(Last Updated On: )
جبران آج اسے لے کر ڈنر پہ آیا تھا ڈنر کر کے جبران کے کہنے پر وہ دونوں ایکپارک میں آگئے ربیکا ایک بینچ پہ بیٹھنے لگی تھی کہ جبران اس کے قدموں میں بیٹھ گیا
” جبران۔۔۔۔۔نیچے کیوں بیٹھے ہو اٹھو”
” ول یو میری می؟؟؟” وہ یک دم بولا
” جبران پاگل ہو؟؟؟”
” ہاں تمہارے پیچھے” وہ مسکرایا
” جبران میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ مجھے شادی میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں باؤنڈ نہیں رہ سکتی”
” تو تمہیں باؤنڈ کون رکھنا چاہتا ہے تم تو ایسے ہی اچھی لگتی ہو۔۔۔۔۔ جیسے چاہو ویسے ہی رہنا” وہ فوراً بولا
” یہ سب شادی سے پہلے کی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ تم پاکستانی مرد نا عورتوں کے لیے بہت پزیسو ہوتے ہو۔۔۔۔۔ اور میری فرینڈشپ تو مردوں سے بھی ہے”
” ہاں ہوتے ہیں پزیسو۔۔۔۔۔ بٹ تم جیسے چاہو ویسے رہنا دوستی تو میری بھی کافی گرلز سے ہے پر ہر ایک بیوی نہیں بن سکتی” جبران کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی تھی وہ کون سی فرینڈشپ کی بات کررہی ہے عقل پہ پردہ ایسے ہی تو پڑتا ہے کہ انسان اپنا سہی غلط بھول جاتا ہے
” دیکھو یار ہم۔ڈھائی سال سے اچھے دوست ہیں اور ان ڈھائی سالوں نے مجھے تم سے محبت کرادی ہے”
” محبت۔۔۔۔۔ ایک بات بتاؤں جبران میں آج تک تمہیں جتنا بھی جانا ہے مجھے ایسا لگا ہے کہ تمہیں محبت صرف اپنی وائف سے ہے۔۔۔۔۔ تم اکثر اس کی بات کرتے ہو تم اکثر اس کو مجھ سے کمپئیر کرتے ہو۔۔۔۔۔ بھلے اسے برا پی کہو پر ذکر کرتے ضرور ہو”
” اوہ پلیز یار اس وقت اس کی بات تو نا کرو مجھے نہیں ہے اس سے محبت اور رہی کمپئیر کی بات تو میں اسے ت
سے کمپئیر نہیں کرتا جسٹ بتاتا ہوں اس کے بارے میں۔۔۔۔۔ اس میں اور تم۔میں ذمین آسمان کا فرق ہے ربیکا”
” تویہ بھی بتا دو کون آسمان ہے اور کون ذمین” ربیکا بولی
” سمپل۔۔۔۔۔ تم آسمان اور وہ ذمین۔۔۔۔۔ تمہیں جب بھی کوئی دیکھتا ہے سر اٹھا کے دیکھتا ہے اور وہ ذمین ہے جس کو روند کر لوگ آگے نکل نکل جاتے ہیں وہ ساری زندگی لوگوں کا بار اٹھاتی ہے اور اس میں ہی خوش رہتی ہے جیسے اس کا کوئی مقصد ہی نہ ہو اور تم وہ آسمان ہو جو لوگوں پہ ہر وقت چھائی رہتی ہو” وہ بولا تو ربیکا ہنسی
” کردیا نا کمپئیر”
” اونہہ ہوں بتاؤ نا ہاں یا ناں”
” عمممممم۔۔۔۔۔ سوچ کے بتاؤں گی” وہ بولی تو جبران مسکرا دیا شکر اس نے نا نہی کی تھی سوچنے کا کہا تو سہی۔
——
“اب میرا اور تمہارا کانٹریکٹ ختم ہو چکا ہے جمی سو اب تع میں فری ہوں ویسے بھی اب تو تمہاری گرل فرینڈ آگئی ہے نا تو اس کے ساتھ انجوئے کرو”” وہ فون پہ کسی جمی سے بات کررہی تھی جمی نے کچھ کہا تو وہ بولی
” آئی نو یار مجھ سے کسی کا دل نہیں بھرتا” وہ ہنسی
