باب دوم:
نمبر مسلسل بند جارہا تھا۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ زبیر عثمانی کی جھنجلاہٹ میں اضافہ ہورہا تھا۔۔۔ کوئی بیسیوں مرتبہ وہ یہ نمبر ڈائل کرچکے تھے لیکن نتیجہ ہر بار صفر ہی رہا تھا۔ اور ایک اسی نمبر پر کیا موقوف۔۔۔۔ یہاں تو وہ جو بھی نمبر ڈائل کرتے جواب ندارد، اپنے بیڈروم میں اضطراری کیفیت میں ٹہلتے ٹہلتے زبیر صاحب کی ٹانگیں جواب دے رہی تھیں لیکن انھیں یہ بات تسلیم کرنے کے لیے تھوڑا وقت درکار تھا کہ ان کی حکمرانی کا سورج مشرق میں ہی غروب ہو چکا ہے۔۔۔
کب تک یہ بے کار مشغلہ جاری رکھو گے؟ مان کیوں نہیں لیتے زبیر عثمانی، کہ تم سے اوپر بھی کوئی بیٹھا ہے۔۔۔۔!
عائشہ عثمانی نے گرم گرم کریم کافی کا مگ سینٹر ٹیبل پر دھرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
وہ صبح سے اپنے شوہر نامدار کی بوکھلاہٹ ملاحظہ فرمارہی تھیں۔
شروع ہوگئے تمہارے طنز۔۔۔۔؟
بس یہی ایک کسر رہ گئی تھی کہ تم بھی شروع ہوجاؤ۔؟
تمہیں میری ٹینشن نظر نہیں آرہی۔۔۔۔؟
تھک ہار کر زبیر عثمانی بیڈ کی پائنتی ہی بیٹھ گئے اور پوری شدومد کے ساتھ اپنی مصروفیت جاری رکھی۔۔
میں طنز نہیں کررہی زبیر! تمہیں ہوش میں لانا چاہتی ہوں۔
تم اپنی انرجی غلط جگہ ویسٹ کررہے ہو۔۔۔
یاد نہیں۔۔؟ تمہارے محکمے میں۔۔۔۔ بلکہ اس ملک میں صرف چڑھتے سورج کو سلام کیا جاتا ہے۔۔۔
عائشہ عثمانی کی زبان رکی نہیں تھی۔
میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔
زبیر عثمانی نے کوفت زدگی کے عالم میں جواب دیا اور ایک بار پھر سیل کان سے لگا لیا۔۔۔
کمپیوٹر ریکارڈ ہنوز بج رہا تھا۔
اینی وے۔۔۔ کافی رکھی ہے، پی لینا ٹھنڈی ہوگئی تو تمہیں مزہ نہیں دے گی۔۔۔آئی وش کہ میں اس سے زیادہ کچھ کرسکتی تمہارے لیے۔۔۔۔
اور بے نیازی سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا بیٹھیں۔
زبیر عثمانی کو بیگم کی یہ بے نیازی سخت کھلی۔۔۔
یس یو آر رائٹ۔۔۔ میرے لیے تم صرف مسائل ہی کری ایٹ کر سکتی ہو۔۔۔
عائشہ نے فقط ہونہہ پر اکتفا کیا اور چہرے کا مساج کرنے لگیں۔۔۔
زبیرعثمانی نے بیزاری کم کرنے کی خاطر کافی کا ایک گھونٹ لیا۔۔۔۔ مگر
آآہ۔۔ہ۔۔۔ہ۔۔
بےدھیانی میں ہونٹ گرم کافی سے چھو گئے اور وہ کراہ کر رہ گئے تھے۔۔
عائشہ نے اب بھی کوئی توجہ نہیں دی تو زبیر عثمانی نے عائشہ کی شان میں کئی لفظ تولنے چاہے لیکن موبائل ٹون نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔۔
عائشہ کی طبیعت صاف کرنے کا ارادہ کسی اور وقت کے لیے موقوف کرتے ہوۓ کال ریسیو کرلی۔۔
ہاں بولو۔۔۔ کچھ انفارمیشن ملی۔۔۔۔؟
کس کا کام ہے یہ۔۔۔؟
دوسری طرف زبیر عثمانی کا کوئی خاص آدمی تھا۔۔
جی سر یہ نیب والوں کی کارروائی ہے۔۔
کیا کہنے۔۔۔؟
یہ تو میں بھی جانتا ہوں ڈفر! مجھے یہ بتاؤ انکوائری کا چارج کس کے پاس ہے۔۔
یہ انفارمیشن دی ہے تم نے۔۔۔۔؟
زبیر عثمانی کی زبان نشتر پر نشتر چلارہی تھی۔۔۔
جلنے کے بعد رسی کے بل کھلنا ابھی باقی تھے۔۔۔۔
سوری سر۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔
تمہارے مطلب کی ایسی کی تیسی۔۔۔
سیدھی بات بتاؤ، اگر کچھ بتانے کو ہے تو۔۔۔۔؟
زبیر عثمانی پر ایک ایک لمحہ بھاری پڑرہا تھا اور آنے والا وقت مزید کتنا بھاری پڑنے والا تھا۔۔۔ یہ زبیر عثمانی کو ہرگز اندازہ نہیں تھا۔۔۔
سر مرتضی سلیمان صاحب دیکھ رہے ہیں اس سارے کیس کو۔۔۔
کون ہے یہ مرتضی سلیمان۔۔۔؟
اس کا بائیو ڈیٹا جانتے ہو کچھ۔۔۔؟
زبیر عثمانی کی یادداشت میں یہ نام بالکل نیا تھا۔۔۔
سر وہ مرتضی صاحب۔۔۔ ان کی ریپوٹیشن آپ کےلیے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ انفارمر کے انداز میں جھجک سی تھی۔ گھما پھرا کر بات مت کرو۔۔۔ سیدھی طرح بتاؤ آخر یہ مرتضی سلیمان ہے کون۔۔۔۔۔؟ کچھ بات بن سکتی ہے یا نہیں؟
سر بات تو سمجھیں بگڑ چکی۔۔۔
ایکچولی۔۔ وہ۔۔۔آغا سمیع الدین فیروز کا بھانجا۔۔۔۔ مرتضی سلیمان غوری!
