[ 5 ]
جب دو ملکوں میں جنگ ہوتی ہے تو جیت کسی کی نہیں ہوتی۔ دونوں ہی ہارے ہوئے ہوتے ہیں ڈھاکہ کا زوال ہوا تو ہندوستان کے سر کا درد اور بڑھ گیا۔ پہلے اس کا ایک دشمن تھا پاکستان۔ اب دو دشمن ہو گئے۔ بنگلہ دیش سے اس کے تعلّقات اس طرح خوشگوار نہیں ہو سکتے جس طرح نیپال سے ہیں۔ کیا پتہ پوربی اور پچھمی جرمنی کی طرح کبھی دونوں بنگال بھی ایک ہو جائیں۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد زائرین بھاگ بھاگ کر ہندوستان آنے لگے۔ میں نہیں سمجھتا ہندوستان میں ایسی کوئی مسلم فیملی ہو گی جہاں اس کے رشتے دار پناہ لینے نہ آئے ہوں۔ میرے یہاں بھی رشتے داروں کا تانتا بندھ گیا۔ مکتی واہنی کے ہاتھوں لٹ لٹا کر آئے تھے۔ ان کے چہرے پر قسمت کی نا رسائی کا ماتم تھا اور آنکھیں آنسووں سے بھیگی تھیں۔ حالات نا گفتہ بہہ تھے۔ ہم لوگوں نے ان کی ہر طرح سے مدد کی۔ کچھ آہستہ آہستہ نیپال کے راستے کراچی چلے گئے کچھ یہیں بس گئے۔
لیکن ایک شخص ہنستے ہوئے آیا اور ہنستے ہوئے گیا۔ اس کے چہرے پر بیتے موسم کا کوئی دکھ نہیں تھا۔ وہ سب کے لئے تحفے تحائف بھی لایا تھا۔ ہمیں مسکرا کر دیکھتا اور سگریٹ کے لمبے لمبے کش لگاتا۔ اور ہمیں حیرت ہوتی کہ دھوپ ابھی بھی اس کے آنگن میں اٹھکھیلیاں کرتی ہے۔
یہ تھے منظر بھیّا۔۔۔۔ ہمارے نزدیکی رشتے دار۔ یہ ان لوگوں میں تھے جن کے ستارے کبھی ماند نہیں پڑتے۔ یہ میٹرک پاس کرتے ہی بہت پہلے کراچی چلے گئے تھے۔ وہاں حبیب بینک میں نوکری کی اور دیکھتے دیکھتے بینک میں چھا گئے اور کم وقتوں میں مینجر کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ بہتوں کو انہوں نے نوکری دلائی۔ لڑکے ان کے بھروسے بھاگ بھاگ کر کراچی جاتے تھے اور بینک میں بھرتی ہوتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں جب آندولن شروع ہوا تھا تو ان دنوں میمن سنگھ میں بینک کی نئی شاخ کھولنے آئے ہوئے تھے۔ ڈھاکہ سقوط کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ہندوستان آتے ہی انہوں نے شعر و سخن کی محفلیں سجانی شروع کیں۔ ہر ہفتے مشاعرہ ہوتا اور لمبا دستر خوان بچھتا۔ ضیافت میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا۔ سب کے لئے کھانا خود ہی بناتے۔ پلاؤ اور گوشت پکانے کی انہیں ایرانی ترکیب پتہ تھی۔
منظر علی خان شاعر بھی تھے اور انشائیہ بھی لکھتے تھے۔ پہلے منظر بھیکن پوری کے نام سے لکھتے تھے۔ پاکستان جانے کے بعد منظر علی خان کے نام سے لکھنے لگے۔ ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ خطوط پر مبنی ایک مجموعہ بھی آیا ہے جسے قنبر علی نے ترتیب دیا ہے۔ سب کو یہی فکر تھی کہ یہ پیسے کہاں سے لاتے ہیں۔ باہر سے جو بھی آئے ہم سے کچھ نہ کچھ لیتے رہتے تھے۔ ایک یہی تھے جو سب کو کچھ نہ کچھ دیتے رہتے تھے۔
مجھے ۵۵۵ سگریٹ کی دو پیکٹ اور ایک چمکتی ہوئی ٹائی دی تھی۔ کسی نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت انہیں پاکستان کی کرنسی جلانے کا حکم ملا تھا۔ کچھ کرنسی جلائی ہو گی کچھ لے کر بارڈر کراس کر گئے ہوں گے اور سرحد پر بھی پیسے چھینٹتے آئے ہوں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ بات صحیح ہے۔ وہ اتنے فعال تھے کہ کراچی جاتے ہوئے کٹھمنڈو رکے تو وہاں بھی کام کرنا شروع کیا۔ وہاں ٹریو لنگ ایجینٹ ہو گئے۔ سب کا فارم بھرتے اور ٹکٹ کا انتظام کرتے جس سے ان کا خرچ نکل آتا۔ کراچی جاتے ہی وہ حبیب بینک کے وائس پریسیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
میری فاطمہ بوا بھی بنگلہ دیش سے لٹ لٹا کر آئیں۔ یہ میری پھوپھی زاد بہن تھیں اور بہت عاقلہ تھیں۔ یہاں آ کر بھی پاکستان کے گن گان کرتیں کہ میرے پاکستان میں یوں ہے تو ووں ہے۔ ہمارے ہاتھ میں پانی کا گلاس ہوتا تو کہتیں آدھا گلاس خالی ہے اور اپنے گلاس کو کہتیں آدھا گلاس بھرا ہوا ہے۔ ہمیں بہت چڑ ہوتی تھی۔ وہ ہر بات پر اپنی سبقت ثابت کرنے کی کوشش کرتیں۔ ایک بار تو حد ہو گئی۔ کہنے لگیں جنّات ان سے پناہ مانگتے ہیں۔ کئی بار بڑے بڑے جن کو پکڑ کر بوتلوں میں قید کیا ہے۔ اب یہ بات تو کسی طرح ہضم نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے سوچا انہیں جنّات بن کر ڈراؤ کہ ان کی گھگی بند ہو جائے۔
اس کام کے لئے میں نے اپنے بھتیجوں کی ٹیم تیّار کی۔ گھر میں سولہ سترہ سال کے دو تین لڑکے تھے جنہیں ایسی شیطانی میں مزہ آتا تھا۔ پلان بنا کہ جیم کو جنّات بنایا جائے۔ جیم شرجیل احمد خان کا لڑکا تھا جو ان دنوں آئی۔ اس۔ سی کا طالب علم تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک خالی زمین پڑی تھی جس میں کچھ جنگل جھاڑ اگ آئے تھے۔ اس زمین پر ایک پرانا مزار بھی تھا۔ یہ آنے جانے کا راستہ بھی تھا۔
جیم کے چہرے پر روئی کی لمبی سی سفید داڑھی جما دی گئی اور اس نے سر سے پاؤں تک سفید چادر اس طرح اوڑھ لی کہ صرف چہرہ کھلا رہا اور ساتھ ہی اس کی لمبی سی جھولتی ہوئی سفید داڑھی۔ جیم کو سمجھا دیا گیا کہ مزار کے پیچھے چھپ کر بیٹھے رہو اور جب فاطمہ پھوپھی ادھر سے گزریں تو لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ان کے سامنے کھڑے ہو جانا اور زوردار آواز میں کہنا ’’السلام علیکم۔‘‘ شام ہوئی تو وہ مزار کے پیچھے بیٹھ گیا اور فاطمہ بوا کے گذرنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد میری بڑی بہن ادھر سے گذریں۔ جیم نے سمجھا فاطمہ پھوپھی ہیں۔ تیز تیز قدموں سے ان کی طرف بڑھا۔ ان کی نظر جیم پر پڑی تو جلدی سے گھر میں گھس گئیں۔ جیم کو انہیں سلام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میری بہن اگر چہ ڈر گئی تھیں لیکن اپنا ڈر ظاہر نہیں کیا۔ بس اتنا سا ذکر کیا کہ کوئی سفید پوش مزار کے پاس تھا۔ ہم نے بھی اس بات کا زیادہ چرچہ نہیں کیا کہ ہمارے نشانے پر تو فاطمہ بوا تھیں۔ جیم روز ہی شام کو مزار کے پیچھے بیٹھتا۔ اور آخر ایک دن وہ ادھر سے گذریں۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ان کی طرف بڑھا۔ فاطمہ بوا نے اسے مزار سے نکلتے ہوئے دیکھا تو تھر تھر کانپنے لگیں۔ اور اس سے پہلے کہ بھاگ کر گھر میں گھس جاتیں جیم راستہ روک کر سامنے کھڑا ہو گیا اور زور دار آواز میں بولا ’’السلام علیکم محترمہ‘‘
’’ا مّاں جی۔۔۔۔ !‘‘ فاطمہ بوا کے منھ سے زوردار چیخ نکلی۔ دوڑ کر گھر میں گھسیں لیکن ان کا ایک پاؤں چوکھٹ سے ٹکرایا۔ وہ اوندھے منھ گر پڑیں اور بیہوش ہو گئیں۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ جیم اپنے کمرے میں دبک گیا۔ سب نے فاطمہ بوا کو گھیر لیا۔ والد ڈاکٹر کو بلا کر لے آئے۔ ہوش آنے کے بعد بھی وہ ڈر سے کانپ رہی تھیں۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میں بھی ڈر گیا۔ ان کا ہارٹ فیل بھی ہو سکتا تھا۔
لیکن ایک نئی مصیبت آ گئی۔ والد بھلا کیوں یقین کرتے کہ کوئی جن مزار سے نکلا۔ وہ سب سمجھ رہے تھے۔ وہ ایک ایک لڑکے سے پوچھ رہے تھے کہ سچ کیا ہے۔ مجھے فکر ہوئی کہ جیم سے پوچھا گیا تو بھنڈا پھوٹ جائے گا۔ وہ ایسا لڑکا تھا جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ اس کو بھی یہی پریشانی تھی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر دادا ابّا پوچھیں گے تو جھوٹ کیسے بو لوں گا۔ میں نے جیم کو سمجھایا کہ جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا ہے اور سچ بولنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تم چپ رہنا۔۔۔۔ کچھ نہیں بولنا۔ جیم نے یہی کیا۔ والد پوچھتے رہے اور وہ خاموش رہا۔
جیم ہمارے خاندان کا سب سے اقبال مند لڑکا تھا۔ اس نے این۔ ڈی۔ اے۔ کا امتحان پاس کیا اور ایر فورس میں فائٹر پائلٹ بنا۔ ٹریننگ کے دوران اس کا پلین تین بار فلیم آؤٹ ہوا تھا لیکن ہر بار وہ اجیکٹ کر گیا اور اس کو خراش تک نہ آئی۔ ایک بار تو خود پلین کو کنٹرول کرتا ہوا لینڈ کر گیا جس کے لئے انعام سے نوازا بھی گیا تھا۔ وہ جب آسام میں سکوائڈرن لیڈر تھا تو نئے پایئلٹ کو ڈاگ فائٹنگ کی ٹرینینگ دیتا تھا۔ ایک ٹرینی پائلٹ دیپک دیّہ کو ٹرین کرتے ہوئے اس کا پلین کہیں کریش کر گیا جس کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ وہاں جنگل اتنا گھنا تھا کہ پلین کا ملبہ تک نہیں ملا۔ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جس کی بھرپائی آج تک نہیں ہو سکی۔
فاطمہ بوا کو یقین نہیں ہوا کہ ہم نے انہیں جن بن کر ڈرایا تھا۔ بلکہ بات یہ مشہور ہو گئی کہ وہ تو فاطمہ تھیں کہ جن نے سلام کیا تھا ورنہ کوئی اور ہوتا تو سوار ہو گیا ہوتا۔
کچھ دنوں بعد شمعون بھی بھاگلپور آیا۔ لیکن وہ پاسپورٹ کے ساتھ کراچی سے آیا تھا۔ وہ اب خوب رو جوان تھا اور دلیپ کمار کے اسٹائل میں بال رکھتا تھا۔ یہاں آتے ہی وہ ہر لڑکی پر عاشق ہونے لگا اور امّاں سے کہتا ’’پھوپھی جان۔۔۔ میری اس سے شادی کرا دیجیئے۔‘‘
میں نے ایسا ڈان جؤآن ٹائپ آدمی کہیں نہیں دیکھا۔ وہ مجھے اپنے فتوحات کے قصّے سناتا کہ کہاں کس لڑکی کے ساتھ ہم بستر ہوا۔ اس کی فہرست میں زیادہ تر شادی شدہ عورتیں تھیں۔ اس کی منطق تھی کہ شادی شدہ عورتوں سے رومانس میں ہر طرح کا تحفّظ ہے۔ اگر انہیں حمل بھی ٹھہر جائے تو کریڈٹ شوہروں کو جاتا ہے اور وہ چھوٹے موٹے اخراجات بھی پورے کرتی رہتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ کچھ لڑکیاں ہوتی ہیں جن سے عشق کیا جا سکتا ہے شادی نہیں کی جا سکتی اور کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ شادی کی جا سکتی ہے عشق نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ایسی لڑکی سے شادی کا مشورہ دیتا جو ہنس مکھ ہو اور ایک سے ایک کھانا بنانا جانتی ہو۔
شمعون کو اس کرمنل کی بیوی سے بھی عشق ہو گیا جو پچھواڑے میں رہتی تھی۔ یہ لوگ بھی میرے رشتے دار تھے۔ سلیم صاحب ریٹائرڈ اکاونٹینٹ تھے جن کا اکلوتا لڑکا رشید ایک نمبر کا جواری تھا اور تسکری کا دھندہ کرتا تھا۔ وہ پورنیہ سے تین بچّوں کی ماں کو اٹھا کر لے آیا۔ عورت کہتی تھی ہم نے نکاح کیا ہے لیکن بیگم سلیم اس کو بہو ماننے کے لئے تیّار نہیں تھیں۔ محلے والے بھلا کیوں قبول کرتے۔ سب اس کو رشید کی رکھیل کہتے تھے۔ اور رکھیل تھی کہ محلّے میں سینہ تان کر چلتی تھی کہ اس کے پاس نکاح نامہ تھا۔ رشید جب گھر پر رہتا تو امن و سکون رہتا تھا اور جب باہر ہوتا تو ساس بہو میں مہا بھارت چھڑی رہتی۔ دونوں ایک دوسرے پر چلّاتیں اور محلّے والے سنتے۔ ان کا آنگن میری چھت سے نظر آتا تھا۔ ایک بار زور کا شور ہوا تو میں شمعون کے ساتھ چھت پر آیا۔ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھیں اور سلیم صاحب چلّا رہے تھے ’’بچاؤ۔۔۔۔ بچاؤ۔۔۔۔ کوئی ہے۔۔۔۔۔ ؟‘‘
شمعون چھت سے اترا اور ان کے آنگن میں پہنچ گیا۔ دونوں کو الگ کیا اور بیگم سلیم کو ڈانٹتے ہوے بولا۔
’’آپ اسے کیوں پریشان کرتی ہیں ؟ جب آپ کا بیٹا گھر میں ہو تو جو جی میں آئے کیجیئے‘‘
شمعون نے بیس روپے اس عورت کے ہاتھ میں دیئے اور بولا۔ ’’اسے قرض سمجھ کر رکھ لو۔ اور بچّوں کو کچھ کھانے کے لئے دو۔ رشید آئے گا تو پیسے واپس کر دینا۔‘‘
شمعون وہاں سے آیا تو بہت خوش تھا۔ مجھ سے ہنستے ہوئے بولا۔ ’ر جسٹریشن ہو گیا۔‘‘
’’کیسا رجسٹریشن ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’رشید کی بیوی کو رجسٹر کر لیا۔ اب جلد ہی وصل کی گھڑی بھی آئے گی۔‘‘ اس نے یہ بات اتنے اعتماد سے کہی کہ مجھے حیرت ہوئی۔
اس نے رشید سے دوستی کر لی۔ اس کے گھر کے چکّر لگانے لگا۔ مجھے روز اپنے کام کا ’’پرو گریس‘‘ بتاتا کہ بات کہاں تک پہنچی ؟ ایک دن اس کے نام کا انکشاف کیا ’’درّ شہوار‘‘ اس نے فخریہ بتایا کہ اس کے سوا کوئی اور اس کا نام نہیں جانتا۔ لیکن رونا بھی روتا کہ کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے۔ وہ رشید کے باہر جانے کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کے بعد تو اس کی انگلیاں گھی میں تھیں۔
آخر اس کی قسمت سے چھیکا ٹوٹا۔ رشید تسکری کے دھندے میں مدھو بنی چلا گیا۔ شمعون اس دن بہت جوش میں تھا۔ مجھے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے وقت بلایا ہے۔
میں مسکرایا ’’نماز کے وقت بلایا ہے ؟ کیا نماز پڑھو گے ؟‘‘
وہ زور سے ہنسا۔ ’’اس وقت گھر کے مرد مسجد میں ہوتے ہیں اور بڑھیا تو منھ لپیٹے سوئی رہتی ہے۔‘‘
جمعہ کے دن ادھر اذان ہوئی اور وہ اس کے کمرے میں گھس گیا۔
وہاں سے آیا تو بہت خوش تھا۔
’’کیا چیز ہے اللہ قسم۔۔۔ واہ۔۔۔ واہ۔۔۔ اس کو کہتے ہیں معشوق ! وہ اس لائق ہے کہ کوئی اس کے لئے تلوار اٹھا لے۔‘‘
’’کیا ہوا ؟‘‘ اس کی خوشی سے مجھے عجیب طرح کی جلن ہو رہی تھی۔
’’کیا بتاؤں کہ کیا ہوا ؟ سالی ہے چھنال۔۔۔۔ لیکن مزہ آ گیا۔‘‘
’’چھنال بھی کہہ رہے ہو اور اس کے لئے تلوار بھی اٹھا رہے ہو۔‘‘ میں نے چڑ کر کہا۔
’’مرد ایسی ہی عورتوں سے پھنستے ہیں ورنہ یہ بیویاں کیا خاک مزہ دیں گی۔ یہ بس کھانا بنانے کے لئے ہیں اور بچّے پالنے کے لئے۔۔۔۔ عیش کے لئے تو معشوق چاہیئے۔‘‘
اس نے بتایا کہ وہ جاتے ہی اس سے لپٹ گیا اور چھنال بھی چپکی رہی۔ پھر وہ ساری اور بلوز سے بے نیاز ہو گئی اور انڈے ابالنے لگی۔ شمعون کا کہنا ہے کہ جب نیم برہنہ فرش پر اکڑوں بیٹھی انڈے ابال رہی تھی تو اس کا حسن دیکھنے لائق تھا۔ اس کے کولہے کے کٹاؤ اور برا کی ہک دیکھ کر وہ مشتعل ہو گیا اور اس کے پاس ہی فرش پر بیٹھ گیا۔ وہ بھی اس کی گود میں بیٹھ گئی۔ گود میں ہی بیٹھے بیٹھے اس نے انڈے چھیلے اور اسے منھ کر کے کھلانے لگی۔۔۔۔۔ اور پھر وہیں فرش پر۔۔۔۔۔ !!
’’ہائے۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔۔۔ مت پوچھو یار۔۔۔۔ کیا ادا تھی۔۔۔۔ ؟ میں تو مر گیا۔۔۔۔۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
میں غصّے سے کھول رہا تھا اور مجھے اپنی ذہنیت پر حیرت ہو رہی تھی۔ میں کیوں جلن میں پاگل ہو رہا تھا۔ ؟
وہ اس سے رات میں بھی ملنے لگا۔ رشید جب تک لوٹ کر نہیں آیا اس کے شب و روز چھنال کے ساتھ گذرتے۔ وہ کبھی انڈے لے جاتا، کبھی مٹن اور چکن اور رات کھانا بھی وہیں کھاتا اور مجھے اپنی عیّاشی کی روداد سناتا اور میں اندر ہی اندر کھو لتا رہتا۔ میں اس کا اکیلا راز دار تھا۔ میں نے سوچ لیا اس کو رسوا کروں گا۔
ایک دن اس نے مجھ سے سو روپے مانگے۔ میں نے پوچھا کیا کرو گے تو کہنے لگا اس نے نتھ کی فرمائش کی ہے۔
’’نتھ۔۔۔۔ ؟‘‘ میں نے حیرت سے پو چھا۔
’’سونے کی چھوٹی سی نتھ۔۔۔۔ اس ادا سے اس نے مانگی ہے کہ میں تو مر گیا۔‘‘
’’تمہارا کیا ہے ؟ تم تو مرتے ہی رہتے ہو۔‘‘
وہ سرگوشیوں میں بولی تھی۔ ’’دو دو آدمیوں کے رہتے ہوئے میری ناک میں نتھ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں تو مر گیا۔۔۔۔ دو دو آدمی۔۔۔۔ یعنی ایک آدمی وہ ہے دوسرا میں۔ وہ مجھ سے محبّت کرنے لگی ہے۔‘‘
وہ میری خوشامد کرنے لگا کہ کہیں سے بھی سو روپے کا انتظام کر دوں۔ میں کہاں سے لا تا ؟ اس وقت بے روز گار تھا اور نوکری کی تلاش میں تھا۔ اور میں چاہتا بھی نہیں تھا کہ روپے اسے کہیں سے دستیاب ہوں۔ وہ کچھ دن پیسے کے لئے پریشان رہا پھر اس نے اپنی گھڑی بیچ دی۔ اس کے پاس ایک اومیگا گھڑی تھی۔
گھڑی بیچ کر اس نے نتھ خریدی۔ مجھے دکھایا اور نتھ دینے مجھے ساتھ لے گیا سلیم صاحب مجھے دیکھ کر خوش ہوئے اور چائے بنانے کے لئے کہا۔ بچارے شریف آدمی۔۔۔۔ انہیں کیا پتہ کہ کس نے ان کے گھر میں سیندھ ماری ہے۔ اس دوران وہ ماچس مانگنے آئی تو شمعون نے اپنی ماچس اس کو دے دی۔ چائے پی کر ہم باہر آئے۔ میں نے پوچھا کہ نتھ کس وقت دو گے تو زور سے ہنسا۔
’’نتھ تو دے چکا۔۔۔۔ جگر چاہئیے دوست۔۔۔۔ لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح نڈر آدمی ہی پرائی عورت کو اپنی بانہوں میں بھر سکتا ہے۔‘‘
’’نتھ کس وقت دی۔۔۔۔ ؟‘‘ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اٹھ کر اندر نہیں گیا تھا اور ہم ایک ہی جگہ بیٹھے رہ گئے تھے۔
اس نے بتایا کہ نتھ ماچس میں رکھ دی تھی اور اشارے سے بتا دیا تھا۔ تب ہی تو وہ ماچس مانگنے آئی تھی۔
لیکن نتھ اس کے لئے وبال جان بن گئی۔
رشید نے نتھ دیکھا تو پوچھا کہاں سے لائی ؟ اس نے کہا کہ روز کے خرچ سے پیسے بچائے اور اپنے شوق کی چیز خریدی۔ اس دن رشید نے کچھ نہیں کہا لیکن ایک دن اس کو پیسے کی ضرورت پڑی۔ جوا کھیلنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ وہ اکثر گھر کے سامان بیچا کرتا تھا۔ نظر نتھ پر پڑ چکی تھی۔ اس نے نتھ مانگی۔ وہ بھلا کیوں دیتی۔ رشید نے ایک جھپٹا مارا اور نتھ نوچ کر لے بھاگا۔ اس کی ناک زخمی ہو گئی۔ وہ چیخ چیخ کر روئی اور سیدھا تھانے میں سانحہ درج کرا دیا کہ اس کا شوہر تسکری کا دھندہ کرتا ہے۔ منع کرنے پر مارا پیٹا اور ناک سے نتھ نوچ کر بھاگ گیا۔ پولیس گھر پہنچ گئی۔ اس کے کمرے سے گانجے کی تھیلی بھی بر آ مد ہوئی۔ بس کیا تھا کیس بن گیا۔ پولیس سلیم صاحب کو بھی پکڑ کر لے گئی اور حاجت میں بند کر دیا۔ ان کو حاجت سے چھڑانے کے لئے بیگم سلیم کو اپنے زیور بیچنے پڑے۔
رشید بھی حاجت میں بند ہوا تو شمعون کی چاندی ہو گئی۔ اس کی راتیں پھر معشوق کے پہلو میں گذرنے لگیں۔ وہ اس کا اتنا دیوانہ ہو گیا تھا کہ اس کو بھگا کر پاکستان لے جانا چاہتا تھا۔ امرتسر سے وہ ٹیکسی سے باگھا بارڈر تک جاتا اور وہاں سے گرد نیہ پاسپورٹ سے اس کو بارڈر کراس کرا دیتا۔ میں نے سوچا امّاں کو ساری بات بتا دوں۔ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ اچانک سارا منظر نامہ بدل گیا۔
ایک دن اس کے پاس سے آیا تو اس کا موڈ بہت خراب تھا۔
’’سالی۔۔۔ کمینی۔۔۔۔ !‘‘
’’کیا ہوا۔۔۔۔ ؟‘‘ میں چونک پڑا۔
’’پاگل ہو گئی ہے۔۔۔ گالیاں دینے لگی ہے۔‘‘
’’محبوب کی تو گالی بھی مزہ دیتی ہے۔‘‘ میں مسکرایا۔
لیکن اس نے کچھ بتایا نہیں۔ دوسرے دن وہ غصّے سے آگ بگولا تھا۔
’’حرامزادی۔۔۔۔ اب اس کے پاس نہیں جاؤں گا۔‘‘
میرے بہت پوچھنے پر جو بات اس نے بتائی تو میں خوب ہنسا۔
مدہوشی میں اس کا نام لے کر گالیاں دینے لگتی تھی۔ ’’ارے حرامی۔۔۔۔ ارے سور کا جنا شمعون۔۔۔۔ تیری بہن کو کتّے سے یاری ہو گی۔۔۔۔۔ تیری ماں دس سور کے پاس گئی تو تو پیدا ہوا۔۔۔۔ ارے کتّا۔۔۔۔ ارے سور کا جنا۔۔۔۔ !!‘‘
وہ پھر اس کے پاس نہیں گیا اور ویزا کی میعاد ختم ہونے سے پہلے پاکستان چلا گیا۔
اس دوران ایک اور واقعہ ہوا۔۔
میں نے محلّے کی جامع مسجد کے امام کو استانی کے ساتھ راس رچاتے ہوئے دیکھا۔ استانی امام صاحب کی گود میں سمٹی ہوئی تھی اور وہ اس کا جسم سہلا رہے تھے۔ اسکول میرے گھر کے بغل میں تھا۔ اس کا احاطہ میری بالکنی سے نظر آتا تھا۔ امام کی راس لیلا دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میں نے امام صاحب کو بلایا اور اپنا ٹیپ رکارڈر آن کر دیا۔ میں ساری باتیں رکارڈ کر لینا چاہتا تھا تا کہ بعد میں وہ مکر نہ سکیں۔ واقعہ چند ساعت پہلے کا تھا اس لئے مجھے یقین تھا کہ امام اپنا گناہ قبول کر لے گا۔ میں نے گفتگو شروع کی۔
’’امام صاحب ! میں نے ابھی جو کچھ بھی دیکھا نہیں چاہتا دوسرے بھی دیکھیں‘‘ امام کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔
’’آپ نے کیا دیکھا ؟‘‘
’’میں نے دیکھا اسلام خطرے میں ہے اور آپ پر شیطان سوار ہے۔‘‘
امام چپ۔۔۔۔۔ !
’’بہتر ہے آپ امامت سے استعفیٰ دے دیں۔‘‘
’’میں اسکول سے اپنا تبادلہ کرا لوں گا۔‘‘
’’یہ حل نہیں ہے۔ آپ وہاں بھی اپنی بد فعلیاں جاری رکھیں گے۔ ایک امام ایسی حرکت کرے یہ بات نمازیوں کو برداشت نہیں ہو سکتی۔‘‘
امام اٹھ کر چلے گئے۔ لیکن ان کے رویّے میں کوی فرق نہیں آیا۔ ان کی راس لیلا جاری رہی۔ میں نے یہ بات محلّے کے ایک دبنگ لڑکے کو بتائی۔ اس نے امام کے پیچھے اپنا جاسوس لگا دیا۔ جاسوس نے امام کو استانی کے ساتھ بازار میں لسّی پیتے ہوئے دیکھا۔ بات محلّے میں پھیلنے لگی۔ کچھ دنوں بعد امام کو استانی کے ساتھ ایک ڈاکٹر کی کلینک میں دیکھا گیا۔ وہ استانی کا حمل گرانے گئے ہوئے تھے۔ جاسوس نے امام کے ہاتھ سے نسخہ جھپٹ لیا اور بھاگ کر دبنگ کو دے آیا۔ پانی گویا سر سے اونچا ہو گیا تھا۔ دبنگ نے پنچایت بلائی۔ پنچایت میں سارے ثبوت پیش کیئے گئے۔ وہ ٹیپ بھی سنایا گیا جو میں نے ریکارڈ کیا تھا۔ لیکن محلّے میں دو گروپ ہو گیا۔ کچھ لوگ امام کے سپورٹ میں کھڑے ہو گئے۔ پھر بھی امام کو مسجد چھوڑنی پڑی۔ میں نے امام کی کہانی لکھی ’’اونٹ‘‘ جس کا خمیر شمعون کی کار گذا ریوں سے تیّار کیا۔
میں سمجھتا ہوں ہر آدمی کے اندر ایک ڈان جوان ہوتا ہے جو حالات کے اعتبار سے اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ میں ایک افسانہ نگار کی مثال دینا چا ہوں گا۔ اس سے میری ملاقات سہسرام میں ہوئی۔ میں پہلے اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ میں نے جنس کی نفسیات کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور مرد و زن کے تعلّقات کو سمجھتا ہوں۔ لیکن اس شخص سے ملنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں ا حمق ہوں میرے پاس کتابی گیان تھا اور اس کے پاس تجربہ تھا۔ پہلی ملاقات میں ہی اس نے مجھ سے کہا کہ عورت کو اگر اس بات کا یقین ہو کہ کسی کو معلوم نہیں ہو گا اور کوئی اس راز سے واقف نہیں ہو گا تو وہ اجنبی مرد سے منٹوں میں تعلّقات استوار کر لے گی۔ پھر اس نے اپنا بستر الٹا اور پلنگ کی پٹّی دکھائی۔
’’یہ دیکھیئے۔۔۔ یہاں سے پٹّی کا رنگ اڑ گیا ہے۔‘‘
’’کیوں۔۔۔۔ ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ ایک عورت کی کمر کے نشان ہیں۔ یہ نشان دو سالوں میں بنا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے وہ اسی پوزیشن میں سو رہی ہے۔‘‘
’’کون ہے وہ۔۔۔۔ ؟ آپ کی شادی تو ابھی نہیں ہوئی ؟‘‘
وہ مسکرایا۔ ’’جس سے شادی ہوتی ہے وہ بیوی ہوتی ہے اور جو محبوبہ ہوتی ہے وہ عورت ہوتی ہے۔‘‘
جواب میں میں بھی مسکرایا۔ اس نے بتایا کہ اس کا نام گڈّو ہے۔ پہلی بار جب وہ ہم بستر ہوئی تھی تو ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے لیکن اس کو یقین تھا کہ یہ راز راز رہے گا۔‘‘
’’لیکن اب تو سب جان گئے ہیں۔‘‘
’’سب جان گئے ہیں تو تعلّقات بھی پرانے ہو گئے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’ اور تعلّقات پرانے ہوتے ہیں تو ڈر بھی جاتا رہتا ہے‘‘
میں مسکرا کر رہ گیا۔
اور ایک دن تو حد ہو گئی۔
رمضان کا مہینہ تھا۔ میں اس کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک کسی خاتون کی آواز آئی۔ ’’کیوں میاں ؟ سائکل نہیں چلا رہے ہو‘‘ افسانہ نگار اپنی جگہ سے اچھل گیا۔
’’یہ سگنل میرے لئے ہے۔‘‘
وہ دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے ادھر جھانک کر دیکھا۔ ایک عورت بالکنی میں کھڑی تھی۔ افسانہ نگار نے بتایا کہ یہ لوگ کل ہی اس گھر میں شفٹ ہوئے ہیں۔ اور اس عورت سے میری آنکھیں چار ہو چکی ہیں۔
’’آپ نے کیسے سمجھا کہ آپ کو سگنل دے رہی ہے ؟‘‘
’’عرشی میرا بھتیجہ ہے چار سال کا۔ وہ اپنی سائکل اسی دروازے پر چلاتا ہے۔ ابھی نہ عرشی ہے نہ سائکل تو وہ آواز کسے دے رہی ہے۔
’’سگنل کا مطلب کیا ہے ؟‘‘
’’بات کرنے کے لئے کہہ رہی ہے اور بات کیا کرنی ہے، سیدھا اس کے کمرے میں گھس جانا ہے۔‘‘
اس نے مجھے کھڑکی سے ہٹ کر بیٹھنے کے لئے کہا۔ ’’آپ تھوڑا ہٹ کر بیٹھیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کو دیکھ لے۔‘‘
اس نے کھڑکی بند کر دی اور خود دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ میں نے دیکھا اس نے عورت کو نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ عورت نیچے اپنے دروازے پر آئی اور کواڑ کی اوٹ سے جھانکنے لگی۔ افسانہ نگار آہستہ سے بولا ’’میں آؤں۔۔۔۔ ؟‘‘
اور اس نے ادھر ادھر سڑک کی دونوں طرف دیکھا اور جب تک عورت کواڑ بند کرتی اندر گھس گیا۔
کچھ دیر بعد آیا تو اس کا چہرہ لال ہو رہا تھا۔ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
’’کیا ہوا ؟‘‘
’’کام ہو گیا۔۔۔ !‘‘
’’کام ہو گیا۔۔۔ ؟ کیسا کام۔۔۔ ؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’دیکھیئے۔۔۔ !‘‘ اس نے ثبوت پیش کیا۔۔۔۔۔ میں سکتے میں تھا۔
وہ کہنے لگا کہ کام اسی طرح ہوتا ہے۔ ورنہ میں دیر کرتا یا کچھ دن انتظار کرتا تو ہچکچاہٹ پیدا ہوتی۔
’’آپ کو شرم نہیں آتی۔ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور وہ خود کتنی بے شرم ہے ؟‘‘
اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’رمضان میں تو اور بھی آسان ہے۔ کسی کو شک نہیں ہو گا۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے افسانوں میں سیکس کہیں نہیں ہے۔۔۔۔۔ !
