جدید ادب کا شمارہ ۱۹ ’’میرا جی ‘‘ کی ادبی زندگی اور شخصیت کے بھرپور مطالعے پر مشتمل ہے۔ یہ’’جدید ادب‘‘ جولائی ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا۔ حیدر قریشی کی ادارت میں شائع ہونے والا یہ نمبر ادبی لحاظ سے اس لئے قدر و منزلت کا حامل ہے کہ اس میں میرا جی کی فن و شاعری پر عمومی گفتگو کے علاوہ میراجی کی حالات ِ زندگی اور ادبی کارناموں کے حوالے سے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اس ضخیم رسالے کے نو حصّے ہیں۔
’’گفتگو‘‘ کے عنوان سے پہلے حصّے میں ڈاکٹر جمیل جالبی جیسے نامور محقق نے میرا جی کے کوائف بیان کئے ہیں۔ مصر سے اُردو کے محقق و استاد ہانی السعید نے میرا جی پر ہونے والے تحقیقی و تنقیدی کام کی مکمل تفصیل پیش کی ہے۔ اس حصّے میں ن م راشد کا خط میرا جی کے نام اور میراجی کے بارے میں خط از جناب اختر الایمان بنام ڈاکٹر رشید امجد شامل ہیں۔ اختر کے خط میں میرا جی کے حالاتِ زندگی کا بیان ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا ایک نامور محقق ہیں ۔ انھوں نے اُردو شاعری کی جڑیں تلاش کرنے کی سعی میں ایک شہرہ آفاق کتاب ’’اُردو شاعری کا مزاج‘‘ بھی تحریر کی ہے۔ ’’جدید ادب‘‘ میں شامل ان کے پانچ مضمون میرا جی شناسی کی بہترین تحریریں ہیں۔ ’’ دھرتی پوجا کی ایک مثال۔۔۔ میراجی‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ ’’جدید ادب‘‘کے اس شمارے کے دوسرے حصّے ’’میراجی شناسی اور وزیر آغا‘‘ کا پہلا تنقیدی مضمون ہے جس میںوزیرآغا نے میراجی کی ذات اور سر زمین پاک وہند سے وابستگی کو تلاشنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
’’میرا جی کی ان نظموں میں سب سے اہم بات یہ نہیں کہ شاعر پل بھر کے اس کیف زا لمحے سے مسرت کا رس نچوڑتا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ اس دوری اور مفارقت میں کھو جاتا ہے۔ جو اس لمحے کے فوراََ بعد نازل ہوتی ہے اور جو دراصل ملن اور سنجوگ سے کہیں زیادہ دیرپا اور لذت بخش ہے‘‘۔(۲۷)
میرا جی شناسی سے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا کے باقی چار مضامین میں ’’میراجی اور اُردو شاعری کا مزاج‘‘ ، ’’میراجی کا عرفان ذات‘‘، ’’میرا جی کی اہمیت‘‘ اور’’ میراجی‘‘شامل ہیں۔ ان تنقیدی مضامین کے علاوہ طارق حبیب نے ’’میراجی شناسی‘‘میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ کے عنوان سے مفصل اور جامع مضمون تحریر کیا ہے جو وزیر آغاکی ’’میراجی کی شناسی‘‘ کے حوالے سے خدمات کا جائزہ پیش کرتا ہے۔
’’میرا جی کی شخصیت اور شاعری‘‘ کے عنوان سے شامل تیسرے حصّے میں سات مضامین ہیں۔ ان میں جیلانی کامران کا مضمون: ’’میرا جی اور نئے لکھنے والے‘‘، ’’ہمارے میراجی صاحب‘‘(ساقی فاروقی)، ’’میرا جی شخصیت کے ابعاد اور فن کی جہات‘‘(مظفر حنفی)،’’ میرا جی۔۔ جس کا ہنوز انتظار ہے‘‘(عبداللہ جاوید)، ’’ میراجی اور معاصر نظم گو شعراء: تقابلی مطالعہ‘‘(مختار ظفر)، ’’میراجی نظم: جدید اُردو نظم کا نقش اول‘‘(احمد ہمیش)، ’’کہ گم اس میں ہیں آفاق‘‘(توحید احمد)، تمام مضامین میرا جی فہمی میںگہرے تنقیدی شعور کے آئینہ دار ہیں۔
’’میرا جی کی تنقید اور ترجمہ نگاری ‘‘کے زیر عنوان پانچ ناقدین اور محققین کے مضامین درج ہیں جو شمارے کے حصّے چہارم میں شامل ہیں۔ یہ مضامین سید وقار عظیم ، ناصر عباس نیر، ڈاکٹر نذر خلیق، ڈاکٹر رشید امجد، مبشر احمد میر، کے تحریر کردہ ہیں جن میں میرا جی کے فن کی مختلف جہات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ’’میرا جی: نئے لکھنے والوں کی نظر میں‘‘ کے عنوان میں چودہ مضامین لکھے گئے۔ جن میں معید رشیدی، سہیل اختر، قاسم یعقوب، مستبثرہ ادیب، ڈاکٹر سید محمد یحیٰی ضیاء، احتشام علی، ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی، شکیل کوکب، شہناز خانم عابدی، سید اختر علی، ہاجرہ بانو اور حیدر قریشی شامل ہیں۔
’’میرا جی کی شاعری کا انتخاب‘‘ میں میرا جی کے انیس گیت، تیرہ غزلیں اور اسی نظمیں شامل کی گئیں ہیں۔’’ میرا جی کی نثر کا انتخاب‘‘ اس حصّے میں میرا جی کی نثر سے انتخاب پیش کیا گیاہے۔ ’’میرا جی کو منظوم خراج محبت‘‘ کے تحت شامل حصّے میں ڈاکٹر پنہاں، صادق باجوہ، ندا فاضلی، شاداب احسانی نے منظوم محبت نامے تحریر کئے ہیں۔
’’مختلف زبانوں میں میرا جی کی نظموں کے تراجم‘‘ کے تحت انگریزی ، جرمن، روسی، ڈچ، اطالوی، عربی، ترکی اور فارسی زبان میں میرا جی کی بعض نظموں کے تراجم شائع کئے گئے ہیں۔ اسی حصّے میں انگریزی میں انتظار حسین کا مضمون”Miraji… Baudelaire in Lahore”، ڈاکٹر رئوف پاریکھ کا”Miraji: Senval, obscure and rebellious”اور ڈاکٹر امجد پرویز کا “Miraji: Life and Works”۔یہ مضامین علمی اورتحقیقی حوالے سے خوب ہیں جن کے قارئین پاکستان تک محدود نہیں۔ آخر میں ’’انتظاریہ‘‘ کے تحت شمس الرحمن فاروقی کا مضمون’’میراجی سو برس کی عمر میں‘‘ شامل کیا گیا ہے۔’’جدیدادب‘‘جرمنی کا میرا جی نمبر 600 صفحات پر مشتمل ہے۔اس سے پہلے مختلف رسائل و جرائدمیں میرا جی پر گوشے چھپتے رہے،یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام بھی ہوا لیکن ’’جدیدادب‘‘ جرمنی کی یہ تاریخی حیثیت ہے کہ سو سال میں میرا جی پر چھپنے والا پہلا نمبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...