“تم ایسے نہیں جا سکتے۔”
“کیوں؟”
“میرا کام کیے بغیر تو میں تمہیں نہیں جانے دو گی۔ اب بولو میرا کام کرو گے یا نہیں؟”
“نہیں ۔” اس نے یک لفظی جواب دیا۔
“میں یہ چلا دوں گی۔” اس نے ٹریگر پر دباؤ بڑھاتے ہوئے دھمکی دی۔
“مجھے تمہارے اس روپ پر حیرت ہونی چاہیے مگر نہیں ہو رہی۔ جانتی ہو کیوں؟ کیوں کہ جو لڑکی محبت ،خلوص اور دوستی جیسے رشتے میں دھوکہ دے سکتی ہے وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ چلاؤ گولی تاکہ مجھے یقین ہو سکے کہ اس معصوم چہرے کے پیچھے واقعی ہی اتنا بھیانک چہرہ چھپا ہوا ہے۔ کم آن علیزہ شوٹ می تاکہ مجھے میرے اس گناہ کی سزا مل سکے جو میں نے تمہارے لیے اپنی ماما سے جھگڑ کر کیا تھا۔ دانین ٹھیک ہی کہتی تھی تم جیسی لڑکیاں واقعی ہی قابل نفرت ہوتی ہو ۔” ارتضی کا لہجہ نفرت آمیز تھا۔
“تمہاری اس دانین کی تو۔۔”
خبردار جو گولی چلائی تو۔” ایک کڑک دار آواز پر دونوں نے مڑ کر دیکھا تو دروازے پر پولیس اہلکار کھڑے تھے۔
“گن رکھو نیچے اور ہاتھ اوپر کر لو ورنہ گولی چلا دوں گا۔” انسپیکٹر نے سخت لہجے میں کہا تو علیزہ نے غصے میں اس کو گھورتے ہوئے گن نیچے پھینک دی۔ انسپیکٹر کے اشارے پر ایک لیڈی کانسٹیل آگے بڑھ کر اسے ہتھکڑی لگانے لگی۔
“آپ ٹھیک ہیں؟” انسیپکٹر نے ارتضی سے پوچھا.
“جی اللہ کا شکر ہے ۔” اس نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔
“لے چلو انہیں زرا تھانے چل کر ان سے تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔” انسپیکٹر کے حکم پر لیڈی کانسٹیبل اسے باہر کی طرف کھینچتی ہوئی لے گئی۔ اس کے پیچھے وہ سب بھی باہر نکلے۔
“سر آپ کو کیسے علم ہوا؟” ارتضی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انسپیکٹر سے پوچھا.
“ہمیں ایک کال موصول ہوئی تھی کہ یہاں پر منشیات کے سلسلے میں ایک لڑکی موجود ہے اور شاید وہ کسی کو بلیک میل کر کے ڈرگز سمگل کرنے کی کوشش کرے۔ خدا کا شکر ہے ہم وقت پر پہنچ گئے ورنہ جانے وہ پاگل لڑکی کیا کرتی۔”
“بہت شکریہ سر ۔” ارتضی نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
پولیس کی گاڑی چلی جانے کے بعد وہ کافی دیر تک وہیں کھڑا رہا اور پھر سر جھٹک کر اپنی گاڑی کی طرف آیا۔ اس سے کچھ دور ایک درخت کے سائے تلے کھڑی گاڑی میں بیٹھی دانین اس کو صحیح سلامت دیکھ کر گاڑی سٹارٹ کرتی وہاں سے چلی گئی۔ وہ ٹھیک تھا اور علیزہ نامی بلا بھی اس کے سر سے ٹل چکی تھی اس کے لیے یہی کافی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچن میں کھڑی اپنے آپ میں مگن دوپہر کا کھانا بنا رہی تھی کہ کچن میں کسی کے قدموں کی چاپ سن کر پلٹی تو ارتضی کو کچن میں موجود فریج کے پاس کھڑا پایا۔ اس کو دیکھ کر وہ دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
“کیا کر رہی ہو؟” اس کو مصروف دیکھ کر وہ میز پر سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس کے پاس آیا۔
