آفتاب یہ کہہ کر خاموش ہوگیا اور ایک طرف خلا میں گھورنے لگا۔
میں یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
ایسے لگ رہا تھا وہ کسی سے خاموشی کی زبان میں گفتگو کر رہا ہے۔
کچھ دیر وہ چپ رہا جیسے وہ اپنی سوچوں کو مجتمع کر رہا ہو۔
پھر میری طرف دیکھ کر بولا!
معذرت چاہتا ہوں جناب مجھے ضروری کام ہے۔
مجھے جانا پڑے گا۔
اور پھر تاریکی میں گم ہوگیا۔
جادوئی دنیا کا نام ہی دل میں تجسس پیدا کر دیتا ہے۔
ہر دل کی حسرت ہوتی ہے کہ اسکے پاس کچھ ایسا ہو جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز ٹھہرے۔
مگر لاکھوں میں ایک دو افراد ایسے ہوتے ہیں جن کی حسرتوں پر یاس کی بجائے تکمیل کا ناقوس بجایا جاتا ہے۔
آفتاب بھی انھی میں سے تھا۔
مگر ایسے افراد اپنی ناتمام حسرتیں تو مکمل کر لیتے ہیں لیکن اسکے بدلے بہت کچھ کھو دیتے ہیں۔
شاید سب کی نظروں میں مر جانا پڑتا ہے۔
میں ساری رات آفتاب کے بارے میں سوچتا رہا۔
پتا نہیں وہ کیسے کیسے حالات سے گزرا ہوگا۔
پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کل اس سے یہ پوچھوں گا کہ اسنے کتنا جادو سیکھا ہے۔
اگلے دن، میں مقررہ وقت پر بینچ پر موجود تھا۔
کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی آفتاب نہیں آیا۔
میں مایوس ہو کر ایک طرف چل پڑا۔
ابھی پارک کے مین گیٹ پر پہنچا ہی تھا کہ مجھے ایک طرف سے آفتاب آتا دکھائی دیا۔
اسکا رنگ بالکل پیلا ہو رہا تھا۔
اسکی جسمانی حالت دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے بغیر روح کے کوئی زندہ لاش چل رہی ہو۔
مجھے آفتاب سے ڈر لگنے لگا۔
وہ مجھے دیکھ چکا تھا، وہ میری طرف چل پڑا،
قریب آکر مجھ سے معذرت کی، پر میرے حالات کافی خراب ہو چکے تھے۔
میں ڈرنے لگا تھا۔
اندھیرا چھا چکا تھا پھر آہستہ آہستہ میں نے خود کو سنبھالا،
اس دوران پتا نہیں وہ کیا کیا کہہ چکا تھا۔
مجھے اس وقت ہوش آیا جب وہ میرا نام پکار رہا تھا۔
وہ مجھ سے میری طبیعت کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔
میں نے کہا کہ میرا سر بوجھل سا محسوس ہو رہا ہے۔
اگر زیادہ خراب ہو تو میں آپکو گھر چھوڑ دوں کہانی پھر کبھی سن لیجیے گا۔
نہیں نہیں اتنی بھی خراب نہیں ہے۔
کہانی کا نام سن کر میری حالت میں کچھ سدھار آگیا تھا۔
خیر ہم دوبارہ اسی بینچ پر پہنچ گئے۔
بینچ پر بیٹھ کر وہ میری طرف غور سے دیکھنے لگا۔
میں نے گڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھنے شروع کر دیا۔
پھر اس نے ایک لمبی ہوں کی،
اور مجھ سے پوچھا!
عامر صاحب مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جو لوگ خود ڈسے ہوئے ہوتے ہیں وہ دوسروں کو نہیں ڈستے۔
میں، میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہکلا کر رہ گیا۔
اچھا چھوڑیں اس بات کو!
