جب میں شہر پہنچا ونود کو حوالات میں بند کیا جاچکا تھا۔ وہ ایک تحریری بیان بھی دے چکا تھا جس میں اس نے وہی سب لکھا تھا جو وہ حویلی میں انسپکٹر پولیس سے کہہ چکا تھا۔ میں اسپتال پہنچے تو وہاں پروفیسر کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہوچکا تھا۔ میں نے پولیس ڈاکٹر سے ملاقات کی، اپنا تعارف کرایا اور اس سے کہا “میں آپ کا بے حد ممنون ہوں گا اگر آپ مجھے یہ بتادیں کہ مقتول کی موت کا اصل سبب کیا تھا؟
“میں حیران ہوں ڈاکٹر کمار، پویس ڈاکٹر نے کہا “عمر میں پہلی مرتبہ میں نے ایک ایسی لاشت کا پوسٹ مارٹم کیا ہے جس کی موت کا سبب معلوم کرنے میں مجھے ناکامی ہوئی ہے”۔
“یعنی۔۔۔۔” میں نے گھبراکر کہا۔
“یعنی یہ کہ بظاہر پروفیسر کی موت گلا گھٹنے سے ہوئی ہے لیکن اس کی گردن پر انگلیوں یا ہاتھیوں کا کوئی نشان نہیں ہے” آپ ہی بتائیے ان حالات میں ثبوت کے بغیر یہ کیسے لکھا جاسکتا ہے کہ موت گلا دبانے سے ہوئی ہے۔ “
“پھر آپ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کا کیا سبب لکھیں گے”۔ میں نے پوچھا۔
“وہی جو میں آپ سے کہہ چکا ہوں۔۔۔ میں صاف لکھ دوں گا، کہ میں موت کا اصل سبب معلوم کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ مقتول کے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے، کسی چوٹ کا نشان نہیں ہے۔ اس کا دل آخر وقت تک ٹھیک طرح سے کام کرتا رہا تھا، اس کے دماغ کا نظام بالکل ٹھیک تھا، اس کو کوئی بیماری نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ مرگیا۔۔۔، ڈاکٹر نے تفصیل سے کہا۔
میں نے اس کے بعد ڈاکٹر سے اور کوئی بات نہیں کی۔۔۔ میں وہاں سے چلا آیا۔ میں یہ کہہ کر اس کے دماغ کو الجھانا نہیں چاہتا تھا کہ مقتول کی قاتل ایک روح ہے اور اس روح کے علاوہ دنیا میں اور کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس نے پروفیسر کا قتل کیسے کیا؟
اب میں دوارہ ونود سے ملا۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہاکہ میں جلد ہی اس کو رہا کرالوں گا میں نے اس کے مزید اطمینان کیلئے اس کو ڈاکٹر کے فیصلے سے بھی مطلع کردیا۔ ونود نے مجھ سے کہا
“شانتا کا خیال رکھنا کمار۔۔۔۔ مجھے ڈر ہے حویلی کی روح شانتا کیلئے بھی کوئی نئی مصیبت نہ کھڑی کردے”۔
ونود نے ٹھیک ہی کہا تھا۔۔۔ حویلی کی روح شانتا کیلئے بھی ایک خوفناک گڑھا کھود رہی تھی اور یہ گڑھا صرف شانتا کی تباہی کے لئے نہیں تھا۔ اس گڑھے میں خود مجھے بھی گرنا تھا۔ روح اب مجھ پر بھی وار کرنے جارہی تھی۔
میں نے ونود کی فوری رہائی کیلئے ایک بڑے وکیل سے بھی ملاقات کی۔ میں نے اس کو ونود کی پوری داستان سنائی اور میں نے اس کو یقین دلادیا کہ ونود نے واقعی پروفیسر تارک ناتھ کا قتل نہیں کیا ہے، بلکہ یہ قتل یا شاتو کی روح نے کیا ہے اور یا پھر پروفیسر دہشت میں خود ہی مرگیا ہے۔
وکیل نے میری باتیں بڑے غور سے سنیں اور مجھے سے وعدہ کیا کہ وہ دو دن کے بعد عدالت میں ونود کی درخواست ضمانت پیش کردے گا۔۔۔ میں نے اس کو اس کی فیس کی رقم بھی ادا کردی۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ونود کی رہائی میں کوئی چیز بھی رکاوٹ بنے۔
میں یہ سب کچھ تمام دن کرتا رہا اور شاید شاتو کی روح تمام دن میری نگرانی کرتی رہی۔۔۔۔ کیوں کہ تمام دن میں یہ محسوس کرتا رہا کہ جیسے میں تنہا نہیں ہوں۔۔۔۔ جیسے کوئی میرے بالکل قریب موجود ہے ہر وقت میرے ساتھ ہی رہا ہے۔
شام کے چار بجے میں اگات پور واپس ہوگیا۔
جب میں حویلی میں داخل ہوا تو اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔۔ حویلی کے صرف اس کمرے میں روشنی نظر آرہی تھی جہاں میں دن میں شانتا اور کالکا کو چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔۔ میں نے پورٹیکو میں اسکوٹر روکا اور کالکا کو آواز دی۔۔۔ لیکن کالکا نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اور جیسے ایک انجانے خوف کے تحت اسی لمحے میرے سارے جسم میں سردی کی ایک لہر سی دوڑ گئی میں نے پلٹ کر بت کو دیکھا تو بت کا چبوترہ خالی تھا۔
ابھی شام کے سات بجے تھے لیکن بت جاگ چکا تھا جب کہ وہ روزانہ رات کو بارہ بجے ہی جاگا کرتا تھا۔۔۔۔ حوض کا چبوترہ خالی دیکھ کر میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔۔۔ میری ساری بہادری پلک جھپکتے میں رخصت ہوگئی۔۔۔۔ میں نے ایک مرتبہ پھر پوری قوت سے کالکا کو پکارا۔۔۔