زبیر عثمانی کی سماعتوں میں گویا کسی نے لاوا انڈیل دیا تھا۔۔۔۔
*********
خود سے کیا ہر عہد توڑ کر ایک بار پھر وہ اسی دہلیز پر قدم جماۓ کھڑی تھی، جہاں پاؤں اکھڑنے کے صحیح معنی اس نے سیکھے تھے۔۔۔
عشال۔۔۔آپی۔۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔۔
آبریش دوڑ کر اس سے آ کر لپٹی تھی۔۔ اور وہ جو ماضی کی گھمن گھمیریوں میں چکراتی پھر رہی تھی۔۔۔ آبریش نے حقیقتا اسے گھما ڈالا تھا۔۔۔
لمحے بھر کو اسے سمجھ ہی نہ آیا کس طرح کا ردعمل دے۔۔۔ اور آبریش اسے کوئی موقع دینے کو تیار بھی کہاں تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہ اسقدر ایکسائیٹڈ ہو چکی تھی کہ خود عشال کی سمجھ میں نہ آیا وہ اسے خود سے علیحدہ کیسے کرے۔۔۔
سچ آپی یقین ہی نہیں آرہا آپ یہاں ہیں ہمارے پاس، ہمارے درمیان۔۔۔۔
اور یقین تو اسے بھی نہیں تھا کہ وہ اتنا طویل سفر کیسے طے کرگئی۔۔
یہاں تک آتے آتے ہر وہ اذیت جسے لوگ ماضی کہہ کر فراموش کرسکتے ہیں، وہ بھی کر سکتی تھی۔۔۔ مگر راہ کے ہر کانٹے نے ایک بار پھر اسے خوش آمدید کہا تھا۔۔۔ ان راہوں میں جہاں اس کی زندگی کا ایک بڑا حصہ گذرا تھا۔۔۔ اس کے لیے اب کون سے حادثے سینت رکھے تھے۔۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔۔
اب جبکہ ایک فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اس پر قائم بھی رہنا تھا۔۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی انتخاب اس کے پاس تھا ہی نہیں۔۔۔
سچ آپی میں تو بہت ایکسائیٹڈ تھی آپ کا سن کر۔۔۔ ماما نے بتایا تھا اب آپ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ ہمیشہ۔۔
پتہ نہیں کون سی چیز تھی جو اسے اتنا خوش کررہی تھی۔۔ ورنہ اس کی ذات تو جیسے کوڑھ زدہ مریض جیسی ہوکر رہ گئی تھی۔۔
شاید یہ اس کی عمر کاتقاضہ تھا۔۔ کہ چیزوں اور حوادث کی گہرائی سولہ سال میں سمجھ آنے والی شئے نہیں۔۔۔ دنیا تو ابھی اس کے لیے نئی تھی۔۔۔ ابھی تو اس نے سولہویں سال میں قدم رکھا تھا۔
عشال نے دل کی گہرائی سے اس کی شوخی کی سلامتی چاہی تھی۔
چلیں میں آپ کو، آپ کا روم دکھاتی ہوں۔
اور جھٹ اس سے سوٹ کیس تھام لیا۔۔۔ جس میں چند جوڑے کپڑوں کے علاوہ کچھ قیمتی یادیں ہی تو تھیں۔۔۔
ارے۔۔ارے لڑکی چھری تلے دم تو لیا کرو۔۔۔ ابھی انھوں نے قدم رکھے ہیں اور تم اس کے کندھے پر سوار ہوگیئں۔۔۔
سطوت آراء نے آوازیں سنتے ہی لاؤنج میں قدم رکھا تھا اور عشال کو آبریش کے نرغے میں پایا تھا۔۔۔
ماما جان۔۔۔! عشال کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور سطوت آراء کی بانہیں بھی اس کے لیے پھیل گئی تھیں۔۔۔۔
ان کی بانہوں میں سماتے ہی ایک بار پھر عشال کی پلکوں کی باڑھ بھیگنے لگی۔۔۔ ان کی بھی جانے کب کی رکی سسکیاں عشال کے کندھوں پر بہنے لگیں۔۔۔ آخر کو باپ کا دکھ اٹھایا تھا اور آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوسکا۔۔۔
ماما۔۔ بس کریں ناں پلیز! اتنے دن سے آپ روتی ہی تو رہی ہیں۔۔ دیکھیں آپ نے آتے ہی عشال آپی کو بھی رلادیا۔۔۔
آبریش نے احتجاج کیا۔۔۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو اس کے لیے ناقابل برداشت تھے۔
آبریش۔۔۔!
ضیاءالدین صاحب کی آواز پشت سے گونجی۔
اوہ بابا۔۔۔؟ وہ سوٹ کیس وہیں چھوڑ چھاڑ ان کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
بیٹا یہ سامان اٹھوا دو اور کھانے کا کیا انتظام ہے؟
سب تیار ہے بابا آپ لوگ فریش ہو جائیں۔۔۔ پھر سب ساتھ مل کر کھائیں گے۔۔۔
شوخی اس کے لہجے سے مترشح تھی۔۔۔
کوئی دعا تھی جو عرش کو چھو گئی تھی۔
*********
نینسی کی آنکھیں اس منظر کو سمجھنے سے قاصر تھیں۔۔۔ وہ زمین پر اوندھا گرا نہ جانے کیا بڑبڑا رہا تھا۔۔۔
آج شام ہی تو اس نے زندگی کی بہت بڑی خواہش جیتی تھی، لیکن سب سے بڑی نہیں۔۔۔!
نینسی خود اس کی سب سے بڑی۔۔۔، نہیں آخری خواہش بن جانا چاہتی تھی۔۔۔
آج شام انھوں نے ایب کی پہلی بڑی کامیابی سیلیبریٹ کی تھی۔۔۔ اور یہ جشن مستانہ ہوش وخرد سے بیگانگی تک جاری رہا تھا۔۔۔۔
تھک ہار کر وہ سو چکے تھے۔۔۔
پھر رات کا وہ کون سا پہر تھا، جب ایب کی بےکل خواہش اسے اس حسد میں مبتلا کردینے والے تصور کے سامنے بے خود کر گئی تھی۔۔۔ ایک آگ سی نینسی کے پورے وجود کو اپنے ساتھ لپٹا گئی تھی۔۔۔۔ وہ کچھ نہ سوچ سکی، وہ کیا کررہی ہے۔۔۔ اس کے سامنے تھا تو بس۔۔۔ عزت نفس کو کچلتا ہوا ایک احساس۔۔