امید ہے آپکو اس سوال کا جواب مل چکا ہوگا میں کتنا جادو جانتا ہوں۔
اور آگے میری داستان میں بھی آپ کو آہستہ آہستہ پتا چل جائے گا۔
میرے تو ہوش ہی اڑ گئے۔
یہ کیسا جادو تھا جس سے میرے دماغ میں آنے والے خیالات بھی پڑھ لیے تھے۔
جادو ایسا ہی ہوتا ہے وہ مسکرا پڑا۔
اوہ میری تو حیرت اور ڈر سے بری حالت ہوگئی تھی۔
میں سوچنے لگا کہ آفتاب نے تو میرے ذاتی زندگی کے بارے میں بھی پتا کر لیا ہوگا۔
ارے نہیں نہیں میں کسی کی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرتا۔
وہ تو آپ ڈرے ہوئے تھے میں نے آپکے خیالات جاننا مناسب سمجھا۔
آئندہ اگر آپ کہیں گے تو آپ کے خیالات کبھی نہیں پڑھوں گا۔
میں خود بھی ایسا ہی سوچ رہا تھا۔
بہت شکریہ جناب مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ میں اپنے ہی حمام میں برہنہ ہو گیا ہوں۔
شکریے کی کوئی بات نہیں! میرا حق بھی نہیں بنتا کہ آپ کے خیالات میں جھانکنا شروع کردوں۔
تو کہانی آگے شروع کرتے ہیں! میں نے کہا،
ہاں ضرور! اسنے جواب دیا۔
میں نے آج تک مکھی بھی نہیں ماری تھی کجا یہ کہ ایک انسان کو ماروں۔
ماہ نور کے وقتی جوش دلاؤ مہم نے مجھے ایک قاتل بننے کا حوصلہ تو دیا پر وہ وقتی تھا۔
میں “شُق” کے اڈے کے باہر کھڑا سوچ رہا تھا اور پھر مجھ پر کپکپی طاری ہونے لگی۔
میں واپس پلٹ جاتا مگر اسی دوران “شُق” کے غنڈے یا چیلے کہہ لیں وہ مجھے گھیر چکے تھے۔
اس وقت میں نے ایک بات نوٹ کی کہ سب کے چہرے سوگوار تھے۔
میں ذہنی طور پر مار کھانے کے لیے تیار ہو چکا تھا۔
لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب ان میں سے ایک میرے سامنے جھک کر سلام کرنے لگا اور کہنے لگا جناب “شُق” آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔
اور اگر میں نہ جاؤں تو!
تو ہم آپکو عزت سے جہاں آپ جانا چاہیں گے جانے دیں گے
اور ہاں نہ ملنے پر آپکا ہی نقصان ہوگا۔
جناب “شُق” جانتے ہیں کہ اپ یہاں کس ارادے سے آئے ہیں۔
مطلب جن لوگوں نے آپکو یہاں دوبارہ بھیجا ہے اور جس ارادے سے بھیجا ہے۔
وہ سب کچھ جناب “شُق” جانتے ہیں۔
اور یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کی شرٹ کے نیچے ایک خنجر موجود ہے۔
کیا بکواس کر رہے ہو تم!
میں بوکھلا گیا تھا،
میں واپس جا رہا ہوں۔
میں ایک طرف قدم اٹھایا اور یہ دیکھ کر میں حیران ہوگیا کہ وہ سب سر جھکا کر کھڑے رہے۔
پھر اچانک ایک شخص جو ان سب میں سینیر لگ رہا تھا۔
وہ آگے بڑھا اور بولا جناب وہ پوچھ رہے ہیں
کہ
کیا آپ اپنے بابا کی موت کا راز بھی نہیں جاننا چاہتے؟
میں جیسے قدم اٹھانا ہی بھول گیا تھا۔
میں ایسے اچھلا جیسے کسی بچھو نے مجھے ڈنک مارا ہو۔
بابا نے بچپن میں ہی مجھے بورڈنگ سکول بھیج دیا تھا۔
دو تین مہینوں بعد میں بابا سے ملنے گاؤں جاتا تھا۔
بابا سب گاؤں والوں سے الگ تھلگ رہتے تھے۔