لیکن۔۔۔
جواب میں مجھے بالکل قریب سے ایک آواز سنائی دی۔۔۔۔ یہ آواز میرے لئے بالکل اجنبی تھی۔۔۔۔ یہ ایک عورت کی آواز تھی۔۔۔۔ آوازکیا تھی ایک موسیقی تھی جس نے ایک ثانئے کیلئے مجھے مسحور سا کردیا۔۔۔۔
یہ یقیناًشاتو کی آواز تھی ۔
آواز میرے بالکل قریب آرہی تھی ۔۔
چند لمحات تک میں اس آواز کے سحر میں مبتلا رہا ۔ میں نے اب تک شاتو کی آواز سنی نہیں تھی جو میں اس آواز کو پہچان جاتا ۔ میں نے اب تک شاتو کو دیکھا بھی نہیں تھا۔ لیکن چوں کہ شاتو کا بت اپنے چبوترے پر موجود نہیں تھا ، اس لیے شاتو کی آواز کو پہچانے بغیر میں سمجھ گیا کہ یہ آواز شاتو کی ہے ۔
شاتو مجھ سے کہہ رہی تھی ۔۔” کالکا کو آواز نہ دو ۔۔ وہ سو رہا ہے ۔۔تم شانتا کو بھی نہ پکارو وہ اس وقت دلہن بن رہی ہے ۔۔۔“
شاتو نے اپنا یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور پھر کہا “میں تمہارا انتظار ہی کر رہی تھی ، حالانکہ تم مجھ سے بارہ بجے رات کو ملاقات کرنے کے لیے کہا تھا ۔۔۔”
“لیکن تم ہو کہاں ۔۔۔ تمہارا زندہ وجود مجھ کو نظر کیوں نہیں آرہا ہے ۔۔” میں نے اپنے حواس جمع کرتے ہوئے بڑی بہادری سے کہا ۔
“میں تمہارے بالکل قریب موجود ہوں ۔” شاتو نے جواب دیا ۔ اب میں نے محسوس کیا کہ آواز پشت کی جانب سے آرہی تھی میں نے پلٹ کر دیکھا اور جیسے میری آنکھوں کے سامنے بجلی کوند گئی ۔
شاتو اپنی بے مثال راجپوتی حسن کا ایک زندہ مجسمہ بنی میری طرف اپنی چمکتی نظروں سے دیکھ رہی تھی اور اس طرح مسکرا رہی تھی جیسے مسکراہٹ اس کے لبوں کا حصہ بن چکی ہو ۔ میرا دل دھڑکنے لگا ۔
دل کا قاعدہ ہے کہ وہ کبھی سونے اور چاندی کا غلام نہیں بنتا ، دل ہمیشہ آنسوؤں اور مسکراہٹوں کا غلام بننے میں ایک مسرت سی محسوس کرتا ہے ۔ یہی مسرت اس وقت میرے دل نے بھی شاتو کو مسکراتے دیکھ کر محسوس کی ۔۔۔۔ شاتو کو اس طرح مسکراتے دیکھ کر میں نے دوسرے ہی لمحہ ایسا محسوس کیا جیسے ہوا میں بھینی بھینی خوشبو پھیل گئی ہو جیسے فضا میں ایک انجانی موسیقی بکھر گئی ہو ۔ جیسے اندھیرے میں ایک ننھی سی کرن نے چاروں طرف روشنی کردی ہو ۔
میں نے غور سے شاتو کی چمکتی آنکھوں کی طرف دیکھا ۔۔واقعی اس کی سیاہ آنکھوں میں پہاڑی جھیلوں کی سی گہرائی تھی ۔۔۔ وہ ایک خواب کی طرح نظر آرہی تھی اور اس سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ جوانی میں رنگین خواب سے زیادہ زندگی میں کوئی چیز حسین نظر نہیں آتی ۔۔۔
میں شاتو کی طرف والہانہ انداز میں دیکھتا رہا ۔۔۔
اچانک شاتو کی مسکراہٹ ایک طویل ہنسی میں تبدیل ہوگئی اور مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے چاند کی کرنوں سے بنے ہوئے تاروں پر کوئی نغمہ چھیڑ دیا گیا ہو ۔۔۔ ایک ایسا نغمہ جو براہِ راست دل کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے ۔
میں نے شاتو سے پوچھا” تم ہنس کیوں رہی ہو ۔“
“میں ونود کے انجام پر ہنس رہی ہوں ” شاتو نے بدستور ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
“یعنی اپنے محبوب کی تباہی پر تمہارا دل خوش ہو رہا ہے ۔” میں نے کہا ۔۔۔ اب میں اپنے عارضی جذبات پر قابو پا چکا تھا جو شاتو کے بے مثال حسن کودیکھ کر مجھ پر طاری ہوگئے تھے ۔
“ہاں ۔۔۔” شاتو نے کہا ” اب تم مجھ کو یہ بتاؤ کہ تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے۔”
“تم سے پروفیسر کی موت کا اصل سبب پوچھنے کے لیے اور یہ دریافت کرنے کے لیے کہ ۔۔۔۔” میں ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوگیا ۔۔۔” ہاں ۔۔۔ہاں ۔۔۔ اپنا جملہ پورا کرو، خاموش کیوں ہوگئے ۔” شاتو نے کہا ۔۔۔ ” اور تم سے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ تم چاہتی کیا ہو ؟” میں نے اپنا جملہ پورا کردیا ۔ “مجھے معلوم ہے کہ ونود تم سے سب کچھ کہہ چکا ہے ۔””ہاں ۔۔” اور پھر بھی تم مجھ سے یہ دریافت کر رہے ہو کہ میں کیا چاہتی ہوں ”
شاتو نے اچانک بڑی سنجیدہ آواز میں کہا ۔ اب تک وہ بڑے شوخ لہجے میں بات کر رہی تھی ۔
لیکن میں تمہارے مونہہ سے سننا چاہتا ہوں کہ تم کیا چاہتی ہوں ۔۔” میں نے کہا ۔
“میں ونود کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہوں ۔“
“لیکن کہاں ۔۔۔“
“جہاں میرا دل چاہے ۔۔۔” شاتو نے مختصر جواب دیا ۔
