جہانگیر کون ہے یہ ؟؟؟ کس کو تم میرے کمرے میں لائے ہو ؟؟؟
نگین کی آواز میں لرزراہٹ اسکے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔
نگین کی آواز پر سحرش کا سکتہ ٹوٹا اور وہ جاکر نگین کے گھٹنوں میں بیٹھ گئ اور زور زور سے رونے لگی۔۔۔ یہاں تک کہ اس کی یچکیاں بندھ گئیں تھیں۔۔۔
دل تھا کہ پھر بھی سکون نہیں پارہا تھا نجانے وہ اپنے ہوجانے والے نقصان پر رو رہی تھی یا نگین کی طے کردہ صبر کی سیڑھیوں پر افسوس کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا بیٹا کون ہو تم اور کیوں رو رہی ہو ؟؟
نگین نے سوالیہ نظروں سے جہانگیر کو دیکھا جو ایستادہ وہیں دروازہ کے قریب ہی کھڑا رہ گیا تھا پھر لرزتے وجود کو دونوں ہاتھوں ست سہارا دے بٹھایا۔۔ ۔۔۔
“میں۔۔۔میں وہ ہوں جس سے اپکے بھتیجے نے اپکے ساتھ ہو جانے والے ظلم کا بدلہ لیا ۔۔۔ آپ میں اور مجھ میں فرق اتنا ہے کہ اپکی جسم اور روح پر داغ ہے جبکہ میری روح پر داغ لگا ہے ہم دونوں چلتی پھرتی لاشیں ہیں ہم دونوں کے قصور وار صرف اقر صرف مرد ہی ہیں ۔۔۔۔”
یہ یہ کیا کہہ رہی۔۔۔ی ہ۔۔و۔۔۔ہو ککک۔۔۔۔ککون ہو تم ؟؟؟
“میں یاسر خان زادہ کی بد نصیب بیٹی ہوں”
سحرش نے روتے ہوئے سر جھکالیا جیسے سارا جرم اس کا ہی ہو ۔۔۔۔
سالوں پہلے حویلی میں جو قیامت گزری تھی شاید اسکے انصاف کا دن آج تھا وہ انکھیں پھاڑے اپنے سامنے اپنے مجرم کی بیٹی کو جھکا ہوا دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔ اپنی التجائیں ، سسکیاں ، رونا سب ایک فلم کی طرح ان کے ذہن میں اگیا تھا انھیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ روئے یا ہنسے ۔۔۔۔۔
سالوں پہلے دیئے جانے والا زخم پھر سے تازہ ہوگئے تھا ان کے بے آواز آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔۔
اس لڑکی کو روتا ، اور سسکتا ، ہوا دیکھ کر انھیں اپنا سسکنا یاد آگیا تھا ۔۔۔۔ وہ بھی تو ایسے ہی یاسر کی منت سماجت کر رہی تھی ۔۔۔ جہانگیر سامنے کھڑا ان کو یاسر لگا جو آہستہ آہستہ قدم برھاتا ھوا ان کی طرف آرہا۔ تھا ۔۔۔
“قریب مت آنا ۔۔”
“تم نے میری زندگی تو برباد کردی لیکن میں اس کی عزت پر انچ نہیں آنے دوں گی ”
نگین ہسٹریائی انداز میں چیخی درودیوار اس کی چیخ سے لرز اٹھے ۔۔۔
جہانگیر جہاں تھا وہیں برف ہوگیا اسے زمین و آسمان گھومتے ہوئے نظر آنے لگے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا شیشہ انڈیل دیا۔۔۔
نگین نے سحرش کو اپنی آغوش میں کسی نھنی سی جان کی طرح سمو لیا تھا جیسے ماں اپنا بچہ چھین جانے کے ڈر سے اپنے اندر چھپا لیتی ہے ۔۔۔۔۔
نگین کو اتنے سال کسی ملازم نے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور اب ان کی چیخ سن کر بی جان وہیل چیئر پر نگین کے کمرے میں آئیں ۔۔۔۔۔
نگیںن نے بی جان کو دیکھا تو سحرش کو لئے لپک کر ان کے پاس گئ۔۔۔۔
بی ۔۔۔۔۔بی۔۔۔ججججاننننننن۔۔۔۔ یییییا۔۔۔سسسسر ۔۔۔۔ ااااگگگگیییییااااااا۔۔۔۔۔۔۔ آاااااگگگگیییییییاااااا وووووہہہہہہہ ہ ہ ۔۔۔۔۔
(بی جان اگیا وہ)
نگین اسی بھیانک دن میں چلی گئی تھی سحرش کو اپنا بچہ سمجھ کر چھپایا ہوا تھا اور وہ ہونقوں کی طرح انھیں تو کبھی جہانگیر کو دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
