مہر ماہ نے معاویہ سے بات کرکے موبائل اک طرف رکھا اور واشنگ مشین لگا لی پر تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ جا کر عمارہ کو دیکھ لیتی تھی اب بھی وہ سٹور سے عمارہ کو دیکھ کے نکل رہی تھی کے باہر سے لاک کھلنے کی آواز آئی تو اسے یاد آیا کہ مِیر شاہ ویز کے پاس دروازے کے لاک کی چابی ہے اور وہ اکثر خود ہی لاک کھول کر اندر آجا تا ہے تبھی مہر ماہ اتنا گھبرا گئی کہ کہ اب کیا ہوگا اگر شاہ ویز کو عمارہ کے بارے میں پتہ چل گیا تو وہ تو یہی کہے گا کہ تم بھی کسی گینگ کی ہو اور تمہاری کزن بھی نشہ کرتی ہے کیونکہ عمارہ نشے میں تھی اب تک, اسی ڈر سے اس نے فورًا خود کو مصروف دکھانے کے لئے مِیر شاہ ویز کی الماری کھولی اور جلدی جلدی اس کی شرٹس اٹھا کے انہیں مشین میں ڈال آئی اتنی دیر میں شاہ ویز دروازہ کھول کر اندر آتا اس کی اس ہڑ بڑی والی کاروائی دیکھ چکا تھا
مِیر شاہ ویز کچھ جلدی میں دکھائی دے رہا تھا اس نے اپنے کمرے میں جا کے جلدی میں اپنی الماری کھولی اور کچھ ڈھونڈنے لگا دو چار منٹ بعد تنگ آ کر اس نے مہر ماہ سے پوچھا کے تم میری الماری کھول کر کچھ کر رہی تھی؟؟؟ ابھی بتاؤ کیا لینا تھا؟؟؟ یہاں سے اس نے سنجیدگی سے پوچھا ج ج جی میں ں ں ں وہ آ پ کی شرٹس لینے آئی تھی دھونے کے لئے مہر ماہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
پر الماری میں تو میری سب دھلی ہوئی شرٹس تھیں اس بار شاہ ویز مزید سنجیدہ ہوا رو کو مشین کو اس کو شاہ ویز نے کہا
ج ج ج جی؟؟؟مہر ماہ نے حیران ہوتے کہا۔
آنکھوں کے ساتھ ساتھ کان بھی خراب ہو گئے تمہارے سنائی نہیں دے رہا روکو اسے ۔
جی ابھی روکتی ہوں مہر ماہ نے گھبرا کر چلتی مشین کو روک دیا تبھی مِیر شاہ ویز آگے بڑھا اور مشین سے کھینچ کر اپنے کپڑے باہر نکالنے لگا جیسے ہی اس نے تیسری شرٹ نکالی اسی کے ساتھ اس کی گن بھی پانی سے بھیگی باہر آئی جسے دیکھ کہ مِیر شاہ ویز کا دماغ گھوم گیا
تم سچ میں کوئی بیٹری ہی ہو بلکہ میری زندگی میں آنے والی سب سے بڑی مصیبت تنگ آ گیا ہوں تم میں تو ۔۔۔ چند دن میں میری زندگی الٹ پلٹ کردی میرے ہر اہم موقع پر میری کوئی نہ مصیبت بھرا تحفہ تم نے مجھے ضرور دیا ہوا ہوتا ہے بہتر ہوگا کہ تم اب مجھے اپنی یہ شکل نہ ہی دکھاؤ مِس بیٹری ۔۔۔۔غصے میں کہتا وہ گِیلی گن پھینک کر چلا گیا کہیں اور دیر رات تک نہیں لوٹا ۔۔۔۔۔
مہر ماہ جس بیچاری کو پتہ بھی نہیں تھا کہ مِیر شاہ ویز اپنی شرٹس کے نیچے اپنی گن رکھتا اور جلدی میں شرٹس سمیت گن بھی واشنگ مشین میں ڈال بیٹھی تھی اب اپنی اک اور غلطی پر شرمندہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اس قدر ہونے والی ذلت اور ناقدری پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی
