“مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔” وہ بیڈ پہ بیٹھا تھا، گود میں تکیہ اور اس پہ لیپ ٹاپ رکھے شاید کوئی گیم کھیل رہا تھا۔
“آں ہاں۔۔ بس دو منٹ دے دو مجھے!” دائیں ہاتھ سے کافی پیتے بائیں ہاتھ سے لیپ ٹاپ کے ماؤس کو حرکت دے رہا تھا۔ موتیا نے دیکھا اس کے ہاتھ خوبصورت تھے، اس کے اپنے ہاتھوں سے زیادہ۔ لمبی لمبی فنکارانہ انگلیاں۔ دل میں خواہش مچلی کہ ان ہاتھوں کو چھو لے۔ بڑی مشکل سے اپنی خواہش کا گلا گھونٹا تھا۔
“ہاں تو اب کہو معتداء! کیا بات کرنی ہے؟” گیم روک کر لیپ ٹاپ بند کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
“آپ۔۔!” اس سے اب اتنی بھی بے تکلفی نہیں تھی کہ فوراً سے پوچھ لیتی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جھجھک گئی تھی۔
“کیا میں؟!” اس کا چہرا نظروں میں لیے وہ دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا تھا۔
“جو کہنا ہے کھل کر کہو معتداء!” عدی نے اسے اکسایا: “یقین مانو کچھ نہیں کہوں گا۔”
“میں آپ سے ڈرتی نہیں ہوں۔” عدی نے اوووو کے سے انداز میں ہونٹ سکیڑے۔
“مجھے بس یہ پوچھنا تھا کہ آپ نے یہ کیوں کہا کہ کل سے ناشتہ نہ بناؤں۔”
“اچھا یہ بات ہے۔!” وہ شرارت سے مسکرایا
“میں اپنے کام خود کرنے کا عادی ہوں معتداء! میں نے کبھی ماما جان کو بھی نہیں کہا، اور مجھے اچھا بھی نہیں لگتا۔ جیسی قابل عزت میرے لیے ماما جان ہیں ویسی ہی قابل عزت تم بھی ہو۔”
“میں بیوی ہوں آپ کی، آپ کو مجھے کوئی کام کہتے ہوئے برا نہیں لگنا چاہیے۔” بات شروع ہو چکی تھی۔
“ہو سکتا ہے کہ تم ٹھیک کہہ رہی ہو، لیکن اس برسوں پرانی عادت کا کیا کروں؟” وہ جان بوجھ کر بےچارگی سے بولا۔
“بدل لیں۔ اگر آپ واقعی مجھے قابل عزت سمجھتے ہیں تو عادت بدل لیں گے۔” موتیا خود حیران تھی کہ کیسے اتنا بولے چلی جا رہی ہے۔
“ہاں عزت تو کرتا ہوں تمہاری۔” عدی نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
“صرف عزت۔۔!؟؟” اس نے پوچھا۔ وہ سمجھ گیا، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا:
“عزت کرتا ہوں تمھاری، محبت بھی کرنے لگوں گا۔ اور عزت ہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔”
“عزت پہلے سے ہی کرتی تھی آپ کی، اب محبت بھی کرنے لگی ہوں۔ اور محبت بھی عزت ہی کی طرح ضروری ہے۔” اس کے دو بدو بولتے وہ بہت بڑا راز منکشف کر گئی تھی۔ عدی نے خوش گوار سی حیرت سے اسے دیکھا تھا جو اب نظریں چرائے زبان دانتوں تلے دبائے شرمندہ سی کھڑی تھی۔
“کیا ہوا؟” وہ اس کے قریب ہوا
“مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔” اسے اپنی جلد بازی کا احساس ہوا تھا۔ عدی کو جو خوش گوار حیرت اور خوشی تھی وہ ایک دم کافور ہوئی۔
“کیوں؟”
“محبت میں پہل مرد کرتا ہے۔”
“ہم میاں بیوی ہیں، اظہار تم نے کیا یا میں نے، کیا فرق پڑتا ہے۔؟” وہ اس کی نرالی منطق پہ تلملایا
“پڑتا ہے فرق، کیوں نہیں پڑتا؟ عورت اپنی نظروں میں معتبر ہو جاتی ہے۔”
“تو کیا اگر لڑکی پہلے اظہار کرتی ہے تو مرد کو اپنی نظروں میں معتبر ہونا اچھا نہیں لگے گا؟ یا اس کا اپنی نظروں میں معتبر ہونا ضروری نہیں ہے؟” وہ اس کے قریب ہوتے ہوتے، اس کا جواب سننے کے لیے جہاں تھا وہیں رک گیا تھا۔
“اتنا ضروری نہیں، جتنا عورت کا۔” عدی کا جی چاہا اپنا سر پھاڑ لے۔ یعنی وہ مرد تھا تو وہ پتