اس کو یوں بے حال دیکھ کر بانو کو تو جیسے پسینے چھوٹ گئے۔ عاشر کو اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
ہوا کچھ یوں تھا کے وہ آج صبح آفس میں کام کر رہا تھا اور اس کام کے دوران کتنی ہی بار اس کا فون بجا تھا مگر اس نے غیر ضروری سمجھ کر بانو کا فون نہیں اٹھایا۔ دوپہر کے وقت اس کے آفس کے ریسپشن پر گھر سے آنے والی کال کی وجہ سے وہ فوراً فون اٹینڈ کرنے چلا گیا۔
“ہیلو! خیریت؟” اس نے فون پکڑتے ہوئے بہت ہی حیرانی سے پوچھا۔
“خیریت ہی تو نہیں بیٹا عاشر جلدی گھر آؤ!” فون پر آواز بانو کی تھی جو بے حد پریشان تھیں اور آواز میں گھبراہٹ تھى۔
“کیوں کیا ہوا؟” اس نے زندگى میں پہلی بار بانو کو اتنی گھبراہٹ سے کانپتے ہوئے سنا تھا۔
“وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔مہرین۔” بانو بول نہیں پا رہی تھیں۔
“کیا مہرین؟” اس نے لب بھینچ کر کہا۔
“مہرین نے صبح سے دروازہ نہیں کھولا ہے وہ دو دن سے کمرے میں بند ہے۔ تم فوراً آؤ!” یہ بات سنتے ہی عاشر پر تو جیسے کوئی قیامت ٹوٹ گی تھى۔ اسے یقین تھا کے مہرین نے ایسی کوئی حرکت کی ہوگی جس سے عاشر کا سکون برباد ہونے والا ہے۔
اس لئے وہ ایک لمحہ بھی ضائع کیئے بغیر آفس سے نکلا اور تیز رفتار میں گاڑی چلاتا ہوا گھر پہنچا۔ بانو سامنے ہی کھڑی تھیں اور گھبراہٹ کی وجہ سے ان کا جسم کانپ رہا تھا۔ وہ اور عاشر اس کے کمرے تک پوہنچے مگر بہت کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب دروازہ نہیں کھولا تو عاشر نے خود تالا توڑا اور اندر داخل ہوا۔ اندر کا منظر دیکھتے ہی دونوں پر جیسے کوئی پہاڑ گر گیا ہو۔ مہرین نے نیند کی گولیاں کھائیں تھیں جس کی وجہ سے وہ یوں بے جان بستر پر پڑی ہوئی تھی۔
“اب کیا کریں بیٹا؟ یا اللہ ہماری مدد فرما۔” بانو زور زور سے چیخ رہی تھیں جبکہ عاشر بھی اس وقت حالات کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ دوائی کا اثر کافی تھا جس کی وجہ سے مہرین کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا اس کی طرف گیا اور اس کی نبض چیک کی جس سے معلوم ہوا کے وہ زنده تھی مگر ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑے تھے۔
اس نے مزید دیر کئے بغیر مہرین کو اپنی بانہوں میں اٹھایا اور پوری طاقت سے اس کے وجود کو سہارا دیتے ہوۓ نیچے کی جانب بڑھا۔
مگر اس وقت عاشر اس حالت میں نہیں تھا کے وہ کچھ سوچ سکے۔
”بانو گل خان سے بولیں گاڑی نکالے! “ اس نے چیخ کر کہا اور پھر تیز قدموں کے ساتھ سیڑھیاں عبور کرتا ہوا نیچے آیا۔ گل خان نے گاڑی نکال لی تھی اور مہرین کو سیٹ پر لٹا کر وہ لوگ فوراً قریبی ہسپتال کی طرف گئے۔
ہسپتال پہنچتے ہی سب ہی ڈاکٹرز نے خودکشی کا کیس سن کر علاج کرنے سے منع کر دیا۔
بانو نے رو رو کر حال برا کر لیا تھا۔ وہ بابا جان کی ایک ہی بیٹی تھی اور اس کی حفاظت کا ذمہ بانو نے لیا تھا۔ اب اگر اسے کچھ ہوجاتا تو ساری زندگی پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
