پروفیسر نذر خلیق(خان پور)
ناصر عباس نیّر عصرِ حاضر میں جتنی تیز رفتاری سے اردو تنقید میں اپنا مقام بنا رہے ہیں، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں تنقیدی شعو ر رکھنے والوں میں بحیثیت نقاد منفرد مقام بنا لیں گے ۔ ناصر عباس نیّر اردو کے سنجیدہ علمی و ادبی حلقوں میں بخوبی جانے جاتے ہیں،چاہے وہ حلقے پاکستان کے ہوں،انڈیا کے ہوں یا بر صغیر سے باہر۔ ان کی عالمانہ خوبی یہ ہے کہ وہ لوگ بھی ان کا احترام کرتے ہیں جو ان سے گہرا اختلاف رکھتے ہیں۔یہ احترام کرنے والوں کی شخصی خوبی کے ساتھ ناصر عباس نیر کی علمی بصیرت کا بھی کمال ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہیں وہ لوگ بھی اہتمام کے ساتھ شائع کرتے ہیں جو ان کے تنقیدی خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ درحقیقت تنقید میں ہر نقاد کی اپنی رائے ہوتی ہے اور اپنا وِژن۔ناصر عباس نیَّر کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ مغربی تنقید پر دسترس رکھتے ہیں۔ مغرب کے تنقیدی رویوں کو اردو تنقید پر لاگو کرتے ہیں اور تجربے کرتے رہتے ہیں۔مغربی تنقید کی روشنی میں مشرق کی تخلیقات کا تجزیہ اور تفہیم کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ناصر عباس نیّر اس سے پہلے جھنگ کے ایک بڑے کالج میں استاد تھے اور آج کل اورنٹیئل کالج پنجاب یونیورسٹی میں استاد ہیں۔یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ایک ایسے ادارے میں استاد مقرر ہو گئے ہیں کہ جہاں کئی بڑے علمی و ادبی لوگوں نے تعلیم حاصل کی اور بہت بڑے لوگوں نے درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دیا۔ناصر عباس نیّراسی لائق تھے ۔قدرت نے انہیں ان کی اصل درسگاہ تک پہنچا یا ہے۔اگر لوگوں کی ریشہ دوانیوں اور فریب کاریوں سے بچ نکلے تو ایک دن ناصر عباس نیّر تنقید میں ایک اتھارٹی کا مقام حاصل کر لیں گے اور مجھے یقین ہے کہ وہ مکر وفریب کے مراکز سے بچ نکلیں گے۔ ان کی کتاب ’’جدید اور ما بعد جدید تنقید‘‘ان کا ایم فل کا مقالہ ہے۔انہوں نے اپنے اس مقالے میں مغربی تنقید پر غور و فکر کرتے ہوئے نئے علمی و فکری گوشے وا کیے ہیں۔اردو تنقید کے لیے راہیں ہموار کی ہیں۔تنقید جامد نہیں ہے،تنقید میں نت نئے تجربے اور نت نئے نظریات پیش ہونے چاہئیں ورنہ تنقید ی سوچ منجمد ہو سکتی ہے۔تنقید ،تخلیق کو توانائی عطا کرتی ہے اور اگر تنقید فرسودگی کا شکا ر ہو تو تخلیق میں بھی تازگی نہیں آسکتی۔اس کتاب میں ناصر عباس نیّر نے حصہ اوّل میں ان عنوانات پر اظہارِ خیال کیاہے۔
۱۔جدیدیت ۲۔نئی تنقید ۳۔روسی ہئیت پسندی ۴۔ساختیات اور ساختیاتی تنقید ۵۔ساختیاتی نفسیاتی تنقید ۶۔مارکسیت اور ساختیاتی مارکسیت ۷۔قاری اساسِ تنقید
۸۔مابعد جدیدیت ۹۔ساخت شکنی کیا ہے؟ ۱۰۔مثیل فوکو کے نظریات
۱۱۔نوتاریخیت ۱۲۔نسوانی تنقید ۱۳۔بین المتونیت
حصہ دوّم میں ان عنوانات کو مدِ نظر رکھا ہے۔ ۱۔اردو تنقید(ابتدا سے انیسوی صدی کے آخر تک)
