ مجھے کیا چھڑائے گا؟
نہیں غضنفر ایسی بات نہیں، دلاور کا تنازعہ شہر کے ایک بارسوخ سیاستداں سے ہے جس کے پاس مظفر سے زیادہ تگڑا وکیل ہے لیکن تمہارے خلاف ہلاکو کے ورثا ء کہاں سے کوئی وکیل لائیں گے۔ اس مقدمہ میں مظفر کے سامنے سرکاری وکیل ہو گا جسے وہ بہ آسانی پچھاڑ دے گا؟
کیا مطلب! سرکاری وکیل کیا وکیل نہیں ہوتے؟
یہ کس نے کہا، وہ وکیل ضرور ہوتے ہیں لیکن سرکاری میرا مطلب سرکار کی طرح تھکے ماندے اور بدعنوان۔
کیا مطلب؟
میرا مطلب ہے نا اہل اور شکست خوردہ لوگ سرکاری وکیل بن جاتے ہیں تیز طرار آدمی خود کفیل ہوتا ہے، جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرتا ہے اور خوب روپئے کماتا ہے، سرکاری وکیل تو بس رسم کی ادائیگی کے لئے ہوتے ہیں۔
غضنفر کی سمجھ میں بات آ گئی اس نے پوچھا لیکن میں مظفر کی فیس کہاں سے ادا کروں گا اور بغیر فیس کے وہ میرا مقدمہ کیوں لڑے گا؟
اس بارے میں بھی میں نے غور کیا ہے۔
وہ کیا؟
یہ کہ اگر تم چاہو تو تمہاری ملاقات دلاور سے کرا دی جائے اگر وہ فیس ادا کرنے پر راضی ہو جائے تو مسئلہ حل۔
بات معقول ہے لیکن وہ کیوں راضی ہو گا؟
میرا خیال ہے زور آور بولا اس بارے میں دلاور سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر وہ تیار نہ بھی ہوا تو کوئی نقصان نہیں ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ تمہاری فیس ادا کرنے پر راضی ہو جائے۔
پھر یہ سوال کہ آخر وہ کیوں مجھ پر اپنے پیسے ضائع کرے؟
چھوڑو کیوں کا چکر اگر تم کہو تو میں اس سے بات کروں؟
ہاں ہاں ضرور بات کرواس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔
ٹھیک ہے میں دلاور سے تمہارے بارے میں بات کروں گا۔
ٹھیک ہے دونوں دوست اپنے اپنے بیرک کی جانب چل پڑے۔ زور آور نے غضنفر کے دل میں امید کی ایک مدھم سی شمع روشن کر دی تھی۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
زور آور نے غضنفر کو بتلایا کہ کل شام دلاور بذات خود تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔
لیکن مقدمہ تو آج ہے؟
آج ہے نہیں آج سے شروع ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو آج ہی فیصلہ ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہونے لگے تو وکیل حضرات بھوکے مر جائیں اور عدالتوں میں لاکھوں مقدمے فیصلے کے انتظار میں معلق نہ رہیں۔
ٹھیک ہے تو پھر آج کیا ہو گا؟
آج مظفر وکالت کے کاغذات داخل کر کے گا نئی تاریخ کی درخواستد ے گا۔
کیا مجھے عدالت میں نہیں لے جایا جائے گا؟
یقیناً لے جایا جائے گا اور یہ سب تمہارے سامنے ہو گا۔
کچھ دیر بعد حوالدار نے غضنفر سے آ کر کہا آدھے گھنٹے بعد وہ صدر دروازے کے قریب عدالت جانے والوں کی قطار میں آ کر کھڑا ہو جائے۔ غضنفر نے سر ہلا دیا۔
یہ پہلا موقع تھا جب غضنفر نے عدالت دیکھی تھی جیل اور پولیس تھانہ کا بھی اس کو کوئی تجربہ نہ تھا۔ در اصل اس نے اپنی زندگی میں دیکھا ہی کیا تھا مدرسہ گھر اور چوپال۔ اس کے علاوہ سب کچھ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ عدالت میں اس کے دوست و احباب اور اہل خانہ سب کے سب مایوس کھڑے تھے لیکن اچانک وہ سب خوشی سے اچھل پڑے جب مظفر فیصل نے اس کے کاغذاتِ وکالت داخل کئے۔ یہ خوشگوار جھٹکا تھا، زندگی کی طرح کھٹا میٹھا جس میں ایک طرف ملزم کے کٹہرے میں غضنفر کے موجود ہونے کا غم اور دوسری جانب اس کے دفاع میں مظفر کے کھڑے ہونے کی خوشی شامل تھی چونکہ یہ سب بالکل غیر متوقع طور پر ہوا تھا اس لئے امید نے اندیشہ پر فتح حاصل کر لی تھی۔
غضنفر کے والد کو یقین ہو گیا کہ وہ رہا ہو جائے گا اگر ایسا نہ ہونا ہوتا تو مظفر فیصل کیوں اس کی وکالت کرتا؟ اس احساس کی کوئی توجیہ نہیں تھی، یہ در اصل وہ تنکا تھا جس کے سہارے وہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں اس وقت تک تیرنا چاہتے تھے جب تک کہ غضنفر بھنور میں غرقاب نہ ہو جائے۔ مظفر نے اپنے موکل سے تنہائی میں بات کرنے کی اجازت طلب کی اور اس سے صرف یہ کہا کہ وہ گناہ قبول کرنے سے انکار کر دے؟
غضنفر نے پوچھا یہ کیسے ممکن ہے اگر جج صاحب ناراض ہو جائیں تو؟
ارے بے وقوف تو لوگوں کی رضا مندی یا ناراضگی کا بکھیڑا کیوں کھول کر بیٹھ گیا۔ وہ جب تجھ سے پوچھیں گے گناہ قبول ہے۔ تو جواب دینا نہیں۔
غضنفر نے کہا ٹھیک ہے۔
ایسا ہی ہوا اس نے دل کڑا کر کے کہا جی نہیں اسے امید تھی کہ جج صاحب مدرسہ کے استاذ کی طرح اس پر برس پڑیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا انہوں نے نہایت متانت کے ساتھ ایک تاریخ لکھوا دی اورسماعت برخواست ہو گئی۔ پولیس اسے پکڑ کر اپنی گاڑی میں لے گئی۔ اس کے گھر والوں نے مظفر فیصل کا بہت شکریہ ادا کیا۔ ڈھیر ساری دعائیں دیں اور زندگی کی اک ننھی سی کرن کو سینے میں بسائے گھر لوٹ گئے۔ منظر بدل چکا تھا یاس کے بادل چھٹنے لگے تھے اور امید کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔
زورآور جب غضنفر کو لے کر دلاور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کی مالش چل رہی تھی وہ زمین پر چت لیٹا ہوا تھا اور دو آدمی اس کے بدن کو مسل رہے تھے۔ دونوں نے سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئے کچھ دیر بعد جب مالش ختم ہوئی تو وہ بھینسے کی طرح کھڑا ہو گیا اور حمام کی جانب چل پڑا۔ حمام میں اس کے دھلے ہوئے کپڑے۔ تولیہ، صابن، شیمپو سب کچھ تیار تھا۔ غسل کر کے اس نے تازہ کپڑے پہنے اور بال سنوارتا ہوا واپس آ کر بیٹھ گیا۔ جیل کا یہ شاندار کمرہ دلاور کے لئے مختص تھا۔ اس کے بیٹھتے ہی چائے کے تین پیالے حاضر کر دیئے گئے۔ پھر اس نے دیگر لوگوں کو جانے کا حکم دیا اور تخلیہ ہو گیا۔
دلاور نے پوچھا تم عدالت گئے تھے؟
جی ہاں۔
کیسا رہا؟
اچھا رہا۔ آپ کے احسانات سے سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔
ابھی ہوا ہی کیا ہے؟ بس ابتدا ہے آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں تمہیں اس مقدمہ سے چھڑوا سکتا ہوں بشرط یہ کہ؟! ! دلاور رک گیا
غضنفر نے پوچھا کیا شرط ہے سردار؟
شرط یہ ہے کہ رہا ہونے کے بعد تم اپنی بہن رضیہ کی شادی مجھ سے کر دو گے
اس سوال پر غضنفر چکرا گیا۔ سردار بات یہ ہے۔
دلاور نے ٹوکا دیکھو ایسی کوئی جلدی نہیں ہے اگلی تاریخ دو ہفتہ بعد ہے میری جانب سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے تم اپنا فیصلہ اگلی سماعت سے پہلے مجھے بتلا دینا۔ میں ظفر فیصل کو بتلا دوں گا۔
دلاور کی تجویز سے غضنفر کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا یہ کیا مصیبت ہے آسمان سے گرا تو کھجور میں اٹکا۔ اب وہ کیا کرے ایک بار تو اس کا جی چاہا کہہ دے کہ نہیں میں ایسا خود غرض نہیں ہوں کہ اپنی رہائی کے لئے اپنی بہن کو سولی چڑھا دوں۔ میں رضیہ کو عمر قید کی سزا نہیں دے سکتا مجھے یہ تجویز منظور نہیں ہے۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا زورآور بولا دیکھو اپنے والد صاحب سے بات کر لو وہ بہتر راہ سجھائیں گے۔
غضنفر نے حامی بھری اور اجازت طلب کی۔ شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن نہیں کر سکا۔ اس تجویز نے دلاور کے احسانات پر خود غرضی کی دبیز چادر ڈال دی تھی مگر پھر بھی حرص وہوس کے کالے ناگ صاف دکھائی دیتے تھے۔
غضنفر کی غیرت گوارہ نہیں کر رہی تھی کہ یہ بات کرنے کے لئے والد صاحب کو خاص طور پر بلوائے زورآور کا اصرار بڑھتا جاتا تھا ا سی ادھیڑ بن میں تین دن گذر گئے۔ چوتھے روز از خود اس کے والد اس سے ملنے آئے تولد کڑا کر کے اس نے ان کے سامنے دلاور کی تجویز بیان کر دی وہ اس بات کی لئے تیار تھا کہ والد اس پر برس پڑیں لیکن اس کی توقعات کے برعکس وا لدنے کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس نامعقول تجویز پر فوراً راضی ہو گئے۔ انہوں نے کہا بیٹے فی الحال ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ تمہیں موت کے چنگل سے چھڑانا ہے اور ویسے بھی رضیہ کی عمر کافی ہو گئی ہے۔ ایسے میں کسی مناسب رشتہ کی امید کم ہے۔ دلاور کا پس منظر تھوڑا سا مجرمانہ ضرور ہے لیکن اپنے علاقہ میں اس کا کافی دبدبہ ہے اس کے گھر میں ہماری بیٹی نہ صرف خوشحال بلکہ محفوظ و مامون بھی رہے گی۔ کسی کی مجال نہ ہو گی کہ اس کی جانب نظر اٹھا کر دیکھے۔
یہ دلائل غضنفر کی عقل سے بالا تر تھے۔ اس نے والد صاحب سے کہا شاید آپ جلد بازی میں یہ فیصلہ کر رہے ہیں، میرے موت کے خوف نے آپ کے اعصاب کو شل کر دیا ہے۔ آپ ٹھنڈے دل سے غور کریں اور مناسب ہو تو امی اور رضیہ سے بھی مشورہ کر لیں۔
بیٹے تمہارا خیال غلط ہے ہمارے یہاں اس طرح کے فیصلے خواتین کے مشورے سے نہیں ہوتے بلکہ یہ مردوں کے کرنے کا کام ہے۔ اگر تمہیں دلاور سے بات کرنے میں تکلف ہو تو میں بات کروں۔
غضنفر زچ ہو گیا اس نے کہا آپ زحمت نہ کریں میں زورآور کے توسط سے ہماری رضامندی اس تک پہنچا دوں گا۔
دلاور اس پیغام کو سن کر باغ باغ ہو گیا۔ اس نے مظفر فیصل کو خبر بھجوا دی کہ ہر قیمت پر غضنفر چھڑا لیا جائے۔ اس معاملے میں اخراجات کی چنداں فکر نہ کی جائے۔
غضنفر کا مقدمہ مختلف مراحل سے گذرتا ہو بالآخر فیصلہ کن مرحلہ میں پہنچا اور گواہوں کی پیشی کا وقت آ گیا اس بیچ مظفر نے خوب جم کر تیاری کر لی تھی اس نے نہ صرف ہلاکو خان کا کچا چٹھا جمع کر لیا تھا بلکہ ایک ایک گواہ کے متعلق ساری معلومات اس کے پاس تھی نیز اپنے دلائل کو خوب اچھی طرح سے منظم کر چکا تھا۔
پہلا گواہ جب کٹہرے میں کھڑا ہوا تو کافی گھبرا یا ہوا تھا وہ اپنے گاؤں سے باہر پہلی بار نکلا تھا۔ ایسی بھیڑ بھاڑ اور چہل پہل اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ مظفر نے اس سے بڑے رعب دار انداز میں پوچھا اس روز موقع واردات پر تم موجود تھے؟
اس نے لجاجت سے کہا جی ہاں سرکار۔
دیکھو سوچ لو؟
وہ گھبرا گیا اسے لگا کہیں عدالت اسی کو سزا نہ دے دے اس نے کہا جی ہاں سرکار میں وہاں تھا۔
اچھا تو تم نے کیا دیکھا؟ غضنفر نے دھکا دیا یاگھونسہ مارا۔ بولو بولو جلدی بولو تم نے کیا دیکھا۔
سرکار مجھے یاد نہیں در اصل میں نے ٹھیک سے نہیں دیکھا
اچھا تو پھر یہاں گواہی دینے کیوں چلے آئے؟
سرکار پولیس لے کر آئی ہے اس لئے ہم آ گئے۔
مظفر نے جج صاحب کو مخاطب کر کے کہا دیکھا آپ نے پولیس ایسے لوگوں کو پکڑ کر لے آئی ہے جنہوں نے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ اس لئے میں عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کی گواہی کو رد کر دیا جائے۔
جج صاحب نے دوسرے گواہ کو بلانے کا حکم دیا دوسرا ذرا سنبھل کر آیا مظفر نے اس کے سامنے بھی وہی سوال دوہرایا