وہ تیزی سے ایزل کے سامنے جھکے ایب کی جانب بڑھی، جو منہ ہی منہ میں اب بھی کچھ بڑبڑارہاتھا۔
ہو از شی۔۔۔۔؟
وہ شعلے کی طرح ایب کی طرف بڑھی تھی اور بری طرح اسے جھنجوڑ ڈالا تھا۔۔۔
ایب چونک کر سیدھا ہوا اور بت بن کر رہ گیا تھا بالکل اپنے کنسول پر بکھرے ادھورے مجسمے کی طرح۔۔۔۔
تم۔۔۔۔تم۔۔۔ یہاں کیسے۔۔۔؟
اس نے بالکل ایک الگ ہی سوال کیا، جس نے نینسی کے حواس مزید کھولا دئیے تھے اور وہ تو جذبات کا برملا اظہار کردینے والوں میں سے تھی۔۔۔۔ نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر۔۔۔۔
واٹ! تم نے بولا میں ادر کیسے۔۔؟
اس نے چبا چبا کر ایب کا ایک ایک لفظ دہرایا۔
تمارا بیڈ لک۔۔۔ ایب
یور بیڈ لک۔۔۔۔
تم نے بولا یہ اسٹور روم ہے۔۔۔ یو راسکل۔۔۔؟
یو لائیر۔۔۔؟
وہ تیز لہجے میں گالم گلوچ پر اتر آئی تھی۔۔ صورتحال ایب کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی۔۔۔ اب وہ سیدھا کھڑا کمر پر دونوں ہاتھ دھرے نینسی کے خاموش ہونے کا انتطار کررہا تھا۔ اس کی وضاحت یوں بھی بے کار جانی تھی۔۔۔ ویسے بھی اس کے پاس وضاحت کے لیے رہ ہی کیا گیا تھا۔۔
یہ۔۔۔یہ ہے ناں وہ بچ۔۔۔؟ جس کوچھپ چھپ کر تم پیار کرتے ہو۔۔۔؟ وہ ایزل کی طرف انگلی اٹھا اٹھا کر بول رہی تھی۔۔۔
انف۔۔۔ از انف۔۔۔۔
ایب کو وہ الفاط گالی کی طرح اپنی ذات پر لگے تھے۔۔۔
لمحے بھر کو نینسی کچھ بول ہی نہ پائی تھی۔۔
وہ بے یقینی کے عالم میں صبح شام آئی لو یو کی گردان کرنے والے ایب کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جہاں قاتل کی سی درشتی اور بے حسی چھائی تھی۔
ایک اور لفظ اگر تمھارے حلق سے نکلا تو یہیں گاڑ کر رکھ دوں گا۔۔۔
نینسی کا حلق خشک ہوا وہ بولنا تو دور کی بات حلق سے آواز تک نہ نکال پائی۔۔۔
اس کی آنکھیں ایب کو پہنچاننے سے قاصر تھیں۔۔
بٹ ایب۔۔۔۔ اس نے خوف نگل کر بمشکل بولنا چاہا۔۔۔
ڈونٹ۔۔ ڈونٹ۔۔۔۔
ایب نے انگلی لہرا کر اسے متنبہ کیا۔
شٹ یور ماؤتھ۔۔۔ مجھے جو چاہو کہہ سکتی ہو۔۔۔ لیکن یہ۔۔۔ اس نے کینوس کی جانب اشارہ کیا۔۔۔
اس کی طرف اپنی گندی نظر بھی مت ڈالنا۔۔۔۔ وہ ہر لفظ کو چبا رہا تھا۔۔۔ یا پھر شاید نینسی کی شہہ رگ۔۔۔
میں ہوں، تمھارے ایب نارمل بی ہیوئیر کو جھیلنے کے لیے۔۔۔ اپنا پاگل پن میرے تک ہی محدود رکھو۔۔۔۔
آخری بار۔۔۔۔ آخری بار کہہ رہا ہوں آئندہ یہاں قدم بھی مت رکھنا۔۔۔۔ نینسی کو اس لمحے جتنا خوف ایب سے محسوس ہوا۔۔ اتنا تو پستول بردار سیاہ فام سے بھی نہیں ہوا تھا۔۔۔
ایب وہاں سے جاچکا تھا۔۔۔ اس کے پیروں میں سلیپر نہیں تھے اور وہ وارڈروب میں گھسا لباس تلاش کر رہا تھا۔۔۔
مگر خاموش رہنا نینسی کی بھی فطرت نہیں تھی۔۔۔ بیڈدوم میں آتے ہی جہاں ایب کے تاثرات میں تبدیلی آئی تھی تو وہیں نینسی کےچہرے پر بھی تغیر رونما ہوا تھا۔۔
ایب نارمل میں نہیں تم ہے۔۔۔
جو ایک پینٹنگ کو پوجتا ہے۔۔۔۔
ابھی تم نے جوکچھ میرے ساتھ کیا ہے۔۔۔ تو ابھی تماری ساری اکڑ پولیس نکال دے گی۔۔۔ صرف ایک کال۔۔۔۔ اینڈ یو آر فنش۔۔۔ نینسی کو چند لمحے لگے تھے خود کو سنبھالنے میں۔۔۔
ایب نے کچھ بھی کہنے کے بجاۓ صرف ایک بے پروا نظر سے اسے نوازا تھا۔
حقیقت میں وہ صرف اپنا وقار سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ ورنہ ایب نے نہ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا تھا اور نہ کوئی ایسی حرکت کی تھی جسے وہ اپنے حق میں استعمال کر پاتی۔۔۔
وہ بھی ایب تھا جس نے سات سال اس معاشرے میں گذارے تھے ۔یہاں کے قانون اور شہری حقوق سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔۔
شوق سے تم چاہو تو اس مقصد کے لیے میرا سیل استعمال کرسکتی ہو۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے سیل بیڈ پر اچھالا تھا اور خود باتھ روم میں گھس گیا تھا۔۔
ایب کی اس حرکت نے اسے احساس توہین میں مبتلا کر دیا تھا۔۔۔ انتقام کی آگ نے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی تھی۔
نینسی نے فورا سے ریسکیو پولیس کا نمبر ڈائل کیا تھا۔۔۔
اور ان کے تعلق کی دیوار میں یہ آخری شگاف تھا، جس کے بعد صرف خاتمہ تھا۔۔۔۔
