جاگتےجاگتے ___ اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہے مگر سانس رکی ہو جیسے
ایک لمحے میں سمٹ آیا صدیوں کا سفر
زندگی تیز ___ بہت تیز چلی ہو جیسے
اگلی صبح آفندی ہاؤس کے مکینوں کے لیۓ عام دنوں سے ہٹ کر تھی کیونکہ رات میں رمشا کی وجہ سے انھیں بہت شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔ علی احمد آفندی تو رمشا کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ تھے جبکہ رمشا نے مشال آفندی سے اپنے کیۓ پر معافی مانگ لی تھی۔ ماں کا دل اپنی بیٹی کے لیۓ نرم پڑ گیا تو انھوں نے معاف کر دیا۔
“کتنا پیار دیا تھا ہم نے رمشا کو۔۔ ہر ضد پوری کی تھی اور بدلے میں ہمیں کیا ملا۔۔۔۔؟ ذلت اور رسوائی۔۔۔ ساری ساکھ مٹی میں مل گئی ہماری۔۔” کھانے کی میز پر علی احمد آفندی بولنے لگی۔۔
“بچی ہے۔۔۔ غلطی ہو گئی ہے۔۔۔ معافی مانگ رہی ہے اب تو معاف کر دیں۔۔ اس طرح مشی سے منہ مت موڑیں۔۔۔” مشال آفندی نے اپنے شریک حیات کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔۔
“اتنی ہی بچی تھی رمشا تو خود کیوں نہیں آ گئی نکاح کرنے۔۔۔ خدا جانے کیا کہہ کر اس معصوم رانیہ کو مجبور کیا ہو گا۔” علی احمد آفندی کو مشال آفندی کی بے جا حمایت پسند نہیں آئی۔
“میں کیا کہہ سکتی ہوں اب۔۔۔ اگر معاف کر دیتے تو مشی دوبارہ۔۔۔۔” علی احمد آفندی نے ہاتھ کے اشارے سے مشال آفندی کو چپ کروا دیا۔۔۔
*————————–*
آفندی ہاؤس سے نکلنے کے بعد شہریار آفریدی نے گاڑی اتنی ریش ڈرائیو کی کہ تانیہ کو لگا اب وہ دونوں گھر نہیں پہنچ سکیں گے۔۔
“میں آپ کو یہ بھی نہیں کہوں گی کہ گاڑی آہستہ کریں کیونکہ آپ کے ساتھ تو موت بھی قبول ہے شہریار صاحب۔۔۔۔” شہریار آفریدی کو دیکھ کر تانیہ دل میں مخاطب ہوئی۔
وہ لوگ صحیح سلامت گھر پہنچ گۓ۔۔۔ شہریار آفریدی سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔ اتنا غضبناک چہرہ تو تانیہ نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا اسی لیۓ وہ پریشان ہو گئی۔۔۔
“اوہ ہاں ہم لیٹ پہنچے تھے ناں شادی پر اسی لیۓ شہریار صاحب پریشان ہو گۓ ہوں گے۔۔۔۔ میں جلدی سے چاۓ بنا کر دیتی ہوں تو کیسے فریش ہو جائیں گے جی۔۔۔۔” تانیہ سیدھی کچن میں چاۓ بنانے گئی اور کچھ ہی دیر میں شہریار آفریدی کے کمرے میں پہنچ گئی۔۔۔۔
شہریار آفریدی انہی کپڑوں اور بوٹوں سمیت بیڈ پر دراز لیٹا تھا جو وہ شادی پر پہن کر گیا تھا۔۔۔ وہ اپنے ہاتھوں سے کنپٹی سہلا رہا تھا۔۔۔
“وہ جی۔۔۔ یہ۔۔۔ چاۓ۔۔۔۔” تانیہ سائیڈ ٹیبل پر چاۓ رکھتے ہوۓ اٹک اٹک کر بولی۔۔۔