“تمہاری بات میر ی سمجھ میں نہیں آئی شاتو۔۔” میں نے کہا
“تم مردہ ہو ۔۔۔ تمہاری صرف رو ح زندہ ہے تمہارے جسم کا کوئی وجود نہیں ہے ۔۔۔ تم زندہ اور گوشت پوست کے ایک وجود کو جس کا نام ونود ہے لے کر کیا کروگی ۔“
“میں مردہ نہیں ہوں ۔۔”شاتو نے کہا “میں ونود کے لیے اب تک زندہ ہوں اور اس وقت تک نہیں مروں گی جب تک میں ونود کو حاصل نہ کرلو ں ۔“
اب شاتو کا لہجہ سخت ہوچکا تھا ۔
اس نے مجھ سے مزید کہا “پروفیسر کا قتل ونود نے نہیں کیا اور نہ میں نے اس کا قتل کیا ہے ، وہ مجھ کو دیکھ کر خوف زدہ ہوا اورمرگیا ۔۔۔۔ وہ مجھے دیکھتے ہی غالباً پاگل بھی ہوگیا تھا ۔ کیوں کہ وہ خود بخود اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا دبانے لگا تھا ۔۔“
“تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔”میں نے کہا ۔ کیوں کہ پروفیسر کے گلے پر کسی بھی انگلیوں کے نشان نہں پائے گئے ہیں ۔“
“میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں ، کیوں کہ میں کسی سے نہیں ڈرتی ہوں اور جھوٹ وہی بولتے ہیں جو کسی سے ڈرتے ہیں ۔”شاتو نے بڑے اطمینان سے جواب دیا اور پھر مجھ سے کہا “میں تمہارے بارے میں بھی سب کچھ جانتی ہوں مجھے تمہارے اور شانتا کے پرانے تعلقات کا اچھی طرح علم ہے ، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم شانتا کے لیے اپنے دل میں اب بھی ایک نرم گوشہ رکھتے ہو ۔۔۔۔ میں نے اسی لیے شانتا کو دلہن بنا دیا ہے ۔۔۔۔ وہ تمہارا انتظار کررہی ہے ۔۔۔ اور آج کی رات بہت خوب صورت بھی اور تنہا بھی ۔۔“
“دغا باز عورت ۔۔” میں اچانک چیخا ۔۔۔ اور شاتو کا وجود دوسرے ہی لمحے میری نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ البتہ اس کے ہلکے ہلکے قہقہوں کی آواز دیر تک فضامیں گونجتی رہی ۔
میں دیر تک وہاں کھڑا حوض کے خالی چبوترے کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ شاتو اس وقت کہاں ہوگی ؟ ایک سوال یہ بھی میرے ذہن میں کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا کہ آخر شاتو کا بت وقت مقررہ سے قبل ہی کیوں زندہ ہوگیا ۔
شاتو نے شانتا کے بارے میں جو آخری جملے مجھ سے کہے تھے وہ جیسے اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے تھے اور میرے تن بدن میں آگ سی لگتی جا رہی تھی ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شاتو مجھے اتنا گھناؤنا مشورے دے گی ۔
شاتو واقعی ونود سے بڑا سخت انتقام لینا چاہتی تھی ۔
اچانک میں نے سوچا کہ خود شانتا دلہن بننے پر راضی کیوں ہوگئی ؟ آخر وہ کون سی پر اسرارطاقت تھی جس نے شانتا کو دلہن بننے پر مجبور کردیا ؟ لیکن ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی سوچا کہ کہیں شاتو نے ایک تیر سے دو شکار تو نہیں کھیلے ہیں ۔
یہ بات میرے ذہن میں اس لیے آئی کہ شانتا مجھ سے کہہ چکی تھی کہ اس حویلی میں شاتو کی روح کے علاوہ ایک مرد کی روح بھی موجود ہے جو شانتا کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہے ۔۔۔۔
میں نے سوچا کہ کہیں شاتو نے اس روح کی تسکین کے تو شاتو کو دلہن نہیں بنایا ہے ؟ ۔۔ اور اگر ایسا ہے تو واقعی اس وقت شانتا خطرے میں ہے ۔
چنانچہ ۔۔۔
اپنا ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر میں کالکا کو پکارتا ہوا شانتا کے کمرے کی طرف دوڑنے لگا۔۔ لیکن جیسے ہی میں شانتا کے کمرے کے قریب پہنچا میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کالکا کمرے کے باہر فرش پر اوندھا پڑا ہوا تھا ۔ میں نے اس کو سیدھا کیاتو وہ گہری نیند میں تھا ۔ میں سمجھ گیا کہ وہ سو نہیں رہا ہے بلکہ بے ہوش ہے ۔
اب میں نے پریشان ہوکر شانتا کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا دروازہ اندر سے بند نہیں تھا وہ فورا ًکھل گیا ۔ میں بد حواسی کے عالم میں اندر داخل ہوا تو میرے قدم زمین پر جم کے رہ گئے کیونکہ ۔۔۔ اندر پلنگ پر شانتا نیم عریاں حالت میں پڑی تھی اور ایک ایسا وجود جس کی حیثیت ایک گہرے دھوئیں کی سی تھی اس پر جھکا ہوا تھا ۔۔ میں چیخا “شانتا۔۔”اور جیسے ہی میری آواز کمرے میں گونجی یہ دھواں فضاء میں تحلیل ہوگیا ۔۔۔ شانتا بدستور پلنگ پر لیٹی رہی ۔۔۔ میں لپک کر اس کے قریب آتا تو یہ دیکھ کر اور بھی زیادہ حیران رہ گیا کہ شانتا جاگ رہی تھی اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس کے چہرے پر کسی پریشانی یا الجھن کے آثار نہیں تھے ۔
