آج اس کا نکاح تھا وہ بہت خوش تھی نکاح کی تقریب مرتضٰی ہاؤس کے وسیع لان میں منعقد کی گئی تھی وہ دلہن کے روپ میں سجی سنوری بہت خوبصورت لگ رہی تھی قاضی صاحب نکاح کے لیے آ چکے تھے اور کچھ ہی دیر میں نکاح کی رسم ادا ہونے والی تھی
وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ آج اس کی تقدیر بدلنے والی ہے وہ اپنے آنے والے وقت کی سوچ میں گم تھی کہ باہر سے شور کی آواز سنائی دی کسی انہونی کے احساس کے تحت اسـکا دل بری طرح دھڑکا۔۔۔۔۔
اسی لمحے دروازہ دھاڑ سے کھلا اور عہ شخص اندر آیا اس کے ہاتھ میں پسٹل تھی سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں غصہ صاف دکھائی دیتا تھا اس کا دل کانپا یعنی جس کا اسے ڈر تھا وہ ہونے لگا تھا
” آج تک ایسا نہیں ہوا کہ مجھے کوئی چیز پسند آئی ہو اور وہ مجھے نہ ملی ہو تم تو پھر محبت ہو میری” وہ غصے سے جتاتا ہوا بولا
” میں جس چیز کو چاہتا ہوں اسے کسی بھی قیمت پہ حاصل کرکے رہتا ہوں” اب کی بار وہ شانِ بے نیازی سے بولا
” میں چاہتا تو تم سے اغوا کر کے بھی نکاح کرسکتا تھا لیکن اغوا کر کے نکح کرنے کا ٹرینڈ بہت پرانا ہو گیا ہے اور میں کچھ نیا کرنا چاہتا ہوں اور دوسرا یہ کہ اگر میں یہ نکاح اغوا کر کے کرتا تو تمہیں دلہن کے روپ میں کیسے دیکھتا میری دلی خواہش تھی کہ میں اپنی ہونے والی بیوی کو دلہن کے روپ میں دیکھوں مجھے ہر چیز پرفیکٹ پسند ہے”
” لیکن کیا کروں میری بدقسمتی تم میرے لیے تو س طرح سجتی سنورتی ہی نہیں سو۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بہت حسین لگ رہی ہو” وہ چلتا ہوا اس کے قریب آیا اب کی بار شوخی سے بولا
” تم چاہتے کیا ہو؟؟؟” اس کی دبی دبی آواز نکلی
” ڈارلنگ تمہیں ابھی تک سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا چاہتا ہوں چلو تنہیں شاعرانہ انداز میں بتاتا ہوں
تمہیں اپنی بیوی کے عہدے پہ فائز کرنا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھو کیا چاہتا ہوں”
وہ مسکرایا مسکراتا ہوا وہ بالکل شہزادوں جیسا لگتا تھا
” ایسا نہیں یو سکتا نفرت کرتی ہوں میں تم سے” وہ اپنے لیجے کی کڑواہٹ کو چھپا نہ سکی
” لیکن میں تو محبت کرتا یوں تم سے اور کسی بھی قیمت پہ تم سے شادی کر کے رہوں گا”
” لیکن میں کسی بھی قیمت پہ تم سے شادی نہیں کروں گی” وہ سرد مہری سے بولی
” اپنے نا ہونے والے دلہا کی جان کی قیمت پہ تو کرو گی” اس نے دلچسپ انداز میں کہا
” کیا مطلب؟؟؟” اس نے نا سمجھی سے پوچھا
” مطلب یہ۔۔۔۔۔ کہ میرے سارے دوست تمیارے نا ہونے والے دلہا کے گرد ڈیرہ ڈالے کھڑے ہیں اور یقین کرو ان کے ہاتھوں میں بہت دلچسپ کھلونے بھی ہیں” اس نے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی پسٹل لہرا کے دکھائی ” اور تمہاری جان کی قسم میرے ایک اشارے پہ وہ تمہارے قدموں میں اس کی جان کا نظرانہ پیش کردیں گے” وہ خاموش کھڑی رہی تو وہ پھر بولا
” بتاؤ اتنی قیمت پہ مان جاؤ گی یا قیمت بڑھاؤں” اس نے کن اکھیوں سے سامنے کھڑی ماہ گل کی ماں کو دیکھا
” مم۔۔۔۔۔میری ماں کو ہاتھ بھی مت لگانا۔۔۔۔۔اچھا ٹھیک ہے میں تم سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن یاد رکھنا میں تمہاری زندگی جہنم سے بھی بدتر بنادوں گی” اس کا قہقہہ بلند ہوا
” تم ساتھ ہو تو میں جہنم میں بھی گزارا کرلوں گا” اس نے شانِ بےنیازی سے کہا ماہ گل کو وہ حد سے زیادہ زہر لگا
اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کا نکاح ہو گیا۔
———–
گاڑی میں وہ دونوں بیٹھے باتیں کررہے تھے ایک بہت دیر سے سگریٹ پھونک رہا تھا وہ بلا کا ہینڈسم تھا
چھے فٹ سے نکلتا قد، چوڑے شانے، سیاہ گہری آنکھیں،اونچی مغرور ناک، سرخ و سفید رنگت، سیاہ کٹے چھوٹے سلجی بال جو کہ ماتھے پہ گرتے تھے وہ بلاشبہ شہزادوں سی آن بان رکھتا تھا دیکنے میں جتنا خوبصورت تھا اتنا ہی اکھڑ مزاج، بدتمیز اور ڈھیٹ تھا وہ اپنی بول چال سے ایک ااسٹیبلش فیملی کا معلوم ہوتا تھا
” تم کب سے سگریٹ پی رہے ہو ہر چیز کی بھی ایک لمٹ ہوتی ہے” حذیفہ نے بیزاری سی کہا
” اور تم جانتے ہو نا لمٹ سے سخت نفرت ہے مجھے میری ڈکشنری میں لمٹ نام کا لفظ نہیں آتا” اس نے ایک اور سگریٹ نکالتے ہوئے کہا
“تو یہ شوق گاڑی سے نکل کے پورا کرو نا دوسروں کی صحت کیوں خراب کررہے ہو”
” آخری اطلاعات کے مطابق یہ گاڑی میری ہے اور اتنی تکلیف ہے سگریٹ سے تو اترو” اس نے ناگواری سے کہا اور ساتھ ہی گاڑی کا دروازہ کھول دیا اور اسے باہر نکالا
“پر یار میں گھر کیسے جاؤں گا؟؟؟”
” یہ مجھے نصیحت کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ” اور گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔
———–
اگلے دن وہ حذیفہ کے آفس میں موجود تھا اور اسے پتا تھا وہ اپنے کل کے رویے کی معذرت کرنے نہیں آیا یہ اس کی بچپن کی عادت تھی حذیفہ س کی اس نیچر کا عادی تھا
” کل کی بےعزتی کے بعد میرا بالکل دل نہیں چاہ رہا کہ میں تمہیں اپنی بارات میں لے کر جاؤں ”
” تو نہ لے کر جاؤ میں مرا نہیں جا رہا تمہاری ادی میں جانے کے لیے” اس نے لاپرواہی سے کہا
” اگر تم میرے کلوتے دوست نہ ہوتے تو میں کبھی تمہیں منہ نہ لگاتا ” حذیفہ چڑ کے بولا
تمہیں منہ لگانا کون چاہتا ہے اور ویسے بھی ہمارے درمیان ایک ٹیبل کا فاصلا ہے تو منہ لگانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا” حذیفہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات پہ ہنس دیا
” اچھا بتا بارات کس ٹائم نکلنی ہے” پہلے تو حذیفہ نے اسے گھورا وہ بات کا رخ موڑ چکا تھا حذیفہ اسے ٹائمنگ بتانے لگا۔
———-
ماہ گل نے آج فیروزی کلر کا غرارہ زیب تن کیا تھا جس پہ گوٹے سے کم کیا گیا تھا ریشمی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا کانوں میں نفیس سے ائیر رنگ مہندی لگے ہاتھوں میں چوڑیاں اور ہلکے سے میک اپ میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی بالوں کی کچھ لٹیں چہرے کے اعتراف میں جھول رہی تھیں جو اس کے چہرے کو اور حسین بنا رہی تھیں
وہ ویسے بھی بے حد خوبصورت تھی ڈارک براؤن بڑی بڑی آنکھیں، ڈارک براؤن گھنے ریشمی بال، سرخ و سفید رنگت، تیکھے نین نقش چہرے پہ بلا کی معصومیت تھی جو اسے اور خوبصورت بناتی تھی
ماہ گل کی منگنی احتشام ندا کے بھائی سے دوسال پہلے احتشام ہی کی خواہش پہ کردی گئی تھی
ماہ گل نے آج احتشام کا پسند کیا ڈریس ہی پہنا تھا جوکہ اس نے ہی ماہ گل کو گفٹ کیا تھا وہ ماہ گل کو آج اپنے پسند کے ڈریس میں دیکھنا چاہتا تھا
———-
ندا اور ماہ گل پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ چھی دوست بھی تھیں ماہ گل بہت خوبصورت تھی اور بہت زیادہ خوش اخلاق بھی ہر کوئی بہت جلد اس کا گرویدہ ہو جاتا، ظاہری طور پہ مضبوط پتھر دل مگر اندر سے بہت حساس۔۔۔۔۔
ندا کا نکاح شہر کے بہترین ہوٹل میں منعقد ہوا تھا ماہ گل جب ہال میں پہنچی تب تک بارات آچکی تھی
