روزنامہ دنیا لاہور کے۱۷اور۱۸ستمبر کے شماروں میں ظفر اقبال صاحب کے کالم ”دال دلیہ “میں جدید ادب کے میرا جی نمبر پر تبصرہ کیا گیا ہے۔اس میں میرا جی کے خلاف حیران کن حد تک جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔بہت ساری غیر متعلق اور دوسری باتیں بھی چھیڑ دی گئی ہیں۔دوسرے معاملات پر دیگر متعلقہ ادیب حضرات ظفر اقبال صاحب کو مناسب جواب دے سکیں گے۔اُن غیر متعلق باتوں میں الجھنے کی بجائے میں یہاں صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ جدید ادب کے میرا جی نمبر میں پروفیسر ڈاکٹر مظفر حنفی کا ایک مضمون شامل ہے”میرا جی:شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات“۔ جدید ادب کے میرا جی نمبر کے صفحہ ۹۳پر درج اس مضمون کا ایک اہم اور ٹو دی پوائنٹ اقتباس توجہ طلب ہے،سو یہاں پیش ہے:
”میرا جی کے متفرق اشعار پڑھتے ہوئے مجھے بے ساختہ ظفر اقبال یاد آگئے۔تین چار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
ملائیں چار میں گر دو تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے دو تو باقی چار رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا پوچھتے ہو ہم سے یہ ہے حالتِ جگر
پی اس قدر کہ کٹ ہی گیا آلتِ جگر
۔۔۔۔۔۔۔۔
چہرے کا رنگ زرد، مئے ناب کا بھی زرد
یہ رنگ ہیں کہ رنگ ہے پیشاب کا بھی زرد
۔۔۔۔۔۔۔۔
دن میں وظیفہ اس کا کئی بار کیجیے
اپنے جگر کے فعل کو بیدار کیجیے
یعنی زبان کی توڑ پھوڑ اور مضامین کی اکھاڑ پچھاڑ کا جو کام ظفر اقبال آج کر رہے ہیں،اُس کا آغاز میرا جی نے ۷۰۔۸۰ برس پہلے کر دیا تھا۔دیکھیں وہ میرا جی کے اس فیضان کا اعتراف کب کرتے ہیں۔“
اس میں ایک ادبی بات ادبی سلیقے اور واضح ثبوت کے ساتھ بیان کی گئی تھی۔میرا جی کے حوالے سے یہ انکشاف بھی میرے پیش نظر تھا جب میں نے اسی میرا جی نمبر کے صفحہ نمبر ۸پراپنے اداریہ میں یہ لکھا:
” میرا جی سے بہت سارے لکھنے والوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اکتساب کیا،فیض اُٹھایا لیکن عمومی طور پرغالباََ ان کی عوامی مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے ،ان کے اعتراف میں بخل سے کام لیا۔یہ کوئی الزام تراشی نہیں ہے ،بس ادبی دنیا کے طور طریقوں کا ہلکا سا گلہ ہے۔۔صرف یہ احساس دلانے کے لیے کہ اگر کچھ فیض اُٹھایا ہے تو میرا جی کا تھوڑا سا اعتراف کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر کہیں سے کچھ سیکھنے کو مل جائے،کوئی رہنما نکتہ مل جائے،کوئی تحریک مل جائے اور اس ذریعہ کا فراخدلانہ اعتراف کرلیا جائے تو ایسا اعتراف نہ صرف قلبی خوشی اورذہنی اطمینان کا موجب بنتا ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں ادبی زندگی کے با برکت ہو جانے کا احساس بھی ہوتا ہے۔“
مظفر حنفی صاحب کا انکشاف اور میری مذکورہ گزارش اصل بات تھی، جس کے سامنے آنے پر ظفر اقبال صاحب ایماندارانہ اعتراف کرنے کی بجائے اتنا طیش میں آگئے کہ میرا جی کے ہر اس کام کو بھی رد کردیا جس کا اعتراف فیض احمد فیض،ن۔م۔راشد، ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر جمیل جالبی،سید وقار عظیم،اخترالایمان،ڈاکٹر عبادت بریلوی،جیلانی کامران،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ،شمس الرحمن فاروقی،ڈاکٹر رشید امجد، انتظار حسین اور شمیم حنفی جیسی سینئر اور جید ادبی شخصیات نے برملا طور پر کیا ہوا ہے۔یہاں انتظار حسین کے ایک تازہ کالم کا ایک اقتباس پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں۔اہلِ ادب تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنے کے بعد خود فیصلہ کریں کہ ظفر اقبال صاحب کے متشددانہ ردِ عمل کے پسِ پردہ موجود اصل حقیقت کیا ہے۔انتظار حسین صاحب لکھتے ہیں:
”ویسے تو میرا جی بھی اتنے ہی توجہ کے مستحق ہےں جتنی توجہ کے مستحق فیض اور راشد سمجھے گئے تھے۔۔۔۔ترقی پسندوں نے جو میرا جی کی مذمت کر رکھی ہے کہ ذہنی طور پر بیمار شاعر ہے۔ذات کی الجھنوں میں پھنسا رہتا ہے۔مریضانہ داخلیت پسندی کا شکار ہے، اس پر مت جائیے۔فیض صاحب کی ترقی پسندی اپنی جگہ مگرجدیدیت کے تصور نے تین شاعروں فیض،راشد ، میرا جی کو ایک رسی میں باندھ رکھا ہے یا کہہ لیجیے کہ ایک رشتہ میں پرو رکھا ہے ۔اور وہ جو اردو میں جدید شاعری کی روایت قائم ہوئی اس میں ان تین کی حیثیت اس روایت کے بڑوں کی تھی اور اب بھی ہے۔۔۔۔جدیدیت کے تصور سے متاثر نئے ذہنوں نے زیادہ اثر میرا جی سے قبول کیا۔یہ تینوں لاہور میں موجود تھے مگر نئی شاعری کے رسیا نوجوان میرا جی کے گرداکٹھے ہوئے۔میرا جی ان کے گرو بن گئے۔مختار صدیقی،یوسف ظفر،قیوم نظر،مبارک احمد،ضیا جالندھری،گویا میرا جی کے زیر اثر ایک پورا مکتبہ شاعری وجود میں آگیا۔ پھر آگے چل کر جو نوخیزوں کی ایک ٹولی نمودار ہوئی اور جو دعویٰ کرتی تھی کہ جدید شاعر تو اصل میں ہم ہیں۔اس ٹولی نے بھی اپنا رشتہ میرا جی ہی سے جوڑا۔حالانکہ ان میں ایسے نگ بھی تھے جو فکری اعتبار سے بائیں بازو سے ہم رشتہ نظر آتے تھے۔اور میرا جی کا معاملہ یہ تھا کہ جتنے وہ جدیدیت کے حامی تھے اتنے ہی قدیم کے رسیا تھے۔ان کے مجموعۂ مضمون ”مشرق و مغرب کے نغمے“پر نظر ڈالیے۔ایک طرف تو وہ مغرب کے ان شاعروں اور ان اہلِ فکر پر لمبے لمبے مضمون باندھ رہے ہیں جنہیں شاعری میں جدیدیت کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔جیسے بادلئیر،میلارے،والٹ وٹ مین،ڈی ایچ لارنس۔دوسری طرف بھگتی اور قدیم ہند کے شعراءکے ترجمے کرتے نظر آتے ہیں،جیسے ودیا پتی چنڈی داس،امارو،ساتھ میں میرا بائی کے نام لیوا بنے ہوئے ہیں۔گویا نئی اردو شاعری کی روایت وہ اس طرح قائم کرنا چاہتے ہیں کہ اس میں مشرق اور مغرب کے ڈانڈے ملتے نظر آئیں۔اور قدیم اور جدید کا امتزاج دکھائی دے۔“
(مطبوعہ روزنامہ دنیا لاہور۔شمارہ :۲۱ ستمبر ۲۰۱۲ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکرِ میرا جی اور ظفر اقبال صاحب کا شکریہ
اکیس ستمبر ۲۰۱۲ء کے روزنامہ دنیا میںمیری وضاحت کی اشاعت پر ظفر اقبال صاحب نے اپنے آج بائیس ستمبر کے کالم میں اپنے مزید خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ان میں سے بعض باتیں وہی ہیں جو وہ جدید ادب کے میرا جی نمبر پر تبصرہ کرتے ہوئے غیر متعلق طور پر چھیڑ چکے تھے،اب ذرا ان کا دامن مزید شخصیات کے ذکر سے وسیع کر دیا ہے۔میں نے پہلے بھی انہیں غیر متعلقہ سمجھ کر نظر انداز کیا تھا اور اب بھی میرے لیے ان باتوں میں الجھنا مناسب نہیں۔ان کی یہ بات میں نے دلچسپی سے پڑھی کہ ان کی کتابوں کے دیباچے وغیرہ ان کے ناشرین نے اپنی مجبوری کے تحت لکھے یا لکھوائے۔ میں مان لیتا ہوں کہ انہوں نے کبھی کسی نقادسے اپنے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے نہیں کہا ہوگا۔یہ ادب میں ولیوں والا ،صوفیوں والا رویہ ہے۔صوفیائے کرام وسیع المشرب ہوتے ہیں اور چھوٹی موٹی باتوں کو ہی نہیں بڑی بڑی باتوں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ظفر اقبال صاحب بھی ادبی دنیا میں چھوٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کر دیا کریں۔میرا جی کے چار متفرق اشعار بھی ایسی ہی چھوٹی سی بات ہیں۔(اگرچہ ان کا جادوحیران کن ہے)اس کے لیے میرا جی سے بھی درگزر سے کام لیں اور مظفر حنفی صاحب کے معاملہ میں بھی دل میلا نہیں کریں۔جہاں تک میرا تعلق ہے، سوائے اس کے کہ کسی کے ساتھ غیر ضروری طور پر کوئی شدید جنگ چھڑ جائے، میں ادبی اختلاف رائے کے باوجود اپنے سینئرزکا احترام کرتا ہوں۔ظفر اقبال صاحب میرے سینئر ہیں ،میں ان کا بھی احترام کرتا ہوں۔میرے ہاں جتنا میرا جی کا اثر ہے،اس سے ملتاجلتا ظفر اقبال صاحب کا اثر بھی ہے اور یہ اثر الگ الگ ہو کر بھی مجھے ایک سا لگنے لگاہے۔اسی تناظر میںمجھے مظفر حنفی بھی اچھے لگتے ہیں۔سو ظفر اقبال صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اپنی صوفیانہ بے نیازی کے باوجودمجھے بھی اور میرا جی کو بھی کسی رنگ میں یاد رکھا۔اللہ انہیں اس کا اجرعطا فرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(افسوس یہ بے ضرر سی وضاحت روزنامہ دنیا میں شائع ہونے سے رکوا دی گئی)
مطبوعہ نایاب خان پور ۔میرا جی نمبر ۔مارچ ۲۰۱۳ء