“کسی کے کمرے میں آنے سے پہلے دروازہ ناک کر کے آتے ہیں۔۔۔ تمیز نہیں سکھائی تمہیں کسی نے۔۔۔؟؟ دفع ہو جاؤ۔۔۔” شہریار آفریدی تو جیسے پھٹ ہی پڑا تھا۔۔ اتنے غصے میں تانیہ نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا اسی لیۓ ڈر گئی۔۔۔
“مم۔۔۔ مم۔۔۔ سوری جی۔۔۔ غلطی۔۔۔ ہو گئی۔۔۔” تانیہ نے بمشکل لفظ ادا کیۓ اور روتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔۔
*———————–*
فرمان نواز نے رانیہ کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔۔
“السلام علیکم انکل۔۔۔۔ آ جائیں اندر۔۔” تانیہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی, فوراً اٹھ کر فرمان نواز کے پاس آ گئی۔۔۔
“جیتی رہو بیٹا۔۔۔ ہمیشہ خوش رہو۔۔۔” فرمان نواز رانیہ کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہنے لگے۔
“یہاں کسی چیز کی پریشانی تو نہیں ہے بیٹا آپ کو۔۔۔۔؟؟؟”
“آپ سے کیا کہہ سکتی ہوں انکل۔۔۔ میں تو خود شاید آپ لوگوں کے لیۓ پریشانی۔۔۔” رانیہ دل میں سوچنے لگی مگر بولی۔۔۔
“نہیں انکل کسی بھی چیز کی نہیں۔۔۔ وہ آپ سے ایک ریکیوسٹ کرنی تھی۔۔۔”
“بولو بیٹا کیا بات ہے۔۔۔ آپ کا اپنا گھر ہے یہ۔۔ کھل کے بتائیں۔”
“وہ میری بہن اکیلی ہے گھر۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس سے مل آؤں جا کر۔۔” رانیہ نے سوچ لیا تھا کہ وہ مہرین سے مل کر اسے میڈم جویریہ کے پاس بھیج دی کی کیونکہ وہ اسے ان گھر والوں پر بوجھ نہیں بنانا چاہتی تھی۔۔
“آپ کی بہن بھی ہے۔۔؟؟ کیا نام ہے اس کا۔۔۔؟ کتنے سال کی ہے وہ۔۔۔؟؟” فرمان صاحب کی آنکھوں میں چمک در آئی اور ایک ہی سانس میں انھوں نے اتنے سوال پوچھ لیۓ۔۔
“مہرین نام ہے اور وہ مجھ سے دو سال چھوٹی ہے۔۔ اس کے پیدا ہونے کے ایک سال بعد ہی ابو اللہ کے پاس چلے گۓ اور پھر میں ایف اے میں تھی جب امی۔۔۔۔” جانے کیا سوچ کر رانیہ نے اتنا کچھ بول دیا۔۔ بعد میں وہ کافی شرمندہ ہونے لگی تو معذرت کر لی۔۔۔
“میں آپ کے ساتھ جاؤں گا بیٹا۔۔۔ ہم اسے بھی یہیں لے آئیں گے۔۔ اس گھر میں وہ آرام سے رہ سکتی ہے۔۔” فرمان نواز نے بہت پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔ رانیہ کو اس شخص میں اپنے ابو کا چہرہ نظر آنے لگا۔۔۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔
ناشتے کے بعد رانیہ فرمان نواز کے ساتھ اپنے گھر آ گئی تھی۔۔۔ مہرین سے مل مر وہ بہت روئی۔۔ ایسا لگ رہا تھا سالوں بعد دونوں ملی ہوں۔۔۔ ان دونوں نے اپنا ضروری سامان ساتھ رکھا اور باہر آ گئیں جہاں فرمان نواز ان کے انتظار میں تھے۔۔۔۔ گھر کو تالا لگاتے ہوۓ رانیہ نے خود پر بہت ضبط کیا تھا۔۔۔