“آنٹی گھر پہ نہیں ہیں اور بھابھی کی طبعیت خراب ہے اس لیے میں نے سوچا کچھ بنا دیتی ہوں۔” اس نے پین میں چمچ چلاتے ہوئے جواب دیا۔
” ملازمہ ابھی تک واپس نہیں آئی؟” اس نے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“آپ کو کچھ چاہیئے؟” اس کو وہیں جم کر کھڑا دیکھ کر اس نے پوچھا۔
“کیوں میرا یہاں کھڑا ہونا تمہیں برا لگ رہا ہے؟” اس نے الٹا سوال کیا۔
“نہیں بھئی! مجھے برا کیوں لگے گا۔ آپ کا گھر ہے، آپ کا کچن ہے جب چاہے آئیں جب چاہے جائیں۔” وہ ڈبے میں سے آٹا نکالتے ہوئے بولی۔
“یہ تو خیر تم نے غلط بات کی ہے۔ گھر اور کچن پر عموماً بیویوں کا ہی قبضہ ہوتا ہے اور تمہارا شمار بھی اب اسی لسٹ میں ہوتا ہے۔” وہ ہاتھ میں پکڑا گلاس سلیب پر رکھ کر اس کی طرف آیا۔
“میں آپ کی بیوی کب ہوں؟” اس نے آٹا چھان کر چھلنی سائیڈ پر رکھ کر مصروف سے انداز میں جواب دیا۔
“ارے! ابھی کچھ دن پہلے ہی تو اتنے لوگوں کے سامنے نکاح ہوا ہے۔ بھول گئی؟” ارتضیٰ نے مصنوعی حیرت سے کہا۔
“مجھے اچھے سے یاد ہے مگر شاید آپ بیوی اور منکوحہ کا فرق بھول گئے ہیں ۔” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے جواب دیا۔ وہ اس کے جواب پر کھل کر مسکرایا۔
“نکاح کے بعد اگر لڑکی سسرال آ جائے تو بیوی ہی ہوتی ہے اور تم اس وقت اپنے سسرالی کچن میں ہی کھڑی ہو۔” وہ اس کے سامنے سلیب پر چڑھ کر بیٹھتے ہوئے بولا۔
“آپ کو یاد دلا دوں کہ ابھی رخصتی نہیں ہوئی۔”دانین کا لہجہ جتاتا سا تھا۔
“اس میں کیا بڑی بات ہے سسرال میں پہلے سے ہو، بس میرے کمرے تک ہی تو جانا ہے۔ آج ہی سامان شفٹ کر دیتے ہیں۔” اس نے اس کے چہرے پر بکھری لٹوں پر پھونک مارتے ہوئے کہا۔
“اور اگر میں نہ ہونا چاہوں تو؟” اس نے چہرہ پیچھے کرتے ہوئے اسے گھوری دکھائی۔
“تو میں خود تمہارے کمرے میں شفٹ ہوجاؤں گا۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا گویا اس کے لیے یہ عام سی بات ہو۔ دانین نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔ اس کے سر اٹھانے پر اس کی نظر اس کی آنکھوں پر پڑی اور اسے لگا جیسے وقت ٹھہر سا گیا ہو۔ دانین نے اس کو یوں خود کو دیکھتے پا کر جگ سے تھوڑا سا پانی ہتھیلی پر لے کر اس کے چہرے پر پھینکا تو وہ چونک کر ہوش میں آیا۔
“کہاں گم ہوگئے ؟” اس نے ہنستے ہوئے اسکو چہرہ صاف کرتے دیکھ کر پوچھا۔
“پتہ نہیں یار مگر جب بھی تمہاری آنکھیں دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے میں یہ آنکھیں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں۔ کیا ہم پہلے بھی کہیں مل چکے ہیں؟”
“ہو سکتا ہے۔” وہ اس کی طرف دیکھے بنا بولی۔ آٹا تقریباً وہ گوندھ چکی تھی۔
“اچھا خیر، ڈنر پر چلیں؟” اس نے سلیب سے اترتے ہوئے پوچھا۔
“خیریت؟”
“ہاں بھئی میرا دل چاہ رہا ہے کہ اپنی پیاری سی بیوی کو ڈنر پر لے کر جاؤں۔ کیا چلو گی؟”