کیا میں اتنی بری کیا چشمہ اتنی بڑی خامی ہے کہ ہر کوئی مجھ سے نفرت کرتا
یا شاید میں اس قابل ہی نہیں کہ کوئی مجھے چاہے
میں بھی نہ پاگل ہوں جو اپنے شوہر کی خدمت کر کر کے ان کا دل جیتنے کی ناکام کوشش کر رہی ہوں بھلا وہ مجھ جیسی لڑکی سے پیار کیوں کریں گے وہ ٹھہرے شہزادوں جیسے اور میں اک بیٹری
ان کو حق ہے کہ ان کو انہیں کی طرح کی شہزادی ملے میں ان کے قابل نہیں یہ کڑوا سچ مجھے ماننا ہی ہوگا اور ان کی زندگی سے دفع ہونا ہی ہوگا میں ہوں ہی مصیبت کی پوٹلی اور اب اس پوٹلی کو جلد از جلد یہاں سے جانا ہوگا ہاں شاہ ویز سر میں آپ سے پیار کرنے لگی ہوں پر اب چونکہ میں مصیبت ہوں آپ کے لئے اس لئے اس میں نہیں چاہتی کہ آپ مزید میری وجہ سے پریشان ہوں اس لئے اپنی یہ شکل کبھی نہیں دکھاؤں گی آ پکو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر شاہ ویز کی خالہ کی طبیعت سنبھلی تو شاہ ویز کی امّی اور بابا ان کو اپنے ساتھ ہی پاکستان لے آئے اور ان کی اب اچھے دیکھ بھال ہونے کی وجہ سے اور کچھ بہن کے ساتھ نے ان کے غم کو کافی کم کر دیا تھا
اب بھی شاہ ویز کی خالہ آرام کر رہی تھیں اور مِیر چنگیز خان اور ان کی بیگم ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے تبھی مِیر چنگیز خان نے مناسب موقع دیکھ کر ان کو شاہ ویز کی شادی کن حالات میں اور کیسے ہوئی سب بتا دیا ۔
ہہہن اور آپ مجھے اب بتا رہے ہیں خان جی اگر پہلے بتایا ہوتا تو میں اس کے ماں باپ کو کب کا سمجھا چکی ہوتی کہ ان کی بیٹی کتنی معصوم ہے جسے انہوں پل بھر میں پرایا کردیا اک الزام پر اعتبار کر کے ہم کل ہی شام کو جائیں گے ان کے گھر بات کرنے ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے بیگم صاحبہ مِیر چنگیز خان نے مسکرا کر کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاویہ سمیرا اور صباء مل کر پہلی فرصت میں عمارہ اور مہر ماہ کے گھر پہنچیں اور عمارہ کی امی مونا کے کمرے میں جا کر ان کو سلام کیا جو پریشان سی بیٹھی تھیں۔
اسلام علیکم آنٹی کیسی ہیں آپ سمیرا نے پہل کی ۔۔۔۔۔جی بیٹا میں تو الحمد اللّہ ٹھیک ٹھاک تم لوگ سناؤ انہوں نے پریشانی سے ماتھے سے پسینہ پونچھ کر کہا ۔
ہم بھی ٹھیک آنٹی آپ پریشان لگ رہی ہیں خیریت؟؟؟ اس بار صباء بولی۔۔۔
بیٹا وہ دراصل دوپہر سے شام ہوگئی پر عمارہ گھر نہیں آئی اب تو اکثر ہی لیٹ آنے لگی ہے پوچھنے پر کہہ دیتی میں معاویہ یا سمیرا کے گھر تھی اور میں بھی تم لوگوں کا نام سن کے مطمئین ہو جاتی ہوں پر آج تو حد ہی ہوگئی مغرب کا وقت ہو رہا پر عمارہ اب تک نہیں لوٹی اس کے ابو بھی آنے والے کیا کروں میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی اوپر سے اس کا موبائل بھی آف جا رہا مونا نے ایک بار پھر ماتھے سے پسینہ پونچھ کر کہا ۔