*********
آہا۔۔۔! عشال آپا۔۔۔؟ زعیم نے خوش دلی سے مسکراتے ہوئے اپنی آمد کا اعلان کیا تھا۔۔ عشال آپی۔۔ یہ سورج کہاں سے نکلا ہے۔۔۔۔ قصر شہیر میں۔۔۔ آپ کچھ روشنی ڈالیں گی اس پر۔۔۔۔؟ اس نے ازحد معصومیت سے سوال کیا تھا اور سوال کا منبع چونکہ سوپ سرو کرتی آبریش کی ذات تھی تو دبی دبی سی مسکان سب ہی کے چہرے پر کھیل گئی تھی۔ سوائے نورین کے جو تنبیہی نظروں سے اس کو ہی گھور رہی تھی اور وہ کمال بے نیازی جھاڑتا ضیاءالدین صاحب کے پہلو میں جا کھڑا ہوا تھا۔ یہ ساری محفل لان میں جمی تھی تو وہ دونوں بھی اسی طرف چلے آۓ اور شریک محفل ہوگئے۔ عشال قدرے غائب دماغی سے پیپل کے زرد پڑتے پتوں میں الجھی ہوئی تھی۔۔۔ محفل میں بیٹھنے کے اطوار اسے دوبارہ سیکھنے تھے۔
آبریش نے سوپ کی ایک پیالی نورین کی طرف بڑھاتے ہوئے زعیم کو صاف نظرانداز کیا تھا۔۔۔۔
خالو جان۔۔۔؟ آپ کے گھر مہمانوں کو کچھ پوچھنے کا رواج نہیں ہے کیا؟
نورین آپی۔۔۔؟ مہمان تو شاید کبھی کبھار مروت میں آنے والوں کو کہتے ہیں ناں۔۔۔؟
روز روز آنے والوں کو کیا کہتے ہیں ؟ آپ کو پتہ ہے؟
آبریش نے بھی بلا توقف حساب برابر کردیا تھا۔۔
خالہ۔۔۔؟ زعیم نے سب کے مسکراتے چہرے نظرانداز کیے ترپ کا پتا چلا جس نے کبھی اسے مات نہیں دی تھی۔۔۔
خالہ۔۔۔؟ آپ کے گھر مہمانوں کی خاطر تواضع ایسے ہوتی ہے کیا؟
سطوت آراء کے دل پر فورا ہاتھ پڑا تھا وہ مرحوم بہن کے لاڈلے کی دل آزاری برداشت نہیں کرسکتی تھیں یہ ہی ان کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔۔ انھیں ہمیشہ سے ہی اصل سے سود پیارا تھا۔۔۔ چاہے وہ بہن کی اولاد ہو یا۔۔۔ بھائی کی۔
آبریش۔۔۔؟ بیٹا کیا طریقہ ہے یہ۔۔۔؟ چلو زعیم کےلیے بھی ایک پیالی بناؤ۔۔۔
آبریش نے ابلتے کھولتے اس سدا کے دشمن کو دیکھا جو چہرے پر نہایت معصومیت سجائے، ضیاءالدین صاحب سے حال احوال پوچھ رہا تھا۔۔۔
اور خالو جان کیسا رہا آپ کا ایڈونچر۔۔ ؟ اس بار کچھ جلدی نہیں ختم ہوگیا۔۔۔؟
جلدی کہاں بیٹا۔۔ ؟ پوری جان مار کر آرہا ہوں۔۔۔ اگر آغاجان مان جاتے تو۔۔۔۔خیر۔۔ زبان کے پکے تھے۔۔۔ سو جوکچھ میرے اختیار میں تھا میں کر گذرا۔۔۔
ان کے لہجے میں دھیما سا تأسف تھا۔۔۔
بےاختیار عشال کی نظر حاضرین محفل پر پڑی تھی۔ آپ کے کیا حال ہیں عشال آپا۔۔۔؟ زعیم نے روئے سخن اس کی جانب موڑا۔۔۔
میں۔۔۔؟
بمشکل اس نے خود کو حاضر کیا تھا۔۔۔
میں ویسی ہی، جیسی ہمیشہ سے تھی۔۔۔
عشال نے سنجیدہ سے لہجے میں آہستگی سے جواب دیا تھا۔
آغاجان کی ڈیتھ کا ہم سب کو بہت افسوس ہے۔۔۔ اسپیشلی مجھے۔۔۔
عشال کی نظریں اب اس پر ہی تھیں البتہ خلاف معمول نورین خاموش تھی۔۔ زعیم کو گھورنے کے علاوہ وہ کچھ نہیں بولی تھی۔
یقین جانیے۔۔۔ مجھے آج تک کسی کے نانا کی ڈیتھ کا اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا کہ آغا جان کی ڈیتھ کا ہوا۔۔۔
بے اختیار ہی ضیاءالدین صاحب کی ہنسی چھوٹی تھی اور انھوں نے دلچسپی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔۔ عشال سمیت باقی سب اس کے انوکھے اظہار افسوس پر بھونچکے اسے تک رہے تھے۔۔۔
نورین نے ایک دھپ اس کے زانو پر رسید کی تھی۔۔۔
بولنے سے پہلے سوچ تو لیا کرو کہنا کیا ہے۔۔۔۔؟
جب دیکھو بٹر بٹر بولے چلے جاتے ہو۔۔۔ سوچے سمجھے بغیر۔۔۔ بس فضول بولتے جاتے ہو۔۔۔ وہ شرمندگی سے اسے گھرک رہی تھی۔۔۔
اوہو۔۔۔ اب کیا کردیا میں نے۔۔ ؟
وہ تیزی سے اپنا زانو سہلاتا جاتا تھا اور نورین سے استفسار کررہا تھا۔۔۔۔۔
کیوں خالو آپ ہی بتائیں۔۔۔ میں نے کوئی نامعقول بات کی ہے۔۔۔؟
اپنے نیک جذبات کا ہی اظہار کیا ہے۔۔؟ وہ سمجھنے سے قاصر تھا آخر نورین کو اعتراض کس بات پر ہوا ہے۔۔۔ اور آبریش کے ہاتھ سے سوپ کی پیالی پکڑتے ہوئے ایک تشکرانہ نظر سے اسے نوازا۔۔
آبریش نے بال جھٹک کر رخ نورین کی طرف پھیر لیا۔۔۔
جو زعیم کی عقل پر ماتم کررہی تھی۔
نورین آپا۔۔۔؟ کوئی بات نہیں آپ ٹیشن لینا چھوڑ کر اب عادی ہو جائیں۔۔۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ لمبے لوگوں کی عقل کہاں ہوتی ہے۔۔۔؟ ایسی باتیں صرف عقل رکھنے والے ہی سجھ سکتے ہیں
اس نے نورین کے کندھے سے لگ کر اسے تسلی دی تھی۔۔۔ اس جوابی حملے پر نورین دل سے مسکرائی تھی۔۔ اور زعیم کا منہ بن گیا تھا۔۔۔
کیا مطلب ہے آپ کا میڈم۔۔۔۔
وہ فورا ہی میدان میں اترا تھا۔
آپ خواتین کی سازش ہی یہ ہے میری زبان بندی کرا کے آپ لوگوں نے جو جوہر بکھیرنے ہیں میں اچھی طرح واقف ہوں
اور سوپ کا چمچ منہ میں لیا ہی تھا کہ بری طرح کھانسنے لگا۔۔۔ سوپ میں مرچی تیز تھی۔۔
ارے۔۔۔ارے بیٹا سنبھل کر۔۔ کیا ہوا سوپ زیادہ گرم ہے کیا۔۔؟
سطوت آراء نے فکر مندی سے اسے دیکھا۔۔۔
ضیاءالدین صاحب نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا۔۔۔