گواہ بولا صاحب غضنفر نے دھکا بھی دیا اور مکا ّبھی مارا۔
اچھا بہت خوب تو اس نے پہلے دھکا دیا یا پہلے گھونسا مارا؟
وہ ایک لمحہ کی لئے رکا اور پھر کہا صاحب پہلے مکا مارا اور پھر دھکا دیا
بہت خوب پولیس کی رپورٹ کے مطابق مکا مارنے سے اس کی موت واقع ہوئی ہے اگر ایسا ہے تو جو مکا کھا کر مر جائے وہ اپنے آپ گر جائے گا اسے دھکا دینے کی کیا ضرورت؟ یہ گواہ یا تو جانتا نہیں ہے یا جھوٹ بول رہا ہے، اس لئے اس کی گواہی کو بھی قبول نہ کیا جائے۔
جج صاحب نے تیسرے گواہ کو بلانے کا حکم دے دیا یہ تیسرا آدمی ہلاکو کا خاص بندہ تھا وہ بڑے رعب کے ساتھ آیا اس لئے کہ پہلے دو کا انجام دیکھ چکا تھا۔ مظفر نے وہی سوال کئے اس نے جواب دیا صاحب غضنفر نے پہلے دھکا مارا اور پھر اوپر سے مکا بھی مارا۔
بہت خوب مظفر بولا پولس کی رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ ہلاکو گرتے ہی مر گیا۔ اگر یہ رپورٹ صحیح ہے تو کسی مرے ہوئے آدمی کوگھونسامارنا چہ معنی دارد۔ اب یا تو پولس کی رپورٹ صحیح ہے یا اس گواہ کا بیان یہ دونوں متضاد ہونے کے باعث صحیح نہیں ہو سکتے ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں غلط ہوں اس لئے کہ دو غلط چیزیں متضاد بھی ہو سکتی ہیں۔
دلیل بجا تھی پولس کے پاس چوتھا گواہ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے اس کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی تھی۔
سرکاری وکیل نے سوال کیا۔ معزز جج صاحب یہ عجیب معمہ ہے فاضل وکیل کے مطابق ہلا کو نہ تو غضنفر کے دھکے سے مرا اور نہ مکے سے تو آخر مرا کیسے؟
مظفر نے فوراً اس سوال کو لپک لیا اور بولا محترم وکیل صاحب نے صحیح سوال اٹھا یا ہے کہ آخر ہلاکو کی موت کیسے واقع ہوئی؟ ان کے مطابق دنیا کا ہر شخص مرنے کیلئے دھکے یا مکے کا محتاج ہے اور اگر ایسا ہے تو میں عدالت کے توسط سے جاننا چاہتا ہوں کہ وہ خود ان میں سے کس کو اپنے لئے پسند کریں گے؟
ظفر کے اس سوال سے ساری عدالت شگوفہ زار ہو گئی۔ سرکاری وکیل نے اعتراض کیا اور کہا وکیل استغاثہ ایک سیدھے صاف قتل کے مقدمے کو بلا وجہ الجھا رہا ہے۔
ظفر نے سرکاری وکیل سے معذرت طلب کی عدالت سے ہلاکو کی وہ طبی رپورٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی اجازت چاہی، جس کے مطابق ٹی بی کے مرض نے ہلا کو کو بالکل کھوکھلا کر دیا تھا اور سرکاری معالج کو پیش کر دیا جس کے مطابق وہ محض چند دنوں کا مہمان تھا۔
سرکاری طبیب نے تصدیق کر دی کہ ہلاکو لمبے عرصہ سے زیر علاج تھا اورسگریٹ نوشی نیز دیگر منشیات کے معاملہ میں احتیاط نہ کرنے کے باعث اس کی بیماری خطرناک مرحلہ میں داخل ہو چکی تھی اور موت سے ایک ہفتہ قبل ہسپتال کے کئی ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ وہ زیادہ دن جی نہ سکے گا۔
مظفر نے کہا سنا آپ نے در اصل اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے آخری وقت میں غضنفر کی بہن رضیہ کا دوپٹہ چھینا اگر غضنفر کو پتہ ہوتا کہ وہ چند لمحوں میں مرنے والا ہے تو وہ اپنے آپ کو روک لیتا اور اس کی لاش کے ہاتھ کے سے اپنی بہن کا آنچل لے کر اسے اوڑھا دیتا لیکن صاحب موت کا وقت کوئی اور تو کیا انسان خود بھی نہیں جانتا اگر ہلاکو کو یہ پتہ ہوتا تو شاید وہ بھی اس مذ موم حرکت سے اپنے آپ کو باز رکھتا۔ خیر جو ہوا سو ہوا میرے مؤکل نے اس سے اپنی بہن کی اوڑھنی چھینی اور اسی دوران یہ حادثہ ہو گیا۔
سرکاری وکیل نے کہا لیکن غضنفر کو قانون ہاتھ میں لینے کی کیا ضرورت تھی اسے چاہئے تھا کہ اس کام کے لئے وہ پولس کی مدد لیتا۔
جی ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ ہلاکو کو اپنے کئے کی سزا دلانے کے لئے میرا مؤکل اپنی بہن کے ساتھ پولس تھانے جانا چاہتا تھا لیکن وہ بغیر دوپٹہ کے اپنی بہن کو بے پردہ پولس تھانے نہیں لے جا سکتا تھا اس لئے اس نے دوپٹہ چھینا اور چھینا جھپٹی کے دوران ہلاکو کی موت کا وقت آ گیا۔ میں عدالت سے سوال کرتا ہوں کہ کیا اپنی بہن کی عزت و عفت کی خاطر اس کا چھینا ہوا دوپٹہ واپس لینے کی کوشش کرنا قانون کو ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے؟
جج صاحب بولے آپ اپنی جرح جاری رکھیں۔
مظفر نے بات آگے بڑھائی میں سمجھتا ہوں دوپٹہ واپس لینا قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں ہے۔ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس طرح کا پلٹا کھائیں گے اسی لئے پولس کا محکمہ بھی دھوکہ کھا گیا اور میرے مؤکل پر قتل کا الزام لگا دیا لیکن اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر کوئی ٹھوس ثبوت نہ فراہم کر سکا۔ جبکہ اس الزام کے خلاف عدالت میں ثبوت پیش کر دیا گیا ہے اس لئے میں عدالت سے گذارش کرتا ہوں کہ غضنفر کو با عزت بری کر دیا جائے۔
مقدمہ کچھ اس انداز میں لڑا گیا کہ جج صاحب کے لئے کوئی چارۂ کار نہیں تھا، غضنفر کو لگا کہ اس کی رہائی کا وقت آ گیا اس نے دیکھا جج صاحب کے ہونٹوں میں جنبش ہوا چاہتی ہے۔ وہ اپنی رہائی کا تازیانہ سننے کی خاطر ہمہ تن گوش ہو گیا، لیکن جج صاحب نے صرف یہ کہا ’’ہم اپنا فیصلہ محفوظ رکھتے ہیں اگلے دن انشاء اللہ یہ فیصلہ سنا دیا جائے گا‘‘۔