میں شانتا کے چہرے کی اس تبدیلی کو دیکھ اور بھی زیادہ حیران پریشان ہوگیا کیوں کہ جس شانتا کو میں صبح حویلی میں چھوڑ کر گیا تھا وہ مردوں سے بد تر تھی اس کا چہرہ برسو ں کے بیماروں کا سا تھ ا، اس کی آنکھیں خشک تھیں ہونٹ مرجھائے ہوئے تھے اور وہ غم کی وجہ سے بالکل دیوانی نظر آرہی تھی لیکن اس وقت جو شانتا میری نگاہوں کے سامنے پلنگ پر نیم عریاں حالت میں پڑی تھی اس کا انداز ہی کچھ اور تھا ۔
یہ شانتا سولہ سنگھار کئے ہوئے تھے اس کے بال بڑے خوبصورت انداز میں گندھے ہوئے تھے وہ تمام زیور پہنے ہوئے تھی اس کے چہرے پر شادابی ہی شادابی تھی اور ہ اپنے بہترین لباس میں تھی ۔
میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر شانتا کو دیکھتا رہا جیسے مجھے یقین ہی نہ آرہا ہو کہ میں شانتا کو دیکھ رہا ہوں ۔
چند لمحات کے بعد میں نے آگے بڑھ کر شانتاکا بلاؤز جو قرب ہی رکھا تھا اس کی عریاں سینے پر ڈال دیا ۔۔ مجھ سے شانتا کی عریانیت دیکھی نہیں جارہی تھی ۔۔۔ اب میں نے بہت آہستہ آواز میں اسے پکارا ۔۔۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔
اس مرتبہ بھی شانتا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ اپنی نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہی اور میری الجھنوں میں اضافہ ہوتا رہا ۔ میں نے اسے دوبارہ پکارا سہ بارہ پکارا لیکن شانتا نے کوئی حرکت نہیں کی ، اس پر نہ میرے پکارنے کا اثر ہوا اور نہ میری موجودگی کا ۔۔ اب میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے جھنجھوڑ ا اور پوری قوت سے چلایا “شانتا۔۔” اور جیسے شانتا کوہوش آگیا ۔۔۔ وہ بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ۔۔۔ وہ حیران حیران نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی ۔
دوسرے ہی لمحہ اس کو یہ احساس بھی ہوگیا کہ وہ نیم عریاں حالت میں ہے اس نے گھبرا کر اپنا سینہ چھپا لیا اور مجھ سے پوچھا “تم یہاں کب آئے کمار ۔۔۔ تم میرے کمرے میں داخل ہی کیوں ہوئے ۔۔۔” میں نےمحسوس کیا کہ اس کے لہجہ میں شکایت بھی ہے اور غصہ بھی میں نے کہا” میں ابھی آیا ہوں ۔۔۔۔لیکن تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کو پہلی رات کی دلہن کس نے بنایا تھا ۔۔۔ ذرا آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ کر مجھے بتاؤ کہ کیا یہ اسی ونود کی بیوی شانتا کا چہرہ ہے جس کو پولیس ایک قتل کے الزام میں آج ہی گرفتار کر کے لے گئی ہے اور جو صبح میری موجودگی میں غم سے بالکل پاگل نظر آرہی تھی ۔“
میرا جملہ سن کر شانتا نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا ، اپنی کلائیوں کی چوڑیاں دیکھیں اپنے جسم پر لپٹی ہوئی ساڑی دیکھی اپنا اترا ہوا بلاؤز دیکھا اور پھر جیسے اسے کچھ یادآگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دوڑ کر میری چھاتی سے چمٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
میں یقیناً اس صورتِ حال کے لیے بالکل تیار نہیں تھا ۔۔
شانتا نیم عریاں حالت میں تھی اور میری چھاتی سے لگی دونوں ہاتھوں سے مجھے جکڑے ہوئے روئے جارہی تھی اور جیسے میرے کانوں میں شاتو کے وہ الفاظ گونج رہے تھے جو وہ ابھی چند منٹ قبل مجھ سے کہہ کر غائب ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
میں سچ کہتا ہوں شدتِ جذبات سے میں کانپنے لگا ۔۔
شانتا میرے سینے سے اس طرح چمٹی ہوئی تھی جیسے ندی کی چھاتی سے کنول چمٹا ہوتا ہے میں نے ایک لمحہ کے لیے اس کے آنسوؤں سے تر چہرے پر گناہ ڈالی اور پھر ایسا محسوس کیا جیسے وہ شفق سے زیادہ رنگین ہو، گلاب کے پھولوں سے زیادہ معطر ہوا اور جیسے وہ رو نہ رہی ہو ، فضا میں نغمے بکھیر رہی ہو ۔
وہ میرے سینے سے چمٹی ہوئی تھی اور میرے چاروں طرف رات کی گناہ آلود تاریکی پھیل ہوئی تھی ۔ خاموش تاریکی بھیانک تاریکی جذبات سے پھر پور تاریکی ۔۔ اور بتدریج میری یہ حالت ہوتی جارہی تھی جیسے میں ماضی کو بھول چکا ہوں اور مستقبل کی حدود کو مٹا چکا ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم اس وقت شانتا کی کیا حالت تھی میں صرف اپنے بارے میں جانتا ہوں کہ میرے جذبات میں ندی کی طرح سیلاب آچکا تھا اور سیلاب کی یہ صفت ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چٹانیں بھی اس کا راستہ نہیں روک پاتیں ۔۔
میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سا شانتا کا آنسوؤں سے لبریز چہرہ اٹھایا ۔۔ جو اب برف کی طرح سفید ہوچکا تھا ۔۔۔ اس کی لمبی پلکوں پر اس وقت بھی آنسواس طرح کانپ رہے تھے جیسے گلاب کی نازک پنکھڑیوں پر شبنم کی قطرے طلوع آفتاب پر کانپنے لگتے ہیں یقیناً بدلتا جا رہا تھا ۔۔۔
مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کسی محل کی محراب کی نیچے اپنی محبوبہ کو گلے سے لگائے کھڑا ہوں اور تمناؤں کا ہجوم مجھ پر اپنی محبوبہ کو گلے لگائے کھڑا ہوں اور تمناؤں کا ہجوم مجھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتا چلا جا رہا ہے ۔
اب میں نے شانتا کے وجود پر ایک گہری نظر ڈالی ۔۔۔ اور ایسا محسوس کیا جیسے اس کی آنکھوں میں ایک نشہ سا انگڑائیاں لے رہا ہے ۔ اس کی نرم و گداز جسم سے اس کی ساڑی کچھ اس انداز میں سرک گئی تھی جیسے بادلوں کی جھرمٹ سے چاند نکل آیا ہو۔
مجھے شانتا کے وجود میں اپنی زندگی کا ماضی سمٹا ہو انظر آیا ۔ اور میری دیرینہ آرزوئیں میرے دل میں الاؤ کی طرح سلگنے لگیں اور پھر جیسے میرا جسم اس آگ میں جھلسنے لگا ۔ شانتا پر میری گرفت سخت ہونے لگی میں نے اس عورت نہیں ریشم کا ڈھیر سمجھ لیا ۔
میں گناہ کی طرف بڑھتا ہی چلا گیا ۔
یقیناً میں شاتو کے سحر میں مبتلا ہوگیا تھا ۔ لیکن بالکل اچانک جیسے طوفان سے باہر باہر نکل آیا ۔ میں نے شانتا کو دھکا دے کر دور کردیا ۔۔۔ اور کمرے کی تنہائی چیخنے لگی ۔
میں نےشانتا سے کہا تم اپنے ہوش میں ہو یا نہیں ۔“
لیکن اس مرتبہ بھی شانتا نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ میری طرف بالکل اسی انداز میں دیکھنے لگی جیسے سورج مکھی کا پھول سورج کو دیکھتا ہے ۔۔۔ بڑا درد تھا ان کی آنکھوں میں ۔ میں نے اس ے دوبارہ کہا “یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے شانتا تم بولتی کیوں نہیں ۔۔“
لیکن شانتا پھر بھی خاموش رہی ۔۔۔
اب میری قوتِ براداشت نے جواب دے دیا ۔۔میں دونوں ہاتھوں سے اس کو پکڑ جھنجھوڑنے لگا اور کمرے کی خاموشیوں میں میری آواز گونجنے لگی “شانتا … شانتا ۔۔ شانتا ۔“
ابھی چند لمحات قبل میرے کمرے میں طوفان آیا تھا وہ ختم ہوچکا تھا لیکن ابھی بھی اس طوفان کے اثرات باقی تھے ۔ اب میں جاگ رہا تھا اور میرے ہوش واپس آچکے تھے ۔ لیکن شانتا اب بھی مدہوش تھی ۔۔۔ اس کے تیور اب بھی بدلے ہوئے تھے اب بھی اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک غیر مرد کے سامنے نیم عریاں حالت میں کھڑی ہوئی ہے۔
مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ میں گناہ کی وادی میں گرتے گرتے رہ گیا تھا اور شاتوکو شکست ہوگئی تھی ۔ لیکن اب مجھے یہ الجھن ہورہی تھی کہ شانتا پر کون سی کیفیت طاری ہے ؟ آخر اس کو ہو کیا گیا ہے ؟ اور پھر اچانک مجھے دھوئیں سے بنا ہوا وہ وجود یاد آگیا جو نیم عریاں شانتا پر جھکا ہوا تھا اور جو میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی فضاء میں تحلیل ہوگیا تھا ۔۔۔
یہاں میں اس بارے میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گز ہرگز ڈرپوک نہیں ہوں ۔ میں اب تک بھوت پریت اور ارواح خبیثہ کا قائل ہی نہیں تھا اس لیے ان سے ڈرتا بھی نہیں تھا ۔ لیکن صرف ایک دن کے اندر اس آسیب زدہ حویلی میں جو کچھ مجھے نظر آیا اس میں نہ صرف مجھے بھوت پریت کا قائل بنا دیا تھا بلکہ مجھے ڈرا بھی دیا تھا ۔
شانتا اب بھی میری طرف مسلسل دیکھے جارہی تھی ۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں ڈر گیا ۔۔ اب مجھے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ کمرے میں میرے اور شانتا کے علاوہ بھی کوئی موجود ہے ۔ میں نے گردن گھما کر چارون طرف دیکھا اور پھر خود بخود میری پیشانی عرق آلود ہوگئی ۔ میں پسینے میں نہا گیا ۔۔ میرے اعصاب اور میرے ذہن کا رشتہ ٹوٹنے لگا ۔۔
لیکن ابھی میری ہمتو ں نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا تھا ۔۔ میں چلایا “اس کے کمرے میں کون ہے ۔” مجھے کوئی جواب نہیں ملا ۔۔ میں دوبارہ چلایا ” شاتو ۔۔۔ شاتو ۔۔۔ کیا تم یہاں موجود ہو ۔۔۔ اور اس مرتبہ بھی میری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔۔ مجھے کوئی جواب نہیں ملا ۔
