اُردو زبان و ادب میں ابھی بھی تحقیق کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ شاعری کے فن نے زمانۂ اوّل سے دور حاضر تک کئی اصناف، کئی تحریکیں، کئی رویے اور فکری نظام رواج پاتے رہے ہیں۔ ابھی تک ہر رخ کا خاطر خواہ تجزیاتی جائزہ نہیں ہوا ہے۔ اکثر تصانیف چند نام گن دیتی ہیں اور سرسری طور پر اس مرحلے سے گذر جاتی ہیں اللہ اللہ خیر صلّا۔
اب آپ صنف غزل کو ہی لیجیے۔۔ اس میں کیسی کیسی تشکیلاتی اور داخلی تبدیلیاں آتی رہی ہیں؟ کبھی مثنویوں کے رواں دواں دریا میں خوش کلامی کے لیے غزل داخل کر دی جاتی جو پس منظر سے اُبھر آتی رومان یا موسم یا جذبات کا ایک سمبل بن کر۔ کبھی قصائد میں شاعر کے خلاقی اور حسن بیان کا نمونہ بن کر۔ کبھی مزاح کے لیے ہزل کی شکل میں، خود سر جدیدیوں نے اینٹی غزل اور آزاد غزل کے تجربے کر ڈالے۔
غزل کبھی دربارِ معرفت میں حمد و نعت کی پر تقدیس روپ میں اور کبھی حبِ وطن و ادب برائے زندگی کے لیے چراغِ راہ رہی۔ کبھی سیاسی بانگِ درا، فلمی اور تفریحاتی ادب میں پیش پیش رہی۔ ان سارے بدلتے ہوئے رنگوں میں غزل کی صنف میں واضح ممیزات ملتے ہیں جن کا مطالعہ کارے دارد ہے۔
اس تناظر میں ایک اہم عنوان ’’غزل مسلسل‘‘ بھی ہے جو ہمیشہ ہر دور میں اُردو ادب کے ہم راہ رہی ہے۔ اس کو علاحدہ طور سے پڑھنے کی کوشش بہت کم ہی کی گئی ہے۔ یہ گوشہ بہت حد تک تشنہ رہا ہے۔ بہت اچھا ہوا کہ جعفر جری اس جانب ملتفت ہوئے۔
زیر نظر کتاب میں جعفر جری نے غزلِ مسلسل کا سیر حاصل جائزہ لیا ہے۔ غالباً اُردو میں اس موضوع پر یہ پہلی کتاب ہے۔ اب تک غزلِ مسلسل یا تو پس پردہ رہی یا مثنوی، قصیدہ یا کسی اور صنف میں مدغم ہو کر عیاں طور سے اُبھر نہیں آئی تھی۔ جعفر جری نے اس تصنیف کے واسطے سے غزلِ مسلسل کو پیش منظر لانے کی کوشش کی ہے، خوش آئند اقدام ہے
جعفر جری ایک کامیاب اور تازہ کار ادیب و شاعر ہیں، جن کی تحریروں سے گہری تحقیق اور دیدہ وری عیاں ہوتی ہے۔ ہر مضمون کو وہ تجزیے اور منطق سے آراستہ کر کے قیمتی بنا دیتے ہیں، میں نے ہمیشہ ان کے مضامین شوق سے پڑھے ہیں۔ جعفر جری کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اپنی تحریروں میں کاملیت اور بہتری کے کوشاں رہتے ہیں، اُنھیں ترتیب و تالیف کا خاصا تجربہ ہے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی کتابوں کا انداز دلکش ہو اور اُن کی نثر راست اور واضح رہے۔ بے جا عبارت آرائی اور غیر متعلق بحث و تمحیص سے احتراز برتا ہے۔ اس طرح اُن کی یہ کتاب ایک قابلِ ذکر اکائی بن کر اُبھری ہے۔
اس کتاب کے مشمولہ مختلف عناوین، سطحوں اور مناسب مثالوں کے جائزوں سے معنون ہے، جس کی ترتیب میں جعفر جری نے توازن اور خوش اُسلوبی کو پیش نظر رکھا ہے۔ مضامین میں ان کے منتخب غزلیاتِ مسلسل، اشعار اور اقتباسات ان کے عمیق تحلیل و تجزیہ کے لیے ممد و معاون ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ان کی قوت ترسیل کی صلاحیت کے دلیل ہیں۔
جعفر جری کا تحقیقی طریقۂ کار اُن کی فکری منظم مزاجی کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اپنے منتخبہ موضوع پر اطمینان بخش طرز سے گفتگو کرنے کے لیے میری دانست میں اُنھوں نے درجِ ذیل زاویوں سے نگاہ ڈالی ہے:
(۱) اس تصنیف میں غزل اور غزلِ مسلسل کے تخلیقی عوامل اور اُن اصناف کا تحلیلی جائزہ اور شناخت کو خصوصی طور پر زیر بحث لایا گیا ہے۔ غزل کس طرح معرض وجود میں آ ئی اُس کے ارتقائی مدارج اور مراحل اس مقالہ میں زیرِ بیان آئے ہیں۔
(۲) مصنف نے عہد قدیم سے لے کر امروز تک شعری سرمایے کا جائزہ لیا ہے غزلِ مسلسل اُردو شاعری میں اوائل سے کن کن صورتوں میں مستعمل اور جلوہ گر رہی ہے۔ اور اُن وجوہ و اسباب پر سرسری نظر ڈالی ہے جن کی بناء پر یہ صنف ہمیشہ سے شاعر کے جذبات کو رواں دواں انداز میں ترسیل کی راہ فراہم کرتی رہی ہے۔
(۳) لب و لہجہ، ڈکشن، لسانی رویّہ، طوالت اور ردیف و قافیہ کے التزامات بھی اس جائزہ میں زیر بحث آئے ہیں۔ مختلف اہم نقاط پر مفصل اظہار اس کتاب میں شریک کیا گیا ہے۔ یہ سب نکتے مناسب اُسلوب سے عبارت میں مدغم کر کے اختصار سے پیش کر دئے گئے ہیں۔
(۴) مصنف نے ادب کے ہر دور میں مروج غزلِ مسلسل کو مثالوں اور تشریحی جائزوں کے ذریعے واضح کیا ہے۔ شعر کی تفہیم کے لیے وہ فی بطن شاعر کی کیفیت اپنا لیتے ہیں اور بہت سہل اور دل چسپ انداز میں سلیس طور پر کرتے ہیں۔ مجھے اُن کا یہ انداز پسند آیا۔ مثال کے طور پر تحریر کے یہ گوشے دیکھیے:
۱۔ قلی قطب شاہ کی غزل مسلسل جس کا مطلع ہے:
مدن مست بدن مست کجن مست کنچن مست پری مست
ہوئی مست پون مست لگن مست پری مست
اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قلی قطب شاہ نے اس غزل میں اپنی محبوبہ کے ناز و انداز اس کی مستیوں، اداؤں اور شیفتگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے لفظ مست کی تکرار سے ایک سماں باندھ دیا ہے۔ ہر ایک مصرعے میں چار چار مرتبہ لفظ مست کا استعمال غزل کی ساری فضاء کو گویا مستیوں سے بھر دیتا ہے۔ لفظ مست کے استعمال سے جو فضاء تخلیق کی گئی ہے اس میں بہ تدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بعد کا تسلسل اس غزل کو غزلِ مسلسل کی صورت دے دیتا ہے۔ شاعر کو لفظ مست کی تکرار کچھ اتنی مرغوب ہے کہ اس کو مدن مست، پون مست، اور ڈولی ہی مست دکھائی نہیں دیتے گزک اور نقل بھی مست دکھائی دیتے ہیں حتیٰ کہ کنول اور بھنور بھی مست کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ مقطع میں تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ قطبؔ بھی مست ہو جاتا ہے۔‘‘
۲۔ حالیؔ کی غزل مسلسل جس کا مطلع ہے:
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اُٹھایا اُس کو بٹھا کے چھوڑا
اس غزل کا خوبصورت تجزیہ دیکھیے:
’’اس غزلِ مسلسل میں حالیؔ نے عشق کو موضوع بنایا ہے بلکہ یوں کہیے کہ عشق بہ طور کردار کے یہاں اُبھر آتا ہے اور اس کی وجہ سے عام و خاص کو جن مصائب و آلام سے گزرنا پڑتا ہے، اُن کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ حالیؔ کہتے ہیں کہ اس عشق کی وجہ سے کئی قومیں فنا ہو گئیں، جس گھر سے عشق کی ہنگامہ آرائی شروع ہوئی وہ گھر ویران ہو گیا، دوست دشمن سب عشق سے خوف زدہ ہیں اور جو بھی اس کے مقابل آیا گویا اُس کا خاتمہ ہو گیا۔ عشق وہ ہے کہ جس کی زد میں آ کر راجاؤں کے راج ختم ہوئے، بادشاہوں کے تاج گرے اور وہ لوگ جو فخر و غرور سے رہتے تھے، گردنوں کو اکڑی رکھتے تھے، اُن کی گردنیں جھک گئیں۔‘‘
۳۔ مخدومؔ محی الدین کی شہرہ آفاق غزل:
پھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی
اس غزل پر ان کی تحریر دیکھیے:
’’اس غزلِ مسلسل میں پھولوں کی رعایت سے مخدومؔ نے کئی کئی پہلو تراشے اور بات میں بات پیدا کی ہے۔ زبان اور اندازِ بیان انتہائی سہل و سادہ کہ غزل ادھر پڑھی اور اُدھر قاری کے دل میں جگہ بنا لی۔ یہاں مخدومؔ کہتے ہیں کہ رات کا وقت ہے پھولوں کی بات چھڑ گ ئی ہے، پھول بھی اتنے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ رات نہیں پھولوں کی بارات ہے۔ جدھر دیکھیے پھول کے گجرے ہیں، شام بھی پھولوں سے بھری ہے اور رات بھی پھولوں سے لدی ہوئی ہے۔ ایسے میں محبوب کا ساتھ نہیں پھول کا ساتھ معلوم ہوتا ہے اور محبوب کی بات بھی پھولوں کی بات لگتی ہے۔ محبوب سے نظریں ملتی ہیں، شراب کے دور چلتے ہیں گویا پھولوں کو یہ زندگی مل رہی ہے، کون ہے جو پھول پر جان دیتا ہے اور کون ہے جو پھولوں کی بات کرتا ہے۔ تہذیبی قدریں بھی اپنا رنگ بدل رہی ہیں، شریفانہ اندازِ دل کے ساتھ گویا پھولوں کی کائنات لٹ گئی۔ ایسے میں کون ہو گا جو تہمتِ عشق کی سوچے اور جو پھولوں کی بات سنے، لیکن میرے دل میں صبحِ بہار کے کیف و سرور کا عالم ہے اور محبوب کی آنکھوں میں پھولوں کی راتیں مہک رہی ہیں، جب پھول ہیں تو دنیا میں کھلتے رہیں گے اور روز پھولوں کی بات نکلے گی۔ آخر میں مخدومؔ کہتے ہیں کہ اُن کی یہ پھولوں سے مہکتی ہوئی غزل ایسی ہے جیسے صحرا میں پھولوں کی رات اُتر آئی ہو۔‘‘
ان تینوں مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ جعفر جری نے توضیح کا طریقۂ کار بڑی خوبی سے منتخب کیا ہے سہل اور راست۔ میرے خیال میں اس طرح کتاب کی عبارت، پڑھنے والے کو جوڑے رکھتی ہے۔
ہر عبارت میں مثالوں کو کافی جستجو سے منتخب کیا گیا ہے، ہر دور میں غزلِ مسلسل کی نوعیت اور روپ پیش نظر آ جا تے ہیں اور اس طرح بالواسطہ ہر دور کا تعارف جھلکیوں میں ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دوران زبان و بیان کے بدلتے ہوئے پہلو بھی واضح ہو جاتے ہیں۔
جعفرجری نے ایک نو آمدہ ادیب اور محقق کے طور پر یہ کتاب کافی محنت، جستجو اور دیدہ ریزی سے لکھی ہے۔ ان کی یہ کاوش اُردو کے نئے قلم کاروں کے فنِ تحقیق سے خلوص کی ایک کامیاب مثال ہے۔ اور تحقیق و تصنیف کے مستقبل پر اعتبار پختہ تر ہو جاتا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کے داستانوں سے لے کر آج کے عہد تک غزلِ مسلسل مختلف حیثیتوں سے شاعروں کے کلام میں پیوست رہی ہے، حالاں کہ زورِ بیان، پسِ منظر کی آئینہ داری اور شاعر کے بلاواسطہ اظہار کا ذریعہ ثابت ہوئی ہے۔ جعفر جری کی یہ کاوش اس سمت کی مضبوط وکالت کرتی ہے، اور اس طرح شعر کے اُسلوبیاتی مطالعہ میں ایک مناسب اضافہ کر دیا ہے۔
میرا مجموعی تاثر ہے کہ وہ اپنے مقصود موضوع کے ساتھ ممکنہ انصاف برتتے ہیں، ان کی تحریر سے غزلِ مسلسل کی ساری صفات اور خصوصیات واضح طور پر منشرح ہو جاتی ہے۔ میں جعفر جری کو اس کامیاب اُسلوب کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بلا شبہ غزلِ مسلسل کے اسکالرس کے لیے یہ کتاب عمدہ ریفرنس اور حوالہ کی تحریر ہے۔ جعفرجری اس اہم تحقیق کے لیے قابلِ تحسین ہیں، اُمید کہ معیاری کتابوں کے قارئین اس کتاب کو شوق و ذوق سے پڑھیں گے۔
٭٭٭