ڈاکٹرگوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی در مہربانی
جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲بابت جنوری تا دسمبر۲۰۰۹ء کی اشاعت اکتوبر ۲۰۰۸ء میں ہو رہی تھی۔جدید ادب کو عام طور پر معلنہ تاریخ سے دو ماہ پہلے چھپوانے کی کوشش کرتاہوں تاکہ بحری ڈاک سے بیرون برِ صغیر کے پیکٹ بروقت پہنچ جائیں۔جدید ادب کبھی انڈیا سے چھپوا لیتا ہوں،کبھی پاکستان سے۔گزشتہ چارشمارے (نمبر ۸،۹،۱۰،۱۱ )جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی کے مصطفی کمال پاشا صاحب نے شائع کیے ،وہ اشاعت کے لحاظ سے بتدریج بہترین ہو رہے تھے۔اس لیے مجھے ان کے ذریعہ ہی یہ کام کرانا اچھا لگ رہا تھا۔ ان کا کام کرنے کا انداز پروفیشنل ہے ،بحیثیت پبلشر مجھے پاشاصاحب بہت اچھے لگے ہیں۔ شمارہ نمبر ۱۲کی سیٹنگ کرکے میں نے فائنل فائلز انہیں بھیج دیں۔اکتوبر میں ہی ۲۸۸صفحات کا رسالہ چھپ گیا،لیکن بائنڈنگ ہونے سے پہلے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے پبلشرپرقانونی چارہ جوئی کا دباؤ ڈال دیا۔پاشاصاحب کی مجبوری بجا تھی کہ وہ اشاعتی امور میں تواچھاپروفیشنل کام کر سکتے تھے لیکن کسی قانونی جھگڑے میں الجھنا ان کے لیے ٹھیک نہ تھا۔سو اس کے نتیجہ میں چھپا ہوا جدید ادب بائنڈنگ سے روک لیا گیا۔نارنگ صاحب کا تقاضہ تھا کہ ان کے خلاف جدید ادب میں کچھ بھی نہیں شائع ہو۔لیکن جدید ادب شمارہ نمبر ۱۲کی اشاعت میں ڈاکٹر نارنگ صاحب کی طرف سے ناجائز دباؤ کی روداد بعد میں،پہلے ان کی ناراضی کی وجہ جان لیں۔
جدید ادب کے شمارہ ۹،۱۰اور ۱۱میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی شہرہ آفاق تصنیف’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کے تین مضامین شائع ہو چکے ہیں ۔میں نے جدید ادب کے صفحات پرعمر ان شاہد بھنڈر کے مندرجات اور سرقہ کے سنگین الزام سے بریت کے لیے نارنگ صاحب کو کھلی پیش کش کی کہ وہ جو بھی جواب لکھیں گے،اسے من و عن شائع کیا جائے گا۔لیکن انہوں نے جہاں خود کو’’چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد‘‘کی جیتی جاگتی مثال بنایا وہاں اب انہوں نے ’’چوری اور سینہ زوری‘‘کا بھی کھلا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔علمی اختلاف رائے کسی سے بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے دلیل سے کام لینا پڑتا ہے۔لیکن جب جواب بن نہ پڑے تو پھر انسان اپنی سماجی و سیاسی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر دلیل کا جواب پتھر سے دیتا ہے۔ نارنگ صاحب نے اب یہی کیا ہے۔
جہاں دلیل کو پتھر سے توڑنا ٹھہرا
وہ شہرِ سنگ دلاں سخت امتحان میں ہے
