آملہ بیگم کی تمسخرانہ نظروں کی پرواہ کیے بغیر وہ اسے کھینچتا ہوا کمرے تک لایا اور بیڈ پر پٹخ دیا پلٹ کر دروازہ لاک کیا اور اسے خونخوار نظروں سے گھورتے ہوے دھاڑا
“افسوس ہو رہا ہے آج ہمیں ہم نے تم سے محبت کی تم جیسی بدکردار سے “اس الزام پر وہ تڑپ کر اٹھی
“نہیں ابسام ایسا کچھ نہیں آپ سنیں تو سہی ” وہ گڑگڑاﺉ مگر راجہ پر جنون سوار تھا وہ چل کر اس تک آیا اور بالوں سے کھینچ کر کئی تھپڑ اسکے چہرے پرمارے اسکا نچلا ہونٹ پھٹ گیا جس میں سے خون رسنا شروع ہو گیا تھا اسکے تھپڑوں سے زیادہ اسکے الفاظ کی مار نے اسے ادھ موا کر دیا
“کیا سنوں ہاں بولو کتنی محبت کی تم سے …کس…. کس چیز کی کمی آنے دی کیوں کیا تم نے ایسا ؟؟؟”
جھٹکے سے اس کے بالوں کو آزاد کرتے وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیڑھ گیا
“ہماری محبت سے کھیلی تم ،،،ہمارے جزبات سے ،،،،کبھی معاف نہیں کریں گے ہم تمہیں سنا تم نے کبھی نہیں ”
اسکے نم لہجے پر رانی خاموشی سے اسکا چہرہ دیکھے گئی
* * * * * * * * *
“اموجان آپ یقین کریں اموجان میں بے وفا نہیں ہوں میرے دل میں سجی کے لیے کچھ نہیں ہے “وہ شدتوں سے رو رہی تھی اموجان نے بے بسی سے اسے دیکھا
“رانی یہ بات صرف تم جانتی ہو راجہ کو یہی لگ رہا ہے کہ ــ ـ ـ ـ “انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی
“آپ یقین کریں مجھے ماہا نے کہا تھا کہ ـ ـ ـ ” بات کرتے کرتے وہ رک گئی اس کے ذہن میں جھماکا ہوا
“تو کیا ماہا بھی ان کے ساتھ شامل تھی ”
“ماہا کہاں ہے ؟؟” اسنے جلدی سے پوچھا اسکے پوچھنے پر امو جان نے لب بھینچ لیے
“وہ سجاول کے ساتھ چلی گئی “امو جان کی آواز اتنی ہلکی تھی کہ رانی بمشکل سن سکی
“بھاگ گئی” رانی کی آنکھوں میں بے یقینی تھی “تو راجہ کو کس نے بتایا کہ میں وہاں گئی ہوں ”
“شاید آملہ بیگم نے ”
“امو جان آپ بات کریں نا راجہ سے وہ آپ کی بات مانیں گے میں بے وفا نہیں ہوں “وہ پھر سے رونے لگی امو جان نے گہری سانس بھر کر اسے دیکھا اور پھر سمجھانے کے انداز میں بولیں
“میری ایک بات یاد رکھنا رانی مرد کے ذہن میں شک کا کیڑا جب بیدار ہو جائے تو پھر وہ اندھا ہو جاتا ہے اسے نہ کسی کی صفائی نظر آتی ہے نہ کسی کی سچائی اور خاص طور پر جب عورت وہ ہو جس پر اسے بے حد اعتماد ہو جتنی محبت اور جتنا اعتماد راجہ نے تمہیں دیا آج تک شاید ہمارے خاندان میں ایسا ہوا ہو تم محبت ہو اس کی تم بات کرو پہلے بھی وقت تمہارے ہاتھ میں تھا مگر تم نے اپنی بے وقوفی سے گنوا دیا اب کچھ وقت لگے گا اسے سنبھلنے میں مگر مجھے یقین ہے وہ تمہاری بات ضرور سنے گا بس تم انتظار کرو صبر سے ”
* * * * * * * * * * * *
وہ لوگ ایک غار میں چھپے ہوئے تھے راجہ کے آدمی ہر جگہ انہیں ڈھونڈ رہے تھے رات کا نہ جانے کون سا پہر تھا جب ماہا کی آنکھ کھلی سخت پتھریلی زمین پر سونے سے اسکی کمر اکڑ چکی تھی وہ کراہتے ہوئے اٹھی چاند کی روشنی میں اپنے اردگرد دیکھا تو محسوس ہوا کہ وہ وہاں اکیلی تھی وہ تیزی سے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھی باہر نکل کر اس نے نظر گھماﺉ کچھ سوچ کر وہ ایک طرف کو چل دی کچھ فاصلے پر دونوں بھائی بیٹھے ہوئے تھے
