اردو شاعری میں تجربات ہر عہد میں ہوتے رہے، کچھ اپنی موت آپ مر گئے اور کچھ نئی منزلوں کے نشان بن گئے۔ رئیس فروغ اردو شاعری میں جدیدیت کے اوّلین علم برداروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی شاعری عام ڈگر سے ہٹ کر پورے شعور کے ساتھ نئے امکانات کے در کھولتی ہے۔ ان کی شاعری میں تخلیقی وجدان پورے کمال کے ساتھ موجزن ہے۔ رئیس فروغ کا کمال یہ ہے کہ وہ روایت کو شعر کے باطن میں چھپا کر لفظوں کو ایک نئے انداز سے ’’اجالتے‘‘ ہیں۔ ان کے اسی کمال کی وجہ سے شعر اپنی تمام تر رعنائی کے ساتھ نئے عصری شعور کے پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔ غزل ہو یا نظم رئیس فروغ دونوں اصناف میں اپنے ہم عصروں کے درمیان نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ رئیس فروغ کی شاعری میں کئی جہان آباد ہیں۔ بد قسمتی سے رئیس فروغ جیسی شخصیت کو ان کے کلام کے تناظر میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ نقادانِ فن نے کیوں اپنی ذمہ داریوں سے اغماض برتا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا درست جواب شاید وہی دے سکیں تاہم ایک بات ضرور کہوں گا سورج کی روشنی کو روکنے کے لیے ماحول میں کتنی ہی دھول اڑا لی جائے سورج کی آب و تاب کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
رئیس فروغ کے حوالے سے میرے لیے یہ طے کرنا ہمیشہ مشکل مرحلہ ثابت ہوا کہ وہ جدید نظم کے بڑے شاعر ہیں یا جدید غزل کے۔ ان کی غزل اتنی مؤثر اور ندرت کی حامل ہے جس کا اظہار کرنا مشکل ہے، البتہ اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ غزل کی تمام روایات کے ساتھ جڑے ہونے کے باوجود مکمل طور پر اس سے الگ کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں نغمگی، موسیقیت، ندرت خیال، فکر کا ارتقا ء، عصری شعور اور انسانی زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان کے بہت سے اشعار مشہور ہیں میں یہاں ان شعار سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے دیگر شعروں پر بات کرنا چاہوں گا۔ رئیس فروغ کا سہل ممتنع بھی ایک الگ رنگ لیے ہوئے ہے۔
ذرّہ بن کر آیا تھا
صحرا بن کر جاؤں گا
دریا جیسی بات نہ کر
پانی سے ڈر جاؤں گا
۔
ہم دور تلک جا سکتے تھے
تو بیٹھے بیٹھے بہل گیا
جھوٹی ہو کہ سچّی آگ تری
میرا پتھر تو پگھل گیا
رئیس فروغ کی لفظیات صرف نظم میں ہی جدت کا اعلیٰ نمونہ نہیں ہیں بلکہ غزل میں بھی انہوں نے وہ لفظ باندھے ہیں جن کا تصور تک محال ہے۔ جیسے ’’گلوب، انجائنا، فلیٹ، بُلٹ وغیرہ۔ رئیس صاحب کا کمال یہ ہے کہ ان کی غزلوں میں یہ الفاظ ایسے جڑے ہیں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔
غزل ایک ایسی صنف ہے جس میں اکثر شعرأ کی غزلوں میں ایک آدھ شعر ہی ایسا نکلتا ہے جو حاصل غزل کہلاتا ہے۔ بقیہ اشعار غزل کو پورا کرنے کے لیے کہے جاتے ہیں ان کا معیار وہ نہیں ہوتا۔ رئیس فروغ کی شاعری میں ایسی ایک بھی غزل نہیں جس میں صرف ایک آدھ شعر ہی ایسا ہو جو کی وجہ سے غزل کہی گئی ہو۔ ان کی غزلوں میں بہت محنت کے بعد شاید ایک آدھ شعر کسی غزل میں ایسا نکال سکیں جو دیگر تما م شعروں کے مقابلے میں کم معیار کا حامل ہو۔
رئیس فروغ کی غزلوں میں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ ان کی غزلوں میں ایسے اشعار کی موجودگی ہے جو انسان کو اپنے ٹرانس میں لے لیتے ہیں۔ ان اشعار کے حصار سے نکلنا انسانی اختیار سے باہر ہو جاتا ہے۔ اُنہوں نے انسانی احساسات اور کردار کے بعض پہلوؤں کو اس جامعیت کے ساتھ غزل کے شعری قالب میں ڈھالا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ا ن کے بعض اشعار ایسے ہیں جواپنے اندر پورا افسانہ لیئے ہوئے ہیں۔ فرانس کے مشہور افسانہ نگار موپساں کا ایک افسانہ جس کا عنوان (Was it a Dream) کیا وہ خواب تھا؟ ہے۔ اس افسانے میں موپساں نے انسانی کردار کے جس پہلو کو بیان کرنے کے لیے پورا ایک افسانہ لکھا ہے اسے رئیس فروغ نے غزل کے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں
دیکھ لیا تھا خواب پرایا
رئیس فروغ کے اشعار میں پایا جانے والا وجدان اگر منکشف ہو جائے تو وہ انسان کو اپنے سحر میں ایسا جکڑتا ہے کہ اس سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایسے اشعار بکثرت پائے جاتے ہی۔ ان کے وہ اشعار جن میں افسانے پوشیدہ ہیں ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ ان کے دیگر موضوعات میں جنسیات بھی ایک اہم ترین موضوع ہے جو ان کی شاعری میں جا بجا محسوس کیا جا سکتا ہے۔
مرا بدن جس کو چاہتا تھا
کسی نے وہ زہر پی لیا ہے
اک سانولی چھت کے گرنے سے
اک پاگل سایہ کچل گیا
ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کر
رات کی پیاس بجھا ئی ہے
رئیس فروغ نے بحیثیت تخلیق کار اپنا کام کر دیا۔ انہوں نے اردو شاعری کے دامن میں جو متاع ڈالی ہے اس کی حفاظت اور شناخت کا فریضہ جس انداز سے انجام دیا جانا چاہیے تھا اس میں یقیناً کوتاہی برتی گئی ہے۔ رئیس فروغ جیسے عہد ساز شاعر کو ازسر نو دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ہو گا۔ حالات کے دھارے پر بہنا تو رئیس فروغ نے خود بھی پسند نہیں کیا تھا ہم کیوں کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا
۔ ۔
شکایتیں ہی کرے گا کہ خود غرض نکلے
وہ دل میں کوئی بْلٹ تو نہیں اْتارے گا
۔ ۔
وقت کی کمی کی وجہ سے میں اختصار سے کام لیتے ہوئے رئیس فروغ کی شاعری کے چند چنیدہ پہلوؤں کی جانب آپ اہل نقد و نظر کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ رئیس فروغ کی شاعری پوری قوت کے سا تھ اپنے عہد میں سانس لے رہی ہے۔ وہ ادب برائے تبدیلی کے پیروکار تھے۔ ان کی شاعری کے موضوعات، لٖفظیات، استعارات، تشبیہات اور علامات اپنے قاری کو ایک نئی لیکن آشنا دنیا سے متعارف کراتے ہیں۔ جدید نظم میں لفظیات کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی نظم دیتاں جدید نظم کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ’’گریٹ آئیڈیاز میں گھرا ولیم جیمز اور سبزی کے تھال کی چھری‘‘ کی علامت سے اس نظم میں انہوں نے جو منظر کشی کی ہے وہ ان کی قدرتِ فن کی بہترین مثال ہے۔ ان کی ایک اور نظم ’’خانم جان‘‘ روایت کی کوکھ سے جنم لیتا ہوا ایک نیا سورج ہے۔ رئیس فروغ نے جدید نظم میں جو علامات تخلیق کی ہیں وہ چونکا دینے والی لیکن قابل فہم ہیں۔ ان کی شاعری میں ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ قاری جیسے جیسے ان کی شاعری پڑھتا جاتا ہے اس پر معنیٰ کا ایک نیا جہان منکشف ہوتا ہے۔
٭٭٭