اپنے کھلے سرقوں کا نارنگ صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔کیتھرین بیلسی،جولیا کرسٹوفر،کرسٹوفر نورس،ٹیری ایگلٹن،رامن سیلڈن،جان سٹرک،جیسے مغربی مصنفین کی کتابوں سے پیراگرافس کے پیراگرافس چوری کرلینے کا جواب نارنگ صاحب کے ذمہ ہے۔ٹیرنس ہاکس کی کتابStructuralism and Semiotics پیراگرافس کے معمولی سے ادل بدل کے ساتھ پوری کی پوری اپنی شاہکار’’تصنیف‘‘ ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعر یا ت میں شامل کر لی۔Selden, Raman کی کتاب Contemporary Literary Theory سے اتنے صفحات چوری کیے کہ ہر اقتباس کے ساتھ سرقہ شدہ اقتباس دینا محال ہو گیا۔سرقہ کی نشاندہی کے لیے جدید ادب شمارہ ۱۱کے صفحہ نمبر ۸۰پراصل کتاب اور نارنگ صاحب کی شاہکار کتاب کے صفحات نمبرز کی نشاندہی پر اکتفا کرنا پڑا۔مذکورہ سرقہ شدہ صفحات کا یہاں بھی حوالہ دے دیتا ہوں۔
رامن سیلڈن کی کتاب کے صفحات گوپی چند نارنگ کی کتاب کے سرقہ شدہ صفحات
۲۷تا ۴۲ ۷۹تا ۱۰۶
۴۹تا ۷۰ ۲۸۸تا ۳۲۹
۱۴۹تا ۱۵۸ ۲۳۴تا ۲۴۰
۸۶تا ۰۳ ۱ ۲۴۳تا ۲۶۷
جس کتاب کی پیشانی پر اس قسم کے الفاظ جگمگا رہے ہوں:
’’پروفیسر نارنگ کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے وقیع اور فکر انگیز کام‘‘
’’نئی ادبی تھیوری ساختیات،پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کا مکمل اور مستند تعارف اور تجزیہ‘‘
اور جس کا علمی پوسٹ مارٹم شرمناک سرقوں کو کھول کر سامنے لے آئے،اس کے بعد نارنگ صاحب نے اپنا دفاع تو کیا کرنا تھا،جدید ادب کی اشاعت میں رخنہ ڈالنے کی سازش شروع کر دی۔یہاں یہ مان لینا چاہیے کہ ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات نارنگ صاحب کی اب تک کی علمی و ادبی کتابوں میں سب سے اہم کتاب ہے۔اگر اس کتاب کو عمران شاہد بھنڈر نے مغربی کتابوں کا سرقہ ثابت کر دیا ہے تو نارنگ صاحب کی باقی کتابوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟اور ان کی یہ شاہکار ’’تصنیف‘‘ تو ’’نئی ادبی تھیوری ساختیات،پسِ ساختیات اور ردِ تشکیل کا مکمل سرقہ‘‘ثابت ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب سارق تو اتنے دلیر ہیں ہی کہ چراغ ہتھیلی پر لے کر سرقہ کرچکے ہیں اور یہ بھول گئے کہ اس سائبر ایج میں کہیں بھی کچھ چھُپا ہوا نہیں رہ گیا۔لیکن وہ چور ی کے ساتھ سینہ زوری بھی کر رہے ہیں اور اس میں بھی انہیں امتیاز حاصل ہو گیا ہے۔
جدید ادب کے شمارہ نمبر ۸سے لے کرشمارہ نمبر ۱۱تک سب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی والوں نے شائع کیے اور بڑے اچھے طریقے سے شائع کیے۔شمارہ نمبر۱۲، بھی اشاعت کے لیے انہیں بھیجا گیا۔رسالہ شائع ہو گیا لیکن اس کو ریلیز کرنے میں نارنگ صاحب رکاوٹ بن گئے۔پہلے کہا گیا کہ اس شمارہ میں سے نارنگ صاحب کے خلاف میٹرکو حذف کیا جائے ۔ میں نے بتایا کہ اس شمارہ میں نارنگ صاحب کے سرقوں کی نشاندہی کرنے والا کوئی مضمون شامل نہیں ہے البتہ بعض قارئین نے اپنا ملا جلا ردِ عمل دیا ہے۔ نارنگ صاحب سے کہیں کہ اس بار اسے برداشت کر لیں ۔آئندہ یا آپ کی مجبوری کا خیال رکھوں گا یا پھر کوئی اور پبلشر ڈھونڈ لوں گا۔لیکن پاشا صاحب کی طرف سے اصرار رہا کہ ایسا میٹر بھی حذف کیا جائے۔چنانچہ مجھے خطوط کے صفحات پر شامل تمام خطوط میں سے وہ حصے حذف کرنا پڑے جن میں قارئین ادب نے نارنگ صاحب کے سرقوں کی داد دی تھی۔اس کے نتیجہ میں ڈیڑھ صفحات سے کچھ کم خالی جگہ بچ گئی۔صفحہ کی بچی ہوئی جگہ پر میں نے یہ نوٹ دے دیا