شانتا اب بھی میری طرف درد بھری نظرو ں سے دیکھ رہی تھی میں گھبرا کر کمرے سے باہر نکلا اور تقریبا ً دوڑتا ہوا ہوا پورٹیکو تک آیا ۔ میں دراصل یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ شاتو کا بت اپنی جگہ پر ہے یا نہیں ؟
لیکن چبوترہ خالی تھا اور اس کا مطلب یہ تھا شاتو بھی بت میں تبدیل نہیں ہوئی تھی ۔۔ وہ یہ سارا تماشہ دیکھنے کے لیے میرے قریب ہی موجود تھی ۔ میں دوبارہ شانتا کے کمرے کی طرف مڑا ۔۔لیکن اچانک ایک آواز سن کر میرے قدم زمین جم گئے ۔ یہ آواز شاتو کی تھی ۔۔۔
شاتو نے کہا “تم نے مجھے پکارا تھا ۔ لیکن میں شانتا کے کمرے میں موجود نہیں تھی ۔ کیوں کہ میں اس کمرے میں داخل ہی نہیں ہوسکتی تھی ۔ ۔ میں باہر سے تمہارا تماشہ دیکھ رہی تھی ۔“
“مجھے یہ بتاؤ کہ شانتا کے جسم پر کون جھکا ہوا تھا ۔۔“
میں نے پوچھا ۔۔
“میری طرح ایک روح ہے ۔۔” شاتو نے جواب دیا ” جو بھٹک رہی ہے۔“
“یہ کس کی روح ہے ۔” میں نے سوال کیا “یہ روح شانتا سے کیا چاہتی ہے ؟“
“یہ سب تم اپنی شانتا ہی سے پوچھنا “شاتو نے طنزیہ لہجے میں کہا “میں صرف اتنا بتا دینا چاہتی ہوں کہ یہ روح اب بھی شانتا کے کمرے میں موجود ہے اور اس وقت بھی موجود تھی جب تم اس کو اپنے گلے سے لگائے ہوئے تھے “
“شاتو ۔۔۔” اچانک میں نے نرم لہجے میں کہا “میں تمہاری مددچاہتاہوں ۔“
“لیکن میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی “شاتو نے جواب دیا “تم جب تک ونود کے دوست رہو گے ، تم جب تک ان دونوں کی مدد کرتے رہو گے میں تمہیں کوئی مدد نہیں دے سکتی بلکہ میں تمہیں پریشان کروں گی اور اتنا پریشان کروں گی کہ تم خود ہی اس حویلی سے بھاگ کھڑے ہوگے ۔
“اچھا کم از کم یہ تو بتا دو کہ شانتا اپنا ماضی اور حال کیوں بھول گئی ہے “میں نے شانتا سے پوچھا
لیکن شاتو نے میرے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ۔۔ جواب کے بجائے فضا میں ایک قہقہہ سا گونجا اور پھر ماحول پر دوبارہ خاموشی چھا گئی ۔
میں نے پلٹ کو چبوترے کی طرف دیکھا تو بت واپس آچکا تھا ۔
اندھرے میں بت کو اس طرح واپس ہوتے دیکھ کر ایک مرتبہ میں پھر لرز گیا ۔ اور میرا جسم پسینے میں نہا گیا ۔
اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ میں دوبارہ شانتا کے کمرے میں جاؤں اور اس کے ہوش واپس لانے کے بعد خود اس سے پوچھوں کہ اس پر کیا گزری تھی ۔ چنانچہ بہت آہستہ اور مردہ قدموں کے ساتھ میں شانتا کے کمرے کی طرف مڑا ۔ برآمدے میں اب بھی کالکا بے ہوش پڑا تھا ۔ وفا دار اور بوڑھے ملازم کو اس عالم میں دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔
میں شانتا کے کمرے میں داخل وا تو شانتا پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی ۔ اس کی آنکھیں اب بھی کھلی ہوئی تھیں ۔ اب وہ چھت کی جانب دیکھ رہی تھی ۔۔ اس کے جسم کا بالائی حصہ اب بھی عریاں تھا ۔۔
تھکے تھکے قدموں کے ساتھ میں اس کے پلنگ کے نزدیک آیا ۔ اور آہستہ سے اس کو پکارا لیکن شانتا کے کانوں تک جیسے میری آواز پہنچی ہی نہیں ۔۔ وہ اسی طرح چھت کی جانب دیکھتی رہی شاید اس پر سکتہ طاری تھا۔
اب میں نے ہاتھ بڑھا کر شانتا کی ساڑی کا پلو اٹھایا اور اس پلو سے اس کے جسم کے عریاں حصے کو ڈھانکنا چاہا لیکن دوسرے ہی لمحے جیسے میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے ۔۔۔ کسی اَن دیکھے ہاتھ نے میرے گال پر اتنی زور سے تھپڑ مارا کہ میرا سارا جسم ہل کر رہ گیا اور میرے ہاتھ سے ساڑی کا پلو گر گیا ۔
میں اس چوٹ سے سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا کہ میرے گال پر ایک دوسرا تھپڑ پڑا اور پھر تو جیسے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش سی شروع ہوگئی ۔۔۔ میں ذبح ہوتے ہوئے بکرے کی طرح چیختا رہا اور نہ دکھائی دینے والا وجود جو مجھ کو بری طرح مارتا رہا حد یہ کہ میں زمین پر گر گیا ۔۔۔
شانتا اب بھی چھت کی طرف دیکھے جارہی تھی
اب مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا تھا ۔
میں نے اب تک اس وجود کو نہیں دیکھا تھا جس نے مجھ کو بہت مارا پیٹا تھالیکن اب میں بھوت پریت کا قائل ہوچکا تھا ۔ میری ساری ترقی پسندی رخصت ہوچکی تھی ۔ میں دیر تک کمرے کے فرش پر پڑا ہانپتا رہا ۔ آخر میں کراہتا ہوا اٹھا ۔ شانتا اب بھی مسہری پر نیم عریاں حالت میں پڑی تھی ۔
