گلے میں اٹکا آنسوں کا گولہ باہر نہیں آ رہا تھا
کتنی دیر وہ شل ہوتے وجود کو سمٹتے ایک ہی حالت میں بیٹھی رہی
جب گزری زندگی فلم کی سٹوری کی طرح ذہیں میں چلنے لگی
آنکھیں درد سے پھٹنے لگی
مگر، آنسووں سے بےنیاز رہی
کب کب کہاں کہاں اسے کیوں کس کس بات پر ذلیل کرتے رہے
ہر وہ بات ہر وہ لمحہ ،ہر وہ اذیت ہر وہ تکلیف یاد آنے لگی
جب جب اسے دھتکار گیا،جب جب اسے ایاز پہچانی گئی جب جب سگے خون کے رشتوں نے اس سے منہ موڑا
جب جب اسے برا بھلا کہا گیا ، جب جب اسی محبت پہ شک کیا گیا ،
جب جب اس کے کردار پہ داغ لگا گیا
جب جب اسے حقارت سے جٹھکا گیا
جب جب اسے اس کی ذات کو نفی کیا گیا
جھوٹ سچ کی آمیزش سے اسے نچوڑ گیا
الزاموں کی بارش سے اسے باگھویا گیا
23 سال کی زندگی اس کی آنکھوں میں در آئی تھی
ہر وقت یاد آنے لگا تھا
ہر لمحہ عذاب بن رہا تھا
دل درد سے چُور ہو رہا تھا
کوئی چیھن لے مجھ سے حفاظہ میرا
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
************************************************
ماما آپ آج تک اس گناہ کی سزا دیتی رہی جس کے بارے میں جانتی ہی نہیں تھی
تب میں جانتی ہی نہیں تھی وہ گنا ہ ہے یا نیکی
اس غلطی کی اتنی سزا دی جسکا مجھے علم ہی نہیں تھا
اگر میں گھر آئے مہمان کی خاطرداری کرتی تھی تو اس لیے ہی، نہ وہ آپ کے گھر آیا ہے وہ خود سے ہی بیگانی خود سے سوال کرنے لگی
ماما،کیوں؟
آواز گلے میں روند رہی تھی
آنسوں اب بھی بہنے سے انکاری ہو رہے تھے
ماما آپ مجھے مار لیتی ، مگر اس طرح نہ کرتی
مجھے ذلیل کر کے بے وقعت نہ کرتی ماما ،
مجھے ماں کے پیار کے لیے نہ ترساتی
آج بے بسی عروج پر تھی
ایک بیٹی جنگ ہار گئی تھی
اس بیٹی کی کیا زندگی ہو گئی
جس کی ماں اس کی شکل تک دیکھنا گوراہ نہ کرئے
کیا مجھے مر جانا چاہیے؟ بے بسی سے خود ہی سوال و جواب کرنے لگی
میں روز تھوڑا تھوڑا مرتی رہی __اذیت ،ذلت ،بے خودی ،انا کی بھینٹ چڑتی رہی
اندر ہی اندر گھٹن سے مرتی رہی ____سوچتی رہی ہر وقت میں غلط ہوں
_کیا میں بھی ایک انسان ہوں ؟؟؟
کڑواہٹ کے کڑواے گھونٹ نہ چاہتے ہوئے بھی پیتی رہی
۔کبھی حلق میں اٹکتے تھے تو کبھی آنکھوں میں __مگر کسی پہ ظاہر نہیں ہونے دیتی تھی
کیا اس دینا میں کسی کے الفاظ میں اتنی کڑواہٹ اتنی ذلت ،اتنی تذلیل ہو سکتی ہے جتنی میری ماں کے لب و لجہ میں تھی
یوں تو ہزاروں گناہ ہوئے سرزد زندگی میں
سزا وہاں ملی جہاں بے گناہ نکلے
************* ********************†**************
کب سے وہ اس کیفت میں بیٹھی بیٹھی اکڑ چکی تھی
وجود بے جان لگنے لگا تھا ،
گھر کے سب فرد اپنے کمروں میں گرم بستروں میں سو رہے تھےخواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے
ادھر اسی گھر کی ایک فرد پل پل مر رہی تھی
مگر کسی کو علم تک نہیں تھا
ایمن پہ کیا قیامت گزر رہی ہے
زندگی اس طرح بھی آزماتی ہے ،
اتنا درد بھی دیتی ہے وہ استہزائیہ سوچنے لگی
************************************************
نجانے کتنے ہی پل کتنے ہی لمحے گزر گئے
پل لمحوں میں لمحے گھنٹوں میں بدل رہے تھے
آج کی رات گزرے گئی بھی کہ نہیں وہ نہیں جانتی تھی
پھر اچانک اسے اس نے پکارا ،
اس نے اسے سمیٹا
اس نے بلایا ،
اللہ اکبر ،اللہ اکبر
سر کو دروازے سے ٹکاتی وہ آذان کے لفظ اندر اتارنے لگی
موذن نے پکارا
حی الا الفلاح
وہ مرتے قدم اٹھاتی مردہ ہوتے وجود کو گھسٹتی
واش روم گئی ،وضو کیا ،جاِے نماز بچائی
پتہ نہیں تہجد تھی ،فجر تھی