ضروری نوٹ: آخری مرحلہ میں خطوط کے صفحات میں سے محترمہ حمیدہ معین رضوی صاحبہ کا خط اشاعت سے روکنا پڑا۔دیگر خطوط میں بھی بہت سے حصے حذف کرنا پڑے۔وجہ۔۔۔ابھی ناگفتنی ہے۔قارئین کرام دعا کریں کہ اب رسالہ جرمنی سے ہی شائع کرنے کے قابل ہو جاؤں۔۔۔پھر آزادیٔ اظہار کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوگا۔انشا ء اللہ!۔۔۔۔آخری مرحلہ کی سنسر شپ کے باعث اس شمارہ کاایک صفحہ خالی بچ گیا تو اس پر اپنی دوتازہ غزلیں شامل کر رہا ہوں۔
حیدر قریشی
اور ایک صفحہ پر اپنی دو تازہ غزلیں شامل کر دیں۔ان غزلوں میں پہلی غزل کا مطلع یہ تھا:
جتنے سیاہ کار تھے نردوش ہو گئے
ہم سر جھکا کے شرم سے خاموش ہو گئے
آخری سولہ صفحات کی ان پیج فائل فائنل کر کے پاشا صاحب کو بھیج دی تو بعد میں اس مطلع کی وجہ سے خیال آیا کہ نارنگ صاحب غزل کے اس مطلع کو بھی خود پر نہ محمول کر لیں۔چنانچہ میں نے پھر از خود اس غزل کو حذف کرکے ایک اور غزل شامل کر دی۔اور پاشا صاحب کو بھی لکھ دیا کہ اس وجہ سے یہ غزل بھی حذف کر رہا ہوں۔اتنی احتیاط کے باوجود میں نے پاشا صاحب سے کہا کہ اب اگر شمارہ ۱۲میں کہیں نارنگ صاحب کے بارے میں کچھ ہلکا پھلکا سا لکھا ہوا رہ گیا ہو تو انہیں کہئے کہ اسے برداشت کر لیں۔چنانچہ خطوط کے صفحات کی فائل کے سولہ صفحات کی کاپی دوبارہ اشاعت پذیر ہوئی۔رسالہ کی جلد بندی ہو گئی اور ایک بار پھر ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے علمبردار ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنی سنسر شپ کا فیصلہ صادر کر دیاکہ اس میں دہلی یونیورسٹی کے علی جاوید صاحب کاجو خط شامل ہے،اسے بھی حذف کرایا جائے ۔ یہ انتہائی تکلیف دہ سنسر شپ تھی لیکن میں نہ صرف اس کے لیے بھی راضی ہو گیا بلکہ ایک روز پہلے ۲۷اکتوبر کو موصول ہونے والے سلیم آغا قزلباش کے ایک خط کا اقتباس متبادل کے طور پر بھیج دیا۔
سلیم آغا کا اضافہ کردہ خط جو علی جاوید کے خط کو حذف کرکے شامل کرنا پڑا وہ یہاں پیش ہے:
جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۱نظر نواز ہوا۔تازہ شمارے کے مشمولات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو ادب کی متعدد اصناف نظم و نثر کو مذکورہ شمارے میں جگہ دی گئی ہے تاہم انشائیہ کی عدم موجودگی نے تشنگی کا احساس دلایا۔آپ خود بھی معیاری انشائیے باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں،اس حوالے سے انشائیے کو ’’جدید ادب‘‘کے ہر تازہ شمارے میں جگہ ملنی چاہئے۔۔۔آپ کے ’’سدھارتھ‘‘پر تحریر کردہ تجزیاتی مطالعے نے بعض ایسے گوشوں کو اجاگر کیا ہے جو کم از کم میرے لیے بالکل نئے ہیں۔اس قدر عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے پر میری جانب سے مبارکباد قبول فرمائیے۔