مہرین اس وقت اسٹریجر پر بے سودھ پڑی ہوئی تھی۔ وہ تو بابا جان کی کوئی نیکی تھی یا عاشر کی کوئى نیک نامی کے عاشر کے اسکول کا دوست وہاں ایمرجنسی میں موجود تھا۔ وہ عاشر کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا اور مزید تاخیر کئے بغیر وہ مہرین کو ایمرجنسی میں لے گئے۔ وہاں مہرین کو ٹریٹمنٹ ديا جارہا تھا۔ عاشر باہر کھڑا صرف اپنی قسمت کو رو رہا تھا۔
وہ منحوس گھڑی جب اس نے اس عورت کو اپنی زندگی میں قبول کیا۔ وہ چاہتا تھا کے اس وقت اسے اس حال میں چھوڑ کر کہیں بھاگ جائے مگر بابا جان سے کیا ہوا وعدہ اس کو مجبور کر رہا تھا۔
”عاشر؟ کیا میں تم سے بات کر سکتا ہوں؟ “ ڈاکٹر یاور نے عاشر کو مخاطب کیا جو اس وقت اپنے اندر ہی کوئی جنگ لڑ رہا تھا۔
”ہاں بولو؟ “ عاشر نے پیچھے مڑ کر جواب دیتے ہوئے کہا۔
“میں اور تم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کے یہ ایک ’suicidal attempt case‘ تھا اور اگر اس میں پولیس شامل ہوئی تو سارے سوالوں کا جواب تمہيں دینا ہوگا۔ میں نے صرف تمہارے کہنے پر اس مریض کی جان بچائی ہے۔” یاور نے عاشر کو سارے معاملات سے آگاہ کیا۔
”میں سمجھتا ہوں اور تم نے یہ جو احسان مجھ پر کیا ہے اسے شاید ہی کبھی اتار سکوں۔“ عاشر نے بے حد ممنون ہو کر اس سے کہا۔
”ارے یار کیسی باتیں کر رہا ہے؟ ویسے تمہارا کیا رشتہ ہے اس لڑکی سے؟” اس نے جوں ہی عاشر سے یہ سوال کیا تو وہ ایک دم چپ ہو گیا۔
یاور کو لگا جیسے اس نے کوئى غلط سوال کر لیا ہے۔ ” آئی ایم سوری شاید میں نے غلط سوال کر لیا ہے۔“ اس نے عاشر سے معذرت کی۔
”ارے نہیں تم نہیں جانتے یہ میرے بابا جان کی بیٹی ہیں۔“ جواب میں صرف وہ یہی کہہ سکا تھا۔
”اچھا! خیر مریض کو ابھی ہوش نہیں آیا ہے مگر کل تک انشاءاللہ آجائے گا۔ اپنا خیال رکھنا۔“ یہ بول کر وہ وہاں سے چلا گیا اور عاشر بس خالی نگاہوں سے دیواروں کو تکنے لگا۔
******
عروسہ کو زریاب کا رویہ خاصہ برا لگا تھا۔ اس لیے وہ دو دن تک اس کلاس میں گئی ہی نہیں۔ مگر پھر اس کا دل زریاب کو سوچ سوچ کر مچلنے لگا تو اس سے رہا نہ گیا اور وہ دو دن بعد وہاں پہنچ گئی۔
کلاس میں آتے ہی زریاب نے عروسہ کو ایک ناگوار انداز میں گھورا۔ اسے عروسہ جیسے لاپرواہ اور منہ پھٹ لوگوں سے چڑ تھى۔ اس لیئے اس کو اپنی کلاس میں برداشت کرنا زریاب کے لئے مشکل تھا۔
اس نے سب کو فائن لائنز بنانا سیکھائیں جو کے اسٹل آرٹس سیکھنے کے لیۓ بہت ضروری ہوتی ہیں۔
”سب کوشش کریں گے !“ زریاب نے ہر ایک کو لکیریں بنانے کو کہا۔ عروسہ پنسل منہ میں دبائے کچھ سوچ رہی تھی۔
اس کے دماغ میں تو اپنا ملک جہاں وہ رہتى تھی صرف اس کا خیال آ رہا تھا۔
”مس عروسہ! کیا میں پوچھ سکتا ہوں کے آپ دو دن سے کہاں غائب تھیں؟ “ زریاب کے چہرے پر سنجیدگی کی ایک لہر چھائی ہوئی تھی۔
”میں ڈر گئی تھی آپ سے اس لیئے میں نے سوچا کے میں وہاں نہیں جاؤں گی۔“ اس نے معصوميت سے جواب دیا۔
”تو واپس آنے کی زحمت کیوں کی آپ نے؟ “ اس کا لہجہ کافی تلخ تھا۔
”کیوں کے مجھے آپ کی یاد آرہی تھی۔“ ہمیشہ کی طرح شوخ انداز اپنا کر عروسہ نے کہا۔