کچھ نہیں خالہ جان۔۔۔ بس سوپ تھوڑا تیکھا ہوگیا۔۔۔شاید۔۔
لیکن آپ فکر نہ کریں تیکھی چیزوں کو ٹھنڈا کرنا مجھے آتا ہے۔۔۔
اور نگاہ آبریش کے چہرے پر جمائی۔۔ جہاں بے نیازی سی بے نیازی چھائی تھی۔۔۔۔
آبریش مصالحہ دیکھ بھال کر ڈالا کرو۔۔۔ دیکھو تو ذرا بچے کی کیا حالت ہوگئی۔۔۔؟
وہ سچ مچ فکرمند تھیں۔
ماماجان۔۔۔ دیکھ بھال کر ہی ڈالا تھا۔۔ ہوسکتاہے مکافات عمل نے گھیرا ہو۔۔؟ آخر انسان کو اپنے اعمال پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔۔۔
نورین کھکھلا کر ہنس دی۔۔۔
Well said۔۔۔
آپ ہی کچھ مدد کریں عشال آپا۔۔۔ انھوں نے تو پارٹی ہی بدل لی۔۔۔this is not fair۔۔۔
اور خفگی بھرا منہ بنالیا۔۔۔
ہاں بھئی عشال تم بھی تو کچھ بولو۔۔۔؟ یہاں ہوکر بھی تم یہاں نہیں ہو۔۔۔
بالآخر نورین کے ضبط کا یارا نہ رہا۔۔
مجھے ہمیشہ سے بولنے سے زیادہ سننا پسند ہے۔۔۔ اور تم یہ جانتی ہو۔۔۔
عشال نے مختصر سی بات کہہ کر گویا جان چھڑائی تھی۔۔۔
پھر تو آپ کی ہونے والی سسرال بڑی خوش قسمت ہے پاکستان میں تو ننانوے فیصد سسرالیوں کو سنانے کا شوق ہے۔۔۔
ویسے مجھے بھی سننے والے لوگ بہت پسند ہیں خاص طور پر وہ جو صرف میری سنیں۔۔۔۔
وہ نان اسٹوپ بولتا چلا جارہا تھا۔۔۔ جب عشال درمیان میں ہی کہہ اٹھی
اکسکیوز می۔۔۔ اور ٹانگ سے ٹانگ اتارتی گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ البتہ تأسف سے اسے جاتا ضرور دیکھا۔۔
توبہ ہے زعیم کتنا فضول بولتے ہو تم۔۔۔ تمھاری وجہ سے ہرٹ ہوئی ہے وہ۔۔۔
سطوت آراء اور ضیاءالدین صاحب خاموش ہوچکے تھے
اوہو۔۔ میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔۔۔ ہاں ان کی تعریف ہی کی ہے۔۔۔۔ اور میری جرنل نالج کے مطابق لڑکیاں اپنی تعریف سن کر خوش ہوتی ہیں۔۔
زعیم اس الزام پر حیران تھا۔
کیا ضرورت تھی اس کے سامنے سسرال سسرال کی رٹ لگانے کی وہ بھی اسی کے حوالے سے۔۔۔؟
بائی گاڈ مجھے نہیں پتہ تھا وہ اس چھوٹے سے مذاق پر بھی خفا ہوسکتی ہیں۔۔۔؟
یہ بات اس کے لیے معمولی نہیں ہے۔۔۔
نورین پریشان تھی۔ ماحول یکدم سنجیدہ ہوچکا تھا۔۔۔
چھوڑیں نورین آپا کس کو سمجھانے کی کوشش کررہی ہیں۔۔۔؟
آبریش نے سرخی لیے چہرے کے ساتھ کہا۔
شفق بھری شام میں اس کا چہرہ بھی شفق چرائے ہوئے تھا۔۔
تم تو خاموش ہی رہو میڈم ہمیشہ میری آپی کے کان بھرتی رہتی ہو۔۔۔۔
واٹ۔۔۔ سمجھتے کیا ہو تم مجھے۔۔۔ میں کوئی بی جمالو ہوں۔۔۔؟
آبریش کا غصہ بھی سوا نیزے پر دھرا رہتا تھا۔۔۔
بس چپ اب تم میں سے کوئی ایک لفط نہیں بولے گا۔۔۔۔ اسپیشلی تم۔۔۔
نورین نے دونوں کو خاموش کروایا تھا۔۔۔ مگر توپوں کا اصل رخ زعیم کی طرف ہی تھا۔۔
اس کی جھڑکی کو دونوں ہی نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔۔۔
آئی ایم سو سوری خالہ جان۔۔۔ اور خالو جان میں آپ سے بھی ایکسکیوز کرتی ہوں۔۔۔۔ یہ تو بالکل گدھا ہے۔۔۔
نورین دل سے شرمندہ تھی اور ضیاءالدین صاحب اور سطوت آراء سے مخاطب تھی۔۔
مگر زعیم خاموش نہ رہ سکا۔۔۔
ایک منٹ اگر آپ سب کو لگتا ہے۔۔ میری وجہ سے وہ ہرٹ ہوئی ہیں تو۔۔۔ میں ان سے ابھی معافی تلافی کرلیتا ہوں۔۔۔،
اتنا کہہ کر اس نے قدم اٹھانا چاہا تھا کہ۔۔۔ ضیاءالدین صاحب نے اسے روک لیا۔ ۔۔
نہیں زعیم اس وقت رہنے دو۔۔۔ وہ ڈسٹرب ہوجائے گی۔۔۔۔
زعیم نے نورین کی طرف دیکھا۔۔۔ گویا پوچھنا چاہتا ہو کیا کرے، کیا نہ کرے۔۔۔۔؟
خالو جان ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔ یہ وقت مناسب نہیں، پہلے ہی ہم اسے کافی ڈسٹرب کرچکے ہیں۔۔۔
نورین کی آواز میں بھی اس کے لیے افسوس تھا۔۔۔
پھر وہ سطوت آراء اور ضیاءالدین صاحب سے رخصت چاہتی زعیم کو لے کر وہاں سے نکل آئی روح پر بھاری بوجھ لیے۔۔۔
*********
١٦/فروری ٢٠٠١١:
وہ دوڑتی چلی جارہی تھی۔۔۔ سرپٹ۔۔۔ کسی اسپ بےسوار کی مانند۔۔۔
بہار کی اولیں ہواؤں نے اس کے راستوں کو یخ بستہ کرڈالا تھا۔۔۔ دھونکنی سانس لگتا تھا زندگی گھونٹ ڈالے گی۔۔۔ ساتھ چھوڑتے حوصلے اور حواس مجتمع کرنے کی خاطر وہ دم بھر کو رکی تھی۔۔۔ دھڑکن سینہ توڑ رہی تھی اوس میں بھیگے کچھ پتوں نے اس کے قدموں میں گر کر جاتی خزاں کا ایک بار احساس دلایا تھا۔۔
وہ ایک ساعت کو سانس لینے رکی تھی۔۔۔ لیکن وہ رک نہیں سکتی تھی۔۔۔
تیز دوڑتے قدم اس کے تعاقب میں تھے۔۔۔ ہر گذرتے لمحے کے ساتھ یہ فاصلہ کم ہورہا تھا اور اس کی مہلت بھی۔۔۔۔
ہے۔۔۔ے۔۔۔۔ے۔۔۔ائی۔۔۔ی۔۔ی۔۔۔ی۔۔۔