پورے گاؤں میں سے صرف چاچا نظام دین تھے جو کبھی کبھار بابا سے ملنے آتے تھے۔
میری ماں نے مجھے زندگی کی طرف دھکیل کر خود موت کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
زندگی ایسے ہی چل رہی تھی میں تقریباً بارہ تیرہ سال کا تھا جب میں گاؤں پہنچا تو مجھے اندوہ ناک خبر ملی کہ بابا کا انتقال ہوگیا ہے۔
میں یہ سنتے ہی بے ہوش ہوگیا تھا۔
پھر جب ہوش آیا تو چاچا نظام دین ہی تھے جنھوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔
اور آج تک میرے کھیتوں کی آمدنی مجھے بھیج رہے ہیں۔
میں نے انسے کئی بار پوچھا کہ بابا کو کیا ہوا تھا۔
وہ یہی جواب دیتے کہ ایک دن تمھیں خود پتا چل جائے گا۔
پورا گاؤں مجھے دیکھ کر دور بھاگ جاتا تھا۔
بولنا تو دور کی بات گاؤں والے مجھے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
ہر زخم مندمل ہوجاتا ہے پر میرا بابا کی موت والا زخم مندمل نہ ہوسکا تھا۔
میں آج بھی بابا کی موت کے بارے میں سوچ کر کانپ جاتا تھا۔
اب جیسے ہی اس غنڈے کے منہ سے اپنے بابا کا نام سنا میں نے فوراً “شُق” سے ملنے کی حامی بھر لی اور اسکے ساتھ انکے اڈے میں چلا گیا۔
وہ سب مجھے ایک کمرے کے باہر چھوڑ کر جاچکے تھے۔
میں نے دروازے کو کھولا اور کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔
اندر “شُق” بستر بیٹھا تھا۔
وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ بیمار ہے کافی مگر پھر بھی ضبط کر کے بیٹھا ہوا تھا۔
اسنے ایک مسہری کی طرف اشارہ کر کے مجھے بیٹھنے کو کہا۔
تمھیں پتا ہے میں کچھ دیر میں مرنے والا ہوں؟
میرا سر بے اختیار نفی میں ہل گیا۔
ہاہا شاک لگا؟
لیکن یہ حقیقت ہے اور مارنے والے تم ہوگے۔
اور ہاں پر ایک بات ہے کہ وہ جو تم مارو گے وہ دوستانہ موت ہوگی دشمنوں والی نہیں۔
نہیں میں نہیں مار سکتا وہ وقتی جنون تھا۔
مجھے سب پتا ہے تمھیں کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
جن لوگوں سے تم مل چکے ہو تمھیں تو ابھی تک یہ بھی نہیں پتا کہ وہ ہیں کون۔
کیا مطلب،
ماہ نور اور “کُر” سب بکواس ہے۔
کیا مطلب تم میرے اندر کے خیالات کیسے پڑھ سکتے ہو جبکہ میرے دماغ کو تو خود ہی بلاک کیا تھا۔
ہاہاہاہاہا وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔
بلی نے شیر کو تمام گر سکھا دیے تھے مگر درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا تھا۔
تمھیں کچھ بتاتا ہوں اسکے بارے میں،
کالے جادو کی بھی کچھ حدیں ہوتی ہیں ہم وقتی طور پر پر کسی کے خیالات کو بہکا سکتے ہیں یا اپنے خیالات کے ذریعے اسکے دماغ کو قابو کر سکتے ہیں، لیکن اس وقت تک جب تک ہم منتر پڑھتے رہیں گے تب ہم کسی کو بھی خودکشی کے لیے مجبور کر سکتے ہیں لیکن دماغ کو مستقل قابو یا بلاک نہیں کرسکتے۔
مگر ایک طریقہ ہے
دماغ کو بلاک کرنے کے لیے،
وہ کیا؟
سفید جادو!