اسی کے ساتھ عدالت برخواست ہو گئی۔ چاروں طرف سناٹا چھا گیا لیکن امید کی شعاعیں عدالت کو منور کر رہی تھیں، سارے لوگوں کو یقین ہو چکا تھا کہ قید و بند کی یہ آخری رات ہے کل کا سورج رہائی کا پیغام لائے گا۔
غضنفر جیل کے ساتھیوں سے اس طرح مل رہا تھا جیسے وداع ہو رہا ہو، ہر کوئی اسے حسرت بھری مبارکباد دے رہا تھا اس بیچ زور آور آ پہنچا اور بولا دلاور اس سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ غضنفر سیدھے دلاور کے حکم کی بجا آوری میں پہنچ گیا جو اس کا انتظار کر رہا تھا۔ خیریت و عافیت کے بعد دلاور بولا دیکھو غضنفر ممکن ہے کل تم رہا ہو جاؤ۔
غضنفر کو امکانی جملہ پسند نہیں آیا وہ تو اب یقین کی منزل میں داخل ہو چکا تھا، خیر دلاور نے بات آگے بڑھا ئی اس نے کہا عدالت کا فیصلہ جب تک ہمارے حق میں نہ ہو جائے تب تک امکانی ہی ہوتا ہے۔ اور ہمارے ساتھ تو یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم لوگ کبھی کبھار ایک مقدمے سے رہا ہوتے ہیں اور دوسرے میں گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔ عدالت سے گھر تک جانا نصیب نہیں ہوتا۔
یہ سن کر غضنفر کو بے ساختہ اپنی بہن رضیہ کا خیال آیا اس بیچاری قسمت کی ماری کو کیسے شخص سے بیاہا جانا تھاجس کی زندگی حوالات کے ارد گرد محو گردش رہتی تھی۔ دلاور بول رہا تھا لیکن تمہارے ساتھ شاید ایسا نہ ہو ہمارے تو کئی معاملات ہوتے ہیں تم تو بس ایک معاملے میں پھنس گئے تھے۔ وہ ختم تو سب ختم۔
جی ہاں زور آور بولا۔
لیکن غضنفر یہاں سے نکل جانے کے بعد تم اپنا وعدہ بھول تو نہیں جاؤ گے۔
کیا مطلب؟
کہیں تم رضیہ کے بیاہ کی بات ابھی سے تو نہیں بھول گئے؟ دلاور بولا۔
نہیں۔ جی نہیں۔ غضنفر نے جواب دیا۔
بہت خوب دیکھو اگر تم بھول بھی گئے تو ہم نہیں بھو لتے۔ ہماری دنیا میں گو کہ عدالت نہیں ہوتی آنکھوں کا اندھا قاضی شہر نہیں ہوتا، کالے کوٹ والے وکیل نہیں ہوتے جو ہر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ میں بدل دیتے ہیں، مگر انصاف ضرور ہوتا ہے۔ وہاں براہ راست فیصلہ اور اس پر عمل درآمد کرنے والے جلاد ہوتے ہیں۔ اس لئے ہوشیار رہنا ہماری زیر زمیں دنیا اس باہر کی دنیا سے یکسر مختلف ہے جو زمین کے اوپر رینگتی پھرتی ہے۔ بس یہی بتانے کے لئے میں نے تمہیں بلایا تھا اب تم جا سکتے ہو۔
غضنفر اپنی جگہ سے اٹھا اور سر ہلاتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا اس پوری گفتگو کے دوران اس کے کان لفظ مبارکباد کو تر ستے رہے۔ شاید زیر زمیں دنیا میں اس طرح کے الفاظ کا استعمال متروک ہو یا اس جیسے کمینے انسان کے لئے جس نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنی بہن کی زندگی کا سودا کر دیا تھا۔ اس طرح کے الفاظ زیب نہ دیتے ہوں۔
غضنفر نے سوچا وہ تو خیر سے زمین پر رہنے بسنے والے لوگ اس سودے بازی سے واقف نہیں ہیں ورنہ کوئی بھی اسے مبارکباد نہ دیتا۔ انہیں خیالات میں الجھا ہوا وہ اپنے بیرک میں آیا ا س کی خوشیاں اچانک اس سے چھن چکی تھیں۔ وہ احساس جرم کے ایک دلدل میں دھنسا جا رہا تھا۔ اس کی رہائی ایک عذاب جان بن گئی تھی۔ وہ اپنے آپ کو کوس رہا تھا کاش کہ وہ دلاور کی بات نہ مانتا۔ کاش کہ وہ سولی پر چڑھ جاتا یہ سوچتا ہوا وہ سو گیا۔
اس رات غضنفر نے ایک بھیانک خواب دیکھا وہ عجیب و غریب مناظر دیکھ رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اندھیری رات کا آخری پہر ہے، وہ سفید لباس میں ملبوس ہے۔ لباس بھی ایسا کہ جسے سلا نہ گیا تھا گویا وہ اس میں لپٹا ہوا ہے۔ اس کے دونوں کاندھوں کو دو لوگوں نے پکڑ رکھا ہے جو کالا لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ سیاہ رات کے یہ کالے ہم سفر اسے اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں اور وہ با دلِ ناخواستہ ان کے ہمراہ گھسٹ رہا ہے۔
راستہ اور رات دونوں طویل ہوتے جا رہے ہیں، نہ صبح نمودار ہوتی ہے اور نہ منزل سامنے آتی ہے لیکن اس کا حال یہ ہے کہ وہ خود بھی نہیں چاہتا کہ راستہ ختم ہو اور منزل اس کے قدم چومے۔ یہ کیسا سفر ہے کہ مسافر منزل کے بجائے راستہ پر فریفتہ ہے؟ بالکل دنیا کی طرح جہاں انسان زندگی بھر تاریک گلیوں میں اپنا سفر سیاہ رات کے باوجود جاری رکھتا ہے مگر پھر بھی صبح کے نور سے آنکھیں چراتا رہتا ہے۔
جب افق کا اندھیرا سرخی میں بدلنے لگا تواسے محسوس ہوا گویا کسی نے اس کا خون نچوڑ کر آسمان پر اچھال دیا ہے۔ آسمان پر لہو کی سرخی ہے اور زمین پر لکڑی کا تخت درمیان میں وہ کھڑا ہے۔ اس کے قدم زمین پر ہیں اور اس کے آگے آسمان سے ایک رسی لٹکی ہوئی ہے۔ اس کے اور رسی کے درمیان فاصلہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے جیسے جیسے آسمان کی سرخی بڑھتی جاتی ہے پھندے اور اس کے درمیان کی دوریاں سمٹتی جاتی ہیں اور جب یہ فاصلہ ختم ہو جاتا ہے تو اس کے ہم سفر ایک سیاہ ٹوپی اس کے چہرے پر ڈال دیتے ہیں یہ کس قدر خوفناک منظر ہے جس میں شاہد و مشہود دونوں ایک ہیں دیکھنے اور دیکھے جانے والے کا فرق مٹ چکا ہے لیکن اب شاہد کی نظروں سے مشہود کا چہرہ اوجھل ہو گیا ہے۔
