ندا اس وقت کمرے میں تنہا تھی۔ سعدیہ بیگم ابھی ابھی کمرے سے باہر گئ تھی۔ مہک اور باقی سب بھی مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ ندا کو اب تھوڑی تھوڑی گبھراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ سعد کا بھی کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔
چند لمحوں بعد اسے باہر سے غیر معمولی شور محسوس ہوا۔ وہ کسے انجانے احساس کے تحت اپنی میکسی سنبھالتی کھڑکی تک چلی آئ۔ اور باہر کا منظر دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئ۔
باہر سعد گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا۔ دور سے بھی سعد کو چہرے پر اڑتی ہوائیاں اسے صاف نظر آرہی تھی۔ اس کے گرد اس کے دوست بنگڑا دالنے میں مصروف تھے۔ ندا نے بے اختیار اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔
وہ جانتی تھی سعد کو گھوڑے سے کتنا ڈر لگتا ہے۔ اوپر سے اس کے دوستوں ںے بنگڑے ڈال کر شادی کا سا ماحول بنایا ہوا تھا۔
وہ سب اب بنگڑے ڈالتے سعد کو لئے سٹیج کی طرف بڑھ رہے تھی جو لان میں ہی ایک طرف بنایا گیا۔
ندا کو اپنے اندر ہلچل سی ہوتی محسوس ہوئ۔ وہ خوبصورت مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ واپس بیڈ تک آگئ۔
چند لمحوں بعد مہک اور عنایہ اندر چلی آئ۔
” بل بھئ اٹھ۔آپ کے محبوب صاحب بے صبری سے آپ کا انتظار کررہے ہے۔ دس دفعہ پوچھ چکے ہے آپ کا۔۔۔” مہک نے شرارت بھرے لہجے میں کہا تو ندا کے گال سرخ ہوۓ۔ دل نے ایک دم راگ الاپنا شروع کر دیا۔
محبت بھرا راگ۔۔
وہ خوش تھی۔۔
بہت خوش۔۔۔
وہ حیران تھی۔۔
بہت حیران۔۔۔
کہ دعائیں اس طرح بھی قبول ہوتی ہے۔۔۔
کہ تقدیریں ایسی بھی ہوتی ہے۔۔۔
بغیر کسی دیوار کے۔۔۔
بغیر کسی مشکل سے۔۔۔
کسی آزمائش سے خالی۔۔۔
اتنی خوبصورت تقدیر اس کے حصے میں آئ تھی۔۔
یہ خوبصورت احساس اس کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔۔
اس طرح کہ وہ اپنا ماضی بھول چکی تھی۔۔
وہ بھول گئ تھی کہ وہ ایک شخص کے جزبات سے کھیل آئ ہے۔
کبھی بھولے سے ماضی کا خیال آ بھی جاتا تو وہ سر جھٹک دیتی۔۔ کہ سعد اب اس کا محافظ ہے۔۔
لیکن وہ غلط تھی۔۔
اصل محافظ تو بس اللّٰہ ہے۔ ۔۔
اپنے بندوں کا۔۔۔۔
وہ حفاظت کرتا ہے اپنے بندوں کی۔۔
شر سے۔۔!!
