(Last Updated On: )
جب پلٹ کر دشت سے آتا ہوں میں
گھر کا دروازہ کھلا پاتا ہوں میں
لوگ کیوں دانا سمجھتے ہیں مجھے
اپنی نادانی پہ اتراتا ہوں میں
زندگی کا راز کھولوں کس طرح
خواب کو تعبیر بھر پاتا ہوں میں
شیر تو سب جنگلوں کو جا چکے
دل کو اب شعروں سے بہلاتا ہوں میں
مجھ پہ دروازے ہیں اتنا خندہ زن
کھڑکیوں سے جتنا گھبراتا ہوں میں
چاندنی اور دھوپ اترتی ہے مگر
آسماں دھوکے میں ہے، چھاتا ہوں میں
اے ضیا، پت جھڑ سے کیا لینا مجھے
گل کھلاتا، باغ مہکاتا ہوں میں
٭٭٭