در اصل اس لباس میں چہرہ ہی تو اس کی شناخت تھا۔ اس کے بغیر تو وہ صرف سفید کپڑوں میں لپٹا جسد خاکی تھا اگر چہرہ نہ ہوتا تو اسے احساس ہی نہ ہوتا کہ وہ خود اپنے آپ کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن اب وہ جانا پہچانا چہرہ چھپ چکا تھا۔ صبح کی پہلی کرن نمودار ہوئی کھٹ کی آواز کے سا تھ زمین کھسک گئی۔ اس کے اور زمین کے درمیان خلاء پیدا ہو گیا۔ اس وقت تک آسمان سے لٹکی ہوئی رسی کا پھندا اس کی گردن سے لپٹ چکا تھا وہ زمین میں دھنسنے کے بجائے آسمان سے لٹک گیا تھا اس طرح نہ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں۔
چند لمحوں کیلئے سورج ٹھہر گیا تھا لیکن زیادہ دیرسورج اپنے آپ کو نہ روک سکا۔ اس میں دوبارہ جنبش ہوئی اس کے ساتھی چہرے کی ٹوپی ہٹا رہے تھے اور اس نے دیکھا کہ رضیہ کی لاش پھانسی پر لٹک رہی ہے۔ یہ لاش نہ جانے کب تک یونہی جھولتی رہی یہاں تک کہ وہ جیل سے رہا ہو کر گھر پہنچ گیا۔
غضنفر کے گھر میں تو کیاسارے گاؤں میں عید کا سماں تھا۔ لوگوں کے لئے دو خوشیاں تھیں۔ ہلاکو سے نجات کی مسرت اور اس سے بڑھ کر غضنفر کے رہا ہونے کی خوشی لیکن غضنفر کی آنکھوں میں وہ خواب منڈلا رہا تھا جو گزشتہ رات اس نے دیکھا تھا۔ وہ بار بار چاہتا تھا کہ اسے اپنے پلکوں سے جھٹک دے لیکن وہ تو کانٹے کی مانند اس کی آنکھوں میں پیوست تھا۔
غضنفر کو محسوس ہوا کہ اگر وہ زیادہ کوشش کرے گا تو اپنی بینائی گنوا دے گا۔ بلکہ اگر اس کے دیدے نکال پھینک دئیے جائیں تب بھی وہ کانٹا اس میں چبھا رہے گا۔ اس دائمی کرب سے اب شاید کسی صورت نجات نہیں ملے گی۔ یہ ایک عجیب و غریب ماحول تھا کہ جس کے باعث سارے لوگ خوشی وانبساط سے سر شار تھے وہ خود غمگین تھا۔ اس لئے کہ دوسرے ان پوشیدہ اسرارسے ناواقف تھے جن کو وہ جانتا تھا۔ ایک کرب آگہی نے غضنفر کو رنجیدہ کر رکھا تھا دیگر لوگ چونکہ اس سے نا آشنا تھے اسلئے خوش و خرم تھے۔
رہائی سے قبل غضنفر اور اس کے خاندان کے سامنے قید و بند کی مصیبت ہمالیہ پربت کی طرح تھی لیکن جیسے جیسے دن گذرتے گئے برف پگھلتی گئی اور جب وہ پہاڑ چٹیل میدان بن گیا تو کے آس پاس پائے جانے والے ننھے منے ٹیلے اور پہاڑ جو ہمالیہ کی اونچائی میں چھپ گئے تھے اپنا سر ابھارنے لگے۔ انسانی مصائب بھی ایک دوسرے کی مناسبت سے ناپے جاتے ہیں۔ جب بڑی مشکل غائب ہو جاتی ہے تو چھوٹی مشکلات بڑی لگنے لگتی ہیں۔ ابن آدم کی زنبیل کبھی بھی چھوٹی بڑی مشکلات سے خالی نہیں ہوتی۔
رضیہ کا نکاح خاندان کے اندرونی حلقہ میں ماں باپ اور بیٹے کے درمیان بحث کا موضوع بن گیا وہ لوگ بار بار اس مصیبت سے نجات پر گفتگو کرنے لگے آخر ایک حل نکالا گیا۔ غضنفر دلاور کی رہائی سے قبل خلیج کے کسی ملک میں ملازمت کی خاطر نکل جائے اور اس سے پہلے رضیہ کا نکاح کسی مناسب نوجوان سے کر دیا جائے۔ ان لوگوں کا قیاس تھا کہ دلاور کو جب پتہ چلے گا رضیہ کسی اور کے نکاح میں ہے تو وہ رضیہ کو بھول کر غضنفر کو تلاش کرے گا جو سات سمندر پار جا چکا ہو گا۔ اس طرح سبھی مسائل حل ہو جائیں گے۔
اس حل میں مشکل یہ تھی کہ غضنفر خلیج میں جا کر کرے گا کیا؟ اس سوال کا بھی جواب ڈھونڈ لیا گیا وہ اپنے چچا کی طرح گاڑی چلائے گا۔ اب غضنفر کے سامنے ہدف یہ تھا کہ جلد از جلد گاڑی چلانا سیکھ لے اور اپنا ہاتھ صاف کر کے نکل جائے۔
اس کے والد نے غضنفر کا ویزا حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر کو رہن رکھ کر روپئے جٹائے۔ ماں نے دور کے رشتہ میں ایک نوجوان یوسف سے رضیہ کا نکاح طے کر دیا اور سب کچھ منصوبے کے مطابق ہو گیا۔ رضیہ کی شادی ہو گئی اور غضنفر ابو ظبی پہنچ گیا۔ دلاور جب رہا ہوا تو اسے غضنفر کی دغا بازی کا علم ہوا اس نے زور آور سے کہا دیکھو غضنفر جب بھی واپس آئے گا اپنے گھر نہیں جائے گا۔ اس نامراد کو ہمارے پاس پہنچا دیا جائے گا کیا سمجھے؟
زور آور نے زبان اور سردونوں کو ہلا کر زوردار تائید کی اور دلاور کے چلے جانے کے بعد تک سر ہلاتا رہا اسے ڈر تھا کہ کہیں غضنفر کی غداری کی سزا دلاور اس کو نہ دے ڈالے۔ خیر وہ پہلی سزا سے تو بچ گیا تھا لیکن اس نئے حکم کی تعمیل میں کمی بیشی یقیناً اس کے سر کو تن سے جدا کر سکتی تھی اس لئے اس نے ایسے انتظامات کر دیئے کہ غضنفر کی آمد کی اطلاع اسے حاصل ہو جائے اور وہ اپنے آقا کے حکم کی بجا آوری کر سکے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
دن ہفتوں اور مہینے سالوں میں بدل رہے تھے وقت کے ساتھ دلاور خان کا خوف غضنفر کے گھر والوں کے دل سے محو ہو چکا تھا۔ غضنفر بھی محسوس کر رہا تھا کہ اسے ابو ظبی آئے ہوئے پانچ سال کا طویل عرصہ گذر چکا ہے۔ اس درمیان اس کا چھوٹا بھائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج جانے لگا ہے۔ منجھلی بہن کی شادی ہو چکی ہے اور سب سے چھوٹی دلشاد کی شادی تیاری کے مراحل میں داخل ہو گئی۔
ماں خود غضنفر کے ہاتھ بھی اس موقع سے پیلے کر دینا چاہتی تھی۔ اگر شادی نہ سہی تو کم از کم سگائی کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ ماں نے اپنی بہو کے طور پر شہر بانو کا انتخاب کر لیا تھا اور خاندانی روایت کے مطابق غضنفر سے پوچھے بغیرسب کچھ طے کر دیا تھا غضنفر کوتو واپس آ کر صرف رسماً حامی بھرنی تھی گھر والوں کے اصرار اور دباؤ میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔
غضنفر نے جب سے وطن و اپسی کا ارادہ کیا تھا اس کی کیفیت یکسر بدل گئی تھی وہ ساری کائنات کو اپنی مٹھی میں بند کر کے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ کسی دوکان پر تسبیح کو لٹکا ہوا دیکھتا تو اسے اپنے والد صاحب کا خیال آ جاتا۔ خواتین کے کپڑوں کی دوکان کے پاس سے گذرتا تو ماں یاد آ جاتی۔ چوڑیوں کی دوکان کے سامنے پہنچتا تو رضیہ اور زیورات کے شوروم کے پاس چھوٹی بہن دلشاد مسکراتی ہوئی دکھائی دیتی۔
عینک اور جو توں کی دوکان سے اس نے اپنے بھائی کے لئے ریبان کی دھوپ کی عینک اور’ ادی داس‘ کے جوتے خرید لئے ان اشیاء کو اس نے خود اپنے لئے کبھی نہیں خریدا تھا لیکن اس کا بھائی اسے اپنی ذات سے زیادہ عزیز تھا۔ ایک دن مہندی کی دوکان کے شیشے پر لگے ہاتھ اس نے دیکھے تو اسے لگا یہ شہر بانو کے ہاتھ ہیں وہ ہاتھ جنہیں اس نے کبھی دیکھا نہ تھا لیکن وہ ہاتھ جنہیں وہ مہندی سے سجا دیکھنا چاہتا تھا اس لئے اس کے دل میں خواہش ہوئی مہندی کی ساری دوکان خرید ڈالے لیکن پھر سوچا کہ گھر والے کیا سوچیں گے؟
بہر حال اسی طرح دیکھتے دکھاتے۔ خرید و فروخت کرتے کراتے اس کی واپسی کی تاریخ آ گئی اور دوسری مرتبہ وہ ہوائی جہاز میں سوار ہو گیا لیکن اس بار واقعی وہ ہواؤں اور فضاؤں میں تھا۔ تین گھنٹہ کا وقفہ نہ جانے کب بیت گیا اور اب وہ پاورش ہوائی اڈے سے باہر آ رہا تھا۔ اس روز ہوائی اڈے کے دروازے پر صرف ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ کسی ٹیکسی کو وہاں کھڑے رہنے کی اجازت نہیں تھی اور وہاں موجودہ ٹیکسی ڈرائیور کسی مسافر کو اپنی گاڑی میں بیٹھنے نہ دیتا تھا سب کو دور کھڑی ٹیکسیوں کی جانب اشارے سے بڑھا دیتا تھا۔
اس بیچ غضنفر ٹرالی پر سامان سے لدا پھندا نمودار ہوا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے لپک کر ٹرالی اپنے ہاتھ میں لے لی اور گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ نیز اپنے ہاتھوں سے سارا سامان گاڑی میں رکھنے لگا غضنفر آخری سامان کے رکھے جانے تک گاڑی سے باہر کھڑا رہا اور پھر عقبی نشست پر بیٹھ گیا اس لئے کہ آگے ایک اور شخص بیٹھا ہوا تھا۔ غضنفر نے سلام کیا۔
گاڑی چل پڑی تو آگے سے جواب ملا ’وعلیکم السلام‘
یہ آواز جانی پہچانی تھی وہ دماغ پر زور ڈالنے لگا اور اندرسے جواب آیا زور آور۔
اس نے حیرت سے کہا زور آور؟؟؟
پھر سے جواب ملا ہاں غضنفر تم نے صحیح پہچانا میں زور آور ہی ہوں
اوہو یہ کیا حسن اتفاق ہے یار کہ میں پانچ سال بعد لوٹ رہا ہوں اور میری سب سے پہلی ملاقات اپنے اس عظیم ترین محسن سے ہو رہی ہے جس نے میری جان بچائی تھی۔ زور آور تو نہ پوچھ کہ آج میں کتنا خوش ہوں اور تو نے اچھا کیا جو ٹیکسی کا کاروبار شروع کر دیا میرا مطلب ہے دلاور کا ساتھ چھوڑ دیا۔
زور آور نے بھرائی آواز میں کہا غضنفر میں دلاور ہی کی ٹیکسی چلاتا ہوں اور یہ دلاور کی ٹیکسی ہے۔
اچھا غضنفر کے ہوش اڑ گئے اس نے دیکھا ٹیکسی بس اڈے کے بجائے جہاں سے اسے اپنے گاؤں جانا تھا کسی اور طرف جا رہی ہے۔ اس نے کہا یار زور آور وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ ٹیکسی آخر جا کہاں رہی ہے؟ مجھے تو بس اڈے جانا ہے تا کہ وہاں سے اپنے گاؤں اپنے گھر جا سکوں۔
زور آور نے کہا تجھے کہاں جانا ہے یہ میں نہیں جانتا اور جاننا بھی نہیں چاہتا۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ مجھے تجھ کو کہاں لے جانا ہے۔
کیا مطلب؟
یہ گاڑی بس اڈے نہیں دلاور کے ڈیرے پر جائے گی تو اپنے گھر سے پہلے اس کے گھر جائے گا
اور اس کے بعد؟ غضنفر نے پوچھا
اس کے بعد کیا ہو گا میں نہیں جانتا۔ اور جاننا بھی نہیں چاہتا۔
ارے چھوڑ یار میں پانچ سال بعد آ رہا ہوں پہلے مجھے اپنے گھر جانے دے۔ اپنے اہل خانہ سے ملنے کے بعد میں وعدہ کرتا ہوں کہ کل بذات خود دلاور کے گھر حاضر ہو جاؤں گا۔
زور آور بولا ہمارے پیشہ میں اعتبار بار بار نہیں صرف ایک بار کیا جاتا ہے اور جو غداری کرے اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے لیکن تو اس معاملے میں استثنائی ہے۔ تجھے دلاور نے مارنے کے بجائے زندہ حاضر کرنے کا حکم دیا۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر تو گڑبڑ کرے گا تو وہیں ڈھیر کر دیا جائے۔
غضنفر کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اس کے سارے خواب چکنا چور ہو گئے اور پھر وہی خواب نمودار ہو گیا وہ دو سیاہ لباس میں ملبوس پہرے دارا ور سفید لباس میں لپٹا ہوا گھسٹتا ہوا جسم، وہ تختہ، وہ رسی، وہ پھندا، وہ ادلتا بدلتا چہرہ، کبھی رضیہ کبھی غضنفر ، لیکن آہستہ آہستہ چہروں کا بدلنا بند ہو گیا اب صرف ایک چہرہ تھا۔۔۔ غ۔۔۔۔ ض۔۔۔۔ ن۔۔۔ ف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ر
گاڑی رکی توسامنے دلاور خان کی کوٹھی تھی وہ بوجھل قدموں سے صدر دروازے کی جانب بڑھا سامنے صوفے پر دلاور خان براجمان تھا۔ پچھلے پانچ سالوں نے دلاور کی عمر میں پچاس سال کا اضافہ کر دیا تھا وہ نہایت ہی نحیف اور کمزور نظر آ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی غضنفر کو ہلاکو کا خیال آ گیا اس نے سوچا کیوں نہ ایک گھونسے میں اس کا بھی کام تمام کر دیا جائے لیکن اگر ایسا ہوا تو اب کی بار اس کو پھانسی کے پھندے سے کون بچائے گا؟
پانچ سالوں کی عیش کوشی نے غضنفر کو خاصہ بزدل بنا دیا تھا غضنفر کے اعصاب شل ہو رہے تھے اس نے جھک کر سلام کیا تو دلاور نے بے اعتنائی کے ساتھ جواب دیا اور اس کے بعد زور آور سے کہا جاؤ دروازے پر نظر رکھو زور آور واپس چلا گیا۔ کمرے میں صرف دو لوگ تھے۔ دلاور نے پوچھا تمہیں یاد ہے میں نے جیل کی آخری شب کو تم سے کیا کہا تھا؟