نگین کی حالت خراب ہونے لگی تھی بی جان نے اشارے سے جہانگیر کو جانے کو کہا تھا ۔۔۔۔
اور وہ ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں سے چلا آیا۔۔۔۔۔۔
نگین کو ایک ہفتہ لگا تھا واپس زندگی میں لوٹنے کا ۔۔۔۔ اور اس ایک ہفتہ میں دو نفوس کو اپنے آپ سے نفرت ہوگئ تھی۔۔۔۔ نگین تو واپس آگئ تھی لیکن ان دونوں کو واپس آنے میں شاید ابھی وقت تھا ۔۔۔۔۔
سحرش کو اپنے باپ سے نفرت سی محسوس ہوگئ تھی کہ اس کی حوس نے ایک جیتے جاگتے وجود کو زندگی جینے والی ہنس مکھ کلیوں جیسی نگین کو روند دیا تھا جینے کی رمق کو فنا کردیا تھا اسکا دل چاہ رہا تھا اپنے باپ کا گریبان پکڑ کر کہے کیا قصور تھا اس کا اور میرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
جہانگیر تو اس دن کے بعد سے گھر ہی نہیں آیا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ خودکشی کرلے اسے نگین کی انکھوں کی وحشت ، ڈر و خوف ، نفرت ، بھولائے نہیں بھولتی ۔۔۔۔۔
بی جان کے ہزار بار بلانے پر وہ اگیا تھا اور خود بی جان کے گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھا تھا بی جان کے سمجھانے پر آج وہ ہممت کرتا ہوا نگین کے روم میں موجود تھا ۔۔۔۔
نگین کے انسو روا تھے اور مصلے پر بیٹھ کر تسبیح پرھنے میں لگی ہوئی تھیں ۔۔۔۔
جہانگیر نے آگے بڑھ کر ان کے آنسو صاف کئے ابھی شاید وہ کچھ کہتا ہی کہ پڑنے والے ٹھپڑ سے اسکی بات منہ میں ہی رہ گئ۔۔۔
“افسوس ہوا ہے مجھے تم پر” جہانگیر ۔۔ بھیا نے تمھیں یہ ہی سکھایا تھا ؟؟؟
جہانگیر سر جھکائے انھیں پہلی دفعہ سن رہا تھا ورنہ وہ اسکی بات کا جواب اشاروں میں ہی دیتی تھیں۔۔۔
” تم میں اور یاسر میں کوئی فرق نہیں رہا اب”
“جاو تم یہاں سے آئیندہ مجھے اپنی شکل نہ دکھانا ”
جہانگیر الٹے قدموں واپس لوٹ گیا اور کمرہ میں نگین کی دبی دبی سسکیاں گونجنے لگیں۔۔۔۔۔
**************************************
نگیںن اس واقعہ کے بعد چلتی پھرتی لاش بن گئ تھی کبھی بیٹھے بیٹھے ہنسنے لگتی اور کبھی چیخوں سے پوری حویلی گونجتی ایسے میں ان کو سنبھالنے والا وہ ناسمجھ جہانگیر تھا جس نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے دادا اور باپ کو لحد میں اتارا تھا جہاں چھوٹی عمر میں اس کے ناتواں کندھوں پر ذمہ داری عائد ہوگئ تھی وہیں اس کے کچے ذہن میں یاسر خان زادہ کی طرف سے نفرت پنپ رہی تھی اور اسی نفرت اور غیرت نے اسے جہانگیر سے یاسر بنا دیا تھا ۔۔۔
جہانگیر کو اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی تھی اسے یہ بات ہی اندر اندر مار رہی تھی کہ اس کی پھپھو نے اسے یاسر سے تشبیہ دی ۔۔۔ اس کا دل چاہ رہا تھا ساری دنیا کو آگ لگا دے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تہس نہس کردے اپنے وجود سمیت ہر شئہ کو۔۔۔۔۔
انکھیں جیسے خشک ہوگئیں تھیں آنسووں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا ہر وقت رونے کی وجہ سے اسکی انکھوں کے نیچے ہلکے پڑ گئے تھے انکھیں رو رو کر سرخ ہوگئیں تھیں باپ جیسا بھی تھا ۔۔۔ تھا تو باپ ہی اسکا غم سحرش کو اندر ہی اندر مار رہا تھا کچھ نہ سہی باپ کے جنازے کو ہی دیکھ لیتی ۔۔۔۔۔