سفید جادو وہ ایک طریقہ ہے جس سے دماغ کو بلاک کیا جاسکتا ہے۔
مگر آپ تو “شُق” ہیں۔ آپ نے میرا دماغ کیسے بلاک کیا؟
اچھا سوال ہے۔
سفید جادو سے،
مگر آپ کے پاس سفید جادو کیسے آگیا؟
تمہارا باپ اور میں بہت اچھے دوست تھے۔
ایسے دوست کہ ایک دوسرے کے لیے جان لے بھی سکتے تھے اور دے بھی سکتے تھے۔
ہم جس گرو کے پاس جادو سیکھنے جاتے تھے اس کے پاس سفید جادو کے کچھ جادو تھے جو اسکے استاد نے اسے دیے تھے اور ہمارے استاد نے ہمیں اور پھر یہ سلسلہ آگے چلتا رہے گا اور چلتا آیا ہے۔
ہمیں اسی سفید جادو سے پتا چلتا ہے کہ ہماری موت قریب ہے۔
اور یہ جادو ایک قرض ہے جب تک یہ ہمارے پاس رہے گا ہم مر کر بھی چین نہیں پاتے۔
اسی لیے ہمیں ایک شخص کی تلاش ہوتی ہے جسے یہ قرضہ دیا جاتا ہے۔
پھر اس جادو کو جگانے کے لیے ہمیں مرنا پڑتا ہے اسی شخص کے ہاتھوں جس کو ہم اپنا جادو سونپ چکے ہوتے ہیں۔
ورنہ کوئی اور ہمیں مار دے تو جادو بیکار ہوجائے گا۔
ایک منٹ میں آپکی بات درمیان میں ٹوک رہا ہوں مجھے پہلے یہ بتائیں میرے بابا کالا جادو جانتے تھے۔
لو کوئی ایسا ویسا وہ ہم سب سے بہترین تھے۔
ہمارے گرو سب سے زیادہ اسے چاہتے تھے۔
اسے سب سے زیادہ شکتیاں دان کی تھیں۔
مجھے تو بہت کم ملا پر ہم دونوں نے اپنے زخمی گرو کو ایک خنجر سے مارا۔
اور اس طرح سفید جادو کا کچھ علم مجھے ملا باقی تمہارے باپ کو ملا۔
اور تمھیں پتا ہے اس گرو کو زخمی کرنے والا کون تھا؟
کون؟
لیلی!
لیلی کون ہے؟
وہی جس نے تمھارے باپ کو مارا۔
کیا!
بابا کی موت کا سن کر میرا دل دکھ سے بھر گیا۔
کون ہے یہ لیلی میں اسے جان سے ماردونگا۔
اسے تم مل کر آرہے ہو!
کیا! کیا؟
ماہ نور؟
ہاں وہی اسنے تم سے جھوٹ بولا،
اسکا نام ماہ نور نہیں لیلی ہے۔
مگر اسنے کیوں مارا؟
میرے اندر ماہ نور کی عقیدت کا جو بت تھا وہ ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
“شُق” بولتا رہا تھا۔
جادوئی دنیا میں اسکا سکہ چلتا ہے۔
وہ کالے جادو کے پانچویں درجے پر ہے۔
“وُومر” کہا جاتا ہے اس درجے کو۔
اور لیلی کو وُومرا کہا جاتا ہے اور ہاں وہ جوان بالکل نہیں ہے بہت بوڑھی ہے اتنی کہ اگر کوئی عام شخص اسکی اصلی شکل دیکھ لے تو ڈر سے مر جائے۔
دو سو سالوں سے زندہ ہے وہ۔
ہاں دو سو سال،
مگر ابھی تک اسے سفید جادو نہیں ملا۔
سفید جادو ایسے نہیں ملتا،
لیلی کو سفید جادو تک پہنچنے کے لیے عمر خضر کی ضرورت پڑے گی۔
اس لیے وہ آسان طریقے سے اسے پانا چاہتی ہے۔
اسکے لیے سفید جادو تک پہنچنے کا ایک ہی ذریعہ تھا۔
کہ جس گرو سے ہم جادو سیکھتے تھے کسی طرح اس تک اسکی پہنچ بھی ہوجائے۔
مگر اس گرو نے اسے دور سے دھتکار دیا۔
یہ چیز وہ سہہ نہ پائی۔
وہ بہت طاقتور ہے۔
اسنے اپنے تمام غلاموں سمیت ہمارے گرو پر حملہ کر دیا۔
ہمارے گرو اکیلے تھے سامنے فوج تھی پھر بھی انھوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
بہت خونریز جنگ ہوئی۔
ہمارے گرو پر ہر طرف سے حملے ہونا شروع ہو گئے۔
انھوں نے جوانمردی سے مقابلہ کیا۔
