(Last Updated On: )
وہ میرے سامنے کرسی پربیٹھے ہوئے تھے اورمیں دیوان پرلیٹاہواگہری نیند میں سونے کی ایکٹنگ کررہاتھا اور سوچ رہاتھا کہ دیکھیں آج سبحان چچاکونسا جھوٹ بولیںگے؟کیابہانہ تراشیں گے؟کس طرح ہم لوگوںکوبے وقوف بنائیں گے ؟تعجب ہوتاہے اُن پر،جھوٹ بولتے ہیں اوراُن کی زبان ذرابھی نہیں لڑ کھڑاتی ،میں نے چور نظروںسے اُن کی طرف دیکھا،وہ خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ کاڑی موڑی بدن، اندر کودھنسی ہوئیں گیلی گیلی آنکھیں،پچکے ہوئے گال،سرکے بال غائب،بس گردن سے اوپر اورسرکے آخری سرے پرسفیدبالوںکی ایک جھالرسی رہ گئی تھی۔ میلے کُچیلے کپڑوںمیں وہ اوربھی تنگدست اورمفلس نظرآرہے تھے۔پتہ نہیں یہ بہروپ انھوں نے کیوں اختیارکیاہے؟ حالانکہ وہ پہلے ایسے نہیں تھے۔میری آنکھوں میں برسوں پُرانے سبحان چچا گھوم گئے،اُجلے کپڑے،ترچھی مانگ ،سلیقے سے جمے ہوئے بال، آنکھوں پراکثردھوپ کا چشمہ لگاہوا،اونچے پورے ، چھریرابدن اور ہونٹوں پرہمیشہ مسکراہٹ،ا ُن دنوں اُن کی بڑی عزت تھی،خاندان کاہرفرداُنھیں دیکھتے ہی کھل اُٹھتا،ہرکوئی اُن کادیوانہ تھا۔وہ خودبھی بڑے خوش مزاج اوربذلہ سنج انسان تھے۔
’’سبحان چچا ۔۔۔چائے ۔۔۔ !‘‘میری چھوٹی بہن تسنیم کی آوازاُبھری ، اُنھوں نے لرزتے ہوئے ہاتھوںمیں چائے کی پیالی تھامی اورپھرجس انداز سے اُس گرم گرم چائے کوحلق کے نیچے اُتارا،میں تودیکھتارہ گیا۔
تسنیم اُن کے مقابل بیٹھی ہوئی تھی اورنہایت احترام کے ساتھ اُن سے باتیں کرہیں تھی،’’سبحان چچا۔۔۔ اس بار بہت دنوںکے بعدآئے ۔۔۔؟‘‘
چچانے جواب دینے سے پہلے میری طرف دیکھا اورجب اُنھیں پورا اطمینان ہوگیاکہ میں واقعی سورہاہوں تو پھروہ تسنیم کی طرف متوجہ ہوئے۔غالباًاس بار بھی وہ سمجھنے کی کوشش کررہے تھے کہ اُس کاخلوص کہیں طنزکاوارتونہیں ۔۔۔ ؟ لیکن تسنیم کاچہرہ اُس کے بھرپورخلوص کی قسم کھارہاتھا۔بس پھرچچاکی نظریں جھک گئیں اوراُن کی آنکھوںسے ٹپ ٹپ آنسوں گرنے لگے،میں سمجھ گیا،اب شکاری جال پھینکنے ہی والاہے۔پھراُن کے لب آہستہ سے کھُلے،’’بیٹی۔۔۔ ! کیا بتاؤں۔۔۔کل رات کوتمہاری چاچی کاانتقال ہوگیاہے ۔۔۔!‘‘