صور جیسی چنگھاڑ اس کے کانوں میں گونجی تھی۔۔۔اور ایک بار پھر گرتے پڑتے قدموں کے ساتھ اس نے دوڑنا شروع کردیا تھا۔
مگر اب وہ اتنا تھک چکی تھی کہ قدم ساتھ دینے سے انکاری ہو چکے تھے۔۔۔
آ۔۔آ۔۔ہ۔۔ہ۔۔ہ کوئی کانچ زور سے پاؤں میں چبھا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس نے توازن کھویا تھا۔۔۔ توازن کے ساتھ ہوش بھی۔۔۔۔
اور وہ دشمن جاں اس کے سر پہ پہنچ چکا تھا۔۔۔
ایک آخری بار تاریک ہوتے مقدر کے ساتھ ایک نام ٹوٹ کر اس کے لبوں سے ادا ہواتھا۔۔۔
شامی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔۔ی۔۔۔
*********
وہ گلگت شہر میں تھا، ہینڈی کرافٹ کے ایک اسٹور سے آتشیں گلابی شال کندھے پر پھیلاۓ اس کی کوالٹی چیک کررہا تھا کہ الیکٹرونک آئٹمز کی دکان میں چلتے ٹی وی پر ایک ٹیکر نے اس کی توجہ کھینچ لی۔۔۔ خبر پورے زوروشور سے ببانگ دہل مچی ہوئی تھی۔۔۔
بائیس گریڈ کے سی۔ایس ایس آفیسر زبیر عثمانی ایک ارب کی کرپشن کے الزام میں گرفتار۔۔۔۔ان کے تمام اثاثہ جات منجمد کر کے ان کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کا آغاز۔۔۔۔ اس خبر نے جیسے اسے بھی منجمد کرڈالا۔۔ کچھ دیر تک وہ یونہی کھڑا تفصیلات سنتا رہا۔۔۔
پھر جیسے اسے یقین ہوگیا کہ وہ زندہ ہے۔۔۔ تو اس کے دماغ میں چبھی سوئیاں جھڑ جھڑ گرنے لگیں۔۔۔
اسے اب واپس جانا تھا اور اسے لوٹنا ہی تھا کہ کچھ فیصلے مقدر طے کرتا ہے۔۔۔
*********
کوئی بتاۓ گا۔۔۔، آخر میں نے کیا کیا ہے۔۔۔؟
زعیم سارے راستے نورین کا سر کھاتا رہا تھا۔۔۔اور اب گھر میں داخل ہوتے ہی شروع ہوگیا تھا۔۔۔
لیکن نورین جان چھڑانے کے موڈ میں تھی۔۔
بس کہہ دیا ناں سوچ سمجھ کر بولا کرو۔۔۔ تو جان کیوں جاتی ہے تمہاری اس کام سے۔۔۔؟
نورین کا موڈ تو اچھا ہوچکا تھا لیکن عشال کا سوچتے ہی دل عجیب سے درد کا شکار ہو رہا تھا۔ ایکسکیوز تو خیر میں کر لوں گا، لیکن پتہ تو چلے مجھ غریب پر فرد جرم ہے کیا؟
وہ باز نہیں آیا تھا۔
تمہیں اس سے ایسا مذاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔
کیوں۔۔۔؟
زعیم نے ترنت سوال کیا۔
اس لیے کہ شادی اور اس سے وابستہ الفاظ اس کے لیے تکلیف کی وجہ ہیں۔۔۔
نورین نے کھوۓ کھوۓ سے لہجے میں کہا۔۔۔
زعیم پر سوچ انداز میں ٹہلتا ہوا صوفے پر آن بیٹھا۔۔ (جس کی زحمت وہ کم ہی گوارا کرتا تھا)
ہاۓ کیا یاد کرادیا۔۔۔
“حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا”
نورین چونک کر ہنس پڑی۔۔ اس کی ہنسی بے ساختہ تھی۔
یاد تو خیر مجھے بھی ہے، کہ اس وقت تم نے کتنا رونا دھونا مچایا تھا۔
عشال آپا سے میں نے شادی کرنی ہے۔
زعیم خجل سا ہوا، مگر نورین کی ہنسی نہ تھمی،
بارہ سال کی عمر میں تم شادی کرنا چاہتے تھے عشال سے۔۔
مگر آہ ظالم سماج نے میری پہلی محبت کا ناس مار دیا تھا، اور اب بھی مذاق بنا رکھا ہے میرا!
زعیم کو نورین کے ہنسنے پر اعتراض تھا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت تھی، ایک دلچسپ حقیقت کہ عشال اس کا پہلا کرش تھی۔ صرف ایک کرش۔۔
نورین نے جواب نہیں دیا، بس ہنستی ہی چلی گئی۔۔۔ جیسے وہ وقت اور زعیم کا ردعمل اس کی آنکھوں کے سامنے ہو، اور اگر اس وقت سے کچھ پردرد یادیں وابستہ نہ ہوتیں تو آج عشال نورین سے زیادہ اس بات پر قہقہے لگاتی۔
عشال آپا کی کہانی کیا ہے۔۔۔۔؟ زعیم کے اچانک سوال نے نورین کی ہنسی کا گلہ یوں گھونٹا گویا کسی نے سوئچ آف کردیا ہو۔
بتائیں ناں آپی۔۔۔،کیا ہوا تھا عشال آپی کے ساتھ؟ ان کی پوری اسٹوری کیا ہے۔۔۔؟
زعیم پرتجسس نظریں لیے نورین سے سوال کناں تھا۔ اور نورین کی آنکھوں میں وقت ساکت ہوچکا تھا۔۔۔۔
عشال کی کہانی۔۔۔؟
*********
رات سبک روانی سے اپنا سفر طے کررہی تھی خزاں کی اولیں شام نے عشال زبرجرد کی زندگی کا نیا باب رقم کرنا شروع کیا تھا۔۔۔ چاند کی روشنی آکاش کے پردوں سے چھن چھن کر بالکونی کے فرش پر عکس چھوڑ رہی تھی۔۔ وہ بالکونی کی تازہ منڈیر سے لگی پام کے درخت پر نگاہ جماۓ کھڑی تھی، نئی رتوں نے ابھی صرف دن رات کا فرق کیا تھا۔۔۔
یعنی رات دن کے اجالوں کو جلد لپیٹ لیتی تھی اور دن بھی رات کی آغوش میں منہ چھپا لیتا تھا۔۔۔
وہ کبھی اس سرزمین پر قدم نہ دھرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
مگر اس کے پاؤں میں ابھی قسمت نے چکر لکھ رکھا تھا۔
اس صبح وہ نماز فجر ادا کر چکی تھی جب ضیاءالدین صاحب نے بنا لگی لپٹی اس سے کہا تھا۔
تمہارے یہاں رہنے کی صرف ایک صورت ہوسکتی ہے عشال!