یہ سن کر زریاب کو اندازہ ہو گیا تھا کے وہ یقیناً پاگل خانہ سے بھاگ کر آئى ہے۔ بھلا کوئی اپنے ٹیچر کو ایسے بول سکتا ہے۔ اس نے عروسہ کو پاگل سمجھ کر اگنور کیا اور پھر فون کھول کر میسجزز چیک کرنے لگا۔ اس کا فیس بُک مہرین کے حوالے سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے بارے میں کچھ یوں لکھا تھا۔
”مہرین شادیوں کی ملکہ! “
جس پر یونیورسٹی کے سب لوگوں کے کمینٹس تھے۔ اسے یہ باتیں پڑھ کر کچھ حد تک تو سمجھ آگیا تھا کے آخر مسلہ کیا ہے۔ یقیناً کسی نے مہرین کے متعلق باتیں یونیورسٹی کے گروپ میں پھیلا دیں تھی۔ اور سب ہی لوگ اس بات کو لے کر بات کو مزید بڑھا رہے تھے۔
وہ ابھی فیس بُک اسکرول کر ہی رہا تھا جب اس کی نظر ایک ایسی بات پر پڑی جسے پڑھ کر وہ اپنے ہوش کھو بیٹھا۔
“congratulate Mehreen on her marriage to Ashir! ”
اسے لگا تھا جیسے کسی نے اسے کسی اونچائی سے دھکا مارا ہے۔ وہ کتنی ہی دیر یوں سکتے میں بیٹھا رہا۔
******
عاشر دو دن سے ہسپتال میں ہی تھا اور آفس کا کام اس نے عدیل کے سپرد کردیا تھا۔ خود وہ ہسپتال میں رک کر ڈاکٹر سے کیس نہ بنانے کی درخواست کر رہا تھا۔
وہ ابھی کافی پی کر اٹھا ہی تها کے ڈاکٹر نے آکر اسے بتایا تھا کے میرین کو ہوش آگیا ہے۔ اس نے جواب میں صرف سر ہلایا اور دبے قدموں کے ساتھ اوپر جانے کے لئے بڑھا۔
وہ ابھی آہستہ آہستہ آگے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کے سامنے سے آتے دو لوگوں کو دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔
”عاشر !“ وہ آواز ماما جان کی تھی جو تیزی سے بھاگتی ہوئی اس کی طرف آرہی تھیں اور ساتھ میں بابا جان بھی آہستہ آہستہ اس کی طرف ہی آرہے تھے۔
”ماما جان! “ اس نے ایک دم چونک کر ان کو دیکھا جو کے خاصے پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ بابا جان کی تو خود کی طبیعت خراب تھی مگر مہرین کی طبیعت کا سنتے ہی وہ دوڑے چلے آئے۔
”بیٹا کیا ہوا ہے مہرین کو؟ بتاؤ تو کچھ !“ بابا جان کے لب کانپ رہے تھے ۔ عاشر نے انہيں کندھے سے پکڑ کر قریب ہی بینچ پر بیٹھا دیا۔
“بتاؤ عاشر کیا ہوا ہے؟ ہم دو دنوں سے فون کر رہے ہیں کوئی نہیں اٹھا رہا تھا پھر کل رات بانو بے بتایا کے مہرین ہسپتال میں ہے۔ مجھے بتاؤ آخر ہوا کیا ہے؟ ہم مہرین کی خبر سنتے ہی اسلام آباد چلے آئے۔” ماما جان تو جیسے خود پہ قابو نہیں رکھ پا رہی تھیں۔
“ماما جان حوصلہ رکھیں! کچھ نہیں ہوا ان کو بس بے ہوش ہو گئی تھیں۔” عاشر نے بات کو سنبھالتے ہوئے بتایا۔ مگر تب بھی ان کے بےچین دل کی قرار نہیں آیا۔
“بابا جان آپ کیوں اس حالت میں یہاں آگئے وہ بھی اتنا لمبا سفر طے کر کے؟” عاشر نے خفگی کا اظہار کیا۔
“ہم بس مہرین کو دیکھنا چاہتے ہیں اور ایک دن گزار کر چلے جائیں گے۔ سامان گاڑی میں ہی رکھا ہے۔ ہم نے بس بانو سے ہسپتال کا پتہ پوچھا اور یہاں آگئے۔” بابا جان کی پریشانی کا کوئی عالم نہیں تھا۔
“وہ اوپر والے وارڈ میں ہیں اب، آپ چلیں میں آپ کو لے چلتا ہوں۔” عاشر نے بابا جان کا ہاتھ تھاما اور لفٹ سے اوپر والے فلور پر پہنچ کر انہيں مہرین کے کمرے میں لے گیا۔ وہ آنکھيں بند کرکے لیٹی ہوئی تھی۔ جسم میں کمزوری کی وجہ سے ڈرپ بھی لگی ہوئی تھی۔