تسنیم کی دُکھ بھری کراہ میرے کانوںمیں پہنچی اورمیں نے دیکھاجال میں مچھلی پوری طرح پھنس چکی تھی،وہ اُنھیں دلاسے دینے لگی اورمجھے اُس پربے حدغصہ آنے لگاکہ آخراُس کے حافظے کوکیاہوگیاہے -؟یہ سانحہ توسبحان چچا آٹھ مہینوں میں مجھے دوباراورخودتسنیم کوایک بارسناچکے تھے۔چاچی بیچاری زندہ ہے لیکن خداجانے ابھی اُنھیں اورکتنی مرتبہ اورکس کس کے گھرمیں مرناہے۔اُن کی اِسی دھوکادہی کے باعث میری بیوی اُنھیں کئی مرتبہ شرمندہ کرچکی ہے۔ کئی بارانھیں بھلابُراسناچکی ہے،لیکن اُن کے مزاج میںکوئی فرق نہیںآیا،فرق آیاتوبس اتناکہ وہ اُس وقت ہمارے گھرمیں داخل ہوتے ہیں جب وہ اپنی ڈیوٹی پرجاچکی ہوتی ہے۔
آج پھراُنھیں یہ موقع مل گیاتھا۔
تسنیم نے میری طرف دیکھا،حالانکہ وہ خوب جانتی ہے کہ میں صرف سبحان چچاسے بچنے کی خاطر سونے کابہانہ کررہاہوں،اُس نے پھردردمندانہ لہجے میں سوال کیا،’’چچا۔۔۔کہاں پرانتقال ہواہے اُن کا ۔۔۔ ؟اپنے گھر میں یا پھرمائیکے میں۔۔۔؟‘‘
سبحان چچا اس غیرمتوقع ہمدردی بھرے سوال پربڑی زورسے چونکے،اُن کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ خوف اوراپنے کہے ہوئے جھوٹ کے یقین کے بیچ کہیں لٹکے ہوئے ہیں۔میرادل بے اختیارچاہاکہ میں فوراً اُٹھ بیٹھوںاوراُن سے پوچھوںکہ آخراس عمرمیں وہ اپنے گناہوںمیںکیوںاضافہ کررہے ہیں۔اُن کی باتوںپراب کسی کویقین نہیں آنے والا،سب اُن کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں ۔غصے کے باعث میں نے کروٹ بدلی اوراُن کی لرزتی ہوئی آوازمیرے کانوںسے ٹکرائی،’’وہ تواپنے مائیکے ہی میں تھیں،لیکن شایدمیں اُن کا آخری دیداربھی نہ کرسکوںگا!‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگے۔
میں نے تیزی سے پھرکروٹ بدلی،اوردل ہی دل میں بدبدایا،مکاری کی بھی ایک حدہوتی ہے۔لیکن جب تلک تسنیم اُنھیں سوروپیہ کانوٹ تھماچکی تھی۔
سوروپیوںکانوٹ ہاتھ میں آتے ہی سبحان چچااس تیزی سے اُٹھے کہ گِرتے گِرتے بچے اورپھردوسرے ہی لمحے وہ میرے گھرسے جاچکے تھے۔
اُن کے جاتے ہی میں اُٹھ بیٹھا،وہ میرے دورکے رشتے سے چچاہوتے ہیں لیکن گذشتہ برسوںسے انھوں نے اپنا یہی معمول بنالیاہے۔وقفے وقفے سے رشتہ داروںکے گھرجانااوراس طرح جھوٹ موٹ نہانے بناکرپیسے وصول کرنا اورپھرکچھ دنوں کے لئے غائب ہوجانا۔رفتہ رفتہ اُن کی اِن حرکتوںسے سبھی واقف ہوچکے ہیں، اب اُن پرکوئی اعتماد نہیںکرتا،بس پانچ دس روپیے انھیں تھماکرچھٹکارہ حاصل کرلیتے ہیں اوروہ بھی اس ڈرسے کہ کہیں محلے والوںکویہ پتہ نہ چل جائے کہ وہ ہمارے رشتہ دارہیں ۔آخرخاندان کااپنابھی توکچھ وقارہوتاہے۔