ندا کو مہک اور عنایہ باہر لے آئ اور پھر اسے سعد کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔ ندا کو مہک نے گھونگھٹ اوڑھایا ہوا تھا۔ جس پر سعد نے بھر پور احتجاج کیا تھا۔
” کوئ بات نہیں۔ یونی میں بھی تو آپ اسے سارا دن دیکھتے ہی تھی نہ۔ ایک دن نہیں دیکھے گے تو کوئ مسئلہ نہیں ہو جاۓ گا” مہک نے لا پروائی سے کہا۔
” جی نہیں۔ میں وہاں پڑھنے جاتا ہوں۔ ندا کو دیکھنے نہیں۔ اور نہ ہی یہ روز اس طرح تیار ہو کر آتی ہے۔ ہٹاؤ یہ چھ فٹ کا پردہ۔” سعد نے اب کی بار روٹھے لہجے میں کہا تو سب لڑکیاں ہنس پڑی۔
” ویسے سعد مجھے پتہ ہے ان فقیرنیوں نے بھابھی کو یہ چھ فٹ کا پردہ کیوں اوڑھایا ہے” یہ زمان تھا۔ چونکہ سب آپس میں یونی فیلوز بھی تھے اس لیے زمان نے سارے لحاظ بلاۓ تاک رکھ دیے تھی۔ جس پر لڑکیوں نے اسے گھورا جبکہ لڑکا پارٹی قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔
” ہاہاہا۔ مانی تیرا مطلب ہے یہ پیسے مانگ رہی ہے” موئذ نے ہنستے ہوۓ اس کی بات کا مطلب نکالا جس پر زمان نے زور سے سر ہلا کر اس کی بات کی تصدیق کی۔
” اووو۔۔۔ کافی ذہین دیور ہے تمھارے دیور تو کافی ذہین ہے۔ ماشاءاللہ۔۔اب سمجھ ہی گۓ ہے تو دیر کس بات کی۔۔ نکالیے پچاس ہزار۔” سدا کی ڈھیٹ مہک نے جھٹ سے کہا۔ سب لڑکے اس کے ڈٹائ کے مظاہرے پر مسکرا دیے۔
“اوووو۔۔ تو محترمہ کو پچاس ہزار چاہیے۔۔” زمان نے مزاحیہ خیز لہجے میں کہا۔
” جی پچاس ہزار۔ دیں اور سعد وقار صاحب اور دلہن کے نظارے کرلیں۔ ورنہ بھول جاۓ کہ آپ کے پہلو میں کوئ بیٹھا ہے” اب کی بار عنایہ نے مزے لے کر سعد کو دھمکی امیز لہجے میں مخاطب کیا۔
” اوۓ اوۓ موزی۔ چل جانی دے دے جو کہہ رہی ہے۔ ہم بعد میں حساب کتاب کرلیں گے نہ۔ ابھی جانے دیں۔” سعد نے فورا موئذ کی منت کرتے ہوۓ کہا۔ جس ہر لڑکوں نے سٹپٹا کر اسے گھورا جبکہ لڑکیاں ہنس پڑی۔
” اوۓ تو چپ کر۔ ایسے کیسے دے دے ان کو پچاس ہزار۔ مفت میں تھوڑی آتے ہے پچاس ہزار۔ اتنے مشکل سے کما کر اپنی خواہشات مار کر جمع کرتے ہے۔۔ اب وہ مفت میں ان کو پکڑا دیں۔۔ ان کو جنہوں نے کبھی پچاس ہزار کی شکل بھی نہ دیکھی ہو گی”
موئذ نے فورا کہا تو لڑکوں کا قہقہہ گونجا۔
” سوچ ہے آپ کی۔ آپ لوگوں کو تو جمع کرنے پڑتے ہے ہمیں تو پاکٹ منی ہی اتنی ملتی ہے کہ جمع نہیں کرنے پڑتے۔ بلکہ تم لوگ شکر کرو کہ ابھی صرف پچاس ہزار ہی مانگ رہے ہیں۔ حیثیت ہماری اس سے ڈبل کی ہے” عنایہ نے تھوڑے مغرور لہجے میں کہا۔
“اف اف اف۔۔۔ بہت ہی مفت خوریں ہو تم لوگ تو بھئ۔ کچھ سیکھوں ہم سے۔ خون پسینے کی کمائی ہوتی ہے ہماری۔ آپ کی طرح گھر بیٹھ کر مفت میں نہیں کھاتے۔ اور اوپر سے منگنی پر مانگ رہی ہے۔۔۔ منگنی پر بھلا کون مانگتا ہے۔۔؟؟” اب کی بار شارق نے جواب دیا تو لڑکوں نے ہوٹنگ شروع کردی۔ اور پھر بڑوں کے بیچ بچاؤ کرانے پر بحث بیس ہزار پر رک گئ۔
ندا کا گھونگھٹ اتارا گیا تو سعد کی نظریں جیسے اس پر جم۔سی گئ۔ بے اختیار اس کے لبوں سے “ماشاءاللہ” نکلا جو ندا کے گالوں کو دہکا گیا۔
سب کی موجودگی میں سعد نے ندا کی مرمری انگلی میں انگوٹی سجا دی۔۔۔!!