آنٹی وہ تو ہمارے گھر اب کبھی نہیں آتی معاویہ نے ہمیشہ دوسروں کو درد پہنچا کر خوش ہونے والی مونا کا درد بھرا تاثر دیکھنے کے لئے جو انہوں نے مہر ماہ کی امی کو دیا تھا پر پہلا بم پھوڑا ۔۔۔۔
کیا ۔۔۔۔؟؟؟ پر مجھے تو وہ ہمیشہ یہ ہی کہہ کر جاتی ہے کہ تم لوگوں کے گھر گئی تھی مونا کا سن کر تو جیسے برا حال ہو گیا ۔۔۔۔
نہیں آنٹی وہ اب کبھی ہمارے گھر نہیں آئی بلکہ وہ ہم سے بہت پہلے دوستی توڑ چکی ہے اور اک آوارہ لڑکی کے ساتھ اکثر پائی جاتی ہے اب صباء نے دوسرا بم پھوڑا ۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔؟؟؟ آوارہ لڑکی اب کی بار تو مونا حالت پہلے سے بھی بری تھی ۔
جی ہاں اور آج بھی اسی کے ساتھ کالج سے نکل کر کسی لڑکے کے ساتھ اکیلی کہیں گئی تھی تیسرا بم سمیرا نے پھوڑا۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔؟؟؟لڑکا ۔۔۔اکیلی۔۔۔ مونا کو لگا اب وہ چکرا کر گِر ہی جائیں گی پر اس سے پہلے معاویہ نے پھر بات شروع کر لی آنٹی میں آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گی سچ یہ ہے کہ عمارہ نے ہمیں مہر ماہ سے دوستی کرنے کی وجہ سے چھوڑ کر اک عجیب سی آوارہ لڑکی سے دوستی کر لی تھی اور پھر اس نے کبھی مڑ کر بھی ہمیں دیکھنا پسند نہیں کیا
پر وہ کہتے ہیں نہ نیا نو دن پرانا سو دن اسی لئے جب مجھے عمارہ کی حرکتیں مشکوک لگیں تو میں اس کے پیچھے گئی اور دیکھا کہ وہ اسی لڑکی کے ساتھ بیٹھی نشہ کرہی ہے مجھے اپنی بچپن کی سہیلی کو اس حالت میں دیکھ شدید دکھ ہوا اس لئے میں نے یہ بات باقی سب فرینڈز سے بھی شئیر کی تب ہم سب نے مل کر اس کا پیچھا کیا تو دیکھا کہ وہ لڑکا عمارہ اک سنسان جگہ لے جا کر اس کا نشے میں ہونے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔۔
ہم تو لڑکیاں ہیں آنٹی شاید ڈر جاتیں یا اس کا کچھ نہ بگاڑ پاتیں ۔۔۔۔پر اسی کسی مہر بان نے اپنا سارا ڈر خوف اک طرف رکھ کر آپ کی بیٹی کی عزت بچالی اس لڑکے کے سر پر پتھر مار کر اور اب عمارہ ہمارے پاس ہے ہم اس کا علاج کروا رہے کیونکہ ابھی اسے نشہ لیتے زیادہ وقت نہیں ہوا اس لئے اس کا علاج ممکن ہے جلد ہی مکمل ہو جائے تب تک آپ اس کے ابو اقر گھر والوں کو یہی بتائیں کے وہ اپنے ماموں کے گھر ہے ۔۔۔۔اب ہم چلتے ہیں آنٹی اللّہ حافظ معاویہ نے کہا۔۔۔۔ روکو بیٹا اک ممٹ روکو مجھے بس اِک بار اس فرشتہ صفت انسان کا نام بتا دو جس نے میری بیٹی کی عزت بچائی میں اس کے پاؤں میں بیٹھ کر اس کا شکریہ ادا کروں تو وہ بھی کم ہے مونا نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔
آنٹی میں بتا تو دوں پر آپ سن نہیں پا ئیں گی معاویہ نے سنجیدگی سے کہا ۔
تم بتاؤ میں سن لوں گی مونا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
تو سنیں آنٹی اسی نے آپ کی بیٹی کی اپنی جان پر کھیل کر آ پ کی بیٹی کی عزت بچائی ہے جس کی عزت کا تماشہ آپ نے سرِ بازار لگایا تھا جی ہاں میں مہر ماہ کی بات کر رہی ہوں معاویہ نے بات مکمل کر کے اپنے آنسو پونچھے اور پھر وہاں رکی نہیں اور جاتے جاتے مونا کو شرمندگی ہی شرمندگی دے کر اس کے شیطانی ذہن کو منوں مٹّی تلے دفن کر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقاص صاحب بیڈ پر لیٹے چھت کو گھور رہے تھے آنکھوں میں آنسو تھے اور دل میں لاڈلی بیٹی دِلبر(مہر ماہ) کی یادیں کہیں نہ کہیں ان کا دل کہہ رہا تھا کہ ان سے زیادتی ہوگئی ان کی بیٹی بہت نیک تھی وہ بد چلن کیسے ہو سکتی اور دوسری طرف جب مونا کے طعنے یاد آتے تو ان غیرت ان کے دل کو جھٹلا دیتی عجیب کشمکش میں مبتلا تھے نہ دنسُلل کو سکون تھا نہ رات کو چین
انہیں سوچوں میں گم تھے کے ان کے کمرے پر دستک ہوئی اور عمارہ کا بھائی اندر یہ بتانے کے لئے کہ باہر ان سے کوئی ملنے آیا ہے
تم ان کو بٹھاؤ میں ابھی آیا کہتے وہ بھی اس کے پیچھے چل دیے ۔
ڈرائنگ روم میں پہنچے تو وہاں مِیر چنگیز خان کو بیٹھا تھا سیکھ کر حیران رہ گئے ارے ڈاکٹر صاحب آپ بڑے لوگ میرے غریب خانے پے سب خیر تو ہے نہ وقاص حیران ہوتے ان سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گئے ۔
او بھائی وقاص اک بات میں ہمیشہ سب سے کہتا ہوں اور آج آپ سے بھی یہی کہوں گا کہ بڑی ذات صرف اور صرف اللّہ پاک ہے اور سب انسان اس ذات نے برابر بنائے آپ بڑا چھوٹا کی بات کر کے مجھے شرمندہ نہ کریں پلیز مِیر چنگیز خان نے کہا ۔
اچھا ڈاکٹر صاحب معذرت چاہتا ہوں آئندہ نہیں کہوں گا ایسی کوئی بات آپ سنائیں خیریت سے آنا ہوا وقاص صاحب نے پوچھا ۔
جی بلکل خیریت سے ہی آئیں ہیں بس ذرا ہماری بیگم کو آپ سے ملنے کا شوق ہو رہا تھا اس لئے چلے آئے مِیر چنگیز خان نے مسکرا کر کہا ۔
جبکہ وقاص صاحب ان کی بات پر قدرے حیران ہوئے کیونکہ آج سے پہلے نہ کبھی انہوں نے ڈاکٹر صاحب کی بیگم کو دیکھا تھا نہ کبھی ملے تھے
جی جی سو بار آئیں بھابھی جی آپ کا اپنا ہی گھر ہے وقاص
صاحب نے اپنی حیرانگی چھپا کر کہا ۔
دیکھیں بھائی صاحب میں ایسی عورت ہوں جسے بات گھما پھرا کر بات کرنی نہیں آتی اور میری یہ عادت اگر زیادہ تر