میں تیارہوکرآفیس کونکلنے ہی والاتھاکہ میرے کانوںسے میرے بڑے بیٹے کی آوازٹکرائی،’’بابا ۔۔۔میری بائیک کابریک خراب ہوگیاہے،بریک لائنر بدلنا ہے – مجھے دوسوروپیہ چاہئیے -!‘‘
میں نے گھورکراُس کی طرف دیکھا،’’بیٹے! ابھی پچھلے مہینے ہی میںتوتم نے بریک لائینرڈلوائے تھے۔۔۔کیاوہ -!‘‘
اُس نے میری بات کاٹی،’’بابامشکل تویہ ہے کہ آپ کویادبھی نہیں رہتا، پچھلے مہینے گاڑی کاآئیل بدلوانے کی خاطرآپ نے پیسے دیئے تھے!‘‘پھروہ پلٹ کرکھڑاہوگیا اورکھڑکی سے باہرجھانکتاہوابولا،’’بعدمیں اگرکسی سے ٹکّرہوگئی تو یہ مت کہناکہ میں بہت رف گاڑی چلاتاہوں ۔!‘‘
میں گھبراگیا،اورفوراًدوسوروپئے اُس کے حوالے کردئیے ۔پیسے ملتے ہی اُس کی موٹرسائیکل کسی بندوق کی گولی کی طرح سنناتی ہوئی نکل گئی اورمیں گاڑی کے کمزوربریک کاتصوّر کرکے لرزاُٹھا،میرے اللہ مجھ پررحم کر ۔۔۔!
جب سے مجھے شوگرکی بیماری ہوئی ہے میں پیدل ہی چلنے لگاہوں،اس سے مجھے طبّی فوائدکے ساتھ ساتھ ایک بڑافائدہ یہ بھی ہواکہ اب شہرکی خبروںکی خاطرمجھے اخبارات کے آخری صفحات اُلٹنے کی ضرورت نہیں پڑتی، جگہ جگہ آویزاں بلیک بورڈ بتادیتے ہیں کہ شہرمیں کس کی موت ہوئی ،کون سا لیڈرآنے والا ہے ،کس جگہ پرجلسہ منعقدکیاجارہاہے اوراُلٹی سیدھی خبریں آتے جاتے ملنے والے سنادیتے ہیں۔
میں اپنے آ فیس کی طرف آہستہ آہستہ قدم اُٹھارہاتھاکہ اچانک میرے سامنے سے ایک دس بارہ برس کا لڑکاپیٹھ پراسکول کابستہ لادے تیزی سے بھاگتا ہوا نکلا،میں نے دیکھاکہ وہ اسکول کے بجائے سیدھاسنیماتھیٹرکے کمپاونڈمیں داخل ہوگیا۔میرے قدم جگہ ہی پرساکت ہوگئے اورمیں اُس کی حرکتوںکاجائزہ لینے لگا۔وہ کبھی ٹکٹ گھرکی بھیڑکوبے بسی سے دیکھتااورکبھی بھاگتاہوامینیجرکی کیبن میں جھانکتا، وہاں سے مایوس ہوکروہ پھرٹکٹ گھرکے پاس آجاتا،میرے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔میں نے آگے اورمیرے ماضی نے پیچھے کی جانب قدم اُٹھایا،اب جو پلٹ کردیکھاتواُس لڑکے کی جگہ میں خودکھڑا تھا۔ ڈھیلاڈھالا پاجامہ، لمباکرتا، کرتے پرجاکٹ اورسرپراصلی رام پوری ٹوپی،کتابوںکابستہ بغل میں دبائے سبحان چچا کو تلاش کررہاہوںوہ اسی تھیٹرمیں مشین آپریٹرتھے۔میں اُچک اُچک کرمینیجرکے کمرے میں جھانک رہاہوںکہ اچانک انھوں نے پیچھے سے میرا کان کھینچا، ’’کیوں بابو ۔۔۔؟ اسکول نہیں گئے ؟‘‘