ناسمجھی سے بس سجدہ کیا سر کو اس کی بارہ گاہ میں جھکا دیا
کچھ سمجھ نہ آیا ،
بس ہاتھ اٹھائے دیے
اللہ پکارا ،ادھر آنکھوں نے قفل کے بندھ توڑ دیے
پھر سے پکارا اللہ
دل نے گواہی دی صحیح جگہ پہنچ گئی ہو
اللہ ،اے اللہ
کیا کروں کہاں جاوں
زبان پکاری
کرم مانگتی ہوں عطا مانگتی ہوں
الہی میں تجھ سے دعا مانگتی ہوں
نہیں ہوئی مایوس تیرے در سے میں
میرے اٹھے ہاتھوں کی لاج رکھنا
میں تجھے سے درد کی دعا مانگتی ہوں
تو ہی سب کا والی سب کا داتا
میں تجھ سے رحم و کرم مانگتی ہوں
میں جو ہوں بے بس ،لاچار گنہگار
الہی میں تجھ سے معافی مانگتی ہوں
*******************************************
ایمن نہایت جذبے اور عقیدت سے لبریز لہجے میں پڑھ رہی تھی اسکا ایک ایک لفظ اسکے درد بھرے لہجے کی عکاسی کر رہا تھا
ٹوٹا لہجہ ٹوٹا وجود سمیٹنے لگا ،_
کوئی تھا جو اس کی درد سے چُور آواز سے پگھل رہا تھا
اس کے کمرے کی کھڑکی سے آواز باہر جا رہی تھی
کوئی باہر کھڑا اس کی آواز کے درد سے بھیگ رہا تھا
درد کی ہر رمق بھرنے لگی ،
وہ اس در سے مانگ رہی تھی جہاں سے کوئی سوالی کبھی خالی نہیں لوٹایا گیا
ایمن کی جھولی صبر سے بھر گئی
اسے سکون ملا،
وہ جان گئی تھی یہ صرف آزمائش ہے
اب مجھے اپنے امتحان کی تیاری کرنی ہے اور اسے پاس کرنا ہو گا
کچھ لمس ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے انسان زندگی بھر ترستا رہتا ہے مگر وہ نصیب نہیں ہوتے ہیں ایسے لمحے انسان پہ کسی ناگہانی عذاب سے کم نہیں ہوتے ہیں
مگر ایسے لمحوں کو آزمائش سمجھ کر گزاریں تو ہر ہر قدم پر اللہ ساتھ دیتا ہے
یہ زندگی ایک کڑا امتحان ہے ایک سفر ہے جس کی منزل موت ہے
اسے پیار اور محبت سے گزارو ، نفرتوں کے بیج بو کر نہیں
محبت میں اللہ پاک نے بڑی طاقت رکھی ہے اللہ جس کے دل میں یہ ڈال دے پھر وہاں سے انا،غرور،تکبر خود غرضی اور خود پسندی جیسے بیج نہیں اگاتا
اور اللہ جنکے دل محبت سے بھر دے ، پھر ان سے امتحان لیتا ہے ، اب اس کے بندے اس کی محبت کو اپناتے ہیں یا چھوڑ کر کوئی اور راہ اپنا لے گِے
***************************************
ایمن جہانگیر آج سمجھ گئی تھی اس کا دل کیوں نرم ہے اسکا دل کیوں حسیایت کی نرم بوندوں سے گوندا گیا ہے
ایمن جہانگیر کی زندگی کا پہلا سفر یہاں ختم ہوا ،
اگلا سفر اب آسان ہو گیا تھا کیوں کہ جب خود کی پہچان ہو جائے تو سفر آسان ہو جاتا ہے جب منزل نظر آ جائے تو مسافت کٹھن بھی ہو تو سفر میں دشورای نہیں رہتی ہے ،_
_ایمن کو یاد آ گیا تھا ،وہ انکل کیوں ملے انہوں نے کیوں سمجھایا سب ،
ان کا پڑھایا سبق ایمن کی زندگی کا سفر آسان کر گیا تھا
زندگی میں ایسےمقام بھی آتے ہیں
جب سب ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
جب سب اپنے روٹھ جاتے ہیں
جب اپنا آپ بیگانا لگنے لگتا ہے ،_
جب سب کچھ بے مراد لگنے لگتا ہے
جب چار سو اندھیرا چھانے لگتا ہے
جب خواب سبھی بکھرنے لگتے ہیں
جب دل کرتا ہے اب سکوں سے سو جائیں
تب کہیں پکارا پڑتی ہے
دل مضطرب سے آواز آتی ہے
گردشِ زمانہ سے کیوں تنگ ہو
کیوں رویوں۔سے تھک گئے ہو
جس نے سب دیا ،پیدا کیا
خوشی دی غم دیا درد دیا
لطف دیا ،خاص کیا پھر کیوں
ڈر رہے ہو ،کیوں تڑپ رہے ہو
چلو شکر کی منزل کا دامن پکڑو
مطئمن ہو جاو سجدہ شکر کرو
منزل کی طرف قدم بڑھاو
اب زندگی کا ہر لمحہ ہر پل
اس رب کریم کے نام کر دو
اب اس زندگانی کو اسے سونپ دو
***************End ****************