(Last Updated On: )
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نئی شاعری پرانی شاعری سے مختلف ہے تو اختلاف کی وضاحت اور اس کے امتیاز کا اعلان ہو جاتا ہے۔ بہ طرزِ دیگر اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ نئی شاعری کے چند واضح اضلاع (Perimeters) پرانی شاعری سے مختلف ہیں۔ اب نئی شاعری نے کیا کیا تبدیلیاں پیش کیں اس کی توضیح ایک قسم کا تجزیاتی عمل ہے۔ نئی شاعری کی ابتداء کے بعد ایک وقفے تک تو اس کی نا مانوسیت، اجنبیت اور بغاوت کو نیم پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ لیکن ’’جو پتھر پہ پانی پڑے متصل‘‘ کے مصداق اب نئی شاعری کے علاوہ دوسری ہر شاعری ہماری نگاہ میں غیر دل چسپ اور اکتا دینے والی محسوس ہوتی ہے۔
نئی شاعری کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جو کوششیں ہوئی ہیں ان میں اہم ترین کتاب وزیر آغا کی ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ ہے۔ کتاب کا مقصد (جیسا کہ عنوان ہے) نئی اردو شاعری کی تخلیق کرنے والے ذہن کا مطالعہ ہے۔ اس تعمیر میں کن کن سماجیاتی محاکاتی اور حیاتی عناصر کا حصہ ہے۔ گویا کہ یہ کتاب اردو نئی شاعری کے تحت شعور کا جائزہ لیتی ہے۔ اس کے بعد سب سے قابلِ ذکر مضامین افتخار جالب کے ہیں جن کا پسندیدہ موضوع ترسیل و ابلاغ کے مسائل ہیں اور اسی طرح شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضامین اور تبصروں میں اظہار و لفظیات کو موضوع کے مقابل میں زیادہ اہمیت دی ہے۔ نئی شاعری کے موضوعات کا ذکر یوں تو بارہا آیا ہے ان کو اہمیت کم ہی دی گئی ہے۔ یہ بات صحیح بھی ہے۔ عمیق حنفی، بشرنواز، شکیل الرحمن اور فضیل جعفری نے مختلف سمتوں میں نظریات و موضوعات ادب کو مطالعے کے لیے منتخب کیا۔ ان ادیبوں میں شکیل الرحمن کا نقطۂ نظر شاعری کے نفسیاتی رخ پر ہے اور میدان کافی تخلیقی ہے۔ عمیق حنفی کے مضامین اور تحریریں خصوصاً ’’شعلہ کی شناخت‘‘ ان کی عظیم شاعری ہی کی طرح انتہائی گہرے معنی خیز اور بسیط ہیں۔ انھوں نے حصارِ ذات، خالی پن کا احساس، سماجیاتی کشاکش کو تکرار کے ساتھ پیش کیا ہے۔ فضیل جعفری نے تنہائی کو اپنے مضامین میں خصوصی اہمیت دی ہے۔ میں ناموں کی فہرست بنانے کی بجائے نفسِ مضمون کی طرف لوٹتا ہوں۔
گرچہ ایک مدت سے یہ بات شدت سے کہی جا رہی ہے کہ نئی شاعری موضوعات کی نہیں بلکہ خالص شاعری ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ذہنی یکسانیت اور کچھ حد تک تقلیدی شعور نے چند واضح موضوعات بنا ڈالے ہیں۔ ان کا ایک جائزہ پیشِ نظر ہے۔
ہر نسل جب دنیا میں وجود پاتی ہے تو اپنے آپ کو اپنے سے قبل کی نسل کے بنائے ہوئے اصولوں میں پھنسا ہوا پاتی ہے اور نئی نسل اپنے تحت الشعور میں اس نظام کو (جو موجودہے) اپنی بلاغت کے معیار پر ناپتی ہے۔ مثلاً ہم ترقی پسندوں کی شاعری کو اپنے طور پر پڑھتے ہیں تو ہم کو اس میں سیاست، ریا اور تبلیغ کا عنصر ملتا ہے اسی طرح جب کوئی ترقی پسند قدیم شاعری کو پڑھتا تھا تو اس میں لگاوٹ، بے کرداری اور بے معنویت کا رنگ پاتا تھا۔ لیکن ذرا ٹھہر کر ان صدیوں سے بھی طویل زنجیر کی طرف دیکھیے تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ تقلیدی اور مصنوعی لب و لہجہ جلد ہی رد کیا جاتا ہے۔ میں ایک ترقی پسند کی اس بات کو سچا سمجھتا ہوں کہ حسرت موہانی، بے خود دہلوی، عزیز لکھنوی، جگر مراد آبادی اور اسی قبیل کے دوسرے شاعر اپنے عصر کے ماحول میں قابلِ تردید تھے۔ اس لیے کہ وہ زمانے سے میلوں دور اپنی مستعار ذہنیت اور تہذیب کے زیرِ سایہ:
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو زندگی مری کیسے کٹے کہاں گزرے
جیسے اشعار کہہ رہے تھے، اسی طرح ترقی پسندوں کی نام نہاد آخری پود بھی بزرگوں کے مزاروں پر روشنی جلانے کا کام کر رہی تھی۔ ادب عبقریت، ندرت اور خلوص کا نام ہے مجاوری کا نہیں۔ ہماری نئی نسل اس دور میں زندہ ہوئی ہے۔ جس میں انسانی رشتوں کے نظام بے لوچ ہو چکے ہیں، انسان سب سے ہونق مشینی دور میں داخل ہو چکا ہے۔ مشینی دور سے مراد ہے ایک ایسا دور جس میں انسان ایک ضابطۂ عمل اور نظام الاوقات کا اسیر ہو گیا ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ آپ کو اپنے دفتر جانا ہے وقت کم ہے اور ایسی صورت میں جب آپ ایک شخص کو زخمی ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کیا آپ اس شخص کی مدد کے لیے اپنا دفتر چھوڑ سکتے ہیں؟ شاید نہیں! آپ پلٹ کر دیکھیں گے پھر آگے چلے جائیں گے اور اسے اس امید پر چھوڑ دیں گے کہ یہ کام (ہمدردی) دوسرے لوگ بھی کر سکتے ہیں۔ کیا آپ ظالم ہیں؟ قطعاً نہیں۔ آپ ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ اس آدمی کی مدد کرنا آپ کے ضابطۂ عمل میں نہیں۔ ایسے لمحے میں:
آدمی ریل کی پٹریاں بن گئے
ریل کی پٹریاں آدمی بن سکیں گی کبھی
(عمیق حنفی)
یہ سطور آپ کو ذہنی فرحت بخش دیتی ہیں۔ آدمی مجبور بلکہ مقہور ہو کر رہ گیا ہے۔ تنہا اور بے یار و مددگار! تنہائی جدید شاعری کا اہم ترین نہ سہی عام ترین موضوع ہے۔ یوں تو ماضی میں بھی تنہائی غالبؔ و مومنؔ، یاسؔ اور یگانہؔ کے کلام میں عکس نما ہے۔ لیکن نئے شہر میں تنہائی کا جتنا گھنیرا سایہ ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ نئی شاعری کے تعین میں اکثر اس نقطے کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ بیش تر دانش ور تنہائی کو نئی شاعری کا نقطۂ اشاعت سمجھتے ہیں۔
یہ تنہائی ذہنی، ذاتی، سماجی اور تہذیبی تنہائی ہے۔ ہر شخص بہ ذاتِ خود ایک سماج اور ایک تہذیب ہوتا ہے۔ اس کا ایک شخصی آئینہ اخلاق اور اصولِ زندگی ہوتا ہے۔ اس کے محسوسات اور جذبات اس کے اخلاق سے رنگ آمیزی کر کے اس کا ایک مختلف مقام بناتے ہیں۔ نیا شخص کھوکھلا ہے۔ اس کے اخلاق سے متاثر ہونے والا ’’دوئم‘‘ مفقود ہے۔ اس کے پوزیشن کو دوسرا شخص اتنی دلچسپی سے نہیں دیکھتا جس کا وہ خواہاں ہے۔ معاشی اور سماجی نا آسودگی، وقت اور وقت کی کم یابی، مادی انحراف اور روحانی ہیئت ہر فرد کو اپنے وجود میں تنہا کر دیتی ہیں۔ موجودہ زندگی ایک ایسی رزم گاہ ہے جس کا ہر سپاہی اپنی جان کی حفاظت کے لیے آپ لڑ رہا ہے، یہ ایک ایسا غیر منتظم مقابلہ ہے کہ اپنے خصوصیات کو واضح اور منفرد رکھنے کا امکان نایاب ہے۔
