یہ جنوری کے آخری دنوں میں سے ایک سرد دن تھا سردی فل شباب پر تھی سردی ہونے کے باعث سڑکیں سر شام ہی سنسان ہو جاتی تھیں رات کی تقریباً دو ڈھای بج رہے تھے سارے اپنے لحافوں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے سڑکوں پر کبھی کوئ اکا دکا گاڑی زوں کی آواز کے ساتھ گزر جاتی پھر وہی پراسرا سا سناٹا ٹبی لیٹ کے علاقے کی ایک سڑک کنارے ایک فقیر ٹاٹ کی شیٹ کے اوپر بیٹھا تھا اسکے جسم پر ایک بوسیدہ سا کمبل تھا جو کہ سردی روکنے کے لیے ناکافی تھا فقیر کی عمر اکیس بائیس سال سے زیادہ نہ تھی چہرے پر حماقت کے ڈونگرے برس رہے تھی یہ دنیا کا سب سے برا شاطر اور احمق اعظم علی عمران تھااسکے گلے میں ایک تختی لٹکی ہوی تھی جس پر کندہ تھا
سلام
یہ بندہ اپنی بیوی کی دو فٹ لمبی زبان سے تنگ ہو کر گھر سے نکلا ہے اور اس طرح کی درویشانہ زندگی بسر کر رہا ہے اگر کوی خود بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہے تو اسے اپنا بھائ سمجھ کے دو تین سکے عنایت کرے
علی عمران مسلسل کچھ بربرا رہا تھا اس سے کوی بعید نہیں تھی کہ اس سردی کے عالم میں ٹھنٹھے پانی سے غسل کر رہا ہوتا جب بھی کوی گاڑی اسکے پاس سے گزرتی تو اسکی آنکھیں چمکنے لگتیں مگر جب وہ اسکے پاس نہ رکتی تو اسکی آنکھوں کی چمک کم ہو جاتی ظاہر ہے کوی جتنا بھی نیک کیوں نہ ہو اس سردی کے عالم میں اپبی گاڑی کے گرم ماحول کو چھور کر کسی فقیر کو پیسے دینے کے لیے گاڑی سے نیچے اترے اس کی امید کرنا حماقت تھی تھوری دیر بعد پھر ایک گاڑی تیز رفتاری سے آتی دکھای دی عمران کی آنکھیں چمک اٹھیں گاڑی نے عمران کے پاس آکر فل قوت سے بریک لگای ٹائر احتیجاجا” چرچڑاے ٹائروں کے چڑچڑانے کی آواز گھنگھور سناٹے کو چیڑتی چلی گئ گاڑی کا دروزاہ کھلا ایک ایک پچییس چھبیس سال کا نوجوان گاڑی سے اترالباس سے وہ کسی سے امیر گھرانے کا چشم وچراغ معلوم ہوتا تھا سردی سے نوجوان کے دانت بج رہے تھے اسنے عمران کے پاس آ کر اسے گھورا پھر اسنے عمران کے گلے میں لٹکی ہوی تختی پر نظریں جما دیں پھر تھوری دیر بعد اسنے وہاں سے نظریں ہٹا کر عمران کے چہرے ہر جما دیں جہاں حماقت کے سوا کچھ نہیں تھا نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئ لیکن اسکے برعکس اسکی آنکھوں مءں بے چینی کی لہریں دوڑ رہیں تھیں اچانک اسنے لب کھولے وائٹ ویژن (سفید زہر) ہے
نوجوان کے لب سے یہ لفظ سن کر عمران کے منہ پر ایک پرمسرت مسکراہٹ آگئ اس سے پہلے کہ یہ مسکراہٹ نوجواں دیکھتا وہ چہرے پر سے رفوچکر ہو گئ جب کچھ دیر تک عمران خاموش رہا تو نوجوان پھر بولا
وائٹ ویژن ہے
اس بار لہجآ تھورا تلخ تھا
عمران نے مسمی سی صورت بنائ اور بولا
جناب یہ وائٹ ویژن کیا ہوتا ہے کہیں حال میں دریافت ہونے چوہے کے خالو کا نام تو نہیں