سب نے مسکراتے ہوۓ یہ منظر دیکھتے ہوۓ اس خوبصورت جوڑے کو دعائیں دی۔
اور پھر بارہ بجے کے قریب یہ تقریب بخیر و عافیت تمام ہوئی۔
فہیم بستر ہر دراز گہری سوچوں میں غرق تھا۔ وہ آج صبح ہی دبئی سے واپس آیا تھا۔ اس ایک ہفتے میں اس نے خود کو دن رات کاموں میں الجھا بمشکل خود کا سنبھال لیا تھا مگر اب ندا کا تصور اس کے ذہن کے پردے پر جیسے چپک سا گیا تھا۔ وہ ایک یاد اس کے پردے پر لہرائی۔
” ندا” ندا کچن میں کھڑی کچھ بنا رہی تھی جب فہیم نے اس کے پیچھے جا کر ہولے سے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی تھی۔
” اوو فہیم بھائی آپ۔۔!! اآپ کب آئے۔” ندا دڑ کر اور پھر سنبھل کر اس سے پوچھا۔
” بس ابھی ابھی آیا ہوں۔اور تمھیں میں نے کتنی باد منع کیا ہے مجھے بھائی نہ بولا کرو” اس نے تھوڑے غصے سے ندا کو باور کروایا۔ تو وہ بنا کچھ کہے بس مسکرا کر واپس چولہے کی طرف متوجہ ہوگئ۔
یہ فہیم کے اسلامآباد جانے سے دو دن پہلے کی بات تھی۔ اور اس نے اس وقت بھی اسے نہیں ٹوکا تھا۔ اس طرح اس کے مسکرا کر کچھ نہ کہنے ہر وہ اس کے جزبات کو ہوا دے گئ تھی۔ اور نہ ہی وہ بچی تھی کہ سمجھ نہ پاتی۔۔۔
یہ سب باتیں فہیم کو تیش دلا رہی تھی۔۔ اسے وہ مسکراہٹ سے نفرت سی محسوس ہو رہی تھی۔۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ مسکراہٹ اس کا مزاق اڑا رہی ہو۔
” اگر تم مجھے ایک دفعہ بھی روکتی تو رک جاتا۔۔ سمجھ جاتا۔۔ مگر تم نے یہ سب نا جانے کس بات کا بدلہ لیا ہے۔۔ تم۔نے میرے سچے جذبات کا مزاق اڑایا ہے۔ کہیں کا نہیں چھوڑوں گا میں تمھیں۔۔ نہ تمھیں اپنا بناؤ گا نہ کسے اور کے لیے رہنے دوں گا۔۔
یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔ جان فہیم۔۔!!” وہ بڑبراتا آخر میں تلخی سے مسکرایا۔
اور پھر وہ کچھ سوچتا اٹھ بیٹھا۔ سائڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھا کر کسی کا نمبر ملاتا اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔۔
مایا اور عنایہ دونوں لائبریری میں بیٹھی تھی۔عنایہ نے ندا۔ کی منگنی پر دو دن کی لیو لی تھی۔۔ ان دنوں کے نوٹس وہ اب بنا رہی تھی۔ اور مایا ساتھ بیٹھی اس کی مدد کررہی تھی۔ مگر عنایہ کب سے دیکھ رہی تھی کہ مایا آج کچھ غائب دماغی سے بیٹھی ہے۔
“ماہی” عنایہ سے رہا نہ گیا تو وہ پین بند کرتی اسے پکارنے لگی۔ مگر وہ سامنے رکھے کاغذ پر نظریں جمائے نجانے کیا ڈھونڈنے میں مصروف تھی کہ عنایہ کی آواز پر بھی سر اٹھا کر اسے نہ دیکھا۔