’’آج ہمارے ماسٹرصاحب کا انتقال ہوگیاہے،اس لئے اسکول کوچھٹی ہوگئی ہے۔‘‘ میں نہایت روانی سے جھوٹ بولتاہوں،اُن کے چہرے پرمسکراہٹ پھیل جاتی ہے،’’بھئی کونسے ماسٹرصاحب؟ پچھلے ہفتے شایداُن ہی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھانا ۔؟‘‘
میں بری طرح جھینپ جاتاہوں،لیکن پھربھی میری گردن اقرارمیں ہل جاتی ہے اوروہ وہیں سے گیٹ کیپرکو آوازدیتے ہیں اورمیں دوڑتاہواسینماہال میں داخل ہوجاتاہوں۔
اُن دنوں ایک میں کیا،خاندان کے کتنے ہی لڑکے سبحان چچاکی ملازمت کی برکت سے مفت میں فلمیں دیکھتے تھے۔بلکہ انٹرول میں اکثرچائے اورکبھی آئس کریم کالطف بھی اُٹھاتے۔
’’کیاسوچ سوچ کرقدم اُٹھارہے ہوبھائی ۔ ؟‘‘ایکناتھ سوامی کی آواز پر میں ایساچونکاگویاتھیٹرسے نکلتے ہوئے میرے والدنے مجھے دھرلیاہو،اُس نے مصافے کے لئے ہاتھ بڑھایا،’’کب سے تمہاراانتظارکررہاتھامیں!‘‘
’’سوامی !‘‘میں نے جواباًکہناشروع کیا،’’میراریٹائرمنٹ بہت قریب آگیاہے،اس کے بعدتمہیں انتظار کی زحمت بھی نہیں ہوگی ۔ ‘‘
وہ بولا،’’تم بڑے لکّی ہو غفورصاحب-یہاں توابھی کئی برس باقی ہیں !‘‘
میں نے حسرت سے اُس کی طرف دیکھاکہ واقعی لکّی کون ہے؟لیکن میری زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔
’’غفورصاحب۔۔۔ میری سسرال سے کچھ مہمان آگئے ہیں۔اجنٹہ ،ایلورہ انھیں دیکھناہے،اب صحیح وجہہ بتاؤں کاتو بڑے صاحب چھٹی منظورنہیں کریں گے۔ اس لئے میں نے بیماری کابہانہ بنایاہے۔میڈیکل سرٹیفکٹ بھی بیس روپیوںمیں مل گیاہے، بس تم میری یہ درخواست بڑے صاحب تک پہنچادو ، اورزبانی یہ بھی کہہ دیناکہ تم نے خوددیکھا ہے ،میں واقعی بیمارہوں ۔۔۔ !‘‘ اورپھروہ آنکھ دباکرہنسنے لگا۔
’’کہہ دوںگا سوامی ۔۔۔ !جاؤ تم چھٹی کالطف اٹھاؤ!‘‘
سوامی کی درخواست بڑے صاحب کے حوالے کرکے جب میں اپنے ٹیبل پرآیاتومیں نے دیکھاحسب حال تمام فائلیں جہاں کی وہاںتھمی ہوئی تھیں۔دفتری بابولوگ خوش گپیّوں میں مصروف تھے اورغرض مندانتطارکی گھڑیاں کاٹ رہے تھے۔ ان ہی لوگوںمیں مجھے وہ منحوس بوڑھابھی نظرآیاجوآئے دن مجھے تنگ کرتاہے ۔میں نے پہلی فائل ہی کھولی تھی کہ تیزخوشبوکاایک جھونکامیری ناک سے ہوتاہوادماغ تک پہنچا۔میں نے گردن اُٹھائی اورجونہی خوشبوکی سمت دیکھا،میڈم سجاتانظرآئیں،اُن کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں اورپیشانی پردواخانے کی ایک چھوٹی سی پٹی چپکی ہوئی تھی۔ وہ سریش چندرکی کیبن کی طرف بڑھ رہی تھیں۔آ فیس میں موجودسارے ہی لوگ اُسے عجیب نظروںسے دیکھ رہے تھے اوراُس کے آگے بڑھتے ہی ایک دوسرے کوواہیات اشارے کررہے تھے۔وہ انشورنس کمپنی میں کام کرتی ہیں، لیکن جب بھی اُس کااوراُس کے شوہرکاجھگڑاہوتاہے وہ اپنی کمپنی میں جانے سے پہلے ہمارے آفیس میں آجاتی ہیں۔جہاں اُس کے زخموںپرسریش مرحم رکھتاہے اوراپنی دلچسپ لفاظی سے اُس کاغم ہلکاکردیتاہے اوروہ پھول کی طرح کھل اُٹھتی ہے ۔سبھی جانتے ہیںکہ دونوںمیں چکّرچل رہاہے،کیونکہ سریش کی بیوی ان پڑھ جاہل ہے اورمیڈم سجاتا کا شوہرقطعی غیر رومانی ،دونوںایک دوسرے کاغم غلط کرتے ہیں۔
میں پھرایک بارفائل پرجھکاہی تھاکہ مقابل کے ٹیبل سے رشیدصاحب کی آواز اُبھری،’’معاف کرناغفور صاحب!آپ کی عدم موجودگی میں پوسٹ مین یہ لفافہ لے کرآیاتھا،میں آپ کودینابھول گیاتھا -!‘‘
میں نے لفافہ لیااوراُلٹ پلٹ کردیکھنے لگا،رشیدصاحب کہہ رہے تھے، ’’اِسے آئے ہوئے آٹھ دن ہوگئے، فائلوںمیں کہیں دب گیاتھا،آپ کوئی خیال نہ کریں!‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیااورلفافے کوچاک کیا،لندن سے میرے داماد نے بھیجاتھا۔بہت ساری گھریلو باتوںکے ساتھ ساتھ اُس نے یہ بھی لکھاتھاکہ آج کل یہاںایشیائی ممالک کے باشندوںکے لئے بے حدپرابلم پیدا ہوگئے ہیں، میں نے ابرارکویہاں ملازمت دلوانے کاوعدہ کیاتھا،لیکن شایداب میں اُسے پورانہیں کرسکوںگا۔آپ کوئی غلط بات اپنے ذہن میں نہ لائیے – میں نے اُس کی دستخط کے نیچے کی تاریخ دیکھی،بارہ دن پہلے کی تھی، یعنی لندن سے میرے شہرتک یہ خط صرف چاردن میں پہنچ گیاتھالیکن میرے مقابل کے ٹیبل سے مجھ تک پہنچنے میں اُسے پوراایک ہفتہ لگ گیا ۔
میں نے لفافہ بندکیااورپھرایک بارفائل کی ورق گردانی شروع کی۔
’’صاحب۔۔آپ ہی کے ٹیبل پرمیری فائل دومہینے سے رُکی ہوئی ہے۔‘‘
’’کیامطلب -؟‘‘میرالہجہ ایک دم بدل گیا،’’بناجانچے ہی اسے آگے بڑھادوں -؟‘‘
’’دومہینوںسے توآپ جانچ رہے ہیں۔۔۔ابھی اورکتناجانچیں گے؟‘‘وہ بھی ترکی بہ ترکی بولا۔
’’آہستہ بات کرو -!‘‘
’’کیاآہستہ بات کرو۔۔۔صاحب اگرآج میری فائل بڑے صاحب تک نہیں پہنچی تومیں ہنگامہ کردوںگا-! کیاسمجھتے ہیںآپ مجھے -؟میری پہچان بہت اوپرتک ہے -!‘‘
’’ارے ارے چچا – ناراض کیوںہوتے ہو!‘‘رشیدصاحب معاملے کواُلجھتادیکھ کرمیری حمایت کرنے لگے، ’’وہ آپ ہی کاکام کررہے ہیں – ذراصبر سے کام لیجئے!‘‘