۲۔اردو تنقید میں جدیدیت کے مباحث ۳۔اردو تنقید میں ساختیات کے مباحث
۴۔اردو تنقید میں ما بعد جدیدت کے مباحث ۵۔جمالیاتی مسرت اور تفریحی حظ کا ما بہ الامتیاز
ان عنوانات کو مدِ نظر رکھیں تواندازہ ہو جاتا ہے کہ ناصر عباس نیّر نے نہایت ہی اہم اور نازک جدید تر تنقیدی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان نظریات کی تفہیم اور تشریح ایک مشکل ترین کام تھا لیکن ناصر عباس نیّرنے نہایت چابک دستی سے اور سادہ وبے ساختہ انداز میں یہ مشکل کام کر دکھایا ہے۔ناصر عباس نیّر نے اپنی کتاب کے دیباچے میں تنقید اور تخلیق کے حوالے سے نہایت اہم باتیں کی ہیں۔آئیے دیکھیں کہ وہ تنقید اور تخلیق کے باہمی تعلق پر کیا اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’تنقید کو اکثر تخلیق کے مقابل رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کوشش کا نتیجہ تنقید کے حق میں عام طور پر اچھا نہیں نکلا، کیوں کہ تنقید کو تخلیق کے حوالے سے معرض فہم میں لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ تخلیق تو ایک طے شدہ امر ہے اور تنقید کو اس امر کی روشنی میں طے کرنا ہے۔یوں تنقید کی ماہیئت اور منصب سے متعلق جو آرا قائم ہوتی ہیں، ان پر تخلیق سے متعلق وضع کیے گئے کلیات کا گہر ااثر ہوتا ہے۔تخلیق تنقید کے لیے قدر، اصل الاصول اور norm کا درجہ رکھتی ہے۔تنقید مکمل طور پر تخلیق پر منحصر(Totally Dependent) سمجھی جانے لگتی ہے۔
تنقید کو تخلیق کے زاویے سے سمجھنے کے نتیجے میں،تنقید کے بارے میں تین قسم کی آرا قائم کی گئی ہیں:تنقید تخلیق سے کم تر ہے؛ تنقید تخلیق کی معاون ہے؛ تنقید تخلیق کی ہم پلّہ ہے۔ یہ آرا در اصل تنقید کے اس کردار کو متعین کرتی ہیں جو تخلیق نے اسے تفویض کیا اور جو اسے تخلیق کے لیے ادا کرنا ہے۔‘‘(۱)
تخلیق اور تنقید کے باہمی تعلق پر اکثر ناقدین نے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔کچھ لوگوں نے تنقید کو اہمیت دی ہے اور کچھ نے تخلیق کو ۔حالانکہ تخلیق اور تنقید دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ایک تخلیق کار جب تک تنقیدی نظر نہ رکھتا ہو یا مشاہدے میں تنقیدی قوت نہ رکھتا ہواس وقت تک تخلیق میں ترفع پیدا نہیں ہو سکتا گویا ہر تخلیق کار بیک وقت تخلیق کار اور نقاد ہوتا ہے ۔ جب کہ تخلیق، تنقید کا سبب بنتی ہے۔جب تک تخلیق نہ ہو تنقید کا جواز پیدا نہیں ہوسکتا۔تنقید کے لیے تخلیق کا وجو دنہایت ضروری ہے۔شاید بعض نقاد بلا وجہ الجھاوے والے تنقیدی مباحث پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ ناقدین کی فہرست میں اپنا نام لکھوا سکیں۔ناصر عباس نیّر نے تنقید کے ان مشکل ترین مباحث کو جس طرح قابلِ تفہیم بنایا ہے یہ انہیں کا کام تھا۔ناصر عباس نیّر نے جدید اور ما بعد جدید، ساختیات اور مابعد ساختیات جیسے ادق موضوعات کو قابل تفہیم بنایا ہے۔نوجوان نقاد اور تنقید سے دلچسپی رکھنے والے ناصر عباس نیّر کی کتاب ’’جدید اور ما بعد جدید تنقید‘‘ سے استفادہ کر کے اپنے تنقیدی شعور میں اضافہ کر سکتے ہیں۔اس سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