“اوکے۔” اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ اسے تیار رہنے کا کہہ کر باہر کی طرف بڑھا۔ وہ بھی آٹا وہیں ڈھانپ کر چولہے کے پاس آ کر سالن دیکھنے لگی۔
“بلیک ڈریس میں زیادہ پیاری لگتی ہو وہی پہن کر آنا۔” وہ جو اپنے دھیان میں مگن تھی اپنے پیچھے سے آتی ارتضیٰ کی آواز پر اچھل کر رہ گئی۔
“حد ہے ارتضیٰ، ڈرا کر رکھ دیا۔” اس نے خفگی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“اتنی کمزور دل لگتی تو نہیں ہو۔” وہ اس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بولا اور اس کے کچھ سمجھنے سے پہلے اس کی پیشانی پر اپنے لب رکھتے ہوئے جلدی سے پیچھے ہٹا۔ دانین کا منہ تو کھلا ہی تھا مگر آنکھیں بھی پھٹنے کے قریب ہوگئی تھیں، مانو ابل کر باہر گر پڑیں گیں۔ اس کی حالت دیکھتے ہوئے وہ بے ساختہ ہنسا۔
“دھیان سے انہیں باہر نہ گرا لینا۔ مجھے یہ سیاہ آنکھیں ہر وقت سحر میں مبتلا رکھتی ہیں اس لیے ان کو سنبھال کر رکھو مجھے ابھی ان کو جی بھر کے دیکھنا ہے۔” ارتضی نے اس کی حیرت پر مسکراتے ہوئے پہلے اس کا منہ بند کیا اور پھر اس کی آنکھوں کو چھوا جس پر وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔
“تمہیں شرم نہیں آتی ایسی حرکتیں کرتے ہوئے۔”
“شرم کس بات کی میری وائفی ہو یار۔”
“خبردار جو اب آگے بڑھے ، میں سر پھاڑ دوں گی ۔” اس کو دوبارہ سے اپنی طرف آتا دیکھ کر اس نے جلدی سے بیلن اٹھا کر اس کی طرف کیا۔
“چلو نکلو یہاں سے۔ فری میں فری ہو رہے ہو۔” دانین نے اسےکچن کے دروازے کی جانب دھیکلتے ہوئے کہا۔
“فری میں کہاں یار، ڈنر پر لے کر جا تو رہا ہوں۔” وہ دروازے کے پاس جا کر رکتے ہوئے بولا۔
“آپ جاتے ہیں یا ۔۔۔۔” اس کو بیلن اٹھا کر جارحانہ انداز میں اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ ہنستا ہوا کچن کا دروازہ تیزی سے پار کر گیا۔
“بدتمیز۔” اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے بڑبڑائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا سوچ رہی ہو؟” افشین نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھتے ہوئے پوچھا۔ وہ دونوں اس وقت افشین کے گھر میں اس کے کمرے میں رکھے کاوچ پر بیٹھی تھیں۔
“کچھ نہیں یار بس مجھے احتشام کی جانب سے یہ خاموشی بہت کھٹک رہی ہے۔” اس نے کپ اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
“بات تو تشویش کی ہے۔ ایسے لوگ چپ بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں ہوتے۔” افشین نے بھی پرسوچ انداز میں کہا۔
“تم اپنا خیال رکھنا۔ ایسے کم ظرف لوگ پیٹھ پیچھے سے وار کرتے ہیں۔” افشین نے فکرمندی سے کہا۔ ابھی وہ دونوں اسی بارے میں ہی باتیں کر رہی تھیں کہ دانین کا موبائل بجنے لگا۔ نمبر دیکھا تو ان نون تھا۔ اس نے ریسیو کیا تو دوسری طرف سے کوئی مردانہ آواز سنائی دی۔