نکاح کی رسم ادا ہو چکی تھی اور اب ندا کو اسٹیج پہ لے جایا گیا ماہ گل اس کے ساتھ ساتھ تھی تیمور حذیفہ سے باتیں کررہا تھا ندا کو جب حذیفہ کے ساتھ بٹھانے لگے تو تیمور نے یوں ہی سرسری نظر اٹھا کے دیکھا اور پھر اس کی نگاہ پلٹنے سے انکاری ہو گئی وہ بھلے ایک ضدی اور ڈھیٹ آدمی تھا پر ساتھ ساتھ ہنس مکھ اور سلجھا ہوا انسان بھی تھا وہ کافی عرصہ ایک آذاد ملک میں رہا تھا پر کسی کو دیکھ کے اس کی ایسی حالت نہیں ہوئی تھی جیسی اس وقت ہو گئی تھی
ماہ گل نے اپنے چہرے پہ کسی کی نگاہیں محسوس کیں سامنے دیکھا تو تیمور اس ہی کی طرف متوجہ تھا ماہ گل نے ناگواری سے منہ پھیر لیا اور اسٹیج سے نیچے اتر گئی وہ جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہوئی تیمور کو ایک دم ہوش آیا اور اپنی بےاختیاری پہ مسکرادیا۔
وہ ایک سائیڈ پہ آ کے بیٹھ گئی تھوڑی دیر بعد وہاں احتشام چلا آیا
” ہائے سویٹ ہارٹ بہت خوبصورت لگ رہی ہو آج”
” آج۔۔۔۔۔؟؟؟ ہمیشہ نہیں لگتی کیا؟؟؟”
” ہمیشہ ہی لگتی ہو بٹ آج۔۔۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی
” بٹ آج کیا؟؟؟”
” بولو تو آج ندا کے ساتھ ساتھ ہمارا نکاح بھی پڑھوادوں ” وی شوخ ہوا
ماہ گل کا چہرہ سرخ ہو گیا ” پٹو گے مجھ سے” کہہ کے وہ اٹھی اور وہاں سے جانے لگی پیچھے اسے احتشام کا زور دار قہقہہ سنائی دیا۔
———
ندا کے نکاح کو کافی دن ہو گئے تھے سردیاں شروع ہونے والی تھیں اور ماہ گل کو تو ویسے بھی شاپنگ کا کریز تھا وہ آج اپنی کزن ماہین کے ساتھ سردیوں کے کپڑے خریدنے آئی تھی
وہ شاپنگ میں مصروف تھی کہ اسی احساس ہوا کوئی اس کے قریب کھڑا ہے اس نے پلٹ کے دیکھا سامنے کھڑا شخص اسے ہی دیکھ رہا تھا ماہ گل نے اسے ناگواری سے دیکھا اور غصے سے بولی ” دور ہٹو”
اس کے بولنے پہ بھی وہ ہٹا تو وہ غصے سے خود ہی سائیڈ سے نکل کے چلی گئی ماہین اپنی شاپنگ میں مصروف تھی
ماہ گل نے اسے پہچان لیا تھا وہی شخص اس کا پیچھا کررہا تھا جو اس دن اسے نکاح میں گھور رہا تھا مارکیٹ میں رش ہونے کی وجہ سے کسی نے ان پہ دھیان نہیں دیا تھا
وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا اور بڑے احترام سے بولا
” کیا آپ میری بات سن سکتی ہیں؟؟؟”
” میں راہ چلتوں کی بات نہیں سنتی” وہ غصے سے گویا ہوئی
” تو چلیں بیٹھ کے بات کرلیتے ہیں ” سامنے کھڑے شخص کا اطمینان قابلِ دید تھا
” آپ جاتے ہیں یا میں بلاؤں کسی کو” اس نے بلند آواز میں کہا
” ایسا کریں اپنی امی کو بلا لیں ویسے بھی بات تو انہی سے کرنی ہے” وہ ڈھٹائی سے بولا
” آپ حد سے بڑھ رہے ہیں ”
” محبت میں کوئی حد نہیں ہوتی”
” دما غ خراب ہے آپ کا؟؟؟”
” پہلے تو ٹھیک تھا پر جب سے تمہیں دیکھا ہے لگتا ہے واقعی خراب ہو گیا ہے”اس نے ایک دم سے آپ کہنے کا تکلف ختم کیا
” کسی خوش فہمی میں مت رہنا منگنی ہو چکی ہے میری اور بہت جلد شادی بھی ہوجا ئے گی”
اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
کچھ لمحے وہ اس کی طرف خاموشی سے دیکھتا رہا اور پھر اس کے شانے تھام کے سس کی غصے بھری آنکھوں میں دیکھا
” میں محبت کرتا ہوں تم سے اور تم سے ہی شادی کروں گا۔۔۔۔۔ اوراگر میرے علاوہ کسی سے شادی کرنے کا سوچا بھی تو جان لے لوں گا اس کی۔۔۔۔۔سنا تم نے” کہہ کر وہ رکا نہیں تھا ماہ گل سن سی کھڑی رہ گئی اس کا سکتہ تب ٹوٹا جب ماہین نے اس کو آواز دی
” ماہی آپی میں آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی ہوں اورآپ یہاں ہیں ”
وہ چونکی ” ہاں۔۔ وہ۔۔ میں۔۔ چلو گھرچلتے ہیں”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...