میرا راستہ چھوڑو میں نے کہا اتنی جلدی بھی کیا ہے جی کچھ باتیں ہو جائیں -میں آپ جیسے شخص سے باتیں کرنا پسند نہیں کرتی – پہلے پسند نہیں کرتی جی تو کوئی نہیں بات اب کرلیں -سکندر ادھر دیکھو یہ تو وہی لڑکی نہیں ہے جو تیرے ساتھ ٹکرائی تھی یہ جانی اس کے ساتھ کیا کر رہا ہے -فرقان مجھے تو لگ رہا ہے راستہ روک کر کھڑا ہے کتنی لڑکیوں کو سارا دن تنگ کرتا رہتا ہے اور اس کو کیا کام ہے – ہاں احمد ٹھیک کہا تم نے – اس کو تو آج میں دیکھتا ہوں -یار سکندر تو کیوں جا رہا ہے یہ تو اس کا روز کا معمول ہے آج یہ لڑکی تو کل کوئی اور ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں تو کیوں اس کے ساتھ جھگڑا مول لیتا ہے جانتا ہے تو جانی کو -ویسے بھی اس لڑکی سے کوئی ہمارا تعلق نہیں ہے -کیوں نہیں ہے انسانیت کا تو تعلق ہے ناں -تو اس لڑکی کو پسند کرتا ہے اس لیے بول رہا ہے -ہاں کرتا ہوں بس آج تو اس کو میں نہیں چھوڑوں گا –
” جنید میں آپ سے کہہ رہی ہوں میرا راستہ چھوڑ دیں ساری یونیورسٹی میں آپ میرا اور اپنا تماشا کیوں بنا رہے ہیں آپ کی عزت کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میری عزت کو تو پڑتا ہے وہ نرم لہجے میں سمجھتے ہوئے بولی ”
“جانی تجھے شرما نہیں آتی ایک لڑکی کا راستہ روک کا کھڑا ہے -اف یہ سکندر کہاں سے آ گیا آج یہ میرا پوری یونیورسٹی کے سامنے تماشا بنائے گا -سکندر تو کہاں سے آگیا آج ویسے یہ بتا دے پہلے مجھے یہ لڑکی تیری کیا لگتی ہے –
بات یہ نہیں لڑکی میری کچھ لگتی ہے یا نہیں جو تو کر رہا ہے یہ ایک غلط حرکت ہے -کوئی پیار شار کا چکر تو نہیں سکندر شاہ تیرا – جانی یہ بکواس بند کر اور اس کا راستہ چھوڑ دے -ایمان گھبرائی ہوئی کھڑی تھی اس وقت اسے دونوں پر غصہ آرہا تھا دونوں اسے کی وجہ سے جھگڑا کر رہے تھا ان کی وجہ سے اس کا تماشا بن رہا تھا –
اب دونوں یہ میری وجہ سے جھگڑا کرنا بند کریں وہ غصے سے چلائی آپ دونوں بدمعاش لوفر ہیں میری عزت کا تماشا بنا رہے ہیں اور سکندر آپ کو یہاں آنے کی ضرورت کیا تھی آپ میرے لگتے کیا ہیں وہ غصے سے سکندر کو گھورتی ہوئی بولی اور آپ بھی کچھ شرما کریں ایک لڑکی کا راستہ روکتے ہوئے شرما نہیں آتی اگر کوئی لوفر لڑکا آپ کی ماں یا بہن کا راستہ روکے تو آپ کو کیسا لگے گا وہ اس وقت غصے سے جنید پر چلا رہی تھی چند لڑکے اور لڑکیاں ان کو دیکھ رہے تھے -آپ۔کی ہمت کیسی ہوئی میری ماں کے بارے میں ایسی بات کہنے کی جنید غصے سے بولا –
واہ واہ آپ کی ماں کے بارے میں بات کی صرف اور آپ کو غصہ آگیا -جو آپ دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں کو تنگ کرتے ہیں اس وقت آپ کی یہ غیرت کہاں چلی جاتی ہے وہ غصے سے بولی
ایمان بس کرو چلو یہاں سے سب دیکھ رہے ہیں اتنے میں فائزہ ایمان کے پاس آگئی اور اسے وہاں سے لے گئی -فائزہ اگر تم آج نہ آتی تو میں دونوں کو آج ایک ایک تھپڑ لگاتی پھر یہ کسی بھی لڑکی کو یہ تنگ کرنے سے پہلے سوچتے -ایمان چھوڑو ان کو ہم ان لڑکوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے -ہوں فائزہ تم ہمیشہ ان سے ڈرتی رہنا لیکن میں ان سے مقابلہ کر سکتی ہوں میں کسی سے ڈرنے والی نہیں ہوں -اچھا اچھا اب یہ غصہ تھوک دو ایمان –