پھر ضیغم سے تمھیں نکاح کرنا ہوگا۔۔۔
اس کے علاوہ دوسری کوئی صورت نہیں۔۔۔
اتنا کہہ کر وہ رکے نہیں تھے۔۔۔ عشال کو آندھیوں کی زد میں چھوڑ کر وہ ضیغم کے پاس جا چکے تھے۔۔۔
اور اس وقت عشال کی ساری مزاحمت دم توڑ گئی تھی کہ کچھ فیصلے مقدر کرواتا ہے۔۔
وہ پچیس دن کی تھی کہ اس کا ہر فیصلہ ان کے سایہ پروان چڑھا تھا۔۔۔ اسے کے ارادوں کی سد ذوالقرنین میں دراڑ کیسے ڈالنی ہے وہ کیوں نہ جان پاتے۔۔
*********
یادوں کے دریچے اس کے سامنے کھڑے پیپل کی طرح آج بھی ایستادہ تھے۔۔ فقط اس میں جابجا زرد لمحوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔۔۔ رت پیراہن بدل چکی تھی۔۔۔ آب شور پلکوں کی باڑھ پھلانگتا لبوں پہ کڑواہٹ چھوڑ گیا۔۔۔۔
سرما ٢٠١٠:۔
“اس شہر میں ایسی بھی قیامت نہ ہوئی تھی
تنہا تھے مگرخود سے تو وحشت نہ ہوئی تھی
یہ دن ہیں کہ یاروں کا بھروسہ بھی نہیں ہے
وہ دن تھے کہ دشمن سے بھی نفرت نہ ہوئی تھی
اب سانس کا احساس بھی اک بارگراں ہے
خود اپنے خلاف ایسی بغاوت نہ ہوئی تھی
اجڑے ہوئے اس دل کے ہر زخم سے پوچھو!
اس شہر میں کس کس سے محبت نہ ہوئی تھی
اب تیرے قریب آ کر بھی کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے تجھے کھو کر بھی ندامت نہ ہوئی تھی
ہرشام ابھرتا تھا اسی طور سے ماہتاب
لیکن دل وحشی کی یہ حالت نہ ہوئی تھی
خوابوں کی ہوا راس تھی جب تک مجھے محسن
یوں جاگتے رہنا۔۔۔۔ مری عادت نہ ہوئی تھی
(محسن نقوی)
وہ خاموش ہوچکی تھی مگر مجمع ابھی تک اس کی آواز کے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔
پھر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مسز نورالعین قریشی کے ہاتھوں کی آواز نے سب کو ہوش دلایا اور ہلکے گلابی رنگ کے اسکارف میں لپٹی اس باوقار سی طالبہ کے لیے ہر ایک کے دل میں ستائش و تحسین ابھری۔
تالیوں کا اک شور تھا جو ہر طرف سے امڈا پڑرہا تھا۔۔۔
وہ مسکراتی نظروں سے سب دیکھ رہی تھی اور بااعتماد نظرآتی تھی۔۔۔
مگر اس مجمعے میں کوئی ایسا بھی تھا جو اپنا غرور ہار گیا تھا۔۔
حالانکہ ان نگاہوں نے ابھی اسے صرف سنا تھا، دیکھا نہیں تھا۔
نہ ان گلابی عارض کی بہار دیکھی تھی نہ جھرنوں جیسی ناگن زلفوں کا نظارہ کیا تھا نہ ہی ان بھنور ایسی آنکھوں کو مشاہدہ کیا تھا، جو تخت و تاج بھلادینے کی طاقت رکھتی تھیں۔۔۔
پھر بھی۔۔۔۔ پھر بھی، وہ دل و جان فراموش کر بیٹھا تھا۔۔۔ اس نے عشال زبرجرد کا لہجہ سنا تھا۔۔۔۔
*********
یونیورسٹی کا پہلا اسٹوڈنٹ ویک شاندار رہا تھا اور نیو کمرز نے بھرپور انداز سےخود کو منوا لیا تھا۔۔ خاص طور پر سینئیرز کے ہاتھوں رگنگ میں اچھی طرح الو بننے کے بعد اس موقع پر خوب ان کی مٹی پلید کی گئی تھی ان مقابلوں میں جونیئرز میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہا تھا اور سینئیرز کو اپنے اعزازات کے تحفظ کے لیے کافی محنت کرنا پڑی تھی۔۔۔
اور اب یہی سب ڈسکس ہورہا تھا اس وقت، بی ایس سی فائنل میں زور و شور سے آنرز پارٹ ون موضوع گفتگو تھی،
بیعت بازی، قرأت،نعت خوانی اور مباحثوں میں ٹاپ آف دا لسٹ طالبات چھائی رہیں تو اسپورٹس میں لڑکے بھی پیچھے نہیں رہے تھے۔ البتہ ان مقابلوں میں ایک نام خاصا نمایاں رہا، اور وہ تھا عشال زبرجرد۔۔۔۔
یار فرسٹ ائیر میں اس بار ایک زبردست چیز آئی ہے۔۔۔
اچھا۔۔؟ نام کیا ہے اس کا؟
شازمین۔۔۔۔
لیکن یار وہ تو کرسچن ہے۔۔؟
کرسچین ہے تو کیا ہوا؟ ہم نے کون سا رشتہ داری جوڑنی ہے۔۔۔تھوڑا ٹائم پاس کریں گے اور بس۔۔۔!
ساتھ ہی ایک آنکھ دبائی۔۔
اس نے صاف دیکھا تھا، اس قسم کے اور دوسرے بہت سے تبصروں میں اس وقت تقریبا سب ہی لڑکے مصروف تھے مگر اسے ان خرافات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، کیونکہ اس کے ہاتھ مشاقی سے کسی اسکیچ کو بنانے میں مصروف تھے اور بظاہر وہ اردگرد سے بےنیاز نظر آتا تھا۔تب ہی ایک خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی مگر اس کی مصروفیت میں خلل نہ ڈال سکی۔۔
ایکسکیوز می؟
کسی نے اس کی فائل پر انگلی سے بجایا۔۔
آپ ہی شامی ہیں۔۔۔؟
اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا مخاطب کرنے والی ایک لڑکی تھی۔سیاہ کرتی اور ٹائیٹس کے ساتھ آنکھوں کو آئی لائنر اور کاجل سے سنوارے ہوئے چیلنجنگ انداز میں کھڑی تھی۔۔
خود کو میری کاٹ سے بچاسکتے ہو تو بچالو۔۔۔۔ اس کے انگ انگ سے پوٹھتی تحریر کو نظرانداز کرتا وہ گویا ہوا۔
What can i do for you؟
مطلب آپ ہی شامی ہیں!