حسن کا پیمانہ جو بھی ہو ایک دم سیاہ چیز بھی حسین ہوتی ہے۔
اور سیاہ فام عورت۔۔۔۔ ؟
وہ ایک دم کالی تھی۔۔۔۔ بالکل سیاہ۔۔۔۔ اور اتنی ہی چمک دار۔۔۔۔ ! وہ آنچل سنبھال کر رکھتی تھی پھر بھی چھاتیوں کا غرور چھپتا نہیں تھا اور جوانی امنڈی چلی آتی تھی۔ ہونٹ جامنی تھے۔۔۔۔ موٹے۔۔۔۔۔ رس دار۔۔۔۔ وہ مسّی لگاتی تھی اور ہنستی تو اور کالی نظر آتی۔ ہونٹوں اور گالوں پر سیاہی پانی میں لہر کی طرح پھیل جاتی اور دانت جامنی ہونٹوں کے درمیان سیاہ نگینے کی طرح چمکتے اور میرا دل دھڑکنے لگتا۔ لیکن آنکھوں کا رنگ عجیب تھا۔۔۔۔ سرخ سرخ کسی کاربنکل کی طرح دہکتی ہوئی آنکھیں جو ہر وقت بھیگی رہتی تھیں۔۔۔۔ یسا لگتا تھا کوئی ناسور اس کی آنکھوں کے رستے رس رہا ہے۔
میں نے اتنی کالی اور اتنی عجیب آنکھوں والی عورت پہلے نہیں دیکھی تھی۔ وہ میرے ایک دور کے رشتے دار کی بیوی تھی اور سقوط ڈھاکہ کے بعد لٹ لٹا کر بنگلہ دیش سے آئی تھی۔
برّ صغیر کا بٹوارہ ایک المیہ ہے اور سقوط ڈھاکہ بھی ایک المیہ ہے جس کا ذکر ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جو نہیں بھرتے۔ وقت کے ساتھ ناسور ہو جاتے ہیں اور روح میں رستے رہتے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ پاکستان کے سینے کا ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرے گا۔ پاکستان کے مسلمانوں کو ایک کافر کے ذریعہ دیا گیا زخم جو ناسور ہو گیا ہے۔ لیکن ہند کے مسلمانوں پر اس کا دوسرا اثر پڑا ہے۔ پاکستان سے ان کا موہ بھنگ ہوا۔ ان کا بھرم ٹوٹا اور ستّر کی پیڑھی نے خود کو مکھ دھارے سے جوڑا۔ میں اعتراف کروں گا کہ ایک زمانے میں یہاں کچھ مسلمانوں کو پاکستان سے ہم دردی تھی۔ کرکٹ میچ میں بھی کچھ لوگ پاکستان کی طرف داری کرتے تھے لیکن اب ایسی بات نہیں ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہاں کے مسلمانوں کو پاکستان سے ایسی انسیت نہیں رہ گئی ہے۔
بنگلہ دیش کا پاکستان سے ٹوٹ کر الگ ہونا اس مفروضے کی تائید کرتا ہے کہ آدمی کو مذہب نہیں باندھتا۔ آدمی کو آدمی سے باندھتی ہے اس کی زبان اور اس کا کلچر۔ پاکستان کے ٹوٹنے سے ٹو نیشن تھیوری بھی فیل ہوئی اور غور طلب بات یہ ہے کہ جو مسلمان پاکستان کو اپنا ملک سمجھ کر وہاں ہجرت کر گئے انہیں پاکستان نے قبول نہیں کیا۔ انہیں پاکستانی نہیں مہاجر کہا گیا۔ ایّوب خان کے بیٹے گوہر ایّوب نے سن آف سوائل کا نعرہ دیا کہ فوج میں وہی بھرتی ہوں گے جو پاکستان کے اصل باشندے ہیں۔ کہاں گیا مذہبی جذبہ اور کہاں گیا عقیدہ کہ مسلم ایک قوم ہے ؟
جنّاح سیکولر تھے۔ کبھی پاکستان میں ہندو مسلم میں فرق نہیں سمجھا۔ اسمبلی کی ایک نشست میں انہوں نے ایک اچھوت جوگندر سنگھ منڈل کو صدر بنایا تھا۔ جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا قومی نغمہ لکھنے کی فرمائش کی تھی لیکن جنّاح کے بعد پاکستان کے رہنماؤں نے حفیظ جالندھری سے قومی نغمہ لکھوایا۔ پاکستان کو غیر سیکولر بنانے کی کوشش مسلم رہنماؤں کی ہے۔ مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی اور تب سے پاکستان میں نظام مصطفیٰ لانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا ہمارے یہاں رام راجیہ کی استھاپنا کی بات ہوتی ہے۔
ایّوب خان مودودی سے متاثر نہیں تھے لیکن اہل شریعت کی طاقت کو محسوس کیا تھا۔ مہا جر اور اصل باشندے کی تفریق ایوب خان نے بھی کی لیکن یحییٰ خان نے تو حد کر دی۔ پوربی پاکستان کا کلچر الگ رہا ہے۔ پچھمی پاکستان کو پوربی پاکستان ایک آنکھ نہیں بھایا۔ ان کے مسائل ہمیشہ نظر انداز کیئے گئے۔ پوربی پاکستان میں بے اطمینانی بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا۔ وہ یحییٰ خان کو اقتدار سونپ کر کنارے ہو گئے۔ یحییٰ خان نے قیامت ڈھا دی۔ ڈھاکہ یونورسٹی کے دانشوروں کو گولیوں سے بھون دیا۔ فوجیوں نے کھلے عام بنگالی عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں کنواری لڑکیاں حاملہ ہوئیں۔ پاکستان کی فوجی حکومت کا خود پاکستان کو دیا ہوا یہ ایسا داغ ہے جو کبھی نہیں مٹے گا۔ ظلم جب بہت بڑھ گئے تو بنگالیوں نے مکتی واہن قائم کیا اور پوربی پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ایسے میں جو ہندوستان سے جنگ ہوئی تو پاکستانی فوج لڑنے کی ہمّت نہیں رکھتی تھی۔ وہ ریپ کر سکتی تھی لڑ نہیں سکتی تھی۔ وہ نہتّھے دانشوروں کو گولیوں سے بھون سکتی تھی لیکن سرحد پر فوج کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔ وہ پوری طرح بھرشٹ تھی۔۔۔۔ بز دل اور ناکارہ۔۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی نوّے ہزار مسلّح فوج نے ھندوستان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔
پاکستان کے سینے کا یہ ناسور مجھے کالی حسینہ کی آنکھوں میں رستا ہوا نظر آیا۔ وہ اس فوجی کی بیٹی تھی جو ہتھیار ڈالنے والوں میں شامل تھا اور اس وقت رام گڑھ کے فوجی کیمپ میں قید تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ بیٹی کی آنکھوں میں غصّہ ہے۔۔۔۔ کافر کے آگے گھٹنے ٹیکتی مسلم فوج کی بے بسی ہے۔۔۔۔۔۔ !