سلیم آغا قِزلباش(وزیر کوٹ۔سرگودھا)
چنانچہ خطوط کے صفحات کی سولہ صفحات کی فائل تیسری بار اس ترمیم کے ساتھ شائع کی گئی کہ علی جاوید کا خط حذف کرکے،اس کی جگہ سلیم آغا قزلباش کا خط شامل کیا گیا۔قطع نظر اس سے کہ نارنگ صاحب دہلی میں بیٹھے ہوئے علی جاوید کو تو روکنے کی ہمت نہیں رکھتے لیکن جدید ادب میں چھپا ہوا ان کا خط حذف کرانے کے لیے پاشا صاحب پر ہر طرح کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ میری طرف سے اتنی لچک دکھائے جانے کے باوجود ڈاکٹر گوپی چند کی تشفی نہیں ہوئی۔چنانچہ اس کے باوجود رسالہ کو ریلیز نہیں کیا گیا۔ میں نے مجبوری کی صورت میں جتنی لچک دکھانا تھی، دکھا دی۔اس کے بعد میرے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ پاشا صاحب کی مجبوریوں کا خیال کرتے ہوئے کسی اور پبلشر سے رابطہ کروں۔لیکن کچھ پاشاصاحب کی ہمت سے اور کچھ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی سے پھر رسالہ ریلیز کرنے کی اجازت دے دی گئی اور اب جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۲جنوری ۲۰۰۹ء سے پہلے نومبر کی آخری تاریخوں ہی میں پاکستان اور جرمنی میں پہنچ چکا ہے۔
مجھے نارنگ صاحب کی ذہنی حالت پر بھی کچھ شک ہونے لگا ہے۔وہ شمارہ ۹،۱۰اور ۱۱کے تفصیلی مضامین کو تو جیسے تیسے برداشت کر گئے لیکن چند ہلکے پھلکے سے تنقیدی ردِ عمل پر اتنے گھبرا گئے کہ بار بار سنسر کرتے چلے گئے۔یہ خطوط کچھ ایسے خطرناک نہ تھے۔ریکارڈ کے طور پر وہ سارے خطوط یہاں درج کر رہا ہوں جنہیں سنسر کرنے کا اعزاز بخشا گیا۔بعض خطوط میں سے صرف نارنگ صاحب کا نام حذف کر دیا گیا اور باقی جملہ ویسے رہنے دیا گیا تو وہ اسی پر خوش ہو گئے۔سو جن خطوط میں سے صرف نارنگ صاحب کا نام حذف کیا گیا اور باقی جملے چھاپ دئیے گئے،انہیں بھی شامل کررہا ہوں البتہ ان کے سنسر شدہ حصوں کو گہرا کر کے نمایاں کر دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کے سنسر شدہ خطوط
The article of Imran Shahid Bhender in Jadeedadab.com is indeed an eye opener. We are very well familiar with many other qualities of Narang sahib but this aspect is particulary interesting.Anyway, this is very unfortunate and plagiarism should be discouraged and condemned at every level. To achieve this goal I think wider publicity should be given to such cases.I am writing this letter to request you to allow us to reproduce the article in a new quarterly journal launched from Delhi. The journal ‘Behs-o-Mubahisa’ is started by a group of teachers and writers from Delhi. Asif Azmi is its editor and publisher. If you allow us, we would also like to have the matter as inpage file. I hope you would do this favour. However, if the permission is required from Imran shahid sahib, I would request you to send his email ID.