وہ ایک لمحہ بھی تاخیر کیئے بغیر اس کے کمرے میں چلے گئے ساتھ میں ماما جان بھی اندر آگئیں۔
ماما جان کونے میں کھڑی بس اس کی شکل کو تک رہی تھیں جبکہ بابا جان تو اس کے بیڈ کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اس کے نازک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چوما۔ ایک آنسوں کا دریا ان کی آنکھوں سے جاری ہوا۔ مہرین نے بہت آہستہ سے آنکھيں کھول کر دیکھا تھا۔ اس وقت وہ کسی خواب سے جاگی تھی۔ پورے جسم میں درد اور ٹیسیںں اٹھ رہی تھیں مگر اپنے ہاتھوں کو بابا جان کے ہاتھوں میں دیکھ کر وہ بس مسکرائی تھی۔ بابا جان نے اس کو مسکراتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بھی سکون کا سانس لیا۔
“کیسی ہو بابا کی جان؟” بابا جان نے بہت پیار سے اسے مخاطب کیا تھا۔ وہ اس وقت اس حالت میں نہ تھی کے وہ جواب دیتی تو اس نے صرف سر ہلادیا۔
ماما جان کو بھی مہرین کی صورت دیکھ کر کسی حد تک تسلی ہوئی۔
مگر سامنے پڑی فائل ديکھ کر ان کے حوش اڑ گئے تھے۔ اس پر لکھا تھا :
‘suicidal attempt’
“یہ کیا لکھا ہے؟ suicidal attempt!” ماما جان نے حیرانی سے پوچھا۔ عاشر نے جب یہ سنا تو اس کا دل تو جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا ہو۔ اس کو لگا تھا کے جیسے اب کوئی بڑی قیامت برپا ہو جائے گی۔
“وہ۔۔۔ وہ ڈاکٹرز کا تو پتہ ہے آپ کو ہر بات کو خودکشی کا نام دے دیتے ہیں۔” اس نے کسی طرح بات کو پلٹنا چاہا تھا۔
“کیا مطلب؟” ماما جان نے ناسمجھی کے انداز میں کہا۔
“وہ مہرین نے دوائیاں منگوائی تھیں میں شاید غلط ڈوز کی دوا لے کر آگیا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئیں۔ مگر ڈاکٹرز سمجھے یہ کوئی خودکشی کا کیس ہے۔ آپ فکر نہ کریں میں نے سارے معاملات کلیئر کروا دیئے ہیں۔” اس نے سارا الزام اپنے سر لیتے ہوئے بتایا۔
“بیٹا مجھے آپ سے اس قدر غیر ذمداری کی توقع نہیں تھی۔” ماما جان نے ناراضگی سے کہا۔
“میں مانتا ہوں کے یہ سراسر میری غلطی ہے۔” وہ شرم سار ہوا۔
“چلو اب جو ہوگیا سو ہوگیا مگر آئیندہ خیال رکھیئے گا۔” ماما جان نے عاشر کو تنبہ کی جو صرف سر جھکا کر ہاں کر سکا تها۔ وہ لوگ کچھ دیر وہی بیٹھے رہے مگر پھر عاشر نے ان دونوں کو بہت مشکل سے گھر کی طرف روانہ کیا اور ساتھ میں بانو کو بھی بھیج دیا۔ ڈاکٹر سے بات کرنے کے بعد اس نے پیمنٹ کاؤنٹر پر جمع کروائی۔ اب وہ مشکل سے مہرین کے کمرے میں آیا تھا۔ ڈاکٹر یاور نے رات تک مہرین کو ڈسچارج کرنے کا کہہ دیا تھا۔
زندگى کے کچھ فیصلے اپنی ذات کے لیے بے معنی ہی کیوں نہ ہوں اکثر زندگى سے جڑے لوگوں کی خوشی کے لیے قبول کر ہی لیئے جاتے ہیں۔ شاید کچھ ایسا ہی عاشر نے بھی کیا تھا۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے اندر چلا آیا۔ مہرین نے اسے آتا دیکھ کر یکدم آنکھيں موند لیں۔
“مرنے کا اتنا ہی شوق تھا آپ کو تو زیادہ ڈوز لیتی تاکہ میری اور بابا جان کی زندگى میں تو سکون آتا۔آئندہ اگر خودکشی کرنے کا سوچیں تو گولیاں زیادہ کھایئے گا۔” عاشر کے الفاظ سے بیزاری اور نفرت صاف ظاہر تھی۔ بستر پر پڑی بے سدھ وہ بس سنتی رہی کیونکہ اب باری عاشر کی تھی۔