سکندر شاہ آج کے بعد تو میرے معاملات میں آیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا یہ یاد رکھنا جنید کا چہرہ اس وقت غصے سے لال ہو رہا تھا وہ غصے سے کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا –
“سکندر یہ جھگڑا تیری وجہ سے ہوا ہے ہم نے تجھے کہا تھا کہ نہ جاؤ لیکن نہیں تجھے پر یہ محبت کا بھوت سوار تھا خاموش ہو جاؤ تم لوگ میں اس بارے میں مزید بات نہیں کرنا چاہتا ”
رضا تو میرا ایک کام کر دے آج رات تک مجھے اس لڑکی کا نام پتہ سب کچھ چاہیے -جنید کو آج ایک لڑکی نے ساری یونیورسٹی کے سامنے آئنہ دکھا دیا تو اسے بہت غصہ آرہا تھا اب وہ اس سے بدلہ لینا چاہتا تھا -کیوں جانی تم نے کیا کرنا ہے -رضا بس تو مجھے یہ بتا دے تو میرا کام کر رہا ہے یا کسی اور کو بولوں -یار ناراض تو نہ ہو میں بس ایسے پوچھ رہا تھا فکر نہ کر تیرا کام رات تک ہو جائے گا –
*****************
وہ ہلکی سی دستک دے کر سکندر کے روم میں داخل ہوئی تھیں -سکندر اس وقت یوں ہی اوندھا لیٹا بازو بیڈ سے لٹکائے ہوئے تھا -بیٹا آج لنچ نہیں کرنا آج تو یونیورسٹی آتے ہی روم میں بند ہو گئے -نہیں مما آج میرا دل نہیں کر رہا -وہ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئیں تھیں -اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولیں -بھئی آج میرے بیٹا کا دل کیوں نہیں کر رہا -بس مما ویسے سر میں درد ہے تو اس لیے کچھ کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا بیٹا میڈیسن لی ہے ؟
“جی مما آپ فکر نہ کریں ابھی ٹھیک ہو جاؤں گا ٹھیک ہے پھر تم آرام کرؤ میں تمہارے لیے جوس کے ساتھ کچھ اور لے کر آتی ہوں لنچ تو تم کر نہیں رہے ہو نہیں مما رہنے دیں ابھی کچھ کھانے پینے کو دل نہیں کر رہا بس آرام کرنا چاہتا ہوں ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی پھر میں چلتی ہوں تم آرام کرؤ”
“اب وہ لڑکی مجھے سے بد گمان ہو گئی لیکن میں کیا کرؤ میں خود کو وہاں جانے سے روک نہیں سکا مجھے یہ دیکھ کر غصہ آ گیا ایک لڑکا وہ بھی جانی اس کو تنگ کر رہا تھا میں کیسے وہاں نہیں جاتا لیکن وہ فرقان وغیرہ کی طرح وہ بھی مجھے ہی جھگڑے کا ذمے دار سمجھ رہی ہو گی وہ تو پہلے ہی مجھ سے نفرت کرتی ہے پتہ نہیں کیسے یقین دلاؤں گا اس کو اپنی محبت کا ”
“سکندر بیڈ پر لیٹا اس کے بارے میں اور آج کے واقعے کے بارے میں سوچ رہا تھا
****************
اب تو اس لڑکی سے شادی کر کے بدلہ لوں گا اپنے آپ کو سمجھتی کیا ہے -جنید رات کے اس وقت بیڈروم میں بیڈ پر لیٹا سوچ رہا تھا –
السلام علیکم مما اور پاپا وہ ڈائننگ ٹیبل پر ان کو دیکھتے ہوئے بولا اور پھر خود بھی چئیر کھینچ کر بیٹھ گیا -وعلیکم السلام جنید بیٹا آج آپ کو ہماری یاد کیسے آگئی -پاپا میں آپ کو بھولا کب تھا -بھئی کبھی آپ نے ہمارے ساتھ ناشتہ نہیں کیا نہ ہی ڈنر تو اس لیے میں آج پوچھ رہا تھا -جاوید آپ تو خاموش ہو جائیں میرا بیٹا اب آ گیا ہے تو ناشتہ تو اسے آرام سے کرنے دیں -میں نے کب روکا ہے ناشتہ کرے میں تو ویسے بات کر رہا تھا -کیوں کے اس کو پاپا تو پیسوں اور کام کے وقت یاد آتے ہیں -نہیں پاپا اب ایسی بات نہیں ہے -ٹھیک ہے بیگم جی آپ ماں بیٹا اب آرام سے ناشتہ کریں میرے تو آفس کا ٹائم ہو گیا ہے میں چلتا ہوں وہ اپنا کوٹ پہنتے ہوئے بولے -ٹھیک ہے جی خداحافظ –