علی جاوید(دہلی)
گوپی چند نارنگ سے متعلق عمران شاہد کی مفصل اور مدلل تحریر ہر لحاظ سے لائق مطالعہ ہے۔بلا شبہ مصنف کا لہجہ کہیں کہیں پر کچھ زیادہ ہی درشت ہوگیا ہے ، تاہم تحریر کی افادیت (بلکہ حقانیت) سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بازگشت اردو دنیا میں دیر اور دور تک سنی جاسکے گی۔ حیرت ہے کہ گوپی چند نارنگ جیسا جہاں دیدہ اور زیرک نقاد اس دھوکے میں کیسے آگیا کہ سرقے کا یہ معاملہ ہمیشہ صیغۂ راز میں ہی رہے گا ! ایسا لگتا ہے کہ نارنگ صاحب نے اردو والوں کو کچھ زیادہ ہی Underestimateکرلیا اور دھوکا کھا گئے۔ ایک طرف عمران شاہد بھنڈر کی صریح،واضح اور مدلل تحریرہے(جس کا تحقیقی اعتراف محترمہ شبانہ یوسف (برمنگھم) نے اپنے مراسلے میں کیا ہے) تو دوسری جانب ڈاکٹر نار نگ کی ’شان استغناء‘ سے پُر خاموشی، ․․․․․․اب ایسے میں سرقے کی بات کو کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے! اس سلسلے میں کاوش عباسی کے مراسلے کے ساتھ آپ نے جو ادارتی نوٹ لگایا ہے اس کی برجستگی مجھے بہت پسند آئی۔ در اصل آپ نے ہم اردو والوں کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے گیان چند جین کی کتاب’ایک بھاشا ،دو لکھاوٹ،دو ادب‘ پر اردو عوام الناس نے صدائے احتجاج بلند کیا تو چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے بیشتر ادیبوں نے اس معاملے میں( تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے) ایسی’’ پر اسرار خاموشی‘‘ اختیار کر لی کہ اس کی گونج آج تک سنی جاسکتی ہے ۔ اور اسکے بنیادی اسباب وہی تھے جن کا ذکر آپ نے اپنے ادارتی نوٹ میں کیا ہے۔ ارشد کمال(دہلی)
ایک بارپھر عمران شاہد بھنڈر کا مضمون گوپی چند نارنگ کے سرقہ کے بارے میں پڑھنے کو ملا ۔انہوں نے اس مضمون میں اس کے سرقے کے بارے میں مزید شواہد پیش کئے ۔حا لانکہ بات تو پہلے ہی مضمون کے ساتھ واضح ہو گئی تھی۔اور شاید عمران صاحب کو اس بات کا علم ہو گا کہ پاکستان اور بھارت میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ۔یہاں تو شروع سے یہ کام چلا آرہا ہے ۔آپ انیس جیلانی اور اس کے باپ کی مبارک اردو لائبریری کو تو جانتے ہیں ۔انیس جیلانی نے اپنے باپ کے نام نوازش نامے کے ساتھ جو خط چھاپے ہیں ۔اس میں نوح ناروی صاحب بھی اپنا ایک دیوان فروخت کرنے لئے پیشکش لئے بیٹھے ہیں ۔اس طرح کی ادبی جعل سازی کے خلاف تو آپ نے ایک لمبی قلمی جدوجہد بھی کی ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے کئی پر وفیسر و ں (لیکچرار نہیں) کے پی ۔ایچ ڈی کے تھیسیزچوری کے نکلے ہیں۔جو انہوں نے باہر کے ملکوں میں جا کر سرکاری خرچوں پر چوری کئے تھے۔ایسے پروفیسروں میں کئی برطرف ہو گئے ہیں اور کئی کے خلاف کاروائیاں چل رہی ہیں۔