نوجوان نے تیز نظروں سے اسے گھورا مگر آنکھوں میں بےبسی کے آثار نظر آ رہے تھے
جہنم میں جاو
وہ غرایا اور واپس گاڑی کی طرف قدم بڑھا دیے ابھی وہ گاڑی کا دروازہ کھولنے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے عمران نے ہانک لگائ
بتاتے تو جایں
کیا بتاوں
نوجوان غصے سے پلٹا
جہنم میں جانے کا راستہ اگر ہو سکے تو جہنم تک لفٹ بھی دیں دیں
نوجوان نے مٹھیاں بھینچیں پھر سر جھٹک کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور بیٹھ کر دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند کیا پھر گاڑی یہ جا وہ جا جیسے ہی گاڑی تھوری دور گئ پیچھے سے ایک اور گاڑی نکلی اور اس گاڑی کے پیچھے روانہ ہو گئ پچھلے والی گاڑی کو دیکھ کر اسنے اس طرح سر ہلایا جیسے اسے اسکی توقع رہی ہو پھر وہ اٹھا اور کمبل کو اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایک طرف دوڑ پڑا پھر تھوری دور ہی اسے اپنی گاڑی نظر آ گئ اسنے جلدی سے گاڑی کے دروازے پر چابی لگائ اور دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا دروازہ بند کے اسنے اپنا کوٹ اتارہ اور الٹا کر کے پہن لیا پھر اسنے گاڑی سٹارٹ کر اسی سڑک پر ڈال دی جہاں تھوری دیر پہلے دو گاڑیاں گئ تھیں ایک ہاتھ سٹرینگ پر رکھ کر اسنے ایک ہاتھ جیب میں ڈالا جب جیب سے ہاتھ باہر نکلا تو ہاتھ میں چیونگم کا پیکٹ تھا پھر اسنے ایک پیس نکال منہ میں رکھا اور اسکو کچلنے لگا گاڑی ٨٠ کی سپیڈ پر جا رہی تھی سڑک سنسان تھی اس لیے عمران کو ٨٠ کی سپیڈ پر گاڑی چلاتے ہوے کوی دکت نہیں ہو رہی تھی پھر تھوری دیر بعد گاڑی ١٠٠ کی سپیڈ سے رواں دواں تھی عمران کو اب تشویش ہونے لگی کیوں کہ ابھی تک دونوں گاڑیوں میں سے ایک بھی نظر نہیں آی تھی پھر اسے دور ایک گاڑی کی ہیڈلایٹس کی جھلک محسوس ہوی عمران نے تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا اور اسکے قریب پہنچ گیا یہ وہی گاڑی تھی جو کہ نوجوان کی گاڑی کے تعاقب میں روانہ ہوی تھی اب تینوں گاڑیاں ایک دوسرے کا تعاقب کرتی ہویں نامعلوم مقام کی طرف رواں دواں تھیںپھر عمران نے کسی خیال کے تحت واچ ٹرانسمیٹر کا مخصوص بٹن دبایا پھر ہاتھ منہ کے قریب کر کے بولا عمران کالنیگ اور عمران نے دو تین مرتبہ جملہ دہرایا اور خاموش ہو گیا دفعتاً ٹرانسمیٹر میں سے آوز ابھری تنویر سپیکنگ اور کیا حال ہے ٹھیک ٹھاک ہو فارغ بیٹھا تھا سوچا تمہاری خیر خیریت ہی دریافت کر لوں میں خیریت سے ہوں تمہاری خیریت مطلوب ہے اور یہ کون سا وقت ہے خیریت دریافت کرنے گا ویسے بھی ابھی میں ذرا ایک کام سے کہیں جا رہا ہوں گاڑی میں ہوں بعد میں بات کرتا ہوں اور عمران اسکی بات سن کر مسکرایا تنویر کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ عمران سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا کیوں کے اسکے خیال سے اس بار ایکسٹو نے عمران کے بجاۓ اسکو ترجیح دی ہے اسکو نہیں پتا تھا کہ اسکے پیچھے جو گاڑی آ رہی ہے اس میں عمران ہی براجمان ہے دراصل عمران نے ہی بطور ایکسٹو اسکی ڈیوٹی ٹبی لیٹ کے اس سڑک کنارے لگائ تھی اور حکم دیا تھا کہ وہاں اسے ایک فقیر کی نگرانی کرنی ہے اگر کوی گاڑی اسکے پاس آ کر رکے اور پھر چل پڑے تو اسے اس گاڑی کا تعاقب کرنا ہے جب تک تنویر ایکسٹو کو کوستا ہوا ٹبی لیٹ پہنچا اس سے پہلے پہلے عمران وہاں فقیر کا روپ دھار کر بیٹھ گیا تھا تم کیا سمجھتے ہو مجھے کچھ خبر نہیں کہ تم کس ضروی کام جا رہے ہو مجھے پتا ہے تم اس وقت ٹبی لیٹ کی فلاں سڑک پر ایک گاڑی کا تعاقب کر رہے ہو بس یہ بتا دو کہیں اس میں لڑکی وڑکی تو نہیں اور اوہ تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں کسی گاڑی کا تعاقب کر رہا ہوں اور آواز میں حیرت اور غصہ کے ملے جلے تاثرات تھے ننھے لڑکے اگر تمہارہ چوہا تم سے کام لینا شروع کر دے نا تو بس سیکڑٹ سروس کا اللہ حافظ ہے کافی دیر سے تمہاری گاڑی کا تعاقب کر رہا ہوں اور تمہیں خبر تک نہ ہوی واہ رے کیا شان ہے تیری مولا کیسے سیکڑٹ ایجنٹ بھیجے اس جہاں میں اچھا چھورو اب ایسا کرو اگلے موڑ پر تم گاڑی دوسری طرف موڑ لو تاکہ میں براحیراست اس کا تعاقب کروں اور ہاں گھر جا کہ گرم لحاف میں دبک جاو کہیں بی بی کو سردی ہی نہ لگ جاۓ اور بکواس بند کرو میں جا رہا ہوں پتا نہیں کیسے چیف سے پالا پڑ گیا میرا ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠ اسنے اور بھی بے نقط سنایں ایکسٹو کو مگر عمران ٹرانسمیٹر بند کر چکا تھا اسکے چہرے پر حماقت کے آثار صاف دکھای دے رہے تھے پھر تھوری دیر بعد موڑ آنے پر تنویر نے گاڑی موڑ لی اب عمران گاڑی کا براحیراست تعاقب کر رہا تھا دفعتاً اگلی گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی پھر اس میں سے وہی نوجوان اترا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا سڑک کنارے بیٹھے ہوے ایک اونگھتے فقیر کے پاس جا کے رک گیا عمران نے گاڑ ی کافی فاصلے پر روک لی وہ بھی باہر نکلا اور سڑکی پر لیٹ کر رینگتا ہوا ان سے اتنے فاصلے پر پہنچ گیا جہاں سے وہ ان کی آوازیں بااسانی سن سکتا تھاپھر تھوری کھٹ پٹ کی آواز سنای دی عمران انکی آوازوں پر ہی اکتفا کر رہا تھا وہ نوجوان کی گاڑی کے اوٹ میں کھڑا تھا اگر وہ انکو دیکھنے کے لیے تھورا سا بھی سر اٹھاتا تو تو دیکھ لیا جاتا ظاہر ہے دیکھ لیے جانے کی صورت میں اسکا یہ سارہ ڈرامہ کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا یہ لو تین پیکٹ اور تین ہزار میرے حوالے کر دو فقیر کی آواز اوہ پچھلی بار تو ایک پیکٹ سات سو کا ملا تھا اب ہزار