کسی کو پسند آتی تو کسی کو بری بھی لگ سکتی ہے بس اپنی اپنی سوچ کا انداز ہوتا سب کا جو جس طرح چاہے سمجھ لے ۔
میں آپ۔سے بھی کوئی لمبی چوڑی باتیں نہیں کروں گی بس اپنے بیٹے کا رشتہ ہی تو مانگنے آئیں ہوں آپ کی بیٹی کے لئے کیونکہ خان جی سے بہت تعریف سنی اس کی کہ وہ بہت سگھڑ اور نیک سیرت بچی ہے اس لئے بس میں رشتہ۔لینے چلی آئی۔۔۔۔۔میں اپنے بیٹے کے لئے ایسی ہی بیوی چاہتی ہوں جو بیک سیرت ہو اور مجھے کسی چیز کی لالچ نہیں اللّہ پاک کا دیا سب کچھ ہے الحمد اللّہ
وہ روانی سے اپنی بات کرکے خاموش ہو گئیں اور ادھر مِیر چنگیز خان حیران تھے کہ ان کی بیگم کیا بول رہی ہیں گھر سے تو مہر ماہ کے والدین کو سمجھانے آئے تھے ہم پر ادھر آ کر وہ انجان بن کر رشتہ مانگ رہی ہیں
وقاص صاحب ڈاکٹر صاحب کی بیگم کی باتیں سن کے حیران و پریشان تھے کہ اب کیا جواب دیں کیسے بتائیں کے ان کی نیک سیرت بیٹی نے ہی ان ماتھے پر بدنامی کا ٹِکاّ لگا کر انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا
و و و وہ دراصل ۔۔۔بات یہ ہے ے ے ے وقاص صاحب کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا بولیں سچ بول کے بےعزتی ہوتی اور جھوٹ بولنا ان کی فطرت میں شامل نہیں تھا ۔۔۔۔
کیا بات ہے کیا آپ رشتہ دینا نہیں چاہتے تو بول دیں بات کو گھمائیں مت مہربانی ہوگی آپ کی وقاص صاحب ابھی میں سیدھی بات کرنے کی عادی ہوں مجھے اپنے جیسے لوگ ہی پسند ہیں دوگلے لوگوں سے شدید چِڑ ہے مجھے بیگم چنگیز خان نے ٹکا سا جواب دیا۔
میں دوگلا نہیں ہوں وقاص صاحب ان کی بات پر تڑپ کے بولے آ پ کو سچ سننا ہے تو سنیں میری بیٹی نیک سیرت نہیں تھی ایک دن اور ایک رات گھر سے باہر رہ کر آئی تھی اسی لئے نکال دیا میں نے اس کو گھر دھول جھونکی اس نے بوڑھے باپ کے سر میں میرے لاڈ پیار کا نا جائز فائدہ اٹھایا اس نے اس بار وقاص صاحب پھٹ ہی پڑے
کیا آپ کو یقین ہے کہ آ پ کی بیٹی نیک سیرت نہیں تھی ؟؟؟ بیگم چنگیز خان نے وقاص صاحب کی آنکھوں میں براہِ راست دیکھ کر سوال کِیا ۔۔۔۔
تب وقاص صاحب کچھ نہیں بول پائے ۔۔۔بولتے بھی کیسے ان کے تو اپنے دل و دماغ میں جنگ چل رہی تھی اسی حوالے سے کسی کو کیا جواب دیتے اس حالت میں
وقاص صاحب آپ مجھ نمازی پرہیزی انسان لگتے ہیں خیر سے آپ سے آپ کو پتہ ہوگا کہ اللّہ پاک کا فرمان ہے کہ نیک عورتوں کے لئے نیک مرد۔۔۔۔ اور بد کردار عورتوں کے لئے بد کردار مرد رکھے ہیں اللّہ پاک نے ۔۔۔۔۔