میں یہ بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے پرفیسروں کی کتابیں جن پر ان کے نام چھپے ہیں ان کے ایم۔ اے ۔ایم۔فل اور پی ایچ ڈی سٹودنٹس کی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔بات کچھ لمبی ہو گئی ہے در اصل میں بھنڈر صاحب سے یہ کہنا چاہتاہوں کہ وہ اب نارنگ صاحب کی کسی اور کتاب کا جائزہ لیں مثال کے طور پر اردو زبان اور لسانیات وغیرہ کا اور اس میں دیکھیں کہ نارنگ صاحب نے کن کن پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ آخری باب خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے۔ اسلم رسولپوری۔جام پور
رسالہ مل گیا۔ ابھی اچھی طرح نہیں پڑھا ہے۔عمرا ن شاہدکا مضمون بہت معلومات افزا ہے۔ہائی ڈ یگا۔اورڈریدا اس عہد کے بہت بڑے بو رشوازی اور استعماری مقاصد کے آلہءِ کار ہیں اس سے بڑا یہ سچ ہے کہ ہمارے عہد کے’’ بڑ ے نقاد‘‘عموماّّ خود ساختہ بڑے ہیں۔ اور مغربی افکارکے ، زہریلے مقاصد کو،اس میں پوشیدہ ایجنڈے کو صحیح طور پہ سمجھے بغیر پنڈت بن کر پڑھانے لگتے ہیں، اور اذیت کی بات یہ ہے کہ اگر آپ عام آدمی کی نہیں خواص کے بھی ذ ہنی ا فق کو وسعت دینا چاہیں اور انھیں باخبر کرنا چاہیں تو اس قسم کا سوال کیا جاتا ہے کہ ۔ مغربی تنقیدی کلیات سے ہمارا کیا کام؟ اگر اکثریت ایسے لوگوں کی ہو جو جہا لت اوڑھے رکھنے پہ بضد ہوں تو نارنگ صاحب جیسے پنڈت خدائے تنقید نہ بنیں تو کیا کریں۔میرے اپنے ایک مضمون ’’قاری کی ردِ عمل تنقید کیا ہے‘‘(مطبوعہ سہ ماہی تجدیدِ نو۔لاہور شمارہ اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۶ء) کا تعلق اس بات سے تھا کہ مغرب میں ادب سیاسی مقاصد کیلئے کیسے استعمال ہوتا ہے۔ اور قاری کے ردِ عمل کی تنقید اسی سلسلے کی کڑی کیسے ہے ْ؟
اسی رویے کے خلاف ایڈورڈ سعید نے اشارہ کیا ہے کہ دانشوروں کو مکتبی، اور ادارتی منتظمین کا غلام نہیں ہونا چاہئے۔ مابعدجدیدیت ایک مجہول نقطۂ نظر تھا مگر ہمارے ہاں نقادوں نے بزعمِ خود خوب میدان مارے ، بغیر جانے کہ اس تحریک کا مقصد نئی استعماریت کا فروغ تھا ۔ عمران شاہد کے نارنگ صاحب پہ اعتراضات سے مجھے پورا اتفاق ہے اسلئے بھی کہ میں نے گزشتہ سا ل ڈریدا اور فیمنزم کے گٹھ جوڑ پہ ایک مضمون لکھا تھا اس سلسلے میں تنقیدی نظریات کی پو ری تا ریخ پڑھی تھی۔اور وہ دماغ میں تازہ ہے، ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ مجھے ایک قریبی جاننے والے نے بتایا کہ نارنگ صاحب سربیٹن کی لائبریری میں بیٹھ کر ا ردو تنقید پہ کوئی کتاب لکھا کر تے تھے۔ مجھے بہت حیرت یوں ہوئی کہ اردو کی ایک کتاب بھی ہمارے علاقے کی لائبریری میں نہیں تھی میں نے مقامی ایم پی سے مل کر جنگ اخبار لگوا یا تھااور تب سے یہاں چند اردو کی کتابیں رکھی جانے لگیں ہیں۔ تو یقیناََ وہ اُن دنوں اردو کی نہیں انگریزی کی کتاب ترجمہ کرہے تھے اور یہاں اردو کتابیں آنے سے بہت پہلے نارنگ صاحب اپنی علمیت کے شہرہِ آفاق پہ پہنچ چکے تھے۔