شانتا کو اس عالم میں دیکھ کر ایک مرتبہ پھر میری بہادری واپس آگئی ۔ میں نے چلا کر کمرے میں موجود اَن دیکھے وجود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “میں نہیں جاتنا کہ تم کون ہو لیکن تم جو کوئی بھی ہو میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔۔“
کمرے میں میری آواز گونج کر رہ گئی ۔ میں نے ہمت کرکے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا ۔ اب میں نے دیکھا کہ شانتا کے پاس رکھی ہوئی کرسی اپنی جگہ سے کھسکی ۔ کرسی کے کھسکنے کا انداز بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی اس پر بیٹھ گیا ہو ۔
میں ٹکٹکی باندھ کر کرسی کی طرف یکھنے لگا ۔
چند لمحے بعد کمرے میں ایک ہلکی سی آواز پھیلی ۔۔ ایک ایسی آواز جو سنی نہ جاسکی ہو ، صرف محسوس کی جاسکتی ہو۔ آواز مجھ سے ہی مخاب تھی ۔ اَن دیکھا وجود ۔۔شانتا کا عاشق ، حویلی کی وہ روح جو شانتا پر اپنا منحوس سایہ ڈال چکی تھی ، مجھ سے کہنے لگی “میں یہاں موجود ہوں اور تم سے پوچھ رہا ہوں کہ تم مجھ سے کیا باتیں کرنا چاہتے ہو ۔“
“میں تمہاری مدد چاہتا ہوں ” ۔ میں نے کہا “میں تمہارے تعاون سے اس حویلی کی نحوست کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں ۔ میں اپنے ونود کو شاتو کے سحر سے نکالنا چاہتا ہوں اور میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم کون ہو۔“
“میں بھی کبھی اس حویلی میں رہتا تھا ۔ لیکن میں اپنے بارے میں تمہیں کچھ بھی نہیں بتاؤں گا ۔ البتہ میں اس شرط پر تمہارے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں آج کے بعد تم میرے اور شانتا کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دوگے۔“
“میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا ۔” میں نے بڑی دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
“میرا مطلب بالکل صاف ہے ۔ میں ایک پیاسی روح ہوں میں اپنی زندگی میں ہمیشہ عورت کے پیار کے لیے ترستا رہا ہوں ۔
شانتا جب اس حویلی میں داخل ہوئی تھی اسی وقت مجھے اس کے چہرے پر اپنی روح کا سکون نظر آگیا تھا اور میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں شانتا کو ہمیشہ کے لیے اپنالوں گا اور جب کہ میں نے شانتا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے ۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی بھی میرے اور اس کے درمیان دیوار بنے۔۔۔۔“
“تم چاہتے کیا ہو ؟” میں نے بدستور خوف زدہ آواز میں سوال کیا ۔
“میں یہ چاہتا ہوں کہ شانتا اسی طرح ۔ اسی نیم عریاں حالت میں اسی طرح بناؤ سنگھار کیے ہوئے اس مسہری پر لیٹی رہے ، اور میں اس کو دیکھتا رہوں ۔”چند لمحوں کی خاموشی کے بعد آواز دوبارہ پھیلی “میں چاہتا ہوں کوئی انسان اس کمرے میں داخل نہ ہو ۔“
“تو کیا شانتا ہمیشہ اسی طرح سوتی رہے گی ؟”میں نے پوچھا ۔
“ہاں ۔۔۔ یہ میری اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کب تک سوئے اور کب جاگے ، میں اسی شرط پر اس چڑیل کے خلاف تمہارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں کہ اس وقت کے بعد تم اس کمرے میں نہیں ہوگے۔“
“اور اگر میں تمہاری شرط نہ مانوں ۔۔؟” میں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا ۔
“تو تکلیف اٹھاؤگے ۔” روح نے جواب دیا ۔
کمرے کی روح کا یہ جواب سن کر میں نے ایک مرتبہ شانتا کے جسم کی طرف دیکھا ۔ وہ بدستور مسہری پر بے ہوش پڑی تھی اور اس کی ادھ کھلی آنکھیں بدستور چھت کو دیکھے جارہی تھیں ۔
میں عجیب الجھن میں پھنس چکا تھا ۔
شاتو نے ابھی چند منٹ قبل مجھ سے کہا تھا “تم جب ونود کے دوست رہوگے ، تم جب تک ونود کی مدد کرتے رہو گے میں تمہیں کوئی مدد نہیں کرسکتی ، بلکہ تمہیں پریشان کروں گی اور اتنا پریشان کروں گی کہ تم خود ہی اس حویلی سے بھاگ کھڑے ہوگے ۔“
اور اب ۔۔۔
حویلی کی یہ دوسری روح مجھ سے شانتا کو طلب کر رہی تھی ۔ میرے ایک طرف ونود تھا اور دوسری طرف شانتا تھی ، مجھے دونوں سے محبت تھی دونوں سے پیار تھا ۔ ایک میرا بچپن کا دوست تھا اور دوسری میری بچپن کی محبوبہ ۔
