صبح صبح حویلی میں ہر کوئی اپنے کام میں مصروف تھا۔آیت ناشتے کے بعد کمرے میں آئی ۔شیشے کے سامنے کھڑا ولید یونیورسٹی جانے کو تیار ہو رہا تھا۔ولید نے آئینے سے دیکھا کہ آیت اس کے کپڑے سمیت رہی ہے پھر یہ الماری کی طرف گئی ہے اور اس کی چیزیں رکھ رہی ہے۔ آیت اس ایسے ہی پسند تھی اپنے کام کرتے ہوئے پھر بہت جلد اس کے گھر بچے بھی آجاتے جن کے آگے پیچھے گھومتے ہوئے آیت کو شاید یاد بھی نہ رہتا کہ اس نے کیسا کیسا وقت گزرا ہے۔ولید نے آیت کو آواز دی کہ یہ اس کے پاس آئے۔
“آیت تم میری طرف دیکھتی بھی نہیں کیا تمہیں میری شکل سے نفرت ہے۔”
ایسا نہیں ہے خان ۔”
“لگتا تو ایسا ہی ہے۔تم مجھے بار بار اس چیز کا احساس دلاتی ہو کہ میں تمہارے اوپر مسلط کیا گیا ہوں۔بولو نہ آیت مجھے تمہارے منہ سے سننا ہے کہ تم میرے ساتھ خوش ہو۔”
“خان میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی پھر جیسا رویہ آپ نے شادی کی رات سے لے کر اب تک میرے ساتھ رکھا ہے مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی لڑکی ایسے حالات میں اپنے شوہر سے محبت کرسکتی ہے۔”
“آیت آیت تم کیوں چاہتی ہو میں تم پر سختی کروں۔تم مجھے اچھی لگتی ہو مگر مجھے عورتوں کا اپنے سامنے بولنا پسند نہیں ۔”
“خان آپ نے جو کہا ہے میں نے مانا ہے ۔کیا آپ کی طرف سے بھی اس رشتے کو نبھانا نہیں چاہیے ۔میری ہی ذمہ داری کیوں ہے کہ میں آپ کی ہر بات مانوں۔آپ بھی تو میرے کچھ لگتے ہیں اور آپ کا بھی فرض ہے بیوی کی بات کو مننا۔”
“میں نے تمہاری ہر ضرورت پوری کی ہے تمہارا ہر حق پورا کیا ہے۔”
“حقوق کی بات آپ مت کریں خان۔مردوں کو عورت سے اپنا حق تو لینا آتا ہے مگر جب بات فرائض کی آئے تو وہ شاید انہیں بھول ہی جاتے ہیں ۔آپ کو پتا ہے میرے نزدیک آپ کی اہمیت شاہد اتنی بھی نہیں کہ میں اپنی دل کی باتیں آپ کو پتا دوں کیونکہ آپ نے مجھے شاید اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ میں آپ سے اپنے دل کی کوئی بات کروں۔شوہر تو ایسا رشتہ ہے کہ جو ماں باپ کے بعد آپ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔شادی کی شروعات میں عورت کو جب سب کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کا شوہر اس کا ہاتھ تھام کر اس کی ہر پریشانی دور کرتا ہے۔آپ نے کیا کیا ہے میرے ساتھ خان۔”
“آیت۔۔۔۔۔۔”
ولید نے آیت کو کمر سے تھاما اور اپنے نزدیک کیا۔
“تمہیں پیار چاہیے نہ مجھ سے ،عزت چایئے نہ میں سب دوں گا میں۔ تم صرف میری ہی بن کر رہا گی صرف میری۔”
خان آپ مجھے پاگل لگتے ہیں ۔ایسے مرد کے ساتھ گزارہ بہت مشکل ہوتا ہے جو آپ کا رشتہ ساری دنیا سے توڑ دے۔آپ جانتے ہیں کبھی کبھی مجھے لگتا ہے دادی صاحب آپ کے ساتھ بہت زیادتی کر گئی وہ اپنا سارا زہر آپ میں بھر گئی۔انہوں نے آپ کو یہی سکھایا کہ مرد حاکم ہے حالانکہ آپ جیسے مرد تو عزت کے قابل ہی نہیں ہوتے۔”
ایک زور کا طمانچہ آیت کے منہ پر پڑا تھا۔
“تم مجھے گھٹیا کہو گی اب ولید خان کو گھٹیا کہو گی تم۔میری بیوی ہو کر تم میری تربیت پر سوال اٹھائو گی۔”
آیت نے اپنی آنکھیں صاف کی اور ہنس کر ولید کی آنکھوں میں جھانکا۔