“کیسی ہیں مس دانین ابراہیم ؟”
“کون؟”
“ارے اتنی جلدی بھول گئیں۔ چلو کوئی بات نہیں۔ میں بتا دیتا ہوں۔ بندے کو احتشام افتخار کہتے ہیں۔”اس کے تعارف پر اس نے بے ساختہ افشین کو دیکھا جو اشارے سے پوچھ رہی تھی کہ کون ہے۔
“کہیئے کیوں کال کی ہے۔” اس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا
“آپ سے ایک ملاقات کرنی ہے ۔ویسے تو آپ نے مجھ ناچیز کو ٹائم نہیں دینا تھا اس لیے سب سے پہلے آپ کی نند کو اپنا مہمان بنایا ہے۔ امید ہے اب آپ دیر نہیں کریں گی۔” احتشام کی بات سن کر اسے دھچکا لگا تھا۔
“واٹ؟” وہ ایک دم سے چیخی۔
“اور ہاں آپ کے لیے ایک سرپرائز اور بھی ہے ۔ جلدی سے آجائیں۔ مجھ سے اب اور انتظار نہیں ہورہا ۔ایڈریس بھیج دیتا ہوں اور ایک بات اکیلی آنا اپنے آدمیوں یا پولیس کو بیچ میں لانے کی غلطی بھی مت کرنا ورنہ بہت برا ہوگا تمہاری نند کے ساتھ۔” اس نے آپ سے تم پر آتے آخر میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
“میں آ رہی ہوں۔” دانین کہتے ساتھ ہی عجلت میں کال کاٹتی کھڑی ہوئی۔
“کیا ہوا؟” افشین نے اسے پریشان دیکھ کر پوچھا۔
“احتشام نے رابیل کو اغوا کر لیا ہے اور۔۔”
“اور؟”
“مجھے لگتا ہے ارتضی بھی ساتھ ہے کیونکہ میں جب یہاں آ رہی تھی تو آنٹی انہیں کال کر کے رابیل کو پک کرنے کو کہہ رہی تھیں”
“پھر اب؟” افشین نے اسے دیکھا جو اضطراب کے عالم میں کھڑی اپنے ہونٹ چبا رہی تھی۔
“ڈی” افشین نے اس کا کندھا ہلایا۔
“آں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یار مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا میری بات اور تھی مگر رابیل۔” وہ اپنی پیشانی مسلتے ہوئے بولی۔
“ایک کام ہوسکتا ہے، ہمارا تو پتہ نہیں مگر رابیل سو فیصد محفوظ رہے گی۔ ان کی بازی انہی پر ہی الٹ دی جائے اور رہی بات ارتضی کی تو ایک نہ ایک دن انہیں پتہ چلنا ہی ہے تو آج کیوں نہیں۔”
“پھر؟”
“پھر یہ کہ تم جاؤ میں اشعر کو کال کرتی ہوں اور فکر مت کرنا ہم تمہارے پیچھے ہی ہوں گے بلکہ رکو میں بھی تمہارے ساتھ ہی چلتی ہوں۔ اشعر کو راستے میں سمجھا دیں گے۔” وہ پلان ترتیب دیتی پلٹ کر الماری کی طرف گئی اور ایک گن اور کچھ دیگر ضرورت کی چیزیں نکال کر اسے تھمائیں اور اپنا سامان اپنی جیکٹ میں رکھ کر دونوں باہر نکلیں۔ راستے میں افشین نے اشعر کو کال کر کے پورا پلان سمجھا دیا تھا۔
مطلوبہ جگہ پہنچنے سے کچھ پہلے ہی افشین گاڑی سے اتر گئی۔ اس کے اترنے کے بعد دانین نے گاڑی لا کر ایک پرانی سی حویلی نما عمارت کے باہر روکی اور اللہ کا نام لے کر اندر داخل ہوئی۔ خالی عمارت کو دیکھ کر ایک پل کے لیے تو اسے لگا کہ شاید کسی غلط پتے پر آ گئی ہے مگر ایک کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر وہ اس طرف بڑھی۔ جیسے ہی اس نے کمرے کے اندر قدم رکھا تو اس کی نظر سامنے کرسی پر بندھی بیٹھی رابیل پر پڑی اور اس کے ساتھ ہی ارتضی بھی موجود تھا۔ دونوں کے ہی ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتی یکایک چار گنز اس کی طرف اٹھیں۔