جہانگیر کمرہ میں آیا تو روز کی طرح آج بھی وہ ہنوز اسی حالت میں بیٹھی تھی روز کی طرح اج بھی اس کے اندر ملال نے گھیرا جما لیا تھا لیکن آج جہانگیر نے سحرش سے بات کرنے کا تہییہ کرلیا تھا ۔۔۔۔
کیوں رو رو کر خود کو ہلکان کررہی ہو ؟؟؟؟
“دیکھو جب انسان کے پاس اپنی مرضی ، اور پسند کا اختیار باقی نہ رہے تو خود کو حالات اور تقدیر کے سپرد کر کے بے فکر ہوجا نا چاہئیے”
اس کے انداز میں اپنائیت تھی محبت تھی ۔۔۔ وہ اسکا دھیان بٹانا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن یہ محبت سحرش کو خار بن کر چبھی ۔۔ وہ اس کی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں تھی اس کی بات اسے پتنگے لگا گئ۔۔۔
“بند کرو اپنی بکواس ۔۔۔ تم سب مردوں سے نفرت ہے مجھے ۔۔۔ جاو چلے جاو یہاں سے ۔۔۔ جاااوووو۔۔۔۔۔۔”
سحرش پر جنون سوار ہوگیا تھا جہانگیر کو اسکی اس کیفیت سے گھبراہٹ تو ہوئی لیکن وہ بھی اٹل فیصلہ کر کے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
تم بھول کیوں نہیں جاتی ہو سب تلخ حقیقت کو ؟؟؟تم سمجھوتہ بھی تو کرسکتی ہو سحرش؟؟؟؟؟
“زندگی ہر بار تمہاری من پسند سوغات تمھاری جھولی میں نہیں ڈالے گی خوش فہمیوں کا دائرہ اتنا وسیع نہ کرو کہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑے ۔۔۔”
تم کیا سمجھتے ہو تمھارے ان بہلاوں میں اکر میں تمہاری کی جانے والی ہر زیادتی بھول جاوں گی ؟؟؟؟
سحرش زہر میں بجھے تیر جہانگیر کی جانب پھینک کر رخ موڑ گئ ۔۔۔۔ جبکہ جہانگیر کو ہر بار کی طرح اس بار بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
جسم پر لگے گھاو تو بھر جاتے ہیں لیکن روح پر لگنے والے تا عمر رہتے ہیں جیسے جیسے وقت گزرتا ہر ان میں سے خون رس رس کر ناسور بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔
سحرش بھی انھی گھاو سے گھائل ہو گئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“وقت گزرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے سامنے آتی ہر چیز کو روندتا ہوا ۔۔۔۔۔۔
سیلاب کے پانی کی طرح جو کہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ اسکی زد میں کتنی لہلہاتیں فصلیں آتی ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ کتنے مکانوں کو ڈھا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔ بس اسے تو آگے بڑھنے سے مطلب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔”
سحرش نے بھی وقت کے ساتھ جینا سیکھ لیا۔ تھا ۔۔۔۔۔۔۔
” وقت کی ایک بات اچھی ہوتی ہے کہ وقت اچھا ہو یا برا گزر ہی جاتا ہے ”
اب سحرش کمرہ میں بند نہیں رہتی تھی بلکہ اسکا زیادہ تر وقت نگین یا بی جان کے ساتھ گزرنے لگا تھا جہانگیر کے بھی چھوٹے موٹے کام کرنے لگی تھی ۔۔۔ جہانگیر کو گونا سکون کا احساس ہوا کہ اسکی محنت زیادہ نہیں تو کم رنگ تو لائی ۔۔۔۔ جہانگیر کو اپنے اور اسکے مابین ہونے والے رشتہ کا احساس ہوتا تھا لیکن وہ سحرش کو فلحال کسی بھی رشتہ کی نوعیت سمجھانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھیوں نے توڑ دی ہیں درختوں کی ٹہنیاں
کیسے کٹے گی رات پرندے اداس ہیں۔۔۔۔۔