*****
شیزہ نے تو رو رو کر اپنا حال برا کر لیا تھا۔ دانیال حسن نے شیزہ کے ساتھ ہونے والے واقع پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ پورے گھر میں آج ہلچل مچی ہوئی تھی۔
“ابو بس کر دیں اب! جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔” عالیہ نے دانیال حسن کو سمجھانا چاہا جو اپنی بیوی پر برس پڑے تھے۔
“کیا ملا تمہيں یہ رشتہ توڑ کے؟ کہاں گئ تمہارى بہن اب؟ کیا منہ دیکھائیں گے اب ہم دنيا والوں کو؟” دانیال حسن اس وقت صرف ایک بات جانتے تھے اور وہ یہ کے اب شیزہ کا کیا ہو گا۔
دانیال حسن کی بیوی نائلہ نے شیزہ کی منگنی عاشر سے توڑنے کے بعد اپنے بھانجے سے طے کر دی تھی جس پر سب گھر والوں نے بہت ہنگامہ کیا تھا۔ مگر ان کی ضد کے آگے انہوں نے ہار مان لی تھی۔ نائلہ کی بہن تو شیزہ سے اپنے بیٹے کی شادی کرنے پر آمادہ تو ہو گئیں اور معملات کسی حد تک حل ہوگے مگر چند دن پہلے ہی ان کے بیٹے نے شادی سے انکار کردیا۔ نائلہ نے اپنی بہن کے آگے بہت منتیں کی مگر ان سب کوششوں کے بعد بھی وہ کامیاب نہ ہو سکیں اور یوں انہیں اپنی منہ کی کھانی پڑی۔
“مجھے معاف کر دو! میں نے صرف تمہارا بھلا چاہا تھا۔” وہ شیزہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہہ رہی تھیں۔ “مما بس بہت ہو گیا! اب میں کسی کو حق نہیں دوں گی کے وہ میری زندگی کا فیصلہ کرے مجھے اب شادی نہیں کرنی کسی سے بھی! اگر کسی نے مجھے فورس کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔” اس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔
“مگر۔۔۔۔” نائلہ نے بولنا چاہا تو شیزہ مزید کچھ سننے بغیر وہاں سے چلی گئی۔ اس کی زندگى ایک تماشہ بن کر رہ گئی تھی۔ اس کا دل کسى کرب سے گزر رہا تھا اور اب تو جیسے اس کی زندگى میں زندگى کم درد زیادہ تھا۔ عاشر کو اپنا ہوتے ہوئے کھو دینا اور اس سے جھوٹ بولنا سب کچھ کسی اذیت سے کم نہ تھا۔ عاشر اس کی زندگى کی روشنی تھى جو اس کے وجود کے اندھیروں روشنی سے منور کر دیتی تھی مگر اب وہی دل تھا مگر اجالوں میں نہیں اذیت کے اندھیروں میں۔
*******
ماما جان اور بابا جان ہسپتال سے ہو کر عاشر کے گھر ایک دن کے لیے ٹہر گئے تھے۔ وہ لوگ مہرین کے گھر آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
عاشر نے مہرین کو گاڑی میں بٹھایا اور پھر گل خان کو گاڑی ڈرائیو کرنے کے لئے کہا۔ سارا راستہ وہ اپنے اندر کے طوفان کو محسوس کرتے ہوئے گزار رہا تھا۔ اس کا ذہن صرف اتنا جانتا تھا کے اب وہ اب ہر روز اس اذیت سے گزرے گا اور ایسا کرتے کرتے شاید عمر بیت جائے گی۔ گل خان نے گاڑی گھر پر روکی۔ گیٹ سے اندر آتے ہی وہ گاڑی سے نکل گیا۔ مہرین کمزوری کی وجہ سے گاڑی سے نکل نہیں پا رہی تھی تو ماما جان نے مہرین کو کندھے سے پکڑا اور سہارا دیتے ہوئے اندر لائیں۔
“اب کیسا محسوس کر رہی ہو مہرین؟” بابا جان نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”بہت بہتر بابا جان! مگر آپ کی تو خود طبیعت ٹھیک نہیں آپ کیوں اتنا لمبا سفر طے کر آئے؟ “