بہت سے لوگ عنوان کی روح تک تو پہنچتے نہیں لیکن اسی کو بہتر سمجھنے لگے کہ ہر غزل میں دو شعر تنہائی پر لکھ دیں۔ نظم میں تنہائی کا ذکر کر دیں۔ ظاہر ہے کہ نتیجے میں جو شاعری آئی وہ بے اصل ہے۔ اس عمل غیر صحیحہ میں ایک اچھی خاصی تعداد شریک ہے۔ تنہائی کا کرب، تنہائی کے اسمِ مبارک کو لینے سے نہیں ظاہر ہو سکتا۔ اہم بات نئے شاعروں میں نام لکھوانے کی نہیں بلکہ نئے طرز اور نئے اسلوب میں کچھ کہنے کی ہے۔ آپ رسائل میں چھپنے والے بیش تر شعرا کی تخلیقات کو بہ نظرِ جستجو پڑھیے۔ وہی باتیں، علامات اور پیکر صورت بدل بدل کر بہ تہذیب قافیہ یا بہ ترتیب ہیئت جمع ہو جاتے ہیں۔ زبان اور بیان سب معیار پر اترتے ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت نئی شاعری میں صفر ہے۔ تنہائی کا صحرا، تنہائی کا جنگل، تنہائی کا زہر، تنہائی کا درخت، تنہائی کا گھر اور نہ جانے کیا کیا ہو گیا ہے۔ گویا تنہائی کا وہی مقام ہے جو پہلے کے شاعروں کے لیے محبوب کی جفا کا اور ترقی پسندوں کے دور میں حاکم کی جفا کا تھا۔ آپ اچھی مثالیں چاہتے ہیں لیجیے:
ابھی غیر دل چسپ ہو جائیں گے ہم
ابھی تم کہو گے کہ بے کار ہے گفتگو کا بہانہ
(بلراج کومل)
خود پہ بھی کیوں یقیں نہیں آتا
دن میں بھی خواب کے اثر میں ہوں
(ظفر غوری)
دیکھتے دیکھتے
نیلے پانی پہ لکھی ہوئی
چاند کے نرم ہاتھوں کی تحریر بھی مٹ گئی
تب نگاہیں جہاں تک مرے ساتھ تھیں
دوسرا کون تھا؟
کوئی بھی تو نہیں
……
……
کالے گنبد سے ٹکرا کے لوٹ آئی تو
خود مجھے اس کی صورت سے خوف آ گیا
میری بینائی گویا ئی سب مر گئی
اب فقط ایک حس ہوں سماعت ہوں میں
(بشر نواز)
تنہائی کا کرب فی الحقیقت مختلف جہات میں عیاں ہوتا ہے۔ کبھی یہ کرب انسان کی انفرادیت کے مسمار ہونے کا المیہ ہوتا ہے تو کبھی یہ اس کی خود فراموشی کا نغمہ ہوتا ہے۔ تنہائی چوں کہ ذہنی، سماجی اور فکری ہوتی ہے اس لیے اس کا بدنی یا جسمانی آلودگیوں سے رشتہ نہیں ہوتا ہے۔
انسان کے اندر بہ ذاتِ خود دو انسان ہوتے ہیں ایک تو اس کا مثالی شخص (Ideal person) ہوتا ہے۔ دوسرا اس کا حقیقی عکس (Real person) ہوتا ہے۔ میں اپنے لیے ذہن میں ایک خاص طرزِ وجود کو پسند کرتا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مجھے اس شکل میں چاہا اور پایا جائے لیکن میری چند قدرتی اور فطری خصوصیات (یا کم زوریاں) ہیں جن کا شاید مجھے پتہ بھی نہیں اور یہ کرب اس وقت مجھے اپنے پنجے میں لے لیتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے ہم نفس مجھ سے (یعنی میرے مثالی شخص سے) دور دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گویا مجھے اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ میں بہ ذاتِ خود اپنے شخص سے دور ہوں اور میرا عکس جھوٹا ہے۔ یہ احساس فرد کو ایک طرح سے دو رخی شکل سے دوچار کر دیتا ہے پہلے رخ کی حفاظت اور دوسرے رخ کی تزئین کتنا دشوار کام ہے۔ انسان دوڑتا ہے اس گہرے سمندر کی جانب جہاں وہ اس جھوٹے چہرے کو غرق کر دے۔ وہ ایک غیر شخصی کیفیت میں ہے۔ وہ اپنے آپ کو فریب سمجھتا ہے اور سوچتا ہے کہ شاید اس کا ہر عمل ایک مسلسل اداکاری کا ایک چھوٹا سا گوشہ ہے۔ وہ غمگین ہے لیکن اس کے چہرے پر مسرت کا اشتہار چپکا ہوا ہے۔ وہ خوش ہے لیکن اس کی آنکھوں میں تعزیت کے آنسو چھلک رہے ہیں۔ وہ ماحول کا اسیر ہے۔ ایسا اسیر جو تپش اور دباؤ کے تحت اپنی حقیقی شکل کو بدل دیتا ہے اور اس گہرے Illusion کا شکار ہونے کے بعد وہ جب اپنے ’’مثالی کردا ر‘‘ کا سایہ دیکھتا ہے تو:
عجب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
(شہریار)
یہ روحیں اس لیے چہروں سے خود کو ڈھانپے ہیں
ملے ضمیر تو الزام بے وفائی نہ دے
(وحید اختر)
اس سے ذرا ہٹ کر ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے کہ شاعر اپنی انفرادیت کو نہیں جانتا وہ دیکھتا ہے کہ تمام چہرے ایک سے ہیں۔ جذبات، تمام رنگ و روغن، تمام نظریات ٹھپ ہو گئے ہیں اور ایسے لمحے میں وہ چاہتا ہے کہ اس کو پہچانا جائے۔ انفرادیت کی شکست ذہن فرسا ہے اور تنہائی کے درد کو بڑھا دیتی ہے۔ انفرادیت کو قائم رکھنے والا ایک ایسا شخص ہے جو تیز دوڑتے ہوئے ایک بے ربط ہجوم میں بے تعلق کھڑا رہ سکے کتنا دشوار ہے اس کا تجربہ۔
زمین کا کینوس جتنا مختصر ہوتا جاتا ہے اتنا ہی انسان انفرادی تفریق کی سرحدوں کو بھولتا جاتا ہے یہاں تک کہ تمام شکلیں گڈمڈ ہو جاتی ہیں اور ان کی پہچانیں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔ اینٹی ہیرو اور Absurd کردار اسی انتشار کی آئینہ دار ہیں۔ یہ کردار ایک نئی اور منفرد شکل کی تلاش کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اس سیلِ رواں میں اُسے دادِ ہنر یا تمغۂ عظمت کی خواہش کی بجائے ہر شخص اپنے کو ایک جداگانہ انداز میں دیکھنا چاہتا ہے اور ایسے لمحے میں چیخ اٹھتی ہے:
یہ تمنا نہیں اب دادِ ہنر دے کوئی
آ کے مجھ کو مرے ہونے کی خبر دے کوئی
(خلیل الرحمن اعظمی)
روحوں کو دوام دینے والو
جسموں کی سبیل کچھ نکالو
شعلہ کوئی مستعار دے دو
یا لاش کو اب مزار دے دو
(عزیز قیسی)
آج کی زندگی میں رشتے جو کہ ٹوٹ گئے ہیں۔ لا یعنی ہیں اور اس لایعنی چیز کا ماتم وہی کر سکتا ہے جس کے سینے میں آزاد اور بے باک شعلہ ہو۔ سماجی جانور، رسوم و قیود کی چکی میں پس کر اپنے آپ کو انسانیت کا ایک بے معنی حصہ بنا چکے ہیں۔ سرمایہ داری کے خلاف احتجاج کرنے والے رہبروں نے اپنے فن کو سرمایے کے حوالے کر دیا اور سرمایہ دار بن گئے۔ یہ محض دعویٰ کرنے والے تھے۔ جدید شاعر پیغمبری کا دعویٰ نہیں کرتا وہ اپنے احتجاج کو غیر بیانیہ لیکن طاقت ور لہجے میں پیش کرتا ہے۔
یہ باتیں تو تنہائی کے بارے میں تھیں۔ دوسرا موضوع ہے ’’ذات‘‘۔ ذات کے بارے میں نئی شاعری میں مختلف تراکیب پیدا ہوئی ہیں۔ حصارِ ذات، غمِ ذات، شعلۂ ذات، صحرائے ذات وغیرہ۔ ذات ایک بہت قدیم اور فلسفیانہ عنوان ہے۔ اس کے سمجھنے کے لیے انسانی فطرت اس کی حقیقت اور اس کے اندر کی نفسیات، شکست و ریخت کا سمجھنا ضروری ہے۔ اس عنوان کی اشاعت میں عمیق حنفی نے گہرے Devotion کے ساتھ کام کیا ہے۔ یہ ایک بسیط موضوع ہے۔ اکثر مقلد چیخ چیخ کر گانے لگے کہ میں اپنی ذات سے جدا ہوں، میرے پاس ذات کا غم ہے، میں ذات کے حصار میں قید ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ ان خرافات کا ادب سے کوئی رشتہ نہیں۔ ذات کا شعور انسان کا وہ شعور ہے جس کے ذریعے اپنے کو فنکار مرکز جان کر دائرے کھینچتا ہے۔ دائروں میں جو بھی شکلیں بنتی ہیں وہ کائنات کا نظام رکھتی ہیں۔