” یار میں سوچ رہی ہوں جبران کو ہاں کردوں” تو جمی وہاں سے کچھ بولا
” ارے یار وہ پاگل ہو رہا ہے میرے پیچھے یو نو نا پاکستانی مرد اففففف شادی کے بغیر ٹچ کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ مجھ سے شادی پہ زور دے رہا ہے سوچا کر ہی لوں شادی اسے بھی خوش کردوں”
” ارے نہیں وہ مجھ پہ کوئی پابندی نہیں لگائے گا کہا ہے اس نے مجھے اور اگر لگائی بھی تو میں کہاں سننے والی ہوں” وہ ہنسی پھر جمی کچھ بولا تو وہ بولی
” ہاں نا میں کیسے اپنے فرینڈز کو چھوڑ سکتی ہوں جب بھی تمہارا یا تمہارے دوستوں کا دل کرے تو بلا لینا مجھے میں حاضر” وہ ایک ادا سے بولی اور ایک دو بوتوں کے بعد فون رکھ دیا۔
—–
مرال اپنے آفس میں بیٹھی ایک فائل اسٹڈی کررہی تھی کہ احتشام چلا آیا کچھ باتوں کے بعد وہ بولا
” مس مرال آئی نو کہ آپ میرڈ ہیں بٹ آپ کے ہزبینڈ۔۔۔۔۔ سوری ٹو سے میرا رائیٹ نہیں بنتا کہ میں آپ کی پرسنلز پوچھوں بٹ۔۔۔۔۔” وہ ہچکچا رہا تھا
” جی احتشام میں سن رہی ہوں آپ مدّے پر آئیں” وہ بولی
” مس مرال آپ نے میرا پرپوزل ریجیکٹ کیوں کیا “
” یہ آپ پوچھنے والے کون ہوتے ہیں” مرال نے گھورا
” سوری بٹ۔۔۔۔۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ کیوں”
” دیکھیں مسٹر احتشام میرا ارادہ نہیں ہے شادی کرنے کا کیونکہ مجھے اپنے ہزبینڈ سے بہت محبت ہے اور میں یہ رشتہ نبھانا چاہتی ہوں”
” پر آپ کے ہزبینڈ تو۔۔۔۔۔”
” ہاں ٹھیک کہا مجھے چھوڑ کے جا چکے ہیں” مرال نے اس کی بات کاٹی” بٹ پھر بھی احتشام”
” میرا اب دل نہیں مانتا۔۔۔۔۔ماما کے فورس کرنے پر میں نے کچھ ٹائم کا تو کہہ دیا تھا پر سچ بتاؤں تو میں شادی کا کوئی پروگرام نہیں ہے سو۔۔۔۔۔”
” پر ساری زندگی۔۔۔۔۔” وہ بولنے لگا تو مرال نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی
” گزر جائے گی زندگی بھی یو ڈونٹ وری احتشام” وہ ک ھ دیر خاموش رہا پھر بولا
” آئیم امپریسڈ مس مرال۔۔۔۔۔ اگر آپ برا نہ مانے تو ایک ریکویسٹ کروں؟؟؟”
” شیور” وہ بولی
” کیا۔۔۔۔۔ کیا ہم دوست بن سکتے ہیں” مرال نے اسے غصے سے گھورا اور پھر خود کو کنٹرول کر کے بولی
” نو” مرال نے یک لفظی حروف میں بات ختم کردی
” پر۔۔۔۔۔”
” مسٹر احتشام آپ سمجھ دار ہیں کوئی ٹین ایجر نہیں جسے سمجھانا پڑے میں میرڈ لڑکی ہوں اور آپ سے دوستی کر کے میں لوگوں کو موقع نہیں دینے والی کہ وہ مجھ پہ انگلی اٹھائیں۔۔۔۔۔ میں ایسی دوستیوں کی قائل نہیں سو پلیز”
” مجھے فخر ہے مس مرال آپ پہ کہ آج کل کے دور میں اور ہزبینڈ کی بے وفائی کے باوجود آپ اتنی اچھی سوچ رکھتی ہیں ورنہ ہر عورت آپ جیسا نہیں سوچتی۔۔۔۔۔ چلتا ہوں یہ میرا نمبر ہے” اس نے اپنا کارڈ ٹیبل پہ رکھا ” کبھی بھی ضرورت پڑے تو مجھے ضرور یاد کریے گا میں فوراً حاضر ہو جاؤں گا” وہ جانے لگا پھر رکا ” اور ہاں اگر کبھی بھی آپ شادی کے لیے سوچیں تو یاد رکھیے گا میں ہمیشہ آپ کا منتظر رہوں گا” اور چلا گیا۔