” اس فائل کا آپ کیا کریں گے بھا ؟؟” سجی کی آواز پر اس کے قدم رک گۓ وہ لا شعوری طور پر ان کی باتیں سننے لگی
“کرنا کیا ہے وہاں شہر میں ایک وکیل میرا دوست ہے اس کے ساتھ مل کر کچھ ایسا کریں گے کہ یہ محل میرے نام ہو جائے ”
“اور یہ مصیبت اس کا کیا کرنا ہے جو اندر سو رہی ہے ” سجی نے ناگواری سے پوچھا ماہا کا دل زور سے دھڑکا
“ہا ہا ہا کرنا کیا ہے کچھ دن میں مزے لوں گا پھر کہیں آگے بیچ دوں گا ساری عمر سر پر بٹھا کر تو نہیں رکھ سکتا ”
اس کی گھٹیا پلاننگ پر ماہا کی سانسیں رکنے لگی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سجاول نے کہا ہے
“تمہیں پتا ہے میں نے کتنی تکلیف سہی ہے راجہ نے مجھے بلوا کر کہا تھا کہ میں ماہا سے شادی نہ کرنے کی کیا قیمت لوں تو میرے جواب پر اس نے مجھے قید کی سزا دے دی ”
“کیا جواب دیا تھا آپ نے “سجی کے پوچھنے پر ماہا کا دل پھر سے خوش فہمی میں مبتلا ہونے لگا
“میں نے کہا تھا کہ وہ یہ محل مجھے دے دے ” دھڑ دھڑ دھڑ اسکی محبتوں چاہتوں کی عمارت زمین بوس ہو گئی تھی منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیاں دباتے ٹوٹے دل اور بہتی آنکھوں سے وہ واپس غار کی طرف آ گئی
* * * * * * * * * *
“رانی رانی ” راجہ کی دھاڑ پر وہ جلدی سے اٹھی اسی لمحے آندھی طوفان کی مانند راجہ کمرے میں داخل ہوا اسکے تیور خطرناک تھے رانی کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا
“وہ فائل چاہیئے ہمیں جلدی دو ” اسنے حکم دیا رانی تیزی سے الماری کی طرف بڑھی مگر یہ کیا فائل غائب تھی وہ بار بار اس جگہ پر ہاتھ مارتی خالی دراز اس کا منہ چڑا رہا تھا صحیح معنوں میں اس کے پسینے چھوٹ گۓ
“کیا مسلہ ہے کہاں ہے فائل “راجہ کی غصیلی آواز پر وہ کانپتی آواز میں بولی
“مجھے نہیں پتا میں نے تو یہاں ہی رکھی تھی قسم سے ”
راجہ کی آنکھوں میں حیرانی در آئی وہ تیزی سے الماری کی جانب بڑھا اسے ایک ہاتھ سے پرے دھکیل کر خود الماری چیک کرنے لگا مگر اسے نہ ملنا تھا نہ وہ ملی راجہ کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا
“کہاں گئی وہ فائل ؟؟” راجہ کی دھاڑ پر وہ سہم کر دو قدم پیچھے ہٹ گئی
“س سچ م میں مجھے نہیں پتا “راجہ کے زوردار تھپڑ پر وہ پیچھے جا گری
” سچ سچ بتاؤ مجھے کہیں اس سجاد کو تو نہیں دے آئی ”
“نہ نہیں “اس نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا
“تم ـ ـ ـ “وہ دو قدم اسکی طرف بڑھا اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر وہ دونوں ہاتھوں میں میں چہرہ چھپا کر رونے لگی راجہ نے اسے بازو سے دبوچا اور اپنے سامنے لا کھڑا کیا