انگریزی کی کوئی کتاب بھی کچھ پیسے دیکر منگوائی جاسکتی ہے جو انڈیامیں نہیں ملے گی۔ اگرچہ کاپی رائٹ کا قانون یہاں موجود ہے تاہم انڈیا پاکستان میں آپ پوری کتاب اپنے نام سے چھپوالیں کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں لو گوں نے نارنگ صاحب سے اس سرقے کے بارہ میں پوچھا تھا مگر انھوں کوئی جواب نہیں دیا۔ جس سے عمران صاحب کے الزامات کو تقویت ملتی ہے۔ویسے نارنگ صاھب کو یقین ہے کہ انڈیا میں کوئی انکا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ انکی علمیت کا بت تو پاکستان میں بہت اونچے مقام پہ ہے۔ جب لوگوں کو براہِ راست پڑھنے کے بجائے دوسروں کا ملغوبہ مل جائے اور شاعری میں تک بندی معراجِ ادب قرار دیجائے تو سب کچھ ممکن ہے۔ لوگ آئے دن ڈاکٹریٹ کرتے ہیں اور دوسروں کے خیالات کو دبارہ پیش کر دیتے ہیں۔ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ حمیدہ معین رضوی(لندن)
جدید ادب شمارہ نو(۹) شمارہ دس (۱۰) اور شمارہ گیارہ (۱۱) میں جناب گوپی چند نارنگ پر جناب عمران شاہد بھنڈر کے مضامین کا ہنگامہ۔ آپ کے ادارتی نوٹ اور جوئیہ صاحب کا ردعمل یہ سب خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ جناب عمران شاہد بھنڈر نے اپنے انکشافات کو بڑے مدلل طریقہ سے اقتباسات اور حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہوئے مغربی مفکرین کی نقالی اور سرقے کو ہی نارنگ کی ادبی شناخت ثابت کردیاہے۔ اس سلسلہ میں محترمہ شبانہ یوسف نے ان تمام کتب تک رسائی حاصل کی جنکا حوالہ بھنڈر صاحب نے اپنے مضمون میں دیا محترمہ کا تفصیلی خط شمارہ نمبر گیارہ بے حد اہم گواہی پیش کرتاہے۔ جس کے بعد شک و شبہے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب اس بحث نے نیا دروازہ کھول دیاہے۔ فی الوقت نارنگ صاحب کی مجرمانہ خاموشی پر ہنسی آرہی ہے۔ رد عمل کے طورپر جاوید حیدر جوئیہ صاحب کا مضمون نفس مضمون سے ہٹ کر ذاتیات کو نشانہ بناتے ہوئے مخالفت برائے مخالفت کا ایک نمونہ پیش کرتاہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا……