مایاااا” اب کی بار عنایہ نے اس جا کندھا ہلاکر ٹھوڑا زور سے اسے پکارا تو اس نے چونک کر سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
” کیا” وہ فقط ایک لفظ بول کر چپ ہو کر اسے دیکھنے لگی تو عنایہ کو پریشانی نے آگھیرا۔
” مایا۔۔ میری جان کیا ہوا ہے تمھیں۔کسی نے کچھ کہا ہے کیا۔۔ بولو۔۔ اتنی چپ چپ کیوں ہو تم۔۔ ” عنایہ نرمی سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں کے کر استفسار کرنے لگی۔
” ہمم آنی۔۔” وہ اس کے استفسار کرنے پر خاموش نہ رہ سکی۔ وہ بےشک وہ اللّٰہ کو سب بتا آئی تھی۔ اور پرسکون بھی تھی۔ مگر جو بات اسے کھٹک رہی تھی۔ جس کے بارے میں وہ مسلسل سوچ رہی تھی وہ شعیب کا پرسکون انداز تھا۔ وہ اب پچھلے دو دنوں سے بلکل خاموش تھا۔ اسے زبان سے تنگ کرنا چھوڑ بکا تھا البتہ نظروں نے تنگ کر نا ابھی نہیں چھوڑا تھا۔ مایا کو اس کی یہ خاموشی کسی بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی سے کسی طرح بھی کم نہ لگی تھی۔ یہی بات اسکو مسلسل پریشان کررہی تھی۔
وہ شروع سے آخر تک سب کچھ عنایہ کو بتاتی چلی گئ۔
” اتنا کچھ ہوگیا اور تم مجھے اب بتا رہی ہو” عنایہ نے کچھ خفگی سے کہا تو مایا نے مسکرا کر اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا۔
“سوری۔۔۔ آئیندہ ایسا کچھ ہوا تو سب سے پہلے تمھیں ہی بتاؤ گی اوکے ۔۔۔”
” اوکے۔۔۔ تم نے موئذ بھائی کو بتایا کچھ؟؟”
” نہیں یار۔۔ فلحال نہیں بتایا۔ لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔۔” وہ کھوۓ کھوۓ سے انداز میں بولی۔
” اللّٰہ نہ کرے۔۔ کچھ نہیں ہوگا میری جان۔۔ انشاء اللہ۔۔ اور میرا مشورہ یہی ہے کہ تم اپنے بھائی کو سب بتا دو وہ خود ہی ہینڈل کر لے گے اسے۔۔”
” ہمم سوچوں گی۔۔” اس نے کہا تو عنایہ نے گہری سانس لے کر مایا کی طرف دیکھا۔۔
” یااللہ اس کی زندگی سے سارے درد نکال دیں۔ میرے حصے کی خوشیاں بھی مایا کو دیں دیں۔” بے اختیار اس نے دل سے دل میں دعا کی۔۔
دن پر لگا کر اڑتے چلے جا رہے تھے۔
جہاں ندا اور سعد کے پیپرز کے دن قریب آرہے تھے وہی ان کی ماؤں کو شادی کی تیاریوں کی فکر ستاۓ جا رہی تھی۔
سعد ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی پڑھ کر فارغ ہوکر لیٹ گیا تھا۔
اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور پھر کچھ یاد آنے پر مسکرا دیا۔