“کاش ہم نے تم سے محبت نہ کی ہوتی تو ہم تمہیں بتاتے کہ اس غداری کی کیا سزا ہے مگرنہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے دل کے ٹکڑے نہیں کر سکتے ”
اس نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا وہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی جو رخ موڑے نفی میں سر ہلاتےہوئے اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا پھر پلٹ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا
“اگر ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ سب آپ نے کیا ہے تو ہم قسم کھاتے ہیں اموجان کی ہم اپنے ہاتھوں سے آپ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے “انگلی اٹھا کر وہ چبا چبا کر کہتا اسے ساکت کر گیا
* * * * * * * * * *
یہ ساری رات اس نے رو رو کر گزاری تھی راجہ ساری رات گھر نہیں آیا تھا یہ بات اسے مزید تکلیف دے رہی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا کیا کرے جس سے اسکی غلطی کا مداوا ہو جاۓ یکدم اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا وہ تیزی سے اٹھی اور دراز سے پسٹل نکال کر دیکھنے لگی بڑی سی چادر اٹھا کر اپنے گرد لپیٹی اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی کمرے کے باہر ایک طویل راہداری سے ہوتے ہوۓ وہ نیچے آئی جہاں دائیں بائیں دو ملازمہ کھڑی تھیں
“مجھے باہر جانا ہے ایک ضروری کام ہے “وہ بے خوفی سے بولی
“مگر رانی جی اس وقت آپ باہر نہیں جا سکتیں ”
“تم سے اجازت نہیں مانگی ہے میں نے “وہ غصہ سے کہتے آگے بڑھی جبکہ ملازمہ اسے باہر جاتا دیکھ کر کال ملانے لگی دروازے پر موجود گارڈز کو دیکھ کر اس کے قدم بے اختیار رکے تھے پھر کچھ سوچ کر وہ پیچھلے دروازے کی طرف آئی مجسمے کے بٹن پش کرتے ہوۓ اس کا دماغ مختلف سوچوں کے تانوں بانوں میں الجھا ہوا تھا
* * * * * * * * * *
صبی کی سفیدی دیکھ کر ماہا بے اختیار اٹھ بیٹھی اس نے ادھر ادھر دیکھا سجی اور سجاول دونوں سو چکے تھے فائل سجاول کے سرہانے پڑی تھی ماہا نے تھوڑا سا کھسک کر فائل پکڑی اور چادر کے نیچے چھپا لی اب اسے یہاں سے بھاگنا تھا وہ جانتی تھی یہاں سے لوٹنا ناممکن ہے راجہ شاید اسے جان سے مار دے مگر وہ یہاں رہ کر مزید غلطی نہیں کر سکتی تھی وہ عزت کی موت مر جانا چاہتی تھی وہ دھیرے دھیرے باہر کی جانب بڑھنے
لگی باہر نکل کر اس نے اندھا دھند بھاگنا شروع کر دیا
اس کا رخ محل کی جانب تھا
“کیا کہا باہر گئی ہے اس وقت “اطلاع ملتے ہی راجہ طیش میں آگیا
“ہمت کیسےہوئی اس کی زندہ نہیں چھوڑیں گے ہم اس کو “وہ تیزی سے باہر کی جانب بڑھا
“گاڑی نکالو ہم ابھی جائیں گے زیارہ دور نہیں گئی ہو گی وہ “ملازم کو کہہ کر وہ پسٹل چیک کرنے لگا اس کا ارادہ خاموشی سے اس کا پیچھا کرنے کا تھا اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ سجی کا ٹھکانہ جانتی ہے
* * * * * * * * * *
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...