“مما میں نے آپ سے ایک بات کرنی ہے وہ اپنے پاپا کے جاتے ہی وہ اپنے مطلب کی بات پر آگیا جس کے لیے وہ جلدی آج اٹھا تھا ”
اس نے پہلے سوچا تو یہی تھا کہ مما اور پاپا سے ایک ساتھ بات کرے گا لیکن اپنے پاپا کا رویہ دیکھتے ہوئے اس نے صرف اپنی مما سے بات کرنے کے بارے میں سوچا کہ وہ خود ہی پاپا سے بات کر لیں گئی –
“ہاں تو جنید بیٹا بولو کون سی بات کرنی ہے مما وہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں جنید بیٹا کوئی مذاق تو نہیں کر رہے ہو میرے ساتھ نہیں مما میں کوئی مذاق نہیں کر رہا یہ لیں اس لڑکی کے گھر کا ایڈریس ہے بہت جلد آپ کو میرے رشتے کی بات کرنے جانا ہے -سوری بیٹا نہ میں ابھی جارہی ہوں اور تمہارے پاپا تو بالکل نہیں ماننے والے ویسے بھی پہلے تم اپنی تعلیم تو مکمل کرو شادی کے بارے میں بعد میں سوچنا ”
“مما جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو میرے فائنل ایگزامز ہونے والے ہیں پاپا کو راضی کرنے کی آپ کی ذمہ داری ہے ایک بار میں نے کہہ دیا ہے تو آپ کو جانا ہے وہ غصے سے کہتا ہوئے وہاں سے چلا گی
*************
سکندر یار آج صبح سے پریشان بیٹھا ہوا ہے کیا بات ہے؟
” کوئی بات نہیں ہے فرقان ”
پھر خاموش کیوں بیٹھا ہے -یار اب بندہ خاموش بھی نہیں بیٹھ سکتا وہ غصہ ضبط کرتے ہوئے بولا –
“فرقان یار تو سکندر کو تنگ نہ کر میں تجھے بتاتا ہوں یہ اس لڑکی کی وجہ سے پریشان بیٹھا ہوا ہے وہ لڑکی اس کے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گئی کل اس کی وجہ سے وہ جھگڑا ہوا تھا ناں ”
“سکندر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں وہ سکندر سے تصدیق کرتے ہوئے بولا لیکن سکندر خاموش رہا اس کے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کیوں کہ احمد ٹھیک ہی کہہ رہا تھا ”
سکندر یار اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے تو جا کر سوری بول دے –
جیسے اس سے بات کرنا آسان ہو فرقان تم بات تو ایسے کر رہے ہو ۔ یار محبت بھی کرتا ہے ڈرتا بھی ہے پھر -یار ڈرنے والی بات نہیں ہے -پہلے دو مرتبہ اس سے مل چکا ہوں اور ایک بار محبت کا اظہار بھی کر چکا ہوں -وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے ایک لوفر سمجھتی ہے اور کل والی بات کی وجہ سے وہ اور نفرت کرنی لگی ہو گی -وہ ان کو سمجھتے ہوئے بولا -یار جہاں دو بار پہلے گیا ہے وہاں ایک بار پھر چلے جاؤ جو ہو گا وہ بعد میں دیکھا جائے گا ویسے بھی محبت کے لیے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا –
” بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے فرقان سکندر ”
ٹھیک ہے یار میرے خیال میں تم لوگ ٹھیک کہہ رہے ہو ابھی تو میرے خیال میں ان کا لیکچر ہو رہا ہو گا پھر چلتا ہوں -یہ ہوئی ناں بات میرے بھائی اور ہمت نا ہارو ایک دن اسے تمہاری محبت پھر یقین آجائے گا –
” کیوں کہ محبت سے کسی کا بھی دل جیت سکتا ہے انسان اور محبت سے ہی نفرت کو ختم کیا جاتا ہے ”