*————————*
ہم نے کیسے کیا تجھے رخصت ۔۔۔
یہ بڑے حوصلے کی باتیں ہیں ۔۔۔
شہریار آفریدی نے ساری رات کانٹوں پر گزاری مگر اگلی صبح اس کے چہرے پر رات کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔۔۔ جو ہوا اس میں تانیہ کا کوئی قصور نہیں تھا یہی سوچ کر اسے تانیہ کے ساتھ رویے پر بھی شرمندگی ہونے لگی۔۔ اس نے تانیہ کے کمرے میں جا کر اس سے معذرت کی جسے تانیہ نے قبول کر لیا۔۔۔
“میں آپ سے کبھی ناراض نہیں ہو سکتی جی۔۔۔ بس رات کو تھوڑا سا دکھ ہوا تھا۔۔۔ دل کو سمجھایا کہ چاند کی تمنا کرنا چھوڑ دے ورنہ خسارہ اٹھاۓ گا۔۔ پاگل پتا ہے کیا کہتا ہے۔۔۔؟؟؟”
“کیا کہتا ہے پھر دل۔۔۔۔؟؟” شہریار آفریدی تانیہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ پوچھنے لگا۔۔۔
“بھلا محبوب کی تمنا بھی چھوڑی جاتی ہے پگلی۔۔۔ محبت کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔۔۔ یہاں نفع نقصان نہیں دیکھا جاتا۔۔ ہو جاۓ تو بھی نفع۔۔۔ نہ ہو تو بھی۔۔۔” تانیہ اپنی ہی بات پر ہنس دی۔۔۔
*————————-*
رمشا شام کو ایبک کے فلیٹ میں موجود تھی۔۔ ان دونوں نے آج کورٹ میرج کر لی تھی اور وہ اپنی زندگی سے بہت مطمئن نظر آ رہی تھی۔۔
“تم سے شادی میں نے صرف اس لیۓ کی ہے کہ رومیسہ کو سزا دے سکوں۔۔۔ ورنہ کہاں تم اور کہاں رامش۔۔۔” جانے کیوں رمشا اس وقت ایبک کا موازنہ رامش سے کر بیٹھی اور پھر ایک تلخ ہنسی ہنس دی۔۔۔۔
“آج میں بہت خوش ہوں رمشا۔۔۔ اتنا خوش کہ تمہیں بتا بھی نہیں سکتا۔۔ آئی لو یُو سو مچ مائی پریٹی وائف۔ کاش تم میری زندگی میں پہلے آ گئی ہوتی۔ ” ایبک نے رمشا کو اپنے قریب کر دیا۔۔۔ رمشا کو اس کے وجود سے وحشت ہونے لگی مگر شادی کے کچھ تقاضے تھے جو بہر حال پورے تو کرنے تھے۔۔ اس نے خود کو ایبک کے حوالے کر دیا۔۔۔
*————————-*
بسا کے خود کو میری آنکھوں میں کہاں چلے ہو
یہ شہرِ عشق ہے _____ یہاں ہجرت نہیں ہوتی
شہریار آفریدی اپنے کسی ضروری کام سے گولڑہ شریف والی سائیڈ آیا ہوا تھا۔۔ واپسی پر سوچا کہ اتنے پاس آ گیا ہوں تو دربار حاضری دے دیتا ہوں۔۔۔ دعا کرنے کے بعد وہ باہر نکلا تو وہاں کوئی بابا جی نظر آۓ۔۔
“کھینچ لائی نہ تجھے محبوب کی طلب۔۔ تو سمجھتا کیوں نہیں کہ جو تیرے مقدر میں نہیں وہ نہیں ملے گا۔۔۔ مقدر سے لڑنا چھوڑ دے۔۔۔۔”
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بابا جی۔۔” شہریار آفریدی ان بابا کے تھوڑا قریب ہو گیا ۔۔
