مندرجہ ذیل واقعہ ملاڈینو نے لکھا ہے۔
میری والدہ ساتھ والے گھر میں رہتی ہیں۔ چند سال پہلے انہیں نیا بلینڈر چاہیے تھا۔ ان کی عمر نوے سال کے قریب تھی۔
وہ کوشش کرتی تھیں کہ مجھے کام نہ کہیں۔ وہ آزادانہ رہنے میں خوشی محسوس کرتی تھیں۔ سودا سلف لینے ایک میل خود چل کر جاتی تھیں لیکن بلینڈر کے لئے بس پر جانا پڑتا۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کو انٹرنیٹ پر خرید لیتے ہیں۔
والدہ نے کبھی کمپیوٹر استعمال نہیں کیا تھا۔ وہ محدب عدسے سے بڑی لکھائی والی کتابیں پڑھا کرتی تھیں لیکن اس وقت وہ مان گئیں۔ سب سے سستا بلینڈر ڈھونڈ کر Best Buy سے اسے آرڈر کر دیا۔
کچھ روز بعد میں جب ان کے گھر گیا تو کچن میں بلینڈر پڑا ہوا تھا۔ میں مسکرایا اور کہا کہ دیکھا یہ کتنا آسان تھا۔ لیکن وہ خوش نہیں تھیں۔ “اچھی بات ہے کہ وہ گھر پر دے گیا۔ لیکن بری بات یہ ہے کہ یہ کام نہیں کرتا۔ میں اسے واپس کر کے اپنے پیسے کس طرح واپس لوں؟”۔
ان کی بات درست تھی۔ بلینڈر میں نقص تھا۔ انٹرنیٹ پر دیکھا تو پیسے واپس لینے کی واضح پالیسی نہیں ملی۔ میں نے ان سے معذرت کی کہ میں نے غلط راہنمائی کی لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ “جہاں پر ارادہ ہو، وہاں کوئی راہ نکل آتی ہے” انہوں نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں بڑا ہو رہا تھا تو یہ ان کا پسندیدہ فقرہ تھا۔
“میں مذہبی سکول کا کام آج کیسے کروں جب میرا ریاضی کا ٹیسٹ بھی کل ہے؟”۔
“جہاں پر ارادہ ہو، وہاں پر راہ نکل آتی ہے”۔
“میں دو گھنٹے میں برف صاف کر کے اتنے پیسے کیسے بنا سکتا ہوں کہ فلم کا ٹکٹ خریدا جا سکے”
“جہاں پر ارادہ ہو، وہاں پر راہ نکل آتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری والدہ کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں تھا۔ جب میں بڑا ہوا تو پھر مجھے احساس ہوا کہ ان کا زندگی کے بارے میں ایسا رویہ کہاں سے آیا تھا۔ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنا سب کچھ کھو کر انہوں نے اپنی زندگی بنائی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی بنائی ہی ایسے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی شام کو جب میں ان کے گھر گیا تو میرا خیال تھا کہ وہ اپنے خراب بلینڈر کے بارے میں ابھی بھی بات کریں گے لیکن جب میں اندر گیا تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان کے کچن میں ایک نہیں بلکہ ایک ہی جیسے دو بلینڈر پڑے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ “میں سٹور گئی تھی کہ اسے تبدیل کروا لوں۔ لیکن وہ رسید کے بغیر یہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس لئے میں نے ایک نیا بلینڈر خرید لیا۔ پورا دن اسی کام پر لگ گیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ میرے پاس کرنے کو کوئی اور کام بھی تو نہیں ہے”۔
میری والدہ مطمئن تھیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ وہ اپنے نقصان کو کیسے بھول گئیں تھیں۔ ایسا کرتی تو نہیں تھیں۔ جب ہم بڑے ہو رہے تھے اور پلیٹ میں کھانا بچ جاتا تھا تو ایسی غضبناک طریقے سے گھورتی تھیں گویا بڑا نقصان کر دیا۔ ہم گپ شپ کرتے رہے۔ جاتے ہوئے میں نے خراب بلینڈر اٹھایا کہ اسے پھینک دوں۔ لیکن والدہ نے کہا کہ “اسے یہیں رہنے دو۔ میں نے دوسرا خریدا کیوں ہے؟ مجھے بلینڈر جمع کرنے کا شوق تو نہیں۔ مجھے ایک ترکیب سوجھی تھی۔ میں کل خراب والا واپس کر دوں گی اور رسید وہ والی دوں گی جو کہ میں نے آج کی خریداری کی ہے۔ وہ تبدیل کرنے کا کہیں گے لیکن میں پیسے واپس لوں گی”۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرا رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سیریز میں سائنس، بزنس اور آرٹس میں لچکدار سوچ کی فتوحات کا ذکر تھا لیکن یہ ہماری زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات کی سوچ ہے۔ ویسی ترکیب جو میری والدہ کو سوجھی تھی۔