میں نے بوڑھے کی طرف دیکھا۔
’’اورکتناصبرکروں ۔۔۔ ؟‘‘
’’دیکھئے جناب ۔۔۔! یہ دفتری کام ہے اس میں وقت تولگتاہے!‘‘ میرا لہجہ ایک دم نارمل ہوچکاتھا،بوڑھے نے میرابھرپورجائزہ لیا،’’توپھرآپ صاف صاف بتائیے ،میں کب آؤں -؟‘‘
’’آٹھ دن کے بعد -!‘‘میں نے مختصرساجواب دیااورپھراپنے کام میں مصروف ہوگیا،اُس نے اِدھراُدھر دیکھا اورپھرطوعاًکرہاً میرے سامنے سے چلاگیا۔
دن تمام دفترمیں اپنے معمولات کے مطابق کام چلتارہا۔
شام کوجب میں واپس اپنے گھرہونے لگا،تو برسات شروع ہوگئی۔ سڑکوں پرچھتریاںکھل گئیں۔سواریاںتیز رفتاردوڑنے لگیں۔پیادے اِدھراُدھرآسرا ڈھونڈھنے لگے۔میں بھی دکان کے شیڈ میں کھڑاہوگیااوربارش کے تھمنے کا انتظار کرنے لگا۔ٹھیک اُسی وقت سبحان چچاکھانے پینے کے سامان سے لدے دکان سے باہرنکلے اوررکشہ میں سوار ہوگئے۔اُنھیں دیکھتے ہی میرادماغ خراب ہوگیا،آج کاپورادن غارت کردیااس بڈھے نے۔صبح ہی اپنی منحوس صورت دکھائی تھی اوراب واپس گھرجارہاہوںتب بھی۔۔۔
رِم جِھم پھواراب بھی جاری تھی،میں بھیگتابھاگتاجونہی گھرمیں داخل ہوا، سبحان چچاہی موضوع بحث بنے ہوئے تھے اورمیری بیوی تسنیم سے کہہ رہی تھی۔
’’باجی کیاضرورت تھی آپ کواُنھیں سوروپیہ دینے کی -؟سبحان چچاجیسے لوگوںنے اِسے پیشہ بنالیاہے ۔ کہیں مسجد اورمندرکے نام پرچندے کی آڑمیں دھوکا، کہیں زبان کی بقاکے بہانے دھوکا،کہیں یتیم خانوںکی مدد کے عنوان فریب۔۔۔ آپ خودسوچئیے سبحان چچاکواس عمرمیں جھوٹ بولنے کی کیاضرورت؟
’’اس کے قصورواربھی ہم ہی لوگ ہیں-!‘‘تسنیم کالہجہ ایک دم سپاٹ تھا۔۔۔’’ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ سبحان چچاکو کوئی اولادنہیں ہے اوروہ اب کہیں ملازمت کے قابل بھی نہیں رہے۔اگرہم سب خاندان والے اُن کے جھوٹ کہنے سے پہلے ہی اُن کی ضروریات کی تکمیل کردیں تووہ کیوں جھوٹ بولیں گے۔۔۔؟ دھوکا دیں گے؟لیکن ہماری مجبوری یہ ھیکہ ہم صرف برائیوں پرگرفت کرتے ہیں۔ برائیوں کے سدباب کاکوئی انتظام نہیں کرتے ۔۔۔!‘‘
میراغصہ ایک دم کافورہوگیا۔میں اپنی جگہ سے اُٹھااورکھڑکی سے باہردیکھنے لگا،برسات تھم چکی تھی اورسڑک پردوڑنے والی گاڑیاںصحیح سمت میں سفرکررہی تھیں۔
مجھے ایک عجیب سااطمینان محسوس ہواجیسے ہماری یہ دنیاجھوٹ مکروفریب سے پاک وصاف ہوچکی ہے۔
٭٭٭