“وہی جو تو نے سنا۔۔ جس سے تو نے عشق کیا وہ تجھے نہیں ملی ناں۔۔۔ تو اس کے پاس کیوں نہیں چلا جاتا نو تجھ سے عشق کرتی ہے۔۔۔” بابا جی ہنستے ہوۓ بولے۔۔
“عشق تو ایک سے ہوتا ہے ناں بابا تو کیسے بھول جاؤں اسے۔۔۔۔۔؟”
“اسے نہیں بھول سکتا مت بھول۔۔۔ کسی اور کو زندگی میں لے آ تو۔۔۔ وہ خود بخود مرہم بن جاۓ گی تیرے دکھ کا۔۔۔” بابا جی اپنے چاشنی بھرے لہجے میں سمجھانے لگے۔۔
“یہ تو بے وفائی ہو جاۓ گی بابا۔۔۔۔” شہریار آفریدی یکدم بولا۔
“زندگی سے بڑا بے وفا کون ہوتا ہے بچے۔۔۔ رب کے بندوں کو سکون میں رکھو تو رب تمہیں سکون میں رکھے گا۔۔۔۔”
“میں بے سکون نہیں ہوں بابا۔۔۔۔” شہریار آفریدی نے زبان سے بولا مگر دل جانتا تھا اسے کسی کروٹ سکون میسر نہیں۔
“تم خود سے جھوٹ بھول سکتے ہو مگر اس سے کیسے بولو گے۔۔۔۔؟؟ بابا جی آسمان کی طرف ہاتھ کے اشارے سے بتانے لگے۔۔۔ شہریار آفریدی نے آنکھیں جھکا لیں۔۔
“سچ کہہ رہے ہو بابا۔۔۔ مجھے اس کے بغیر سکون نہیں۔۔۔” شہریار آفریدی جھکے چہرے کے ساتھ بولا۔۔
“وہ تو چلی گئی بچے۔۔۔ اس معصوم کو مت جھٹکا کرو جو پاس ہے۔۔ عاشق ہے پگلی تیری۔۔ ٹوٹ جاتی ہے تیرے رویے سے۔۔۔ تو پھر جڑ نہیں سکتی۔۔۔۔” بابا جی ایکدم غمزدہ ہو گۓ۔۔
“کس کی بات کر رہے ہیں بابا جی۔۔” شہریار آفریدی کی سمجھ میں نہ آیا تو بولا۔۔۔
“وہی جو تیرے گھر میں ہے۔۔۔ جا اور بھر دے اس کی جھولی خوشیوں سے۔۔۔ تجھے بھی سکون مل جاۓ گا۔۔۔ اسے بھی۔۔” بابا جی اپنی بات ختم کر چکے تھے۔۔ شہریار آفریدی وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔۔۔
*————————*
رمشا کی شادی کا سن کر شرم کے مارے علی احمد آفندی اور مشال آفندی نے اپنے آبائی گھر کو خیر آباد کہہ دیا اور امریکہ چلے گۓ۔ ان کے لیۓ کافی تھا کہ وہاں انھیں رمشا کے حوالے سے کوئی نہیں جانتا۔۔
رمشا ایک دن گھر آئی تو وہاں اسے اجنبی چہرے نظر آئے۔۔ حیرانی سے اسنے علی احمد آفندی کا پوچھا تو نئے مالک مکان نے خوب عزت افزائی کی۔۔
“جن کی بیٹیاں اپنے نکاح پر اپنی سہیلی کو بٹھا دیں اور تھوڑے دن بعد ایک عیسائی سے شادی کر لیں تو ایسے ماں باپ شرم سے مر جاتے ہیں۔۔ تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہارے والدین کسی اور جگہ چلے گۓ ہیں۔۔۔۔” رمشا نے یکدم گاڑی دوڑائی اور وہاں سے چلی گئی۔۔
*————————*
رانیہ اور رامش ایک کمرے میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے لیۓ اجنبی تھے۔۔ آپس میں ان کی کوئی خاص بات نہ ہوتی تھی۔۔ رانیہ, رامش کی ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتی تھی اسی لیۓ کچھ نہ بولتی تھی ورنہ اس کا دل کرتا کہ رامش اس سے بات کرے, اپنا درد اس سے بانٹے۔۔۔ کیونکہ دونوں کا درد تو مشترکہ تھا۔۔