وہ تنک مزاج تھی۔ کسی سے سیدھے منھ بات نہیں کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بچّوں سے بھی رکھائی سے پیش آتی تھی۔ مجھ سے کنارہ کرتی اور میں تھا کہ اس پر مرا جا رہا تھا۔ مجھے خود بھی حیرت تھی کہ آخر اس میں ایسا کیا ہے کہ دل کا چین چھن گیا ہے۔ اس کی سیاہ رنگت۔۔۔۔ سینے کی مخروطی اٹھانیں۔۔۔۔ سیاہ نگینے سے چمکتے مسّی لگے دانت۔ یا جامن جیسے رس دار دبیز ہونٹ۔۔۔۔ ؟ میں نے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک غلط قسم کی چاہت دل میں پال رہا ہوں۔ وہ شادی شدہ تھی اور میرے یہاں پناہ گزیں تھی۔ اس پر ڈورے ڈالنا اخلاقیات سے پرے تھا لیکن میں کیا کرتا ؟ اس چڑیل نے مجھ پر کچھ کر رکھا تھا اور میرا سکون چھن گیا گیا تھا۔
وہ مجھے گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ میں اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ دور ہٹ جاتی اور میں دل مسوس کر رہ جاتا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میرے حال دل سے واقف ہے۔ مجھے دیکھتے ہی لہرا کر چلتی۔۔۔۔ پاؤں پر زور دے کر مٹک مٹک کر۔۔۔۔ اور پیچھے مڑ کر بھی دیکھتی اور مسکراتی بھی۔۔۔۔ میں ٹھنڈی آہیں بھر کر رہ جاتا۔
ایک دن میں نے اسے غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ وہ اندر غسل خانے میں تھی۔ میں نے کنڈی کے سوراخ سے اندر جھانکا۔ وہ ایک دم عریاں تھی اور اکڑوں بیٹھی غسل کر رہی تھی۔ لا الہ پڑھتے ہوئے اس نے مگ سے سر پر پانی اجھلا اور کھڑی ہو گئی اور میں سکتے میں آ گیا۔ اس کی پشت محراب کی طرح بل کھائی ہوئی تھی اور کولہے پیچھے کی طرف ابھرے ہوئے۔۔۔۔ میں نے صاف دیکھا پانی کا قطرہ پشت کی محراب پر رول گیا اور کولہے پر ٹھہر گیا۔ میں گھر سے بھاگ گیا اور بہت دیر بعد لوٹا۔ یہ منظر میرے دل و دماغ میں ثبت ہو گیا تھا۔ میں نے اپنی کہانی اونٹ میں سکینہ کے جسم کاجو بیان کیا ہے وہ اسی چڑیل کا جسم ہے۔
خدا شکّر خورے کو شکّر دیتا ہے۔ خدا نے شکّر کے کچھ دانے میری ہتھیلی پر رکھے۔ میں اپنی بڑی امّاں کا چہیتا تھا۔ وہ مجھ سے چھوٹے موٹے کام لیتی رہتی تھیں۔ مثلاً بکری کے لئے پتّے توڑ دو۔۔۔۔ مرغیوں کا ڈربہ کھول دو۔۔۔۔۔ چٹھیاں ڈال آؤ وغیرہ۔۔۔۔ ان کا یہ کام اب چڑیل کرتی تھی۔ لیکن بڑی امّاں آج کل فکر مند تھیں۔ انڈے نہیں اٹھ رہے تھے اور مرغیاں بھی کڑک نظر نہیں آ رہی تھیں۔ ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک مرغی کٹ کٹ کٹاس کرتی ہوئی ڈربے سے نکلی۔ وہ چڑیل کو ڈربہ جھانکنے کے لئے بو لیں۔ میں نے دیکھا اس نے انڈا ڈربے سے نکال کر آنچل میں چھپا لیا اور بڑی امّاں سے بولی کہ انڈا نہیں ہے اور کمرے میں چلی گئی۔ میں نے اس کی چوری صاف پکڑ لی تھی۔ میں اس کے پیچھے کمرے میں گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’چوری کرتی ہو۔‘‘
وہ گھبرا گئی۔
’’تمہیں شرم آنی چاہیئے۔ جہاں رہتی ہو وہاں چوری کرتی ہو۔‘‘
وہ پھر بھی چپ رہی۔ تب میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
’’مجھے اپنا دوست سمجھو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو۔ میں لا کر دوں گا۔‘‘
اس نے اپنے کندھے سے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’دوست۔۔ ؟ تم لوگ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یہ دشمن ملک ہے۔‘‘ وہ مجھے نفرت سے گھورتی ہوئی بولی۔
میں دنگ رہ گیا۔۔۔۔
’’تم ایک گندے آدمی ہو۔ تم مجھے بری نظر سے دیکھتے ہو۔‘‘
مجھے غصّہ آ گیا۔
’’میں برا آدمی ہوں اور تم بڑی اچھی ہو۔۔۔۔ تم جو انڈے چراتی ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیئے۔ جس کا کھاتی ہو اسی کے ساتھ دغا کرتی ہو۔‘‘
اس کا چہرہ اور سیاہ ہو گیا۔
میں سب سے کہوں گا کہ تم چور ہو۔ تم نے انڈے چرائے۔ بڑی امّاں کے پیسے بھی غائب ہو رہے ہیں۔ وہ بھی تم چراتی ہو۔ ذرا سوچو سب کو معلوم ہو گا تو کیا حال ہو گا تمہارا۔ میرے والد پر کیا اثر پڑے گا اور تمہارا شوہر تو شرم سے گڑ جائے گا۔ تم کسی کو منھ دکھانے قابل نہیں رہو گی۔‘‘