مگر وہ وومرا کے ہوتے ہوئے جیت نہیں سکتے تھے۔
اسکے انھیں قربانی دینی پڑتی۔
اپنے خون کی،
انھوں نے اپنی شہہ رگ کاٹ دی مگر لیلی کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔
اور پھر انکو اتنی طاقت ملی کہ لیلی جو کہ فوج لے کر آئی تھی اسکے ساتھ صرف ایک غلام ہی بچا جسے تم مل چکے ہو۔
اب لیلی اکیلے مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
اب وہ جنگ جیت چکے تھے۔
لیلی یعنی وُومرا کو وہاں سے بھگانے میں کامیاب ہوگئے۔
پر جب تک ہم وہاں پہنچے بہت خون بہہ چکا تھا۔
وہ موت کے قریب تھے۔
انھوں نے تمہارے بابا اور مجھے قریب بلا کر کچھ پھونکیں ماریں۔
وہ سفید جادو ہمیں دے چکے تھے۔
اسکے لیے ہمیں خود پر جبر کر کے انھیں مارنا پڑا۔
تمھارے بابا بہت روئے تھے۔
پر میں نے انھیں حوصلہ دیا۔
انھی دنوں تم اپنی ماں کے پیٹ میں تھے۔
اب لیلی کو پتا چل چکا تھا کہ سفید جادو ہم دونوں کے پاس ہے۔
میرے پاس کیونکہ بہت کم تھا۔
اس لیے اسنے میرے بجائے تمھارے باپ کو دھمکیاں دینے لگی۔
اسنے تمھاری موت کی دھمکی دی اور پھر تمہاری ماں کو مارنے کی دھمکی دی۔
تمھارے بابا نے تمھاری ماں کو ایک تعویذ بنا کر پہنا دیا۔
اب وُومرا تمھاری ماں کو چھو بھی نہیں سکتی تھی۔
یہ دیکھو!
“شُق” نے اپنے گلے میں موجود ایک تعویذ نکال کر مجھے دکھایا۔
مجھے بھی تمھارے بابا نے یہ بنا کر دیا تھا۔
اور آج تک میں اسی وجہ سے زندہ ہوں۔
لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے۔
جس رات تم پیدا ہونے والے تھے۔
محلے کی کچھ بوڑھیوں نے تمھارے بابا کو بتایا کہ بچہ آپریشن سے پیدا ہوگا۔
تمھارا بابا میرے پاس آیا تھا اس رات،
میری بیل گاڑی لے کر گیا تھا۔
مگر وہ جب میرے پاس تھا اسی وقت تمھاری ماں نے تمھیں جنم دیا۔
لیکن اسی دوران اسکا ہاتھ اپنے تعویذ پر پڑا اور وہ ٹوٹ گیا تھا۔
لیلی موقع کے انتظار میں تھی۔
اس کے پاس تمھارے باپ کو سبق سکھانے کا سنہری موقع تھا۔
شاید اس دن تمھاری ماں کی قضا آئی تھی۔
لیلی نے پتا نہیں کیوں تمھیں نہیں مارا۔
اسنے تمھاری ماں کو مارا اور بہت برے طریقے سے مارا۔
وہ تمھیں جنم دے کر خوش ہو کر تمھیں گود میں اٹھائے دیکھ رہی تھی۔
اسی دوران اسکے پاؤں سے آگ بھڑک اٹھی جو آہستہ آہستہ اسکے پورے جسم پر پھیل گئی۔
اسنے تمھیں ہاتھوں سے اچھال کر دور پھینک دیا تھا۔
وہاں پر موجود عورتوں نے پانی کی بالٹیاں بھر بھر کر اسکے اوپر پھینکی مگر وہ جادوئی آگ تھی۔
اسنے تمھاری ماں کو پورا جلا دیا۔
عورتوں نے تمھیں منحوس کہا کہ اسی کی وجہ سے اسکی ماں بری حالت میں مری۔
یہ ہم پر بھی نحوست لائے گا۔
یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے سارے لوگ تم سے ڈرتے تھے تمھیں منحوس کہتے تھے۔
اور اسی لیے تنگ آکر تمھارے بابا نے گھر گاؤں سے باہر بنا لیا۔
اب وہاں موجود عورتیں گھر سے بھاگنے والی تھیں کہ تمھارے بابا وہاں چیخ و پکار سن کر پہنچے۔
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...