آج سنڈے تھا وہ سو رہا تھا کہ اس کا فون بجا اس نے مندی مندی آنکھوں سے اسکرین کو دیکھا اور نام دیکھ کر مسکرایا
” ہائے سویٹی گڈ مورننگ”
” جبران مجھے ملنا ہے تم سے” وپ چھوٹتے ہی بولی
” ارے پہلے گڈ مورننگ کا جواب تو دو پھر حال چال پوچھو”
” آئی نو تم ٹھیک ہی ہو گے” وہ لاپرواہی سے بولی ” بتاؤ مل رہے ہو یا نہیں”
” خیریت تو ہے سب” وہ فکر مندی سے بولا
” ہاں ٹھیک ہے سب تم نے اس دن شادی کے بارے میں پوچھا تھا نا” وہ بولی تو جبران اٹھ بیٹھا
” ہاں ہاں بتاؤ” وہ بے تابی سے بولا
” ایسے نہیں کہیں باہر چلتے ہیں پھر” وہ بولی تو وہ بیڈ سے اٹھا
” ہاں تم جگہ بتاؤ” وہ اسے ملنے کے لیے جگہ بتانے لگی۔
—–
دن ہفتے ہفتے مہینے اور مہینے سال میں گزر گئے تھے کہ ایک دن ابتہاج صاحب کے واٹس ایپ پہ کچھ تصاویر آئی انہوں نے دیکھا کہیں باہر کا نمبر تھا انہوں نے پکس اوپن کیں تو دم سادھے دیکھتے ہی رہ گئے رنگت سفید پڑ گئی وہ پکس جبران کی تھی اور اس کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی وہ ساتھ ایسے کھڑے تھے جیسے نیولی کپل ہوں وہ دیکھ ہی رہے تھے کہ جبران کا میسج آیا
” بابا آپ کی بہو” وہ کافی دیر تو ہل ہی نا سکے جبران کی کال آرہی تھی تین سال بعد ان کا بیٹا انہیں کال کررہا تھا انہوں نے کال ریسیو کی
” کیسے ہیں آپ بابا۔۔۔۔۔ میں یہاں UK میں ہوں وہاں میرے ساتھ ایک لڑکی تھی” وہ بتا رہا تھا کہ ابتہاج چلائے
” مر گیا تمہارا باپ سمجھے تم مر گیا۔۔۔۔۔ آئیندہ اپنی شکل دکھانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھے تم۔۔۔۔۔ مڑ کے بھی میرے گھر کا راستہ مت لینا اس عمر میں تم نے ہم لوگوں کو زلیل کروا دیا اب یہ ہی کسر رہ گئی تھی”
” بابا۔۔۔۔۔” انہوں نے فون رکھ دیا
وہاج صاحب کسی کام سے ان کے آفس روم میں آئے تو دیکھا وہ اپنا سر ہاتھوں گرائے ہوئے تھے
” بھائی کیا ہوا آپ کو طبیعت ٹھیک ہے آپ کی” انہوں نے سر اٹھا کے وہاج کو دیکھا اور اٹھ کے ان کے سامنے آکر ہاتھ جوڑ دیے ایک شرمندگی اور دکھ تھاا ان کی آنکھوں میں
” معاف کردو وہاج۔۔۔۔۔مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔ اگر مجھے پتا ہوتا کہ جبران یہ سب کرے گا تو میں کبھی مرال کی شادی اپنے بیٹے سے نہیں کرتا” وہاج صاحب نے ان کے بندھے ہاتھ تھامیں
” بھائی۔۔۔۔۔ جو ہونا تھا سو ہو گیا گزری باتوں کو یاد کرکے کیا فائدہ جتنا یاد کریں گے تکلیف ہی ہو گی۔۔۔۔۔ اور اب مرال بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئی ہے”
” نہیں وہاج۔۔۔۔۔ معاف کردو”
” بھائی کیا ہوا ہے آپ ایک دم سے” وہ پریشان ہوئے
” وہاج جبران نے۔۔۔۔۔” وہ رکے” جبران نے شادی کرلی ہے” وہ دکھ سے بولے تو وہاج شاکڈ رہ گئے