ذات ایک کائنات ہے جس میں تمام انبساط کی کیفیات اور غم کی نیرنگیاں پوشیدہ ہیں۔ اس کا قلندر یہ نہیں دیکھتا ہے کہ لا یا ما بات مجموعی طور پر کس جانب رکھی جا سکتی ہیں۔ منفی یا مثبت؟ وہ زندگی کی حقائق کا منکر نہیں ہوتا لیکن وہ مجازی کھلونوں سے زندگی کے حقائق کا تعلق قطع کر دیتا ہے، وہ ابدی موت کا قائل نہیں بلکہ حیات میں تزکیہ کا متلاشی ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ ایک کردار اور دوسرے کردار میں کیا مکالمہ ہوتا ہے۔۔ ۔ وہ تو اس مکالمے میں اپنے رنگ کو ڈھونڈتا ہے۔
فلسفۂ ذات قطعاً نیا فلسفہ نہیں، بلکہ اس کا آفاقی فنون سے بنیادی رشتہ ہے۔ ذات کا طویل و بسیط سمندر اپنے اندر خاموش شاموں سے جاگتی ہوئی صبحوں تک چیختی ہوئی آنکھوں سے دھندلاتے ہوئے چہروں تک ہنستی ہوئی روشنی سے بے زبان اندھیروں تک ہر فاصلے کو پوشیدہ رکھتا ہے۔ انسان کو اگر ذات کا عرفان نصیب ہو تو وہ طاقت ور ترین اور دانش ور ترین ہو جاتا ہے۔
بیس صدیوں کا ہیولا ہو تم
آپ اپنے میں اترتی ہوں
۔۔ ۔ چپ چاپ گپھاؤں میں
۔۔ ۔ گھنے پیڑ تلے
کھوجتا رہتا ہوں، بتلاؤ کہاں کھو گئے تم۔۔۔؟
(قاضی سلیم ’’ورثہ‘‘)
آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن
لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں
(عمیق حنفی)
ارتقاعِ ذات وہ مقام ہے کہ جب انسان کو خود گم شدگی میں سرور ملتا ہے وہ درد میں لذت لیتا ہے۔ اس کی زندگی میں ایسی جمالیاتی حِس داخل ہوتی ہے جو اسے سراب میں لذتِ سیرابی، خواب میں کمالِ تعبیر اور زخم میں ایقانِ زندگی عطا کرتی ہے۔ ذات کے شعلوں کی لپیٹ میں کائناتِ فکر و نظر آ جاتی ہے۔
دہکتے ہوئے گرم آکاش کا ایک ٹکڑا
مری انگلیوں پر مچلنے لگا ہے
ادھر گھومتے گھومتے
مرے پاؤں کے نیچے گویا زمیں رک گئی ہے
(حمید الماس ’’دوسری موت‘‘)
نئی شاعری کا ایک مقبولِ عام موضوع موجودہ زندگی کی بے معنویت ہے۔ موجودہ زندگی انسان کے Options یعنی پسند و ناپسند کو کوئی اہمیت نہیں دیتی اور وہ اس پر ایک نظام الاوقات نافذ کر دیتی ہے۔ یہ زندگی کا رویہ انسان پر عجیب سا دباؤ ڈالتا ہے۔
اس پابند اور منقسم زندگی کا ردِّ عمل فرد پر دو طرز سے ہوتا ہے۔ (۱) مشینیت (۲) غیر حقیقی حقائق کا احساس۔ مشینیت کا یہ عالم ہے کہ آپ کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ چاہے موسم کل خوب صورت ہو یا خراب آپ کو فلاں وقت پر فلاں حالت پر رہنا ہے۔ میں نے اپنے ایک شعر میں اس بات کو یوں ادا کیا ہے:
کل بھی اس وقت بس یہی ہو گا
پہلے اتنا تھا اعتبار کہاں
دوسرا ردِّ عمل آپ پر اس وقت ہوتا ہے جب آپ کے پاس فرصت ہو اور آپ دوسروں کے سلوک اور ماحول میں بے انتہا سرد مہری محسوس کریں۔
ایک طرف تو ایسے روز و شب ہیں جن میں لوگ زندگی کو لمحہ لمحہ کر کے قتل کرتے ہیں۔ دوسری طرف ایسی زندگی ہے جو اتنی کم فرصت ہے کہ اپنے تمناؤں پر نظر کرنے کی مہلت نہیں دیتی اس بندھن میں اصلی انسان کہاں ہے؟ قدرت و فطرت سے بہرہ ور و لطف اندوز ہونے کا ذوق کس کام کا؟ ہندستان کی نئی نسل اپنے پُرکھوں کی طرف حیرت سے دیکھتی ہے کہ انھیں کتنی صاف ستھری اور غیر ژولیدہ زندگی نصیب ہوئی تھی۔ نئی زندگی ایک قید خانے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اختیاری اور موجود قید خانہ۔
بارشوں میں اس سے جا کے ملنے کی حسرت کہاں
کوکنے دو کوئلوں کو اب مجھے فرصت کہاں
(منیر نیازی)