“آپی۔” اس کو چاروں طرف سے گھرا پا کر رابیل نے بے ساختہ اسے پکارا۔
“اسلحہ ہمیں دے دو ۔” ان میں سے ایک نے حکمیہ اانداز میں کہا۔
“تم کہو گے اور میں دے دوں گی لائک سیریسلی۔” اس نے آبرو اچکائے۔ ارتضی جو آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا اتنی ساری گنز کے نرغے میں ہونے کے باوجود بھی اس کا نڈر انداز دیکھ کر غش کھاتے کھاتے رہ گیا۔
“ایک نظر ادھر دیکھ لو اس کے بعد کوئی بھی فیصلہ کرنا۔” ایک سائیڈ سے وہی آواز آئی جو اس نے فون پر سنی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک چھبیس ستائیس سال کا لڑکا کرسی پر بیٹھا کرسی آگے پیچھے کر رہا تھا۔ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو دانین نے اس کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا اور اس کے ہاتھ سے خود بخود گن چھوٹ کر نیچے گری۔ اس کا ایک آدمی رابیل کے سر پر گن تانے کھڑا تھا اس کو ہاتھ کھڑے کرتے دیکھ کر احتشام نے بے ساختہ قہقہ لگایا۔
“پتہ تھا مجھے پتہ تھا، یہ فیملی ہوتی ہی ایسی چیز ہے کہ بندہ مار کھا ہی جاتا ہے۔ اسے بھی ان کے ساتھ ہی بٹھا دو۔” اس نے حکم جاری کیا تو وہ اسے گنز کی نوک پر دھکیلتے ہوئے ان کی جانب لائے اور ایک کرسی پر بٹھا کر اس کے ہاتھ بھی پیچھے کی جانب کر کے باندھ دیے۔ وہ اپنا غصہ ضبط کرتی لب بھینچ کر رہ گئی۔
“دانین تم ۔۔۔۔۔ یہ سب؟” ارتضی نے حیرت سے پوچھا۔
“ارے چھوڑو بھی دوست! ابھی میرا وقت ہے ۔” احتشام ہنستا ہوا اٹھ کر اس کی طرف آیا۔
“تم جیسے لوگ ہمارا قیمتی سرمایہ ہوتے ہو، اپنی جان پر کھیل کر ہماری حفاظت کرتے ہو۔ جب ہم لوگ سکون سے سو رہے ہوتے ہیں تو تم لوگ کسی نہ کسی محاذ پر اندرونی یا بیرونی دشمن سے نبرد آزما ہوتے ہو۔ میں قدر کرتا ہوں پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی مگر ایک غلطی کر دی تم نے جو کہ نہیں کرنی چاہیے تھی۔” وہ اس کے گرد گھومتے ہوئے ایک تصویر نکال کر اس کے سامنے کی۔
“اسے پہچانتی ہو؟ بھائی ہے یہ میرا جسے اب تم نے کسی لائق نہیں چھوڑا۔” وہ غصے اور طیش میں بولا۔
“جو میں نے کیا وہ تمہیں نظر آگیا اور جو اس بے غیرت نے کیا وہ کیوں نہیں دیکھ سکے۔” دانین نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔
“اس نے غلطی کی تھی اور جوانی میں انسان غلطیاں کر ہی جاتا ہے مگر تم نے نہ صرف اس کو تکلیف پہنچائی بلکہ میڈیا پر یہ بات اچھال کر ہمیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑا۔” وہ اس کے بال مٹھی میں جکڑتے ہوئے غرایا۔
“یہ کون سا طریقہ ہے بات کرنے کا۔” دانین کے بال اس کے ہاتھ میں دیکھ کر ارتضی چیخ اٹھا۔