جانتے ہیں میرا بیٹا آرمی آفیسر ہے اور آج تک اس نے کسی غیر عورت کو دور اپنی کزنز کو بھی نگاہ بھر کے نہیں دیکھا ہمیشہ عورت سے نگاہ نیچی کر کے بات کرتا ہے تو خود سوچیں اس کی قسمت میں اللّہ بد کردار لڑکی کو کیوں آنے دیتا اسی لئے اللّہ پاک نے اس کے لئے اک پاکیزہ معصوم اور نیک سیرت لڑکی چُنی اور جانتے ہیں وہ کون ہے ؟؟؟ وہ آپ کی بیٹی مہر ماہ ہے جی ہاں جس انجان شخص سے آپ نے اس کا نکاح کیا تھا وہ میرا بیٹا مِیر شاہ ویز خان ہے ۔
اور آپ کی بیٹی کوئی شوق سے گھر سے باہر ایک دن اور ایک رات نہیں رہی تھی بلکہ اِک حادثہ ہوا تھا اس کے ساتھ اور آپ نے اس کو بجائے مان اور محبت دے کر پوچھنے کے ۔۔۔کہ وہ کس تکلیف کا سامنا کر کے آئی ہے
الٹا سزا دے کر کسی انجان مرد کے ساتھ نکاح کے بندھن میں باندھ کر بھیج دیا
آپ سوچا کہ اگر وہ مرد میرا بیٹا نہ ہوتا کوئی جواری یا لڑکیوں کو بیچنے والا ہوتا پھر۔۔۔۔۔
وقاص صاحب مردانگی اور غیرت کی نشانی عورت پر شک کرکے اسے سزا دینا نہیں بلکہ اسے اتنا مان اور اعتماد دینا ہے کہ وہ خود آپ سے اپنی ہر تکلیف اور پریشانی شئیر کر سکے
باقی بات رہی عزت کی تو اللّہ نے اس معصوم اور نیک سیرت بچی کی عزت کو محفوظ رکھا اور ایک دن اور ایک رات گھر سے باہر رہنے کے باوجود بھی ۔۔۔۔۔اس بار بیگم چنگیز نے سیدھا وقاص صاحب پر تنز کیا ۔
خیر میں آپ کو بتاتی چلوں دو ہفتے بعد میرے بیٹے کا ولیمہ دھوم دھام سے آپ آنا چاہیں تو ضرور آنا کہہ کر مِیر چنگیز خان اور ان کی بیگم واپسی کے لئے چلے ہی تھے کہ روتے ہوئے وقاص صاحب نے انہیں آواز دے کر روکا ۔۔۔۔ بات سنیں اگرچہ میں حقیقت جان کر اپنے آپ سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہا پر
میں چاہوں گا کہ اپنی بیٹی کو اپنے گھر سے عزت کے ساتھ رخصت کروں اور اک بار اپنے کئے کی معافی بھی مانگ لوں اگر وہ مجھے اس قابل سمجھے تو انہوں نے روتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا نہیں بلکہ احساس دلانا تھا اور وہ آپ کو ہو گیا میرے لئے اتنا ہی بہت آپ کل آ کر میری بہو کو میرے بیٹے کے فلیٹ سے لے جائیں پھر اچھے سے رخصت کر لی جئے گا اسی ہال میں ولیمے کی رسم کریں گے کہہ کر بیگم چنگیز خان اپنے شوہر کے ساتھ چلیں گئیں اور وقاص صاحب نے اپنی لاڈلی دِلبر سے ملنے کی خوشی میں اپنے آنسو پونچھ دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صباء کے لئے صبح ہی صبح اس کے کالج کی پرنسپل اپنے بیٹے زوہیب کا رشتہ لے کر آئیں تھیں جو گھر والوں کی باہمی مشاورت سے طے پا گیا لڑکا ڈاکٹر تھا پر دکھنے میں تھوڑی سِنگل پسلی تھا
رشتہ طے ہوئے آج تیسرا دن تھا صباء آخری پیپر دے لوٹی تو اس کے موبائل پر اک انجان نمبر سے کال آ رہی تھی پہلے تو اس نے اِگنور کیا پر جب لگاتار کال آتی رہی تھی تو اس نے تنگ آ کر کال پِک کی اور غصے میں بولی کون ہے کیا مسئلہ ہے کان کھا لئے میرے اور کوئی کام نہیں جو مجھے ہی کال کرے جارہے ہو
دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی اور تھوڑی بعد ہی میسج آیا ۔۔۔۔میرا بھی اب تیرے بِن اک پل دِل نہیں لگدا
ہیں یہ کون ہے صباء پریشان ہو گئی پھر اسے وہی گیم یاد آئی جس میں آنکھیں بند کر کے انہوں نے کسی نہ کسی کچھ رومینٹک بولا تھا اففففف میں پتہ نہیں کس سے ٹکرائی تھی صباء پریشان ہو گئی ۔۔۔۔۔۔پر اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اس دن وہ جس گول گپے والے سے ٹکرائی تھی وہ کوئی گول گپے والا نہیں بلکہ پرنسپل کا بیٹا تھا زوہیب جو لاہور میں جاب کرنے کی وجہ سے کبھی کبھار ہی اپنی مما سے ملنے آتا تھا اس دن بھی وہ چھے ماہ بعد آیا تو اپنی مما سے ملنے سیدھا کالج چلا آیا اور اسے پتہ تھا کہ اس کی مما کو گول گپے بہت پسند ہیں اسی لئے وہ کالج کے باہر کھڑے گول گپے والے سے ان کے لئے گول گپے لے کر اندر آ رہا تھا تبھی صباء آنکھوں پر پٹّی باندھے اس سے ٹکرا کر بولی ۔۔۔تیرے بِن اک پل دل نہیں لگدا
اس پیاری سی لڑکی کا یوں شرمیلا سا اظہارِ محبت (آنکھوں پر پٹّی باندھ کے) زوہیب کو کچھ زیادہ ہی بھا گیا اور اس نے اپنی مما کو رشتے کے لئے بھیج دیا اور خوش قسمتی سے ہاں بھی ہو گئی اب یہ ساری باتیں جب صباء کو شادی کے بعد پتہ چلنی تھی تو بیچاری نے منہ چھپاتی پھرنا تھا ۔۔۔۔شرم سے نہیں ۔۔۔اپنی بیوقوفی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ویز مدثر اور عبید نے ریڈ کر کے اس گینگ کو پکڑ لیا تھا اور مکمل طور پر اس خطرناک گینگ کا کامیابی سے صفایا کرنے پر بہت خوش بھی تھا کیس کے بارے میں اپنے سینئر کو ساری معلومات دے کر آج تین دن بعد وہ اپنے فلیٹ پر لوٹا تھا راستے میں ڈرائیو کرتے ہوئے اسے وہ لمبے گیلے بالوں کی بھینی بھینی خوشبو بار بار ستا رہی تھی ۔
کیا مجھے پیار ہوگیا ہے مِیر شاہ ویز نے اپنے دل سے سوال کیا
تو دل نے بھی فورًا ہاں کر دی ۔
افففف یہ کیسا عجیب احساس ہے شاہ ویز نے سوچا
اب کیس سے فارغ ہو کر اپنے جیون ساتھی کے بارے میں سوچنے کے لئے اس کے پاس وقت ہی وقت تھا۔۔۔۔ اور وہ اپنی چِشمش سے محبت کا اظہار کرنے کو بے تاب ہوا جا رہا تھا اسی لئے تیز ڈرائیو کرتے وہ فلیٹ پر پہنچا پر سارا فلیٹ دیکھنے کے بعد بھی جب اسے مہر ماہ کہیں دکھائی نہیں دی تو اسے اپنا آخری بار کا غصہ یاد آیا جو اس نے معصوم سی مہر ماہ پر کیا ۔۔۔۔۔ اور کہا تھا اپنی شکل کبھی نہ دکھانا۔۔۔۔
کیا واقعی اس نے میری بات کو دل پر لے لیا اور مجھے چھوڑ کر کہیں چلی گئی؟؟؟
یہ سوچ ہی اب اس کے لئے جان لیوا تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...