*****************
ایمان یار پروفیسر ریاض صاحب تو لیکچر کا زیادہ ٹائم لیتے ہیں ناں چالیس منٹ کا ان کا لیکچر ہوتا ہے اور روزانہ گھنٹہ لیتے ہیں -ہاں فائزہ یہ بات تو ٹھیک کہہ رہی ہو لیکن ہمارا کون سا لیکچر ہوتا ہے اگلا ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا بالکل میں تو کہتی ہوں فری رہنے سے اچھا ہے کچھ پڑھائی ہو جاتی ہے -وہ دونوں اس وقت اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے باتیں کرتی ہوئی جارہی تھیں –
ایمان تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے تو پڑتا ہے اس وقت بھی میرا بھوک سے برا حال ہو رہا ہے -تو تمہیں کون کہتا ہے کہ صبح ناشتہ کر کہ نہ آیا کرؤ -ایمان طنز کرتے ہوئے بولی -یار ناشتہ کرؤ تو لیٹ ہو جاتی ہوں -رات کو جلدی سو جاؤگی تو کیا ہو جائے گا تمہیں ؟
یار کیا کرؤ مجھے نیند نہیں آتی ہے اس سیل فون کو جلدی رکھ دیا کرؤ تو نیند بھی آ جائے گی
“اچانک سامنے ایمان کی نظر سکندر پر پڑی جو ان کی طرف ہی آ رہا تھا یوں سکندر کو دیکھ کر ایمان کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی ”
بات سنیں سکندر قریب آتے ہوئے بولا -ہمیں آپ کی کوئی بات نہیں سنی ہے ایمان غصے سے بولی اور اس کو نظر انداز کرتے ہوئے چلی گئی -بس دو منٹ دے دیں وہ بھی ساتھ چلتے ہوئے بولا -ایمان سن تو لو وہ کہنا کیا چاہتا ہے –
“بولیں کیا کہنا چاہتے ہیں آپ وہ اچانک روک گئی اور اس کو غصے سے گھورتے ہوئے بولی -وہ میں کل کے لیے آپ سے سوری بولنا چاہتا ہوں وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا -ہوں اب آپ کی بات ہو گئی اور دو منٹ بھی گزار گئے اب آپ جا سکتے ہیں -کیا آپ نے معاف کر دیا ہے -ایمان معاف کر دو سوری بول رہا ہے کچھ نہیں ہوتا اور معاف کرنے والے کو تو اللہ تعالی بھی پسند کرتے ہیں- ایمان کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی میں صرف اپنی دوست کے کہنے پر معاف کر رہی ہوں -جی شکریہ آپ دونوں کا -آج کے بعد آپ مجھ سے بات کرنے کی کوشش مت کرنا وہ یہ کہتے ہوئے چلی گئی
معاف کر دیا ناں اس نے فرقان نے پیچھے سے آتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ” ہاں فرقان ”
دیکھا سکندر یار اس نے معاف کر دیا تو ایسے ڈر رہا تھا -نہیں احمد پتہ نہیں اس نے دل سے معاف کیا ہو گا یا نہیں کہہ رہی تھی میں نے صرف دوست کے کہنے پر کر رہی ہوں -یار کر تو دیا ناں اس کی اب ایسی بھی کیا دشمنی تجھ سے کہ دل سے معاف نہیں کرے گئی چھوڑ یار ٹنشن نہ لے اب تو –
یار چلو چلتے ہیں کسی ریسٹورنٹ میں آج کب سے گئے نہیں احمد اور سکندر اب اس بات کو لے کر فضول میں بیٹھے ہو -ہاں فرقان تو ٹھیک کہہ رہا ہے چل سکندر -ہاں یار احمد اور فرقان میں سوچ رہا تھا کل سے یونیورسٹی نہیں آتے ہیں آج کل خاص کوئی لیکچر نہیں ہو رہا اور کچھ دن تک ایگزامز شروع ہو رہے ہیں اس سے اچھا ہے گھر بیٹھ کر ایگزامز کی تیاری کرتے ہیں یہاں تو فضول میں ٹائم ضائع ہوتا ہے -وہ کار میں بیٹھتے ہوئے بولا -ہاں یار بات تو تیری ٹھیک ہے –
***************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...