“جہاں پر ارادہ ہو، وہاں پر راہ نکالی جا سکتی ہے”
میرے والدہ کا یہ فقرہ اس کتاب کا خلاصہ سمجھا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں بہت سے چیلنج کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار یہ ناقابلِ عبور رکاوٹیں لگتی ہیں۔ لیکن انسانی ذہن کو وقت دیا جائے اور اسے پنپنے کے مواقع دئے جائیں تو یہ ایسے ان گنت مسائل حل کر چکا ہے۔
جس وقت میری والدہ کو خراب بلینڈر ملا تھا، ان کے دماغ میں آپشن تلاش کرنے کی کوشش شروع ہو گئی تھی۔ انعامی نظام نے ان کی سوچ کو متحرک کیا تھا۔ اس وقت تک جب تک اپنے پیسے واپس لینے کا طریقہ نہ سوجھ جائے۔ نیورونز کے ڈیفالٹ نیٹورک نے ایسوسی ایشن بنائی تھیں جن سے یہ ہوشیار سکیم نکلی تھی۔ جبکہ ان کے ایگزیکٹو سٹرکچر نے ان کی توجہ اسے حل کرنے پر رکھی تھی اور کوگنیٹو چھلنی نے بہت سے فضول خیالات کا سیلاب روکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری والدہ کی عمر اب پچانوے برس ہے۔ حالیہ برسوں میں ان کے ذہن پر دھند چھانے لگی ہے جو کہ گہری ہو رہی ہے۔ اب ان کے لئے نئے خیالات پیدا کرنا مشکل ہے۔ نئے تصوراتی سوچ محال ہے۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ یہ اس لئے ہے کہ نیورونز کے کنکشن ضائع ہو رہے ہیں۔ سٹرکچرز کے درمیان رابطے کم ہیں۔ جب ہم بوڑھے ہوتے ہیں تو یہ سب کمزور ہونے لگتا ہے۔ یہ تال میل ٹوٹنے لگتا ہے۔
اس کتاب میں میں نے اس پراسس کے بارے میں بتانے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے کہ جب تک ہمارے پاس یہ صلاحیت اپنے جوبن پر ہے، اس کا بھرپور فائدہ اٹھا لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک اور بات کا اضافہ۔ لچکدار سوچ کس کے لئے کس طریقے سے کام کرتی ہے؟ یہ یکساں نہیں۔ انسانی ذہن منفرد ہیں۔ میں نے دیپک چوپڑا کو دیکھا ہے کہ ان کا ذہن ٹرین اور جہاز کے شور میں نئے خیالات پیدا کرتا ہے اور وہ اس وقت کتاب لکھتے ہیں۔ رچرڈ فائنمین اس وقت اپنے خیالات کاغذ پر لکھتے تھے جب وہ کلب میں سیون اپ کی چسکیاں لے رہے ہوتے تھے۔ جبکہ گارفیلڈ کارٹون کے خالق جم ڈیوس خود کو کئی دنوں تک کمرے میں بند کر لیتے تھے تا کہ کسی نئی چیز پر کام کر سکیں۔ جوناتھن فرینزن دفتر میں تنہائی میں کام کرتے تھے اور یہ اتنا نازک ہوتا تھا کہ مائیکرووو بند ہونے کی آواز ان کے خیالات کا سلسلہ توڑ دیتی تھی۔ میں خود اس وقت نئے خیالات پر کام نہیں کر سکتا جب مجھ پر وقت کا کسی بھی قسم کا دباؤ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمارے یہ فرق وہ وجہ ہیں کہ خود اپنے آپ کو جاننا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے بارے میں غور کر کے خود آگاہی حاصل کر سکیں۔ مائنڈفّل ہو سکیں اور یہ دریافت کر لیں کہ ہم کیسے کام کرتے ہیں تو پھر ہم وہ طریقے اپنا سکتے ہیں جو ہمارے لئے کام کریں۔ یہ راہنمائی کوئی بھی اور نہیں کر سکتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...