تنہا تما پوری(تما پور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان کے بارے میں ابھی تک میرا تاثر اور تجربہ یہی تھا کہ وہاں آزادیٔ اظہار زیادہ ہے۔میں نے اپنے صحافتی کالموں میں ہندوستان کے انتہا پسند ہندوؤں اور ان کے رہنماؤں کے بارے میں خاصے سخت الفاظ لکھے ہیں لیکن میرا وہ لکھا ہوا انڈیا ہی میں چھپتا رہا ہے۔کالم کی صورت میں بھی اور کتابی صورت میں بھی۔لیکن کسی نے بھی اس آزادیٔ اظہار میں رخنہ پیدا نہیں کیا۔اسی وجہ سے میرے دل میں انڈیا کی حکومتوں اور اداروں کے لیے احترام کا جذبہ رہا ہے۔مجھے احساس ہے کہ انڈیا میں صحافتی آزادی کا مجموعی تاثر وہی ہے جو میرے دل میں موجود ہے لیکن ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب نے مغربی ادب سے اپنے کھلے سرقوں کے کھلے ثبوتوں کا جواب دینے کی بجائے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے وہ ہندوستان کی علمی،ادبی اور صحافتی ساکھ پر ایک بد نما داغ ہے۔
میں حکومت ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی جانب سے کی جانے والی اس بلیک میلنگ کا نوٹس لے،جس نے انڈیا میں مہذب طریقے سے کیے جانے والے آزادیٔ اظہارکا گلا گھونٹنے والی حرکت کی ہے۔اسی طرح ان کی کتاب ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات کے سلسلہ میں ایک علمی کمیٹی بٹھائی جائے جو تحقیق کرے کہ نارنگ صاحب نے واقعی یہ سارے شرمناک سرقے کیے ہیں یا ان پر بے جا الزام ہیں۔اگر وہ پاک صاف ثابت ہوں تو ان کی مذکورہ کتاب کا انگریزی ترجمہ سرکاری طور پر شائع کرایا جائے۔اور میں جدید ادب میں اس کتاب کے سرقوں کے حوالے سے چھپنے والے سارے میٹر کے لیے انڈیا کے قانون کے مطابق بخوشی ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار رہوں گا۔
مغربی دنیا میں اردو کے جتنے رسائل چھپتے ہیں ،سب کے سب پاکستان اور ہندوستان سے چھپ کر وہاں سے ریلیزکیے جاتے ہیں۔ان میں زیادہ تر کتابی سلسلے ہی ہیں۔میرے پاس ایسے تمام رسائل کی پوری لسٹ موجود ہے جو انڈیا سے چھپ کر یورپ سے ریلیز کیے جاتے ہیں۔اور تو اور ایک پاکستانی رسالہ بھی انڈیا سے چھپ کر دنیا بھر میں ریلیز کرنے کی خبر آچکی ہے۔ادبی رسائل میں چھپنے والے مواد کا تعلق علم و ادب سے ہوتا ہے۔نارنگ صاحب کے بارے میں بھی جو کچھ شائع کیا گیا وہ سراسر علمی و ادبی معاملہ ہے ۔اردو دنیا جس نقاد پر ناز کرتی رہی اس کا جو اصلی علمی حدود اربعہ سامنے آچکا ہے وہ خود اردو والوں کے لیے انتہائی افسوسناک ہے۔اپنے سرقوں کا سامنا کرنے کی بجائے آئینہ دکھانے والوں کے آئینہ کو توڑنے کو کاوش کرنا ہر گز مستحسن نہیں ہے۔
آپ کتنے آئینے توڑیں گے؟
اپنے آپ کو دیکھئے اور پہچانئے نارنگ صاحب!
(تحریرکردہ :۴دسمبر ۲۰۰۸ء۔جرمنی سے)
(مطبوعہ سہ ماہی اثبات تھانے،ممبئی۔شمارہ نمبر ۳۔
دسمبر۲۰۰۸ء تا جنوری،فروری ۲۰۰۹ء)
(روزنامہ ہندوستان ایکسپریس دہلی
عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نمبر مئی ۲۰۰۹ء)
اس مضمون کی بروقت اشاعت کے لیے اشعر نجمی مدیر اثبات کا خصوصی شکریہ! ح۔ق