میں اگر ونود کوکو شاتو کے سحر سے نجات دلانے کی ٹھانتا تھا تو مجھے شانتا کو قربان کرنا تھا اور اگر شانتا کو اس روح کے شکنجے سے بچانا تھا تو مجھے ونود کو قربان کرنا تھا ۔۔ میں چند منٹ تک اس نئی صورت ِ حال پرغور کرتا رہا اور میری الجھنیں بڑھتی گئیں ۔ میری قوتِ فیصلہ جواب دیتی گئی اور میری آنکھیں بوجھل ہوتی گئیں ۔
اچانک کمرے میں وہی جانی پہچانی آواز گونجی “میں تمہارا فیصلہ سننا چاہتا ہوں ۔” اور جیسے میں چونک گیا۔ میرے حواس واپس آگئے میں نے جواب دیا “اپنا فیصلہ سنانے سے قبل میں تم سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں ۔“
ایک لمحہ تک خاموش رہنے کے بعد میں نے کہا “میں چاہتا ہوں کہ تم آج رات کے لیے شانتا کو میرے حوالے کردو ۔ میں شانتا سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ شاید تمہیں نہیں معلوم کہ ایک مدت تک وہ میری محبوبہ رہ چکی ہے ۔“
“مجھے معلوم ہے ۔۔” روح نے جواب دیا ” اور اسی لیے میں شانتا میں تمہاری دلچسپی برداشت کر رہا تھا ۔ بہرحال ۔۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر آج کی رات کے لیے میں نے شانتا کی نیم بے ہوشی ختم کردی تو کیا تم صبح اپنا فیصلہ مجھے سنادوگے ؟””ہاں ۔ میں نے جواب دیا ۔””میں وعدہ کرتا ہوں ۔“
اور اس کے بعد ۔۔۔
میں نے دوبارہ کرسی کو کھسکتے دیکھا ، دروازے کو کھلتے دیکھا اور پھر اچانک ایسا محسوس کیا کہ اب تک کمرے میں جو خاص قسم کی بو پھیلی ہوئی تھی وہ غائب ہوچکی ہے ٹھیک اسی لمحے میں نے شانتا کو انگڑائی لیتے ہوئے دیکھا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے شانتا بیدار ہوگئی ۔ بیدار ہوتے ہی اس نے ایک نظر اپنے نیم عریاں بدن پر ڈالی اور دوسری نظر مجھ پر ۔۔ اور پھر وہ جیسے زخمی شیرنی بن گئی ۔
وہ مجھ پر جھپٹ پڑی اور چیخ چیخ کر میرے بال نوچنے لگی وہ چلا رہی تھی “بد معاش لفنگے مجھے مجبور پاکر دوست کی عزت پر ڈاکہ ڈالنا چاہتا ہے میں کمزور نہیں ہوں ، میں تجھے زندہ چبا جاؤں گی ، میں تجھے مارڈالوں گی ۔“
اس بدلی ہوئی صورت حال نے مجھے اور بھی حیران کردیا ۔
میں نے تنگ آکر شانتا کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور اس سے کہا “تم پاگل ہوگئی ہو شانتا۔“
شانتا نے جواب دیا “پاگل میں نہیں تو ہوگیا ہے بدمعاش تو نے میرے کپڑے اتارنے چاہے تھے وہ تو کہو اتفاق سے میری آنکھ کھل گئی ، ورنہ تونے مجھے برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی ۔“
“نہیں شانتا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔” میں نے اسے سمجھانا چاہا ۔
“عورت کو کبھی غلط فہمی نہیں ہوتی ۔” شانتا چلائی “اچھا یہ بتا کہ تو میرے تنہا کمرے میں کیا کرنے آیا تھا ۔
“تم بے ہوش تھیں شانتا ۔۔ میں تمہیں ہوش میں لانے آیا تھا اور یہاں آکر مجھ پر جو بیتی یا جو کچھ میں نے دیکھا ہے اگر تم اس کی تفصیل سنو گی تو ابھی اس حویلی سے بھاگ کھڑی ہوگی ۔“
میں نے اس کو سمجھانے کے انداز میں کہا ۔
میں چاہتا تھا کہ شانتا کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے لیکن شانتا بدستورغصے میں بھپری رہی ۔۔اس نے کہا “یہ سب تمہاری بکواس ہے۔“
“بکواس نہیں ہے شانتا ۔۔” میں نے جواب دیا ۔ اگر تم ثبوت چاہتی ہوتو کمرے سے باہر نکل کر دیکھ لو تمہارا وفادار ملازم کالکا ابھی تک بے ہوش پڑا ہوا ہے ۔“
“یہ کوئی ثبوت نہیں ہوا ۔۔۔” شانتا نے کہا “تم ڈاکٹر ہو تم نے مجھے بھی بے ہوش کردیا ہوگا اور کالکا کو بھی تاکہ تمہیں اپنی برسوں کی پیاس بجھانے کا موقع مل جائے ؛“
“نہیں شانتا نہیں ” اب میں چلایا “میری عزت نفس کی توہین نہ کرو ، میری نیک نیتی پرکیچڑ نہ اچھالو ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے تمہیں بد نیتی سے ہاتھ تک نہیں لگایا ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ ماضی میں تم میری محبوبہ رہی ہو میرے دل میں موجود رہی ہو ۔ لیکن آج میں تمہیں اپنے دوست کی امانت سمجھتا ہوں ایک مقدس امانت ۔“
میرے یہ جملے سن کر شانتا کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا ، اور میں نے اس کے دونوں ہاتھ چھوڑ دئیے ۔ اب میں نے اس کو بڑے سکون کے ساتھ ساری داستان سنادی ۔ میں نے جیسے ہی داستان ختم کرکے شانتا کی طرف دیکھا وہ رو رہی تھی اور خوف کی وجہ سے اس کا سارا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔
یہ کتاب تعمیر نیوز ویب سائٹ کے اس صفحہ سے لی گئ ہے۔