پڑھتے ہیں لوگ ہجر کے لمحات میں کتاب
ہم بھی اچھالتے ہیں خرابات میں کتاب
(وقار خلیل)
شاید اک دن
مجھ کو دفنانے کی بھی
فرصت نہ ملے گی
میرے اپنے بیٹے کو
اور بھی غم ہیں زمانے میں
(حمید الماس)
نئی شاعری کا ایک اہم موضوع ’’موت‘‘ ہے۔ موت ہماری زندگی کے ان مسائل میں سے ہے جن کے خلاف ہماری ساری تاریخ جنگ کرتی رہی ہے۔ اس کو آج سے پہلے بھی اتنی ہی اہمیت تھی۔ ذوالقرنین آبِ حیات کی تلاش میں پھرتا رہا۔ بدھا نے موت کو ذریعۂ نجات قرار دیا۔ یہ موضوع اردو شاعری میں بھی اکثر زیرِ بحث رہا۔ دو عمدہ اشعار ہیں۔
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
میرؔ
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے ان ہی اجزا کا پریشان ہونا
چکبستؔ
لیکن قدیم طرزِ فکر میں سنجیدگی، اطمینان اور فلسفہ طرازی تھی۔ غالباً یہ اس معاشرے کی کامل پسندی اور غیر جذباتیت کا نتیجہ تھی۔ نیا شاعر جس ماحول میں ہے وہ جذباتیت کا خواہاں ہے۔ سکون و خموش گزاری موجودہ زندگی میں عنقا ہو گئے ہیں۔ موت کے موضوع نے گذشتہ ۲۵ برسوں میں عالمی ادب پر قبضہ کر لیا ہے غالباً اس کی وجہ سائنسی بغاوتوں، اصولی نظریات اور مذہبی آزادی کے مقابل موت کی فصیل سخت کی ثابت قدمی ہے۔ موت کے موضوع کے دو رخ ہیں۔
(۱) موت سے خوف (۲)موت سے عشق
موت سے خوف زدہ لوگ وہ ہیں جو زندگی کی علامات سے متنفر نہیں ہیں لیکن زندگی سے پیار بھی نہیں کرتے انھیں صرف اس بات کا خوف ہے کہ کہیں یہ رہی سہی علامات بھی ختم نہ ہو جائیں۔ دوسری جانب موت ہماری زندگی کا ایک عجیب و غریب لمحۂ انبساط ہے جب ہم دنیا و مافیہا کی نیاز مندیوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی کشاکش، روز و شب کے فتنہ و فساد، معصومیت کی شکست ہمیں جس ذہنی کوفت اور سانسوں پر پڑے ہوئے جس بوجھ سے دوچار کرتی ہیں۔ ان سے ہم موت کے دامن میں چھپ کر فرار حاصل کر سکتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشدؔ کی نظم ’’دریچے کے قریب‘‘ ہو یا عمیق حنفی کی ’’موت کے لیے ایک نظم‘‘ یا شمس الرحمن فاروقی کی ’’مناجات‘‘۔ ان سب کے پیچھے انسان کا بنیادی جذبہ حریت ہے۔ جو مریضانہ ذہنیت والوں کی نگاہ میں ’’فراریت‘‘ کے بد مزہ سے نام کے تحت پہچانا جاتا ہے۔ قدیم شاعری کے متصوفانہ سرمائے میں بھی موت ایک مرتکز نقطۂ انبساط ہے۔ فنائیت، عرفان، مکتی اور کثرت سے وحدت کی طرف رجوع غالباً موت ہی کے عشق کی علامتیں ہیں۔ جدید شاعر موت کو ایک بسیط معنی میں استعمال کرتا ہے۔ چند مثالیں لیجیے۔
زمستاں میں تمازت کے جزیرے میں بناؤں گا
اگر چہ اس حسیں لمحے میں بھی
چاروں طرف آواز ہو گی
موت کی آواز
لاکھوں صورتوں میں
اور ہم سب کو ڈرائے گی
ہمیں ہر روشنی سے جانبِ ظلمت بلائے گی
…… بلراج کومل (جزیرے)
میں عکسِ آرزو تھا ہوا لے گئی مجھے
زندانِ آب و گل سے چھڑا لے گئی مجھے
زیب غوری
کن حرفوں میں جان ہے میری
کن لفظوں پر دم نکلے گا
سوچ رہا ہوں
ابجد ساری یاد ہے مجھ کو
لیکن اس سے کیا ہوتا ہے
…… سلیمان اریب (آخری لفظ پہلی آواز)
موت کے بعد جدید شاعری کا ایک عام عنوان ’’مستعمل اقدار سے اختلاف‘‘ ہے۔ جدید شاعر زندگی کے کسی بنے ہوئے رسمی معیارِ زندگی سے اتفاق نہیں کرتا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ اقدار ٹوٹ گئی ہیں یا رسوم ختم ہو گئی ہیں۔ ہاں وہ نئے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر رہی ہیں۔ مثلاً کل کی عیدیں آج چاہے کتنی ہی عجیب لگیں کل کے عوام کے لیے مسرت کا سرچشمہ تھیں۔ آج پھر ہم نے چند عیدیں بنالی ہیں اور اجتماعی مسرت کا حصول کرتے ہیں۔ اندازِ فکر اور Approach کی یہی یکسانیت شاعر کو منغض کر دیتی ہیں، جب ہم نئی دنیا بساتے ہیں تو اپنے آپ کو نئے اصول بنا کر دوبارہ کیوں مقید کر لیتے ہیں۔ نیا شاعر اس تنظیم Establishment کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عموماً اس رجحان کو تشکیک پسندی کا عجیب و غریب نام دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں وہ دو رجحانات چل پڑے ہیں۔ ایک رجحان تشدد پسند ہے اور بنیادی اوامر سے بھی بے زار ہے۔ وہ دوسرا رجحان معتدل ردِّ عمل کی صورت میں ہے۔
یہاں یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ یہ بغاوت صرف آئینہ پیش کرتی ہے یا عکس کے ہاتھ میں ہتھیار بھی دیتی ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ نیا شاعر Inert (خاموش) بغاوت کا عادی ہے۔ وہ بدترین مناظر کو پیش کرتا ہے، اس کے جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس میں مشورہ دینے کی ہمت نہیں ہے۔
موجودہ معاشرہ ایک تعمیمی انتشار سے گزر رہا ہے۔ تعمیمی انتشار سے مراد موجودہ سماجی فلسفوں کی تعمیمی کیفیت کا انتشار ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ سماجی فلسفی ایک خاص حل تلاش کرتا ہے۔ جس سے کہ عالم کا ارتقاء ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک معمولی یا غیر معمولی سی شخصی کوشش ہوتی ہے جس کو وہ منطق کی (جو صریح بھی ہو سکتی ہے غیر صریح بھی) مدد سے ہر مسئلے کا حل قرار دیتا ہے۔ مثلاً مارکس کی معاشی معاشرہ گاندھی کی روزانہ معاشرت اور رادھا کرشنن کی ویدک معاشرت۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ ایسے حل کسی کو خوش نہیں کر سکتے۔ نہ غریب خوش نہ امیر خوش۔ اسی طرح ہماری ذہنی تربیت ایک بد تہذیبی کی علامت ہے۔ ہم ایک ہی نگاہ میں دو مخالف طرزِ فکر کی تعریف کرتے ہیں۔ اس رویے کو نام نہاد روا داری کہا جاتا ہے۔ ایسی بد تہذیبی ہمارے نوجوان کو خلفشار سے دوچار کرتی ہے۔ وہ ہر اصول کو اپنے طور پر رد کرتا ہے۔ رد اس لیے کرتا ہے کہ وہ ساری زندگی تمنائی ہے۔ وہ اقدار کی الجھنوں سے ایک ایسے شخص کی طرح نکلتا ہے جو غرقابی سے نکل کر سانس لینے کی کوشش کرے نیا شاعر اس ماحول میں شریک ہو کر بھی Selective یعنی تخصیص پسند ہے۔ ان رجحانات کے پیشِ نظر دو طرزوں کی شاعری پیدا ہوئی۔ دونوں ہی قابلِ قدر ہیں۔
ہڈیاں گوشت کے خوب صورت غلافوں میں
پھر سے لپٹنے لگیں
زندہ رہنے کا ہر فلسفہ
نیند کی کھائی میں کھو گیا
…… حسن فرخ (کل برہنہ ملی تھی مجھے)
سلاسل بہ پا روحِ انسانیت ہے
اٹھاؤ یہ تابوت آداب و قدغن
جلا دو یہ اوراقِ فکرِ پریشاں
سعیر و سقر کی نمائندہ سوچیں
مرے درد کا کیا مداوا کریں گی
کہاں قدسیانِ خلوص و وفا ہیں
ازل تا ابد ہاویہ ہاویہ ہوں
ازل تا ابد ہاویہ ہاویہ ہوں
…… صہبا وحید (ہاویہ)
معبدوں کے چراغوں میں روغن نہیں
آج ایمان کا کوئی مسکن نہیں۔۔ ۔ !
…… عمیق حنفی
تجویز ہو رہی ہے دبا دیا جائے
مزاج کی رونقیں نفاست وسیلے قانون صاف ستھرا رکھیں کے
بنجر قدیم ذرے گلو و گفتار میلے کرتے رہے ہیں، فٹ پاتھ
منضبط شہری زندگی کے علامیے کنکریٹ روشن
…… افتخار جالب (نفیس لا مرکزیتِ اظہار)
ایک اور رجحان ہے جو ہماری زندگی سے قریب ترین ہے۔ وہ ہے انسانیت سے محبت۔ عجیب بات ہے کہ جدید شاعری میں جس خلوص کے ساتھ انسانی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔
ترقی پسند شاعری میں انسانی نفسیات، معصوم لمحوں کی گرفتاری اور سادگی کے بجائے مواد اور طرزِ اظہار کو اہمیت دی جاتی رہی۔ شاعری مصنوعی کرداروں کے سہارے چلتی اور شاعری کے سوچتے سمجھتے Steps پر قدم بہ قدم ختم ہوتی ہے۔ مزدور کے پسینے کی تعریف کے لیے کوہِ نور سے کوہِ طور تک کی ہر مثال شان و شوکت کے ساتھ روندی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پیشوا واعظ لفاظ زیادہ ہوتا ہے حساس کم۔
نیا شاعر جس کرب کو اپنے سینے میں اتار لیتا ہے۔ اسے اپنی ذات، اپنی نفسیات اور اپنے شعور کے محور میں ایک آزاد انداز سے رنگ دیتا ہے۔ وہ کینوس پر اپنا پسندیدہ رنگ لگاتا ہے۔ لیکن وہ رنگ کے لیے کسی Color Code رنگوں کے ضابطے کا اسیر نہیں بننا چاہتا۔
ستم زدگی، خوف زدگی، توہم اور ظلم سے انسان آزاد نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ اسی لیے درجات، طبقات اور نا آسودگی کرب کو نئے ماحول میں کچھ زیادہ ہی خوف ناک صورت حاصل ہو گئی ہے۔ تباہ کاریاں، فسادات، قتل و غارت گری کے نئے حربے، سیاسی انتشار اور بڑھتی ہوئی لا مرکزیت انسان کو غیر فطری طور پر درندہ صفت بناتے جا رہے ہیں۔
نیا شاعر اس درندگی کو ذاتی شراکت سے محسوس کرتا ہے۔ وہ ایک پگھلتے ہوئے پتھر کی طرح ہے جو بے انتہا حرارت میں ڈال دیا گیا ہو۔ وہ انسان کی انسانیت سے مایوس نہیں، بلکہ انسان کی بدلتی ہوئی ہیئت سے پریشان ہے کہیں اس کے خون میں زہر تو نہیں سما گیا ہے۔ وہ چلتے ہوئے اندھے ہتھیار کی طرح تو نہیں ہے۔
وہ انسان کو ایک ویرانے میں اگے ہوئے پودے کی طرح پاتا ہے جس پر زندگی کے المیے گرم ریگستانی ہوا کی طرح گزرتے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں ان بے گناہ قیدیوں کے لیے آنسو ہے جو سیاسی حکمرانوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کے ہونٹوں پر ان معصوم بچوں کے لیے آہ ہے جنھیں چیر کر کنوؤں میں پھینک دیا گیا۔ اس کا ما تھا ان کے بارے میں سوچ کر پسینے سے تر ہو جاتا ہے جن کو پیدا ہونے سے موت تک دھماکوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ ان غموں کو اپنے آپ میں حل کر لیتا ہے۔ پھر وہی کہتا ہے جو وہ اپنے آپ کو کردار بنا کر کہے۔ گویا اس کے تاثرات خالص بر خود انداز ہوتے ہیں۔ نئی شاعری گھناؤنے ماحول کے خلاف احتجاج کرتی ہے۔ وہ انسانوں کو مشین، آواز اور دھوئیں سے بھرے ہوئے معاشرہ، حیوانی کھردرے پن اور ذہنی ہیجان سے آزاد کرانے کے لیے متحرک رہتی ہے۔
غیر مستقیم طور پر انسانی کرب کچھ اور ہی رنگ لاتا ہے۔
تو اے نیک دل لڑکیو۔۔ ۔ الوداع!
یاد رکھنا، ہماری حقیقت سے گزرو تو آنسو بہا کر دعا مانگنا
قیدیوں، شاعروں اور محکوم آبادیوں کے لیے
اور بیمار بچوں کی ماں کے لیے
اور اس کے لیے جو تمھارے بدن کا مسافر ہے لیکن
ہمارے سفر کی شہادت ہے۔۔ ۔ !
…… عباس اطہر (نیک دل لڑکیو!)
جرب بھی سگرٹ نئی جلاتا ہوں
شہرِ مرحوم یاد آتا ہے۔۔ ۔ !
…… عادل منصوری (احمد آباد)
ہر ایک شاخ برہنہ ہے سر پہ سورج ہے
کبوتر اڑ کے بھی آیا تو کس پہ بیٹھے گا
…… فاروق شفق
اور ساقی فاروقی، اریب، عمیق حنفی، بشر نواز وغیرہ کی شاعری میں ایسی مثالیں فراواں ہیں۔
شاعری کے لیے یہ موضوعات نئے تو نہیں لگتے۔ ویسے ہمیں موضوعاتی شاعری کرنی بھی نہیں چاہیے۔ شاعری کے میدان میں مقابلہ اور موضوعات کو بہتر طور پر ادا کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کا سوال نہیں، طرحی مشاعرہ کا ماحول نہیں۔ لیکن کہیں ہمارے پاس بازگشت ہی تو نہیں رہ گئی، کہیں ہم تقلیدی ہی تو نہیں ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں ہمارے پاس انوکھا پن ہی باقی نہ رہا، شاید یہ ہمیں ایک بار پھر سوچنا پڑے گا؟
٭٭٭