“میں غلط نہیں ہوں غلط آپ ہیں ۔اگر آپ اس رشتے کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو آج یہ تھپڑ میرے منہ پر نہ لگتا۔آپ میری کہی بات کو اپنی انا پر چوٹ تصور نہ کرتے۔جو محبوب ہوتا ہے نہ وہ تو اپنے محبوب کی خاطر سب قربان کر دیتا ہے اور آپ ایک بات برداشت نہیں کر سکے۔”
ولید نے آیت کی بازو مڑور کے پیچھے کی۔ولید مرد تھا مضبوط چاہے چھوٹا تھا مگر آیت عورت تھی نازک تھی وہ کہاں اس کا مقابلہ کر سکتی تھی۔آیت کی چیخیں نکل گئی تھی۔
“چھوڑیں مجھے درد ہورہا ہے۔”
“آئیندہ تم اگر میرے سامنے بولی نہ تو تمہاری یہ زبان بولنے کے قابل نہیں رہے گی۔یہ بات اپنے دماغ میں ڈال لو یہاں اس حویلی سے لے جائوں گا تمہیں ہمیشہ کے لیئے اور ایک گھر میں رکھوں گا پھر ترس جانا تم اپنوں کی صورت دیکھنے کو۔رہنا تمہیں میرے ساتھ ہی ہے ساری عمر چاہے تم چاہو نہ چاہو”
ولید نے آیت کا بازو چھوڑا ۔
“جنگلی وحشی ۔۔۔۔”
“اپنی زبان کو سنبھال کر استعمال کرو خان بیگم ورنہ پھر میں نے جنگلی بن جانا ہے جو تمہیں اچھا نہیں گا۔جا رہا ہوں میں اور واپس آئوں تو مجھے تیار ملو یہ روتی دھوتی عورتیں مجھے زہر لگتی ہیں ۔”
ولید آیت کا آنسو اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہوا بولا۔ولید کے جانے کے بعد آیت باہر آئی۔پھوپھو آئی ہوئی تھی اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ۔یہ وہی شامیر تھا جس کے ساتھ آیت کا رشتہ ہونا تھا اور ساتھ میں وہی اقرا اس کی بہن آئی تھی جو شاہ بخت کے لیئے پسند کی تھی سب نے۔آیت اپنے آنسو چھپاتے ہوئے سب سے ملی۔پھوپھو کو آیت کے چہرے پر انگلیوں کے نشان نظر آگئے۔شامیر کی نظر بھی آیت کے چہرے پر تھی جہاں خشک آنسو اپنے نشان چھوڑ گئے تھے۔آیت کی ساس سمجھ گئی تھی کہ پھر کچھ ہوا ہے۔
آیت کی والدہ بھی پھوپھو کے بہانے ان سب کے ساتھ ہی آگئی کہ بیٹی سے ملاقات ہوجائے گی مگر بیٹی کا چہرہ دیکھ کر ان کا دل دکھ گیا۔آیت کچن میں گئی تو آیت کی ساس نے انہیں کہا کہ آیت سے مل لیں کچن میں ۔
“آیت میری بچی۔۔۔۔۔”آیت کی والدہ آیت کو پکارتے ہوئے اسے سینے سے لگا گئی۔آیت کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا اور اس نے اپنے ہاتھ بھی ماں کے اردگرد نہیں پھیلائے ۔
“میری بچی تجھے ولید نے مارا پے۔”
“کیوں آئی ہیں آپ یہاں تاکہ آج کی رات میں پھر اس سے سردی میں باہر گزاروں یا مجھے میرا شوہر اس سے بھی زیادہ بڑی سزا دے۔کیا یہ سزا کم نہیں تھی کہ آپ لوگوں نے میری شادی کر دی اب آپ لوگ کیوں آتے ہیں بار بار میرے پاس ۔یہ دیکھنے کے لیئے کہ جو سانسیں میں لے رہی ہوں وہ کیسے چھین سکیں ۔”
“نہیں میرا بچہ ایسا نہیں ہے۔نہ کر ایسی باتیں ۔”
“بس کر دیں امی آپ کو میرا خیال شروع سے نہیں تھا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔آپ نے ہمیشہ مجھ پر لالہ کو ترجیح دی۔یاد ہے کیا کہتی تھی آپ بہنیں بھائی سے حصے بھی نہیں لیتی بعد میں وہی بھائی ان بہنوں کو گھروں سے بے دخل کر دیتے ہیں ۔ان کا میکہ ختم کر دیتے ہیں ۔ بے وقوف ہوتی ہیں بھائیوں کے نام پر چھپ چھپ کر روتی ہیں میرے والوں سے ملنے کو اپنے بچوں کو نظر آزاد کرتی ہیں ۔ارے ایسے بھائیوں کو تو سخت سزا دینے چایئے مجھے دیکھیں آپ کے بیٹے کی محبت کے پیچھے دن رات ایک پاگل انسان کو سہتی ہوں۔شادی کی پہلی رات سے لے کر اب تک اس نے مجھے صرف اس بات کی سزا دی ہے کہ میرے بھائی کا خون ہے میری رگوں میں ۔میں اس کی بہن ہوں میری تکلیف سے وہ ٹرپے گا مگر میرا بھائی تو میری خیریت پوچھنے کے بجائے شہر میں بیوی سمیت بیٹھا ہے۔پوچھوں کی میں اس سے جب اس کی اولاد کے ساتھ یہ سب ہوا ہوگا۔”
“ہائے نہ کہہ بھائی کو ایسے۔بہنیں بھائیوں کے لیئے بہت کچھ کرتی ہیں ۔اپنی اولاد دوبارہ مل جاتی ہے ویر نہیں ملتے ۔”
“بس کر دیں امی۔یہ آپ کی زبان ہے کہ اولاد کو بھی قربان کر دو بھائیوں کے پیچھے۔مجھے نہیں چاہیے شاہ بخت جیسا بھائی میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر۔میں نے جتنی اذیت سہی ہے نہ اس کی وجہ سے میرے لیئے تو اس کا احترام بھی ختم ہوگیا ہے اس دل میں۔کہنا بڑا آسان ہے کہ بہنیں بھائیوں پر قربان ہوجاتی ہیں جب ایک تھپڑ پڑتا ہے نہ اس گال پر تو جو ذلت کا احساس ہوتا ہے وہ شاید کوئی سمجھ نہ سکے۔جائیں آپ یہاں سے مجھے جینے دیں۔نہیں چاہئے مجھے یہ نام نہاد ہمدردی۔دراصل آپ لوگ اس ہمدردی کو اس حویلی کی عورتوں کو دینے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں نہ کہ اس کے بغیر اب کسی کا گزارہ ہی نہیں ہوتا۔مجھے معاف کردیں ۔”
آیت ماں کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔اس کی ماں کیا کرسکتی تھی بقول ان کے ان کے پڑھاپے کا سہارہ تو بیٹا تھا اس کے خلاف چلی جاتی تو پڑھاپے میں کیا کرتی۔کچھ بھائی ہوتے ہیں جو سچ میں جان قربان کر دیتے ہیں بہنوں کی خاطر۔مگر شاہ بخت خود غرض تھا جس نے کچھ لمحات کے لیئے تو خوشی حاصل کر لی تھی مگر کسی کا دل دکھا کر اپنا مستقبل تاریک کر لیا تھا۔
_______________________
پھوپھو کا کھانا آیت لوگوں کی طرف ہی تھا۔آیت سارا دن ہی کچن میں رہی .
۔آیت جانتی تھی اس نے اگر پھوپھو کے بیٹے سے کچھ بات کر لی اور ولید نے دیکھ لیا تو نیا مسئلہ شروع ہوجائے گا اس کی ذات کے لیئے۔آیت کو بہت غصہ آتا تھا جب ولید اس کے ساتھ سب غلط کرتا تھا مگر یہ کیا کر سکتی تھی۔اس کا ہاتھ روک کر دیکھا تھا اس نے مگر اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ولید نے اسے اور زیادہ ٹارچر کیا تھا۔ویسے بھی آیت کے پاس کیا راستہ تھا۔یہ اپنے گھر نہیں جاسکتی تھی ایک عام لڑکی کی طرح کیونکہ یہ خان بیگم تھی اور اگر یہ چلی بھی جاتی تو کیا ہوجاتا اس کے اپنے اسے اسی وقت ہاتھ پکڑ کر واپس چھوڑ جاتے۔ان کے نزدیک اب بیٹی سے ان کا کوئی تعلق کوئی بھی نہیں تھا۔بابا جانی کو اس بات کی خوشی تھی کہ آیت کی جائیداد تو گھر میں ہی رہے گی ویسے بھی وہ اس حق میں بلکل بھی نہیں تھے کہ بیٹی جائیداد لے جائے ۔بیٹا ہر حق رکھتا تھا ان کے مطابق اور یہی معاشرے کے نجانے کتنے لوگوں کی سوچ تھی۔اگر بیٹی ماں سے بھی اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ مانگے تو اسے جو سننے کو ملتا پے وہ بہت درد ناک ہوتا ہے۔بد دعائیں دی جاتی ہیں اسے نافرمان کہہ دیا جاتا ہے ۔کس لیئے صرف اپنا حق مانگنے پر جو اس کا اپنا حق ہے کسی اور کا نہیں ۔کیوں نہیں سوچتے ماں باپ بیٹی کہ شادی کرنے سے پہلے کہ ان میں اور ان کے بچوں میں کتنا جنریشن گیپ ہے جو لڑکا انہیں اپنی بیٹی کے لیئے ٹھیک لگ رہا ہے وہ ان کی بیٹی کے لیئے شاید اچھا نہ ہو۔