جی ہاں سردار بالکل یاد ہے
تو کیا اب تم مرنے کے لئے تیار ہو کر آئے ہو؟
جی نہیں۔
کیا؟
جی جی ہاں سردار اب آپ جو چاہیں کریں میں نے غلطی کی ہے۔ میں اپنا جرم قبول کرتا ہوں لیکن آپ سے رحم کی درخواست بھی کرتا ہوں۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں میں پہلے سے زیادہ چاہتا ہوں کہ زندہ رہوں۔
اچھا دنیا کی محبت بہت بڑھ گئی ہے ہاں؟ دلاور کا قہقہہ بلند ہوا اچھا یہ بتا کہ زندہ رہنے کی کیا قیمت ادا کر سکتا ہے؟
قیمت آپ میرا سب کچھ لے لیں۔ میرا سارا سازو سامان، میرا گھر، میرے کھیت، سب کچھ، جو کچھ میرے پاس ہے آپ کا ہے آپ جو چاہیں لے لیں لیکن میری جان بخش دیں۔ غضنفر گڑ گ ڑا رہا تھا۔
دلاور بولا تو کیا سمجھتا ہے میرے پاس یہ سازو سامان، گھر، کھیت وغیرہ نہیں ہیں؟
نہیں سرکار ایسی بات نہیں آپ کے پاس تو اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔
ہاں تو ٹھیک کہتا ہے لیکن ایک چیز جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور مکر گیا؟
سرکار لیکن رضیہ اس کی تو شادی ہو چکی وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہے۔ اب وہ کسی اور کی زوج ہے ہمارا اس پر کوئی اختیار باقی نہیں ہے
تو ٹھیک کہتا ہے۔ لیکن دلشاد اس کی شادی تو ابھی نہیں ہوئی؟
دلاور کے منہ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کا نام سن کر غضنفر کا خون کھول گیا اس نے دلشاد کے بیاہ کے لئے کیا کیا سامان اکٹھا کیا تھا اب جب اسے پتہ چلے گا اس بوڑھے کھوسٹ، کمزور اور لاغر شخص کی اسے بیوی بننا ہے تو وہ جیتے جی مر جائے گی۔ وہ خود کشی کر لے گی۔ بجا سردار! لیکن میں والد صاحب سے اس بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں
ٹھیک ہے تو اپنے باپ سے پوچھ لے کہ وہ تجھے زندہ دیکھنا چاہتا ہے یا تیرے جنازے کو کندھا دینا چاہتا ہے اس کی مرضی۔ میری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ میں تجھے ایک ہفتہ کا وقت دیتا ہوں آئندہ اتوار کو یا تو دلشاد کی ڈولی میرے گھر آئے گی یا تیرا جنازہ قبرستان جائے گا۔ انتخاب تیرے باپ کا ہے۔ جا اب تو جا سکتا ہے۔
غضنفر اپنی جگہ سے اٹھا دلاور سے مصافحہ کیا اور دروازے کی طرف بڑھا جہاں زور آور اس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ پھر سے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی اس کے گھر کے سامنے پہنچ گئی۔ زور آور نے کہا غضنفر تو بہت خوش قسمت ہے جو زندہ لوٹ آیا، ہم لوگوں نے خفیہ قبرستان میں جسے دلاور کا خاندانی قبرستان کہا جاتا ہے تیری قبر تک تیار کر رکھی تھی۔ سردار نے اسے ایک ہفتہ تک یونہی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ شب بخیر خدا حافظ۔
غضنفر جیسے ہی گھر میں داخل ہوا خوشی کی لہر دوڑ گئی ہر کوئی خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا لیکن غضنفر غمگین و اداس تھا دور دور تک خوشی و مسرت کا کہیں اتہ پتہ نہ تھا گھر کے تمام لوگ غضنفر کے ذریعہ لائے ہوئے تحفوں میں کچھ ایسے کھو گئے تھے کہ وہ غضنفر کے کرب کو محسوس نہیں کر پا رہے تھے لیکن صرف ماں اس کی ماں اپنے بیٹے کی کیفیت جان گئی وہ سمجھ کئی سب ٹھیک ٹھاک نہیں ہے کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے یہ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی۔
ماں نے اپنے آپ کو کچھ دیر قابو میں رکھا جب لوگ ادھر ادھر ہو گئے تو غضنفر سے بولی بیٹا میں جانتی ہوں سب ٹھیک نہیں ہے مجھے بتا کیا مسئلہ ہے؟ میں تیری ماں ہوں ماں۔
یہ سنتے ہی غضنفر کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا وہ پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا دیر تک روتا رہا اس کی ماں بالوں کو سہلاتی رہی کچھ نہ بولی یہاں تک کہ اس کے آنسو خشک ہو گئے اب ماں نے پھر کہا بول بیٹے کیا بات ہے؟
غضنفر نے کہا ماں وقت کا کانٹا پھر پانچ سال پیچھے گھوم چکا ہے میں جہاں سے چلا تھا وہیں پہنچ چکا ہوں بلکہ اور بھی نیچے زمین میں دھنس چکا ہوں
ماں نے پوچھا بیٹے صاف بتا بات کیا ہے؟
جواب میں غضنفر نے دلاور سے اس کی بات چیت ماں کے سامنے بیان کر دی۔ ماں اسے غور سے سنتی رہی اور پھر نہایت اطمینان سے کہا بیٹے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ ہے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا میں تیرے والد سے بات کرتی ہوں جا تو آرام کر سفر نے تجھے تھکا دیا ہے۔ ماں صحیح کہہ رہی تھی یہ پانچ سال اور پانچ گھنٹوں کا سفر غضنفر کی لئے پانچ ہزارسال طویل ہو گیا تھا۔
غضنفر اس معاملے کو لے کر بے حد پریشان تھا جبکہ اس کے ماں باپ کے لئے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا انہوں نے پلک جھپکتے فیصلہ کر دیا اور دلاور کے گھر پیغام بھجوا دیا کہ آئندہ ہفتہ کے دن وہ بارات لے کر آئے اور دلشاد کو بیاہ کر لے جائے۔ حالانکہ یہ دلشاد کے بیاہ کا فیصلہ تھا لیکن اس فیصلے سے کوئی دل شاد نہیں تھا۔ ہر کوئی اس سے غمزدہ تھا اس لئے کہ فیصلہ ان کی اپنی مرضی سے نہیں ہوا تھا بلکہ ان پر تھوپا گیا تھا۔
انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے۔ اس کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ اس کے اپنے بارے میں کوئی اور فیصلہ کرے وہ اپنے اچھے اور برے کا فیصلہ خود کرنا چاہتا ہے۔ لیکن غضنفر کے خاندان میں دوسری مرتبہ یہ ہوا تھا۔ اس فیصلہ کو کڑوی دوائی کے طور پر سبھی نے نگل لیا تھا لیکن دلشاد ایسی ناشاد ہوئی کہ پھر اسے کسی نے شاد باد نہیں دیکھا ایسا لگتا تھا جیسے وہ سہاگن نہیں بلکہ بیوہ ہونے جا رہی ہے اس نے ابھی سے بیوگی کو اپنے اوپر طاری کر لیا تھا۔ وہ بس خلاؤں میں دیکھتی رہتی تھی اور اپنے آپ سے باتیں کرتی رہتی تھی۔
غضنفر اپنی بہن سے منہ چھپاتا پھرتا تھا وہ جانتا تھا کہ اپنی بہن کی اس حالت کے لئے صرف اور صرف وہ ذمہ دار ہے۔ غضنفر کی گھر واپسی ایسی ہو گی یہ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ وقت کی رفتار دھیمی ہو چکی تھی ایک ایک دن سالوں کے برابر لگ رہے تھے اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ یہ وقفہ طویل تر ہو جائے اور سنیچر کا منحوس دن کبھی نہ آئے۔
نماز جمعہ سے فارغ ہو کر غضنفر گھر آیا تو دفعتاً اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے لپک کر فون اٹھایا تو سامنے زور آور تھا۔ سلام کے جواب میں غضنفر بغیر پوچھے بول پڑا۔ جی ہاں ہمیں سب یاد ہے ہم لوگ تیار ہیں آپ لوگ آ جائیے۔
زور آور بھڑک گیا اس نے کہا ارے بے وقوف سن میں کیا کہہ رہا ہوں۔
جی بولو بولو۔
دلاور خان کا انتقال ہو گیا ہے۔ آج بعد مغرب اس کی تدفین ہے اور تو جانتا ہے کس قبر میں ہو گی اس کی تدفین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا؟
ہاں دلاور مر چکا ہے۔ اور فون بند ہو گیا
چند لمحوں تک غضنفر کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کیا سن رہا ہے اس نے سوچا اگر وہ اعلان کر دے اور یہ خبر غلط نکل جائے تو کیا ہو گا؟ زورآور کہیں اس کے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا ہے؟ اس نے سوچا جلد بازی مناسب نہیں ہے پہلے تصدیق ہو جانی چاہئے لیکن غضنفر کی لئے اپنے اوپر قابو رکھنا مشکل ہو رہا تھا وہ کمرہ سے باہر نکلا تو سامنے دلشاد کو کھڑا پایا اس نے کہا اوے دلشاد سن تیرے لئے خوشخبری ہے کل تیرا نکاح نہ ہو گا دلاور خان مر چکا ہے۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔
دلشاد پر یہ خبر بجلی بن کر گری اس نے خوشی سے اپنی چوڑیاں توڑ لیں اس کے ہاتھ لہو لہان ہو گئے وہ رونے لگی یہ خوشی کے آنسو تھے۔ شادی کے منسوخ ہو جانے پر کوئی خوش ہو سکتا ہے؟ کسی کی موت بھی کسی کے لئے خوشیوں کا پیغام لا سکتی ہے؟ یہ سوالات تھے جو فضا میں معلق تھے۔ غضنفر کا سارا خاندان فرحت و انبساط سے سرشار تھا۔ اگلے دن کی ساری تیاریاں منسوخ کی جا رہی تھیں اور شام کو تدفین میں شرکت کی تیا ری ہو رہی تھی۔
دلاور کو غضنفر کے والد کاندھا دے رہے تھے غضنفر کے دماغ میں دلاور کی دھمکی گونج رہی تھی ’جا اپنے باپ سے کہہ دے آئندہ اتوار کو یا تو ڈولی اٹھے گی یا جنازہ‘ غضنفر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ دلاور کس کے جنازے کی بات کر رہا تھا اور کس کے لئے قبر کھدوا رہا تھا؟ انسان کس قدر بے بس ہے کہ وہ نہیں جانتا کیا کر رہا ہے؟ اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کیا ہونے والا ہے؟
تدفین کے دوران غضنفر قریب کی ایک جھاڑی کے پاس جا کر بیٹھ گیا جہاں دو لوگ آپس میں بات کر رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ دو اور کان ہیں جو ان کی بات سن رہے ہیں ایک پوچھ رہا تھا کیا سردار اپنی طبعی موت مرا ہے؟
دوسرے نے جواب دیا مجھے نہیں لگتا۔
مجھے بھی نہیں لگتا۔ کون ہو سکتا ہے اس کے پیچھے۔
زور آور؟
ہاں مجھے بھی یہی لگتا ہے۔ لیکن اب وہ نیا سردار ہے اس کے بارے میں ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔
وہ تو ٹھیک ہے ویسے ہمیں کہنے کی ضرورت بھی کیا ہے ہمارا کام تو صرف سننا اور احکامات کی بے چوں چراں تعمیل کرنا ہے
یہی ٹھیک ہے جو سردار کہے وہی حق ہے جو وہ کرے وہی انصاف ہے
ٹھیک وہ دونوں سائے پھر دفنانے والوں کی بھیڑ میں گم ہو گئے لیکن غضنفر دیر تک وہیں بیٹھا رہا۔ اس کی نظروں میں زور آور کا قد اور بھی اونچا ہو گیا تھا۔ کس قدر احسانات کئے تھے اس شخص نے؟ دو سرے دن اس نے زور آور کو فون کیا سرداری کے لئے مبارکباد دی اور کہا جب چاہے آ کر دلشاد کو بیاہ کر لے جائے۔
زور آور ہنسا اس نے کہا ایسی بھی کیا جلدی ہے چالیسواں تو ہو جائے تاکہ کسی کو شک شبہ نہ ہو۔ ڈیڑھ ماہ بعد زور آور سے دلشاد کا نکاح خوب دھوم دھام سے ہوا سبھی لوگ بہت خوش تھے غضنفر واپس جانے کی تیاری میں لگ گیا تھا کہ ماں نے اس کی سگائی کر دی تھی۔ غضنفر کی شادی شہر بانو سے طے ہو گئی اس رشتہ کو رضیہ نے استوار کیا تھا اور پیغام دلشاد لے کر گئی اس چھوٹے سے سفرمیں غضنفر نے اپنی موت کو دیکھا اپنی قبر کی زیارت کی اپنی بہن کو پہلے بیوہ ہوتے ہوئے اور پھر سہاگن بنتے ہوئے دیکھا اور بالآخر اپنی ازدواجی زندگی کا سہانا خواب سجا کر خلیج کی جانب چل پڑا۔
ہوائی اڈے پر غضنفر کو خیرباد کہنے کے لئے اس کا پورا خاندان آیا تھا۔ رضیہ تھی، یوسف تھا، دلشاد تھی، زور آور تھا اس کا بھائی قیصر والد اور والدہ سبھی لوگ تھے جو خوشیوں بھرے آنسووں کے ساتھ اسے الوداع کہہ رہے تھے۔
٭٭٭