منگنی کے ایک ہفتے بعد جب فہیم کو اس نے گھر پہنچنے پر فون کیا تھا تب فہیم سخت ناراض ہوا تھا کہ اس نے اسے کیوں نہ بتایا کہ اس کی منگنی ندا سے ہو رہی ہے اور وہ ہماری فیملی کا ممبر بننے جا رہا ہے۔ تب فہیم نے بنا اس کی کچھ سنے فون بند کر دیا تھا۔ اور سعد سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا کیونکہ فہیم کو منانا اس کو دنیا کا سب سی مشکل کام لگتا تھا۔ مگر وہ تھوڑا الجھا بھی تھا کہ وہ اتنی سی بات پر اتنا ناراض کیوں ہو رہا ہے۔ اور پھر اس سے تھوڑے دن بعد بات کرنے کا ارادہ کرتا وہ پڑھائی میں مصروف ہو گیا۔
آج وقت ملنے اور اس کی یاد آنے پر اس نے مسکراتے ہوۓ فہیم کا نمبر ملا کر فون کان سے لگا لیا۔
چند لمحوں بعد فون اٹھا لیا گیا۔
” ہیلو” دوسری ظرف سے آواز سنائی دی
” اسلام و علیکم۔۔ کیسا ہے۔” سعد نے پوچھا۔
” وعلیکم السلام۔۔ میں ٹھیک تو سنا”۔
” الحمدللہ تھیک تھاک۔۔۔ کدھر ہے یار تو۔ تیرا تو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا ہمیں۔ خود تو تجھے ہماری یاد آتی نہیں ہے۔”
” میں تو انگلینڈ آیا ہوا ہوں” دوسری طرف سے اتنا مختصر جواب ملنے پر وہ چونکا۔
” کیااااا۔۔۔ تو وہاں کیوں گیا۔۔۔ کب گیا۔۔ اور ہمیں بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ تو۔ مجھ سے ناراض ہو کر گیا ہے نہ۔ دیکھ سوری۔ میں بس تجھے سرپرائز دینا چاہتا تھا۔۔ اس لیے تمھیں نہیں بتایا۔ ”
” نہیں یار بس ایک کام کے سلسلے میں آیا ہوں”
” ہمم۔۔ اوکے مان لیا۔۔۔ پھر واپسی کب تک ہے تیری۔ اب شادی میں تو آئے گا نہ یا وہاں بھی بہانے بناۓ گا”
ہاں ہاں۔۔۔ اگر شادی ہوئی تو ضرور آؤ گا۔۔” دوسری طرف سے کچھ پراسرار لہجے میں کہا گیا۔۔ سعد الجھ کر رہ گیا۔۔
” کیا مطلب”
” ہنہ ہنہ۔۔ کچھ نہیں منے۔۔” دوسری طرف سے ہنستے ہوۓ کہا گیا۔
” ہمم” اسے کچھ عجیب سا لگا اس کی ہنسی میں۔
٫ ہاں چل اب میں جا دہا ہوں۔ کام کررہا تھا ایک ضروری۔ اور ہاں زیادہ ٹینشن نہ لے میں تجھ سے ناراض نہیں ہوں بس ایک کام تھا ضروری۔۔ برڈن پڑ گیا تھا تو تجھے بتا نہیں سکا۔اور شادی کی بھی فکر نہ کر میں ضرور آو گا۔۔۔” سعد کے تنے ہوۓ تاثرات اس کی بات پر کافی حد تک بحال ہوۓ۔
دوسری طرف سے اللّٰہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا گیا۔
ﻧﺪﺍ ﺍﭘﻥﮯ ﮐﻣﺮﮮ ﻡﯿﮟ ﭘﮍﮬﻥﮯ ﻡﯿﮟ
ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺕﮭﯽ ﺟﺐ ﺳﻮﻥﯿﺍ
ﺏﯿﮕﻡ
ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻭﺉﯽ۔
” ﻧﺪﺍ ﮐﯿﺍ ﮐﺭﺭﮨﯽ ﮨﻭ”
” ﭘﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﺕﮭﯽ۔۔ ﻣﺎﻣﺎ”
ﺑﺎﮨﺭ ﺁﺟﺎﺅ۔ﺗﻢﮭﺍﺭﮮ ﭼﺍﭼﻭ ﭼﺍﭼﯽ ”
ﺁۓ ﮨﻭﺉﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﻨﺎﯾﮧ ﺏﮭﯽ ﺁﺉﯽ
ﮨﮯ۔۔
ﺁﮐﺭ ﻣﻞ ﻟﻮ” ﺍﻥﮩﻭﮞ ﻥﮯ ﮐﮩﺍ ﺗﻮ
ﮐﭽﮫ
ﯾﺍﺩ ﺁﻥﮯ ﭘﺭ ﻭﮦ ﯾﮑﺩﻡ ﭼﻭﻥﮑﯽ۔
ﮐﯿﺍ ﻣﻄﻠﺐ۔ ﻑﮩﯿﻡ ﺏﮭﺍ۔۔ﺉﯽ
ﻥﮩﯿﮟ ”
ﺁﺉﮯ ﮐﯿﺍ۔” ﺏﮭﺍﺉﯽ ﮐﮩﺕﮯ ﮨﻭﺉﮯ
ﺍﯾﮏ
ﺍﻭﺭ ﯾﺍﺩ ﻥﮯ ﺝﯿﺱﮯ ﺍﺱ ﭘﺭ ﺣﻤﻞﮧ
ﮐﯿﺍ
ﮐﯽ ﺏﮭﺍﺉﯽ ﮐﮩﺕﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺯﺑﺎﻥ
ﻝﮍﮐﮭﮍﺍ ﮔﺉﯽ۔ ﺯﮨﯿﻥ ﻡﯿﮟ ﺍﯾﮏ
ﺁﻭﺍﺯ
ﮔﻭﻧﺠﻦﮯ ﻝﮕﯽ۔
ﻣﺞﮭﮯ ﺏﮭﺍﺉﯽ ﻣﺖ ﮐﮩﺍ ﮐﺭﻭ”
ﺍﺱﮯ ”
ﺏﯽ ﭼﯿﻥﯽ ﺱﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻭﺉﯽ
ﺍﯾﺱﮯ
ﺝﯿﺱﮯ ﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﮐﺭ ﺁﺉﯽ ﮨﻭﮞ۔
ﮐﭽﮫ ﺏﮩﺕ ﻏﻠﻂ۔۔
!!ﺟﺎﻧﺖﮯ ﺑﻮﺝﮭﺕﮯ۔۔۔
ﻥﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﻥﮩﯿﮟ ﺁﯾﺍ۔ ﺍﺏﮭﯽ ”
ﻧﻒﯿﺱﮧ ﺑﺘﺎ ﺭﮨﯽ ﺕﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﻓﺖﮧ ﺭﮐﻥﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﻥﮕﻝﯿﻧڈ ﭼﻻ ﮔﯿﺍ ﮨﮯ۔۔ ﭘﮩﻝﮯ ﻭﮦ ﺳﻤﺞﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻭﺉﯽ ﺁﻓﺲ ﻭﺭﮎ ﮨﻭﮔﺍ ﻡﮕﺭ ﭘﮭﺭ ﺣﺴﻦ ﺏﮭﺍﺉﯽ ﺱﮯ ﭘﻭﭼﮭﺍ ﺗﻮ ﺍﻥﮩﻭﮞ ﻥﮯ ﮐﮩﺍ ﮐﮧ ﺁﻓﺲ ڈﯾﻝ ﺗﻮ ﮐﻭﺉﯽ ﻥﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﻓﻠﺤﺎﻝ۔ ﺗﻢﮭﺍﺭﯼ ﻣﻦﮕﻥﯽ ﭘﺭ ﺏﮭﯽ ﻥﮩﯿﮟ ﺁﯾﺍ۔ ﭼﮑﻭ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻊﯽ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺕﮭﺍ ﻡﮕﺭ ﺑﻌﺪ ﻡﯿﮟ ﻣﺒﺎﺭﮐﺑﺎﺩ ﺏﮭﯽ ﻥﮧ ﺩﯼ۔” ﺳﻮﻥﯿﺍ ﺏﯿﮕﻡ ﺵﮑﻭﮮ ﮐﺭﻥﮯ ﻝﮕﯽ ﮐﯿﻭﻥﮑﮧ ﻑﮩﯿﻡ ﺍﻥﮩﯿﮟ ﺏﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻋﺰﯾﺯ ﺕﮭﺍ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﺱﯽ ﺣﺪ ﺕﮏ ﻭﮦ ﻑﮩﯿﻡ ﮐﮧ ﺧﻮﺍﮨﺵ ﺏﮭﯽ ﺟﺎﻧﺖﯽ ﺕﮭﯽ۔۔
ﺍﻥﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﺪﺍ ﮐﮯ ﺭﺩﻋﻤﻞ ﺱﮯ ﺏﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﻝﮕﺍ ﺕﮭﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺏﮭﯽ ﺍﺱﮯ ﭘﺳﻨﺪ ﮐﺭﺕﯽ ﮨﮯ۔ ﻡﮕﺭ ﺍﺱ ﺩﻥ ﻧﺪﺍ ﮐﮯ ﻣﻦﮧ ﺱﮯ ﺳﻌﺪ ﮐﺍ ﻧﺎﻡ ﺳﻦ ﮐﺭ ﺡﯿﺭﺍﻥ ﺭﮦ
ﮔﺉﯽ ﺕﮭﯽ۔
ﻡﮕﺭ ﺏﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺵﯽ ﺍﻥﮩﯿﮟ ﺯﯾﺍﺩﮦ ﻋﺰﯾﺯ ﺕﮭﯽ۔ ﻧﺪﺍ ﻏﺎﺋﺐ ﺩﻣﺎﻍﯽ ﺱﮯ ﺍﻥﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﺉ۔ ﺍﺱ ﮐﺍ ﺩﻣﺎﻍ ﺗﻮ ﭘﮩﻝﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺭ ﮨﯽ ﺍﭨﮏ ﮔﯿﺍ ﺕﮭﺍ۔
” ﻭﮦ ﻥﮩﯿﮟ ﺁﯾﺍ۔ ﺗﻮ ﮐﯿﺍ ﻭﮦ ﺍﺗﻨﺎ ﺁﮔﮯ ﺏﮍﮪ ﭼﮑﺍ ﮨﮯ۔ ” ﻧﺪﺍ ﺟﻮ ﻣﺤﺾ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻭ ﻭﻗﺖ ﮔﺯﺍﺭﯼ ﺳﻤﺞﮫ ﮐﺭ ﺟﻮﺍﺑﺎ ﻣﺰﺍﻕ ﮐﺭ ﮐﮯ ﺍﭘﻧﺎ ﻭﻗﺖ ﮔﺯﺍﺭﺕﯽ ﺕﮭﯽ ﺍﺱﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺏﮩﺕ ﻋﺞﯿﺏ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻭ ﺭﮨﺍ ﺕﮭﺍ۔ ﻧﻔﺲ ﺱﮯ ﮨﺍﺭ ﮐﺭ ﺳﻮﯾﺍ ﮨﻭﺍ ﺿﻢﯿﺭ ﺁﺝ ﻧﻔﺲ ﮐﻭ ﺳﺴﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺭ ﺟﺎﮒ ﺭﮨﺍ ﺕﮭﺍ۔
ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ” ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ ﺁﺋﯽ ﮨﻮﮞ” ﻭﮦ ﻏﯿﺮ ﻣﺮﺍﺋﯽ ﻧﻘﻄﮯ ﭘﺮ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺟﻤﺎﺋﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺿﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺳﻦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻧﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ” ﺳﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﮯ ﻧﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺑﺎ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺘﯽ” ﺍﮔﻠﮯ ﮨﯽ ﭘﻞ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻔﺲ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺎﮒ ﺍﭨﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻧﻔﺲ ﺍﻭﺭ ﺿﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ۔ ﻭﮦ ﺳﺮ ﺟﮭﭩﮑﺘﯽ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﮐﺮ ﺣﺴﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻭﺭ ﻧﻔﯿﺴﮧ ﺑﯿﮕﻢ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﻭﮦ ﻋﻨﺎﯾﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﺩﮬﯿﺎﻥ توکہی ماضی میں اٹک چکا تھا۔ ۔۔۔
فہیم بستر پر دراز فون کان سے لگائے کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔
” ہمم نہیں یہ جگہ کافی دور ہے۔ مجھے کہی آس پاس ہی جگہ چاہئے” وہ پر سوچ انداز میں بول رہا تھا۔
” ہاں اسکا گھر ٹھیک رہے گا۔ بس تم انتظامات دیکھ لینا۔ مجھے فلحال کچھ سمجھ نہیں آرہا۔” دوسری طرف سے بات سننے کے بعد اس نے کہا اور پھر الوداعی کلمات کہہ کر فون رکھ دیا۔
اس کے چہرے پر استہزایہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
” تم نے مجھے محبت کا احساس دلا کر کسی اور کو اپنے دل میں جگہ دے کر غلط کیا ہے۔۔۔ تم نے مجھے دھوکہ دے کر غلطی کردی ہے۔۔۔ جان فہیم۔۔ اور ہر غلطی کی سزا ہوتی ہے” فہیم بڑبڑایا
لیکن یہ سب کرتے۔۔
یہ سب سوچتے وہ اپنے اللّٰہ کو بھول رہا تھا۔
وہ بھوک رہا تھا،،،
کہ عزت و ذلت تو بس اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔!!