” کیاااااا۔۔۔۔۔۔ بھائی یہ آپ۔۔۔۔۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں” وہ بے یقینی سے بولے
” سچ کہہ رہا پوں میں وہاج” انہوں نے سیل کی طرف اشارہ کیا
” دیکھو” انہوں نے سیل اٹھا کے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے کیا یہ دکھ کم تھا کہ ان کی بیٹی کا شوہر ان کی بیٹی کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور اب یہ۔۔۔۔۔وہ اٹھے اور خاموشی سے باہر چلے گئے۔
—–
وہاج صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا ڈاکٹرز نے انہیں ٹینشنز سے دور رکھنے کا کہا تھا اور خوش رکھنے کا کہا تھا
وہ اب بہت خاموش رہنے لگے تھے سب گھر والوں کو جبران کی شادی کا پتا چل گیا تھا کیا کرتے وہ لوگ جب سب جبران کو جانے سے نہیں روک پائے تھے تو شادی کرنے سے کیسے روکتے
وہاج صاحب کی آنکھوں میں ایک سکوت سا طاری ہو گیا تھا جب جب وہ مرال کو دیکھتے تو آنکھیں بھیگنے لگتیں وہ مرال کو خوش دیکھنا چاہتے تھے اور اسی لیے انہوں نے مرال کو بلایا
” جی بابا آپ نے بلایا” وہ ان کے پاس آبیٹھی
” میرو۔۔۔۔۔ اگر میں تم سے کچھ کہوں تو مانو گی”
” جی بابا”
” میرو میں جانتا ہوں کہ ایک باپ ہونے کے ناطے مجھے یہ بولنا نہیں چاہیے پر میں تمہاری خوشی چاہتا ہوں”
” بابا کیا بات ہے؟؟؟” وہ بولی
” بیٹا میری زندگی کا کوئی پتا نہیں میں اپنی زندگی میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں”
” ایس تو نا کہیں بابا اللٰہ آپ کو زندگی صحت دے” وہ تڑپ اٹھی
” بیٹا جبران سے خلع لے لو تاکہ۔۔۔۔۔ ہم کہیں اور تمہاری شادی کرسکیں”
” بابا۔۔۔۔۔” اس کا دل دھڑکا ” بابا آپ نے کہا تھا آپ مجھے فورس نہیں کریں گے”
” ہاں کہا تھا میں نے۔۔۔۔۔ پر بیٹا ہمیں بھی تمہاری خوشیاں دیکھنے کا ارمان ہے کیا ہم۔اہم نہی تمہارے لیے” مرال کی آنکھیں بھیگنے لگیں
” مانگا بھی تو کیا بابا جو دینا میفے لیے ممکن نہیں”
” میں جانتا ہوں بیٹا پر۔۔۔۔۔”
” پر کیا بابا آپ کیوں ایسا کہہ رہے ہیں”
” بیٹا جبران۔۔۔۔۔ جبران نے۔۔۔۔۔ شادی کرلی ہے” ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے مرال کچھ نا کہہ سکی خاموش رہی وہاج کو اس کی خاموشی سے خوف آنے لگا تو اسے گلے سے لگا لیا وہ ان کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
—–
گیٹ نام ہوا تو جبران نے گیٹ کھولا کورییر آیا اس نے کھولا تو دیکھا کچھ پیپرز تھے اس نے پیپرز کھول کے پڑھے تو شاکڈ سا رہ گیا پاکستان سے اسے خلع کا نوٹس بھیجا گیا تھا جبران کے دل کو کچھ ہوا
” کون ہے جبران؟؟؟” ربیکا بھی آگئی اور اس کے ہاتھ میں پیپرز دیکھ کے پوچھا
” یہ کیا ہیں؟؟؟” وہ کچھ نہ بولا ربیکا نے اس کا کندھا ہلایا ” جبران یو اوکے؟؟؟” وہ چونکا
” ہاں۔۔ ہاں کیا”
” یہ پیپرز کس چیز کے ہیں ” وہ بولی