مہرین نے پوچھا اور پھر بہت آہستہ آہستہ قدموں کے ساتھ لاؤنج کی طرف بڑھی۔
”بس آپ کو دیکھ لیا ہے اب دل کو قرار آگیا ہے۔ عاشر نے بہت خیال کیا ہے آپ کا۔“ بابا جان نے عاشر کی طرف رخ کر کے کہا۔ مہرین جو سامنے دیکھ رہی تھی اب عاشر کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ بیزاری اور ناگواری کے انداز میں اسے دیکھ رہا تھا۔
”اب کیا سارى باتیں یہیں کرو گى؟ چلو آرام کر لو اپنے کمرے میں۔“ ماما جان نے بات کو ختم کرتے ہوئے کہا اور پھر مہرین کو نیچے والے فلور کے کونے والے کمرے میں لے گئیں۔ اسے آرام سے بستر پر لٹایا اور پھر دوائیاں دے کر واپس آگئیں۔
” آفس کیسا جا رہا ہے؟ “ بابا جان نے عاشر سے جننا چاہا۔
”بکل ٹھیک بابا جان! “ اس نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
”ہم تو پریشان ہوگئے تھے کم از کم ہميں بتا تو دیتے۔ اگر بانو ہميں نہ بتاتیں تو ہميں پتا ہی نہ چلتا۔“ ماما جان سے عاشر کی لاپرواہی برداشت نہیں ہوئی تھی۔
“جی میں مانتا ہوں ماما جان کے یہ میری غلطی ہے مجھے بتانا چاہیے تھا اور اس کے لیئے میں معذرت کرتا ہوں۔ بس اس وقت پریشانی کے عالم میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔” اس نے مختصراً بات ختم کی۔ وہ اب ان دونوں کو کیا بتاتا کے ان کی بیٹی نے کس قدر عاشر کی زندگی تنگ کردی تھی۔ نہ جانے اور کتنی آزمائشوں سے عاشر کو گزرنا تھا۔ بابا جان جانتے تھے کے عاشر کا اس سب میں کوئی قصور نہیں وہ جانتے تھے کے عاشر کوئی بات چھپا رہے ہے مگر انہوں نے اس سے مزید کوئی اور سوال نہیں کیا۔
“اچھا سب باتیں چھوڑو یہ بتائیے کے آپ کی زندگى کیسی گزر رہی ہے؟” ان کے اس سوال نے عاشر کو کچھ دیر کے لیے چونکایا تھا مگر اس نے کوئى تاثرات دیتے ہوئے خود کو کنٹرول کیا۔
”جی ٹھیک۔“ وہ بس لب بھینچ کر بس اتنا کہہ سکا تھا۔
رات کو مزید کچھ باتیں چليں مگر ماما جان اتنی تھک گئی تھیں کے وہ تو فوراً سونے چلی گئیں۔ عاشر اور بابا جان اب آفس کے حوالے سے باتیں کر رہے تھے۔ اپنے کمرے میں جانے سے پہلے انہوں نے ایک بار پھر عاشر سے وہی التجا کی۔
“عاشر آپ بس مہرین کا ہاتھ تھامے رکھے گا۔ اس کو تنہا مت چھوڑے گا۔” اور جواب میں عاشر نے فرمابرداری سے سر کو جھکا دیا۔
**********
عروسہ اب تک زریاب کے آفس کے باہر بیٹھی ہوئی تھی۔ زریاب کو لگا تھا کے سارے آسٹوڈینٹس کلاس لینے کے بعد چلے گئے ہیں۔ وہ اپنے آفس سے سارے کام کرکے باہر نکلا تو عروسہ کو بیٹھا دیکھ کر وہ حیران ہوگیا۔
”آپ یہاں کیوں ہے اب تک؟“ اس نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس میں اس وقت رات کے 9 بج رہے تھے۔
“کیونکہ مجھے لینے کے لئے ابھی تک کوئی نہیں آیا۔” اس نے بے فکری کے انداز میں شانے اچکائے۔ زریاب نے اس کے اس ردِ عمل پر اسے سردمہری اور ناگواری کے انداز میں دیکھا۔
”تو بلائیے نا اپنے گھر والوں کو! مجھے یہ اسٹوڈیو بند کرنا ہو گا۔“ اس نے تیکھے لہجے میں کہا۔
”بھائی کو فون کیا ہے مگر وہ فون نہیں اٹھا رہے۔“ اس نے زریاب کو بتایا جو اس کی اس بات پر مزید زچ ہوا۔