اس بار لحجے میں تیقن تھا۔
میں کیسے آپ کو یقین دلا سکتا ہوں؟
اس نے بے نیازی سے پوچھا اور دلکش سا مسکرایا۔
وہ اشتیاق سے اس کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بولی۔
آپ میرا اسکیچ بنادیں گے؟
میں نے سنا ہے آپ بہت زبردست اسکیچز بناتے ہیں؟
دیکھیے مس۔۔۔؟
اس نے سوالیہ انداز میں لڑکی کو دیکھا، جو خاصی ایکسائیٹڈ نظر آرہی تھی
شازمین۔۔۔
اس نے جلدی سے اپنا تعارف کروایا۔
اوکے۔۔۔شازمین!آپ تھوڑا لیٹ ہوچکی ہیں میرے پاس فی الحال ٹائم بالکل نہیں۔۔سوری۔۔
اس کا چہرا یکدم بجھ سا گیا۔
پلیز! شامی۔۔۔؟ میری خاطر تھوڑا سا ٹائم نکال لین۔۔
میں wait کرلوں گی۔۔
شازمین اگر گنجائش نکل سکتی تو میں منع نہیں کرتا۔سوری!
اتنا کہہ کر وہ مصروف ہوگیا۔۔
اس کی پینسل اب ترچھے انداز میں کاغذ پر نقش ابھار رہی تھی۔
اسے اس طرح منہمک دیکھ کر لڑکی کو کچھ ہتک سی محسوس ہوئی۔
ٹانگ سے ٹانگ ہٹا کر سیدھی بیٹھی گویا جانے کو تیار ہو۔۔
پلیز شامی۔۔۔ آپ جو کہیں گے میں پے کرنے کےلیے تیار ہوں۔
اس کالہجہ اس بار سپاٹ تھا مگر مقابل کو جھلسا گیا
آپ کو شاید میری بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔
اینی وے۔۔۔میں یہ کام آپ جیسوں کےلیے ہرگز نہیں کرتا۔ کیونکہ یہ میرا شوق ہے، پروفیشن نہیں۔۔اس بار لہجہ خاصا روکھا تھا۔
اور پھر اپنے کاغذسمیٹتا کھڑا ہوگیا۔۔۔
ایک بات اور دوبارہ میرے سامنے مت آنا۔۔اب اگر میں فارغ بھی ہوا تو تمھارے لیے نہیں بناؤں گا۔۔
ایکسکیوز می۔۔
اور اسے نظرانداز کرتا کلاس روم سے باہر نکل گیا۔۔ اس کا موڈ خراب ہوچکا تھا۔
اور موڈ تو شازمین کا بھی خراب ہوگیا تھا کہ وہ خاص طور سے اسے ہی متوجہ کرنے آئی تھی اور بری طرح ناکام رہی تھی۔۔۔اسے شامی سے دوستی کرنی تھی۔۔۔۔
********
تم اس بار بھی اردو میں رہ گئے اشعر! آخر چکر کیا ہے؟ نورین نے ہنسی لبوں میں بھینچے اشعر سے پوچھا تھا جس نے ابھی ہی ان تینوں کو جوائن کیا تھا۔ آج ان سب کا اردو نارمل کا ٹیسٹ تھا اور حسب معمول اشعر کا موڈ سخت آف۔
مگر ٹیسٹ تو بہت آسان تھا؟
تنزیلہ نے کولڈڈرنک کا سپ لے کر کہا۔
تمھیں لگتا ہوگا “آسان”۔۔
میرے لیے تو جان کا عذاب ہے۔
اشعر سخت بیزار تھا۔
ایک بات بتاؤ اشعر۔۔۔
نورین نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا۔
سارے سبجیکٹس میں تم ٹھیک ٹھاک ہو مگر یہ اردو سے تمھیں کیا مسئلہ ہے؟
کالج میں بھی تمھاری اس سے جان جاتی تھی اور رو پیٹ کر تم نے اسے کلیئر کیا ہے؟
آخر پرابلم کیا ہے؟
(بظاہر انداز بڑا ہمدردانہ تھا مگر ان سب کے چہرے پر شرارت کھیل رہی تھی)
ہاں میں بھی یہ ہی سوچتا ہوں آخر اردو دان پروفیسرز کو مجھ سے کیا دشمنی ہے کہ ہمیشہ ایسے مشکل پیپرز تیار کرتے ہیں کہ۔۔۔ پھر جملہ ادھورا چھوڑ کر جیسے کچھ سوچا اور کہا
دراصل وہ چاہتے ہی نہیں کہ میں اوپر آؤں،ورنہ ایک یہ سبجیکٹ نہ ہو تو میں ٹاپ کرسکتا ہوں۔۔۔
اس نے ایک عزم سے بازو سینے پر ماراتھا۔
اس کے ساتھ ہی ان کے قہقہے ایک ساتھ گونج اٹھے۔۔۔
اشعر انھیں خفگی سے ہنستے یوۓ دیکھے گیا۔۔
اڑالو مجھ غریب کا مذاق۔۔۔ دیکھنا فائنل میں فزکس میں روؤ گے تم سب۔۔۔۔اور میں خوشی خوشی سارا پیپر کرونگا کسی ایک کی طرف بھی دیکھ لیا تو میں اشعر فاضل نہیں۔۔
تنزیلہ نے کہا
ٹھیک ہے ہم فزکس میں رولیں گے۔۔۔اور تم اردو میں۔۔۔
اس کے ساتھ ہی نورین کے ہاتھ پر تالی بجائی اور ایک بار پھر یونیورسٹی کا سبزہ زار ان کی خوبصورت ہنسی سے گونج اٹھا۔۔
اشعر نے بھی تنزیلہ کی پلیٹ سے برگر جھپٹ کر گویا حساب برابر کیا تھا۔
عشال جو اپنے جنرل میں ڈائی گرام بنانے میں مصروف تھی۔
اشعر نے اسے مخاطب کیا۔
عشال پلیز تم ہی تھوڑی ہیلپ کردو۔۔ یہ اردو تو اب سیریس مسئلہ ہوتا جارہا ہے۔۔پلیز؟
اس کے منہ میں اب بھی تنزیلہ کا برگر تھا۔ جس پر وہ فاتحہ پڑھ چکی تھی۔
عشال نے سر اٹھائے بغیر جواب دیا۔
اگر آپ ہیلپ لینے میں سنجیدہ ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔
واقعی۔۔۔؟
اشعر نے بےیقینی سے اسے دیکھا۔
وہ کبھی لڑکوں سے بےتکلف نہیں ہوتی تھی۔ اس گروپ میں اشعر بھی صرف تنزیلہ کی وجہ سے شامل تھا۔ ان کا نکاح ہوچکا تھا اور پھر اشعر کا انداز اسقدر سلجھا ہوا اور مناسب تھا کہ نورین کو یا عشال کو کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی۔
نورین تنزیلہ اور اشعر کالج میں بھی ساتھ ہی تھے جبکہ یونیورسٹی میں عشال کو نورین نے ہی اپنے ساتھ گھسیٹا تھا۔
یس۔ اشعر۔۔۔مجھے آپ کی ہیلپ کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
اشعر کا مسئلہ حل ہوگیا تھا۔۔۔ مگر ان سے کچھ ہی فاصلے پر کوئی اور بھی اس گفتگو کو بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔۔۔ وہ غیر محسوس انداز میں عشال کی سرگرمیوں اور دلچسپیوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
*********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...