(Last Updated On: )
جبینِ جاں پہ جنوں کا نشان روشن ہے
چمکتا چاند ہے اور آسمان روشن ہے
تمھارے بعد تمھارے خیال کی خوشبو
کچھ ایسی بکھری کہ سارا مکان روشن ہے
وہ ایک شعلۂ جوالۂ جنوں ایسے
بھڑک اٹھا ہے کہ غم کا جہان روشن ہے
کبھی جو چونکے خمارِ سفر سے تب دیکھا
نفس کی آگ سے یہ دشتِ جان روشن ہے
ہوا تو راضی۔ مگر ہم نے یہ کیا محسوس
نگاہِ فتنہ میں پھر بھی گمان روشن ہے
ہمارے نام پہ اب جم چکی ہے گرد اسلمؔ
اور اس پہ ایک نیا ہی نشان روشن ہے
٭٭٭