رانیہ ابھی تک اپنے اور فرمان نواز کے رشتے کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ رمشا نے اس پر جو زیادتی کی ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیۓ فرمان نواز اسے اتنا پیار دے رہے ہیں۔۔۔
مہرین اور رانیہ باہر لان میں تھیں جب انھیں اندر سے شور کی آواز سنائی دی۔۔۔ وہ اندر کی جانب بھاگیں۔۔
“اچھا تو اسی لیۓ رانیہ کو بہو بنا کر لایۓ تھے آپ کہ یہ آپ کی معشوقہ کی نشانی ہے۔۔۔” دردانہ بیگم بہت طیش میں تھیں۔۔۔ ان کی زبان سے انگارے برس رہے تھے۔۔۔
“اپنی زبان کو لگام دیں دردانہ بیگم ورنہ۔۔۔۔۔” فرمان نواز نے ایک تھپڑ ان کے گال پر رسید کیا۔۔۔
“ورنہ کیا۔۔۔ طلاق دے دیں گے۔۔۔ دیں طلاق۔۔۔ میں بھی تو دیکھوں اس کل کی آئی لڑکی کی وجہ سے آپ کیسے مجھے طلاق دیتے ہیں۔۔” دردانہ بیگم, فرمان نواز کا ضبط آزمانے چلی تھیں۔۔۔ فرمان نواز باہر نکل گۓ۔۔۔ وہ رانیہ اور مہرین سے نظر نہیں ملا سکتے تھے۔۔۔۔
“جانتی ہو تمہاری ماں کتنی کمینی تھی۔۔۔ میرے گھر میں رہتے ہوۓ میرے ہی خاوند پر ڈیرے ڈال رہی تھی۔۔۔” دردانہ بیگم تیر برسا رہی تھیں۔۔۔
“بس کر دیں آنٹی۔۔۔۔ اللہ کا واسطہ ہے آپ کو میری ماں پر ایسی تہمت مت لگائیں۔۔۔” رانیہ نے دردانہ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔
“یہ تہمت نہیں حقیقت ہے لڑکی۔۔۔ تمہاری ماں اس گھر کی چھوٹی بہو تھی اور اپنی نیچ حرکتوں کی وجہ سے دھکے دے کر نکالا تھا اماں نے اس گھر سے۔۔۔۔” دردانہ بیگم نے رانیہ کے ہاتھوں کو پرے جھٹکا۔۔
“بس کر دیں آنٹی۔۔۔ پلیز مزید ایک لفظ بھی امی کے بارے میں کہا تو۔۔۔۔” مہرین,دردانہ بیگم کے عین سامنے آ گئی۔۔۔
“تو کیا کرے گی تُو۔۔۔ چڑیا جتنی تو ہے تُو اور زبان دیکھ۔۔۔ بولنے دو آج مجھے۔۔۔ تمہاری ماں فرمان صاحب کے ساتھ منہ کالا کرتے ہوۓ پکڑے گئی تھی۔۔ اسی لیۓ تو نکالی گئی تھی یہاں سے۔۔۔ اتنے سال جس کالے ساۓ سے بچنے کی دعا کی تھی وہ ایک بار پھر سے ہماری زندگی میں آ گیا۔۔۔”
اس سے آگے سننے کی سکت نہیں تھی دونوں بہنوں میں کیونکہ کچھ سننے کو بچا ہی نہیں تھا۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اندر کمرے میں آ گئیں۔۔۔ آنسو تھے کہ کسی صورت رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔ آج انکشافات کی رات تھی۔۔۔ باہر طوفانی بارش شروع ہو گئ تھی۔۔۔
*———————*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...