ایک بار وہ سوچیں کہ ان کی زندگی کا علم نہیں مگر ان کی بیٹی نے اب اسی گھر میں رہنا ہے ایک عمر گزارنی ہے مگر لڑکی کو سمجھدار نہیں سمجھتا جاتا کہ وہ اپنے لیئے فیصلے بہتر نہیں لے سکتی۔پھر جب وہ شادی کرتی ہے تو اسے سمجھدار کیوں کہتے ہیں کہ یہ ماں باپ کی عزت کو خراب نہیں کرے گی اور سب کچھ سہہ لے گی۔کیا وہ پہلے پاگل تھی ۔جو بچی تھی شادی کے بعد ایک دم وہ کیسے بڑی ہوگئی۔آیت یہی سب سوچ رہی تھی جب پھوپھو اس کے پاس آئی۔
“ارے میری بیٹی جب سے آئی ہوں کچن میں ہے۔لیا بھابھی تجھ سے بہت کام کرواتی ہیں ۔
“”ارے نہیں پھوپھو انہوں نے مجھے کبھی کچھ نہیں کہا بس میرا اپنا دل نہیں لگتا کسی چیز میں تو کھانا بنا لیتی ہوں ۔”
“میرا بچہ اداس ہے۔”
“پلیز پھوپھو مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں ۔”
“بیٹا تو اپنی پھوپھو کو ایسا سمجھتی ہے جو تیرے زخموں پر نمک چھڑکیں گی۔میں بھی اسی گھر سے گئی ہوں میں جانتی ہوں اس گھر کی سب باتیں ۔تجھے مجھے بتانے کی بلکل ضرورت نہیں ہے۔میں تجھ سے یہی کہوں گی بس کچھ وقت گزار لے پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔”
“بس کر دیں پآپ سب لوگ ہر کوئی مجھے کہتا ہے کہ میں صبر کر جائوں۔کر تو رہی ہوں صبر۔آپ لوگ ولید کو کیوں نہیں سمجھاتے کہ وہ اپنی عادات کو بدلے۔کیا میں انسان نہیں ہوں ہر بار میں اپنی عزت نفس کو قربان کروں ۔مت آیا کریں میرے زخموں کو دیکھنے کے لیئے آپ سب لوگ ۔” آیت غصے سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔آج اس کا موٹ پہلے ہی خراب تھا اب اور خراب ہوگیا تھا۔یہ بہت زیادہ روئی تھی اپنے کمرے میں ۔کھانے کے وقت رات کو اس کی آنکھ کھلی یہ سوئی تھی دوپہر میں ۔ولید اس کے ساتھ ہی بیٹھ کر کتاب پڑھ رہا تھا۔
“اٹھ گئی تم۔جلدی سے تیار ہو جائو سب انتظار کر رہے ہیں کھانے پر۔”
ولید نے آیت کا کندھا تھامنا چاہا جسے آیت نے غصے سے جھٹک دیا۔
“ہاتھ مت لگائیں مجھے۔”
آیت بیڈ سے اٹھ گئی۔تھوڑی دیر میں یہ تیار ہوئی۔ولید کے ساتھ یہ نیچے آئی جہاں سب بیٹھے ہنسی خوشی باتیں کر رہے تھے۔یہ شامیر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔سب باتیں کر رہے تھے جب شامیر نے اسے مخاطب کیا۔
“ویسے ولید تم نے آیت کو اجازت نہ دے کر ہائوس جاب کرنے کی اچھا نہیں کیا۔اگر میرے ساتھ آیت کی شادی ہوجاتی تو یہ آج ڈاکٹر بن چکی ہوتی مکمل دور پر۔تم شاید اس شادی کے لیئے راضی نہیں تھی ۔”
شامیر نے بھی اپنے اندر کا غصہ نکالا جو اس کی شادی نہیں ہوئی تھی آیت سے۔اس کی بھی بہن کا رشتہ ٹوٹا تھا ۔
“تمہیں ہمارے پرسنل معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں۔آیت تم کمرے میں جائو۔”
“ویسے ولید بڑی ہے تم۔سے آپ کہہ کر بلایا کرو۔”
پھوپھی کی بیٹی نے بھی آگ لگانا ضروری سمجھا۔ولید نے غصے سے اسے گھورا۔
“لگتا کے تم نے کچھ ہی عرصے میں عمر کو بڑھا لیا ہے اپنی جو یوں بڈھی عورتوں جیسی باتیں کرتی ہو۔آیت میری بیوی ہے اور میں اسے چاہے جو بھی بلائوں تم جیسوں سے مشورے کی ضرورت نہیں ۔”
ولید اٹھتے ہی آیت کا ہاتھ تھامے اسے لے گیا۔آیت کو معلوم ہوگیا تھا کہ اس کی زندگی اور بھی مشکل ہونے والی ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...