” خلع کے پیپرز ہیں میری وائف نے خلاع کا نوٹس بھیجا ہے مجھے” ربیکا ہنسی
” وائف۔۔۔۔۔ یا ایکس وائف”
” چپ کرو ربیکا پلیز” جبران کو اس کا بولنا اچھا نہیں لگا اور اندر چلا آیا
” تمہیں تو خوش ہونا چاہیے اب تو” وہ بولی وہ خاموش رہا
” مہں کہتی ہوں نا تم اپنی وائف سے بے حد محبت کرتے ہو”
” اوہ شٹ اپ ربیکا” وہ ناگواری سے بولا
” کردوں گا سائن اچھا ہے جان چھوٹے گی اس مجبوری کے بندھن سے”
” ج ران سائن سوچ سمجھ کے کرنا کیوں کہ اس سائن کے بعد تمہاری زندگی میں یا تو خوچیاں ہوں گی یا زندگی بھر کے پچھتاوے” کہہ کر وہ چلی گئی جبران نے کچھ دیر سوچا اور پین اٹھا کر سائن کردیے اور اس کے بعد اسے ایسا لگا جیسے وہ خالی ہو گیا ہو جیسے دل اندر سے خالی ہو گیا ہو وہ گھر سے باہر نکل آیا زندگی ایک دم سے پتا نہیں کیوں ویران سی لگنے لگی تھی۔
—–
مرال کی خلع کے بعد احتشام نے پھر اپنا پرپوزل بھیجا اب کی بار مرال انکار نہ کر پائی اور ہاں کر دی سب لوگ اس کے اس فیصلے سے خوش تبے وہاج صاحب کو تو جیسے نئی زندگی مل گئی تھی اب وہ خوش رہنے لگے تھے
مرال تو ہمیشہ سے سب اللٰہ پہ چھوڑتی آئی تھی اب بھی اللٰہ پہ چھوڑ دیا تھا سب
پتا نہیں اس کے مقدر میں کیا لکھا تھا جسء چاہا وہ ملا نہیں اور جس کی چاہ نہیں وہ اس کی آس لگائے بیٹھا ہے
اس کی روح کا مکین تو بس جبران تھا اس کے دل میں صرف جبران تھا وہ کیسے جبران کی جگہ لدی اور کو دے دیتی
اس نے احتشام سے بات کرنے کا سوچا اور اس کے آفس آگئی ریسپشنسٹ نے احتشام کو انفارم کیا تو اسے خوشگوار سی حیرت ہوئی کچھ شیر بعد وہ اس کے آفس روم میں بیٹھی تھی
” کیا لیں گی آپ چائے یا کافی؟؟؟”
” نہیں کچھ نہیں آپ سے بات کرنی ہے کچھ” وہ بولی
” جی کہیں”
” مسٹر احتشام میں نے شادی کے لیے تو ہاں کردی ہے پر۔۔۔۔۔”
” پر کیا؟؟؟”
” پف میری ایک شرط ہے” وہ مسکرایا ” جی بولیں”
” دیکھیں مجھے اپنے شوہر سے۔۔۔۔۔” وہ رکی ” آئی مین سابقہ شوہر سے بے حد محبت ہے” سابقہ بولتے ہوئے اس کا دل بری طرح دکھا
” جی مجں جانتا ہوں” وہ ہنسز مسکرا رہا تھا
” تو یہ کہ میں کسی سے محبت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی” وہ پھر رکی “شرط یہ ہے کہ شادی کے بعد آپ مجھے فورس نہیں کریں گے کہ میں آپ سے محبت کروں۔۔۔۔۔ بھلے شادی کے بعد آپ میرے وہر ہوں گے آپ سے محبت کرنا میرا فرض ہو گا پر۔۔۔۔۔ اس میں ہمیشہ میری طرف سے آپ کو کوتاہی ملے گی” وہ مسکراتا ہوا اس کی بات سن رہا تھا اس کی بات پہ بولا
” یہ کس نے کہا آپ سے کہ میں آپ سے جبری محبت کرواؤں گا۔۔۔۔۔ محبت کروائی نہیں جاتی بس ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔ آپ بھلے مجھ سے محبت نہ کریں بس میری محبت کی قدر کریں میرے لیے یہ بھی بہت ہے”
کیا مرد ایسے بھی ہوتے ہیں وہ اسے دیکھ کے سوچ رہی تھی۔