”محترمہ عروسہ آپ جلد کسی کو بلائیں نہیں تو میں آپ کو باہر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔“ وہ غصہ ضبط کر کے سمجھانے والے انداز میں بولا۔
” مگر میں کیا کروں سر؟ میں اس وقت اکیلی کہاں جاؤں؟“ وہ بہت دکھی ہو کر بولی تو زریاب کو یقین ہوگیا کے وہ واقعی پریشان ہے۔
”ٹھیک ہے اگر آپ اکیلی ہیں تو میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں۔“ اس نے عروسہ کی بے بسی پر اسے آفر دی تو وہ فوراً مان گئی۔
”شیور! “ اس نے ہنس کر کہا۔ وہ زریاب کی گاڑی میں آگے والی سیٹ پر بڑے آرام سے بیٹھ گئی جس پر زریاب کجھ دیر کو ٹھٹک سا گیا۔
”کہاں گھر ہے آپ کا؟ “زریاب نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا۔ عروسہ نے Google map سے دیکھ کر زریاب کو پتہ بتایا جس پر زریاب کو عروسہ کسی حد تک مشکوک لگى تھی۔ وہ بار بار زریاب کی طرف دیکھ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ صحیح ڈرائیو نہیں کر پا رہا تھا۔
”آپ گانے لگائیں نا اتنا لمبا سفر کیسے گزرے گا۔“ اس نے زریاب سے فرمائش کی۔
”میں ڈرائیونگ کے دوران گانے نہیں لگاتا۔“ اس نے سرد لہجے میں کہا۔
”لو گانے نہیں سنتے آپ؟ انسان بھی ہیں کے نہیں؟ “
اس نے مسخرے پن سے کہا۔
”اگر آپ خاموشی کے ساتھ بیٹھ سکتی ہیں تو میں آپ کا بے حد ممنوں ہوں گا۔“ اس نےجھنجھلاہٹ سے اس کو دیکھا۔ عروسہ پھر پورا راستہ خاموش رہی۔ گھر آتے ہی اس نے مسکرا کر زریاب کو دیکھا۔
“شکریہ بہت! اندر آنا پسند کریں گے؟ میری دادو آپ سے مل کر بہت خوش ہوں گی۔” اس نے گویا زریاب کو دعوت دی تھی مگر وہ معذرت کرتے ہوئے وہاں سے چلاگیا۔
*********
بابا جان اور ماما جان اگلے دن ہی واپس کراچی چلے گئے تھے۔ مہرین بہت بہتر محسوس کر رہی تھی۔
وہ پوری رات اپنے کمرے میں صرف ایک بات سوچتی رہی کے عاشر نے اپنے اوپر سارا الزام کیوں لیا؟ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی۔ اسے یاد تھے عاشر کے وہ الفاظ جب وہ اس وقت آنکھيں بند کرکے لیٹی ہوئی تھی۔
”میں نے زیادہ ڈوز کی دوا لا دی تھی۔“
یہ الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ اس وقت اس کی سائیڈ لے کر عاشر اسے دنيا کا سب سے اچھا انسان لگا تھا۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بار بار اس کے بارے ميں سوچ رہی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا تھا کے وہ عاشر کا شکریہ ادا ضرور کرے گی۔
عاشر تو ہمیشہ کی طرح صبح ہی آفس کے لیئے نکل گیا تھا۔ جب وہ اٹھی تھی تو عاشر آفس کے لیے نکل چکا تھا۔ بانو کچن میں مہرین کے لیئے ناشتہ بنا رہی تھیں انہوں نے مہرین کو آتا دیکھا تو کام روک کر اس کے برابر میں آکر اس سے مخاطب ہوئیں۔
“بیٹا ہم ناشتہ لے کر آ ہی رہے تھے مگر آپ اتنی صبح؟” بانو نے گھڑی کی طرف دیکھا جس میں آٹھ بج رہے تھے۔
”بس نیند نہیں آ رہی تھی۔ یہ عاشر چلا گیا کیا؟“
اس نے بانو سے عاشر کے بارے ميں دریافت کیا۔
”ہاں وہ تو سات بجے ہی آفس کے لیئے نکل جاتا ہے۔“ بانو نے مہرین کو بتایا تو اس نے صرف سر ہلا دیا۔