“ایسے ہی تکلیف ہوتی ہے جب کوئی جان سے پیارا اذیت میں ہو اور آپ چاہ کر بھی کچھ نہ کر سکیں ۔اس کا منہ بند کر دو مجھے دوبارہ اس کی آواز نہ آئے ۔” احتشام نے ارتضی کو کہنے کے ساتھ ساتھ اپنے آدمی کو حکم دیا تو اس نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر ٹیپ لگا دی ۔اس کو کسماتے دیکھ کر دانین نے اسے اشارے سے پرسکون رہنے کا اشارہ کیا۔
جس دن عدیل میرے سامنے آیا تھا میں نے اسی دن قسم کھائی تھی کہ اس کو اتنی تکلیف دینے والے سے دوگنا حساب لوں گا ۔” وہ ایک تھپڑ اس کے چہرے پر مارتے ہوئے سفاکی سے بولا۔
“کتنے خود غرض انسان ہو، انسانیت تو تم جیسے گھٹیا لوگوں کے اندر سے مر چکی ہے۔ اپنے بھائی کی فکر ہے جس نے غلط کیا اور جو اس معصوم اور غریب بچی کے ساتھ ہوا وہ تمہیں نظر نہیں آیا ۔” اس نے افسوس زدہ لہجے میں کہا۔
“ضروری نہیں تھا کہ تم یہی کرتی، میرے پاس آتی۔ ہم کمپینسیشن کر لیتے۔ جتنے پیسے کہتی میں ان کو دے دیتا۔ جہاں کہتے وہاں سیٹ کروا دیتا مگر تم نے اس کو زندگی سے ہی محروم کر دیا ۔”
“اور اس کی عزت ؟” دانین نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
“اوکے دو منٹ کے لیے مین مان لیتی ہون میں نے غلط کیا تم کسی نہ کسی طرح اس کا ازالہ کر دیتے ۔ بس ایک بات بتا دو ۔اگر اس کی جگہ تمہاری بہن۔۔”
“شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ! خبردار جو میری بہن کا نام بھی لیا تو۔” اس نے دھاڑتے ہوئے ایک اور زور دار تھپڑ دانین کے چہرے پر مارا۔ دوسرا تھپڑ اتنا شدید تھا کہ اس کے ہونٹ کے کونے کے پھٹنے کے باعث وہاں سے خون رسنے لگا تھا۔ اتنے میں اس کو اپنی کلائی پر حرکت سی محسوس ہوئی تو اس نے چونک کر دیکھا۔ اس کی ٹرانسمیٹر واچ وائبریٹ ہو رہی تھی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ کام ہوچکا ہے اور وہ لوگ وہاں پہنچ بھی چکے ہیں۔ اس نے بے ساختہ قہقہ لگایا۔ اس کو یوں ہنستا دیکھ کر احتشام اور ارتضیٰ سمیت سب نے ہی تعجب سے اسے دیکھا۔ وہ ہنستے ہنستے کرسی پر پیچھے کی جانب سر ٹکا گئی۔ جانے کیوں مگر احتشام کو اس لمحے اس کی ہنسی سے خوف آیا تھا۔
“لگتا ہے ٹریلر پر دماغ خراب ہوگیا ہے۔ پوری فلم تو ابھی باقی ہے ۔” احتشام نے طنزیہ کہا۔
“بالکل ٹریلر اور فلم تم دکھا رہے ہو مگر اس میں ٹوئسٹ میں ہی لاؤں گی۔” دانین نے کہتے ساتھ ہی دروازے کی سمت دیکھا جہاں اشعر اور افشین کسی لڑکی کو پکڑے اس کے سر پر پسٹل تانےکھڑے تھے۔ لڑکی کا منہ اور ہاتھ بندھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ کچھ بولنے یا کرنے سے قاصر تھی۔
“کیا مطلب؟” اس نے حیرانگی سے اسے دیکھا جو اب خاصی پر اعتماد دکھائی دے رہی تھی
“زرا پلٹ کر دیکھو۔” دانین نے اسی مسکراہٹ سے کہا۔ اس کی مسکراہٹ پر چونکتے ہوئے اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کا دماغ بھک سے اڑا۔ اس کی بہن مکمل طور پر ان کے قبضے میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...