وہ روہانسی ہو کر پلنگ پر بیٹھ گئی۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بولا۔
’’دیکھو۔۔۔۔ مجھے اپنا دوست سمجھو۔ میں ہر طرح سے تمہاری مدد کروں گا۔‘‘
وہ اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی بولی۔ ’’مجھے کسی کی مدد نہیں چاہیئے۔ میرا یہاں دم گھٹتا ہے۔ میں یہاں سے جانا چاہتی ہوں۔‘‘
’’آخر تمہیں کیا تکلیف ہے ؟‘‘
’’تکلیف۔۔۔۔ ؟‘‘ اس نے مجھے گھور کر دیکھا۔ ’’میرا باپ یہاں قید ہے اور میں تمہارے ٹکڑوں پر پل رہی ہوں۔‘‘
’’اس طرح کیوں سوچتی ہو ؟ تم آ خر ہماری رشتے دار ہو۔‘‘
’’معاف کرنا۔۔۔۔ میں تمہاری رشتے دار نہیں ہوں۔ تمہارا رشتے دار ہے میرا شوہر جو یہاں پیدا ہوا۔ وہ تم سے مل کر رہ سکتا ہے۔ میں کیوں رہوں ؟ میں یہاں کی نہیں ہوں۔ میں اسلام آ باد میں پیدا ہوئی۔ میں اصلی پاکستانی ہوں۔ میں کوئی مہاجر نہیں۔‘‘
’’اصلی پاکستانی ہو اس لئے انڈے چراتی ہو۔ ؟‘‘ مجھے ہنسی آ گئی۔
اس نے میری طرف نفرت سے دیکھا۔ ’’یہ مت سمجھو کہ پاکستان کمزور ہو گیا ہے۔ پاکستان بدلہ لے گا۔ ہم ہندوستان کو چور چور کر دیں گے۔‘‘
میں نے قہقہہ لگایا اور اس کی طرف ہوائی بوسہ اچھالا۔ وہ غصّے سے کانپنے لگی۔ اس کا چہرہ اور سیاہ ہو گیا۔ اور اس پل میں نے ایک عجیب سی کشش محسوس کی۔ اس کا سیاہ چہرہ جیسے ایک مقناطیس تھا۔۔۔۔ طیش میں پھڑ پھڑاتے اس کے جامنی ہونٹ۔۔۔۔ میں اس کی طرف کھنچ گیا۔۔۔۔۔ اوراس کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ ثبت کر دیئے۔ وہ کچھ دیر میری بازوؤں میں کسمساتی رہی پھر تڑپ کر مجھ سے الگ ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا۔ وہ غصّے میں کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے کمرے سے نکل جانے کو کہا۔ لیکن میں جیسے ہی جانے کے لئے مڑا اس نے مجھ پر چاقو سے وار کیا۔ میں تلملا کر پیچھے مڑا۔ وہ چاقو لئے غصّے سے کانپ رہی تھی۔ میں جیسے سکتے میں تھا۔ میں نے اس کا تصّور بھی نہیں کیا تھا۔ مجھے اس سے بے پناہ نفرت کا احساس ہوا۔ میری پیٹھ چاقو کی نوک سے چھل گئی۔ میں نے تیکھے لہجے میں کہا۔
’’اسی طرح پاکستان بدلہ لے گا۔۔۔۔ ؟ پیٹھ پر وار کر کے۔۔۔ ؟‘‘
میں اسے نفرت سے گھورتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس دن کے بعد سے میں نے اس سے دوری بنائے رکھی۔ وہ کچھ دن ہمارے یہاں رہے پھر نیپال کے راستے کراچی چلے گئے۔
خنجر کا وہ نشان میری پیٹھ پر اب بھی موجود ہے۔ میں اب اس کے غصّے کو سمجھ سکتا ہوں۔ وہ مہاجر نہیں تھی۔ وہ اصلی پاکستانی تھی۔ اس کی فوج نے ہندوستان کے آگے گھٹنے ٹیکے تھے۔ یہ ایسی ذلّت ہے جو پاکستان قیامت تک اٹھائے گا اور بدلے کی آگ میں جلتا رہے گا۔ لیکن پاکستان سیدھا حملہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے با لواسطہ زخم لگاتا رہے گا۔ پاکستان کی فوج چپکے چپکے دہشت گردوں کو ہندوستان بھیجتی رہے گی۔ یہ سلسہ ختم نہیں ہو گا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان سے ایک جنگ یقینی ہے۔ لیکن دہشت گردی کی سازش میں مہاجر شامل نہیں ہیں۔ یہ فعل اور جنل پاکستانیوں کا ہے۔
پاکستان کے ادب پر اس شکست کا گہرا اثر پڑا ہے۔ انتظار حسین نے شہر افسوس اور دوسری کہانیاں لکھیں۔ تہذیب کے مسئلے نے سر اٹھایا کہ آخر پاکستان کی تہذیب کیا ہے۔ قدامت پسندوں نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ اس کی جڑیں موہن جودڑو اور ہڑپّا میں پھیلی ہیں۔ اسلامی کلچر کو ہی پاکستان کا کلچر مانا گیا۔ قرّۃ العین حیدر تو بہت پہلے ہندوستان بھاگ آئیں لیکن فیض نے یہ کہہ کر دامن بچایا کہ تہذیب کی تلاش مذہب میں ہونی چاہیئے۔ حسن عسکری جیسے ترقّی پسندوں نے بھی اسلامی کلچر پر زور دیا۔ پاکستان کے ادبی رسائل کا پہلا ورق حمد و نعت کے لئے وقف ہے۔ پاکستان کے تانا شا ہوں نے آرٹ ڈرامہ اور کلچر کو اچھی طرح پنپنے نہیں دیا اور ہر اس نظریے کو ردّ کرنے کی کوشش کی جس میں ہندوستانی تہذیب کی بو باس ہے۔ پھر بھی انتظار حسین، اسد محمّد خان، جمیلہ ہاشمیم زاہدہ حنا، گلزار جاوید اور دوسرے تخلیق کاروں کے یہاں ہندوستان سانس لیتا نظر آتا ہے۔