کا خیر چھورو یہ لو تین پزار گن لو نوجوان کی آواز تھورے کے وقفے کے بعد فقیر کی آواز ابھری جو کہ غالباً نوٹ گن رہا تھا ٹھیک پورے ہیں اب چلتے پھرتے نظر آو ہاں میرا کسی سے ذکر نہ کرنا میں نہیں چاہتا کہ تمہارے ماں باپ اپنے جواں سال بیٹے کی موت پر بین کریں آواز میں درندگی تھی ٹ ٹی ٹھیک میں کسی سے سے تمہارہ ذکر نہیں کروں گا نوجوان کی آواز آواز میں خوف کے آثار بدرجہ اتم موجود تھے اسی میں تمہاری بھلای ہے اب جاو پھر قدموں کی آواز کو عمران اپنی طرف آتا سن کر جلدی سے رینگتا ہوا اپنی گاڑی تک پہنچ گیا نوجوان گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگا عمران سوچ میں پر گیا اب کیا کرے اسنے سوچا حماقت ہوی جو تنویر کو واپس بھیج دیا اگر تنویر ہوتا تو وہ اس فقیر کی نگرانی کرتا اور عمران نوجوان کا تعاقب پھر اسنے ایسے سر ہلایا جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گیا اسنے گاڑی سٹارٹ کی اور نوجوان کے تعاقب میں روانہ ہوگیا اس بار نوجوان بڑے تحمل سے گاڑی چلا رہا تھاعمران نے واچ ٹرانسمیٹر اپنے ہاتھ سے اتاری اور اس پر فریکونسی سیٹ کرنے لگا پھر تھوری دیر بعد وہ بلیک زیرو کو حکم دے رہا تھا بلیک زیرو! تم فوراً تنویر کو ہدایت دو کے ٹبی لیٹ علاقے کی وسطی سڑک شروع میں ہی ایک فقیر فٹ پاتھ پر بیٹھا ہو گا اسکو اغوا کر کے دانش منزل پہنچا دے اور ہاں اسے کہنا پوری احتیاط سے کام لینا اور یس سر میں ابھی کہتا ہوں اور گڈ اور اینڈ آل اب عمران سکون سے بیٹھا تعاقب کر رہا تھا اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا تھوری دیر تک کھنگالتا رہا پھر ایک سرد آہ بھر ہاتھ جیب سے باہر نکال لیا ہاتھ میں چیونگم کا خالی پیکٹ لہرا رہا تھا ہاۓ میری جان تم تو ختم ہو گئ اب کہاں تلاش کروں تمہیں پھر خالی پیکٹ کو باہر پھینک کر ایسے منہ چلانے لگا جیسے کہ منہ میں چیونگم کے دو تین پیس ہوں تھوری دیر بعد اگلی گاڑی ایک کالونی میں داخل ہو رہی تھی پھر دو تین بعد اگلی گاڑی ایک بہت بڑی کوٹھی کے سامنے رک گئ پھر نوجوان باہر نکلا عمران نے محسوس کیا کے نوجوان کے قدم لڑکھرا رہیں ہیں پھر اسنے کوٹھی کے دروازے پر چابی لگای اور اندر چلا گیا پھر پانچ منٹ بعد ایک ملازم ٹائپ آدمی آنکھیں ملتا ہوا باہر نکلا اسکے چہرے پر برہمی آثار تھے اسنے کوٹھی کا دروازہ پورا کھول دیا اب عمران کا ادھر رکنا بیکار تھا ظاہر ہے اب اسنے گاڑی اند کڑنی تھی عمران نے کوٹھی کی پیشانی پر لکھا ہو منہاج منزل ذہن نشین کر لیا تھا اب اسکی گاڑی کا رخ فلیٹ کی طرف تھا اسنے سوچا فقیر سے پوچھ گھوچ صبح ہی کر لوں گا تھوری ہی دیر بعد وہ اپنے لحاف میں دبکا بلیک زیرو سےروپورٹ لے رہا تھا وہ کہ رہا تھا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...