پھر ناشتہ کرنے کے بعد وہ پورا دن عاشر کا انتظار کرتی رہی مگر انتظار کرتے کرتے رات کے 9 بج گئے تھے اور عاشر اب تک گھر نہیں آیا تھا۔ مہرین نے سوچا تھا وہ ہر حال میں اس سے بات کرے گی۔
وہ شاید اس کا احسان نہیں لینا چاہتی تھی۔ وہ تقریباً رات 11 بجے گھر آیا تھا اور بغیر کوئی بات کئیے وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔
جوں ہی وہ کمرے کی طرف بڑھا سامنے کھڑی مہرین کو دیکھ کر اس نے اپنے قدم روک لئیے۔
اسے یقین تھا وہ آج پھر کوئى بات لے کر اس پر برس پڑے گی۔ مگر آج مہرین کے چہرے کا رنگ ہی بدلہ ہوا تھا اور وہ بار بار اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
” اسلام وعليکم!“ مہرین نے بات شروع کی تھى ۔ وہ حیران تھا کے مہرین کو کیا ہوا ہے وہ اور عاشر کو سلام کرے؟
”وعليکم السلام! “ وہ ابھی تک بات کو سمجھ نہیں سکا تھا۔
” کوئى کام؟ “ وہ پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
مہرین پریشان تھی کے وہ بات کیسے کرے اور کس طرح عاشر کو بتائے کے وہ اس کی کس قدر ممنون ہے۔
وہ بار بار لبوں کو دانتوں میں پیس رہی تھی جس سے صاف ظاہر تھا کے وہ اپنے دل میں چھپی کوئی بات اس سے کہنا چاہتی ہے۔
” وہ۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ۔۔۔“ آج پہلی بار زندگى میں الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے اور وہ لمحے بھر کے لیے خاموش ہو گئی تھی۔
”اگر آپ کو تھوڑا بھی اندازہ ہو۔۔۔ تو میں اس وقت کافی تھکا ہوا ہوں اور پچھلے تین دن سے آپ کی خدمت گزاری میں اپنا وقت بتا کر تھک گیا ہوں۔ تو اپنے ان ساکن لبوں کو حرکت دیں جو ہمیشہ طنز کرنے کے لیئے کھلتے ہیں۔“ اس کا لہجہ نہایت تلخ تھا۔
” تم مجھ سے اس طرح کیوں بات کر رہے ہوں؟“ اسے عاشر کا انداز گفتگو سخت ناگوار گزرا تھا۔
“تو کیا چاہتی ہیں آپ؟ آپ کی خدمت میں پھول جھاڑوں میں اپنے منہ سے؟” وہ اب بھی طنز سے باز نہ آیا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ مہرین کو اپنی نظر سے دور کر دے۔
”میں صرف تم سے اتنا کہنا چاہتی ہوں کے میں تمہارى شکر گزار ہوں اس سب کے لیئے جو تم نے کیا۔ میں تمہارا احسان شاید ہی کبھى اتار سکوں۔“
وہ مسکرا کر کہنے لگی تو عاشر کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ پھیل گئی۔
”واہ! بہت خوش فہمی ہے آپ کو مہرین صاحبہ مگر آپ کی اس خوش فہمی کو دور کرنے کے لیئے بتا دوں کے میں تو خوشی خوشی آپ کو یوں مرتا ہوا چھوڑ دیتا۔ مگر صرف بابا جان کی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا اور بابا جان سے جھوٹ بھی میں نے اس لئیے بولا تھا تاکہ وہ کسی پریشانی میں مبتلہ نہ ہو جائیں۔“ اس کے اس جملے نے مہرین کے دل کو چھلنی کر دیا تھا۔ اور پھر وہ ایک گہرا سانس لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور زور سے دروازے کو بند کیا۔
مہرین کو اس وقت لگا تھا کے کسی نے اس کے دل کے ہزار ٹکڑے کر دیئے ہوں۔ جیسے کسی نے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہو۔ وہ خاموشی کے ساتھ بوجھل دل لیئے اپنے کمرے میں بند ہوگئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...