’’اردو تنقید کے مختلف اسالیب و تصورات پر مباحث اور انتقاد کا ایک قابل لحاظ سر مایہ موجود ہے مگر اس میں جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مباحث بڑے تشنہ ہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ رہا ہے کہ یہ روّیے ابھی اردو کے تخلیقی ادب میں پورے طور پر جذب نہیں ہو پائے اور دوسرا یہ کہ ان مباحث خصوصاً ما بعد جدیدیت ڈسکو رس کی گہری تفہیم کے لیے وسیع مطالعے اور مغرب میں نمود پانے والے دیگر بہت سے فکری روّیوں سے آگہی ضروری ہے جو ہمارے یہاں قریباً نایاب کے حدود میں داخل ہے۔ پیشِ نظر اوراق دراصل ایم فل اردو کے تحقیقی مقالے کا کتابی روپ ہیں۔ ناصر عباس نیّر اردو کے نوجوان نقادوں میں سربر آورد ہیں۔انہوں نے جدیدیت اور ما بعد جدیدیت پر بہت عمدہ مقالہ تحریر کیا ہے۔تنقید کے عہد بہ عہد تصورات اور تغیرات پر فاضل نقاد کی نظر ان کی ہوش مندی اور وسعتِ مطالعہ کی آئینہ دار ہے۔ جدیدیت کے مباحث اور ما بعد جدیدیت کے پیچ در پیچ فکری روّیے مغربی فلسفے کے گہرے مطالعے کے بغیر گرفت میں نہیں آ سکتے۔ ناصر عباس نیّر کا نہ صرف مغربی فلسفے کا مطالعہ اچھا ہے بلکہ انگریزی زبان اور اس میں موجود تنقیدی اصطلاحات پر بھی ان کی گیرائی قابل داد ہے۔ زیر نظر کتاب میں نیر صاحب نے مذکورہ مباحث کے اہم پیش کنندگان کے افکار کا خلاصہ ہی نہیں کیا، انہیں تجزیے، تحلیل اور تنقید کی کسوٹی پر بھی کسا ہے۔ان کے یہاں کہیں مرعوبیت دکھائی نہیں دیتی۔ امید ہے کہ گہرے مطالعے اور تمکین آمیز اعتماد سے ترتیب پانے والی یہ کتاب نئے سوالات اور نئے مباحث کو تحریک دے گی۔‘‘(۲)
یہ ایک حیققت ہے کہ جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے مباحث قابلِ توجہ ہیں۔ ان پر مزید غوروفکر کی ضرورت ہے۔ناصر عباس نیّرکی اس کتاب کی اشاعت کے بعدا ب نوجوان نقاد اس پر توجہ دیں گے تو یہ مباحث مزید وضاحت کے ساتھ سامنے آ سکیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ ناصر عباس نیّر کی یہ کتاب اردو تنقید میں علم و فکرکے نئے گوشے وا کرے گی۔خدا کرے ناصر عباس نیّر اسی جو ش و جذبے کے ساتھ اور کامل یکسوئی کے ساتھ تنقید کی نئی نئی دنیائیں تلاش کرتے رہیں۔لاہور کی آب و ہوا اور لاہور کا ادبی ماحول ناصر عباس نیّر کی تنقیدی صلاحیتوں کو جلا بخشے گی۔اردو تنقید اور تخلیق کاروں کو ان سے بہت امیدیں ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ جدید اور ما بعد جدید تنقید از ناصر عباس نیّر ، انجمن ترقی اردو، ڈی ۔۱۵۹بلاک ۔۷گلشن اقبال، کراچی۔۷۵۳۰۰،دسمبر ۱۹۰۴، ص۔۱۱
۲۔ جدید اور ما بعد جدید تنقید از ناصر عباس نیّر ، انجمن ترقی اردو، ڈی ۔۱۵۹بلاک ۔۷گلشن اقبال، کراچی۔۷۵۳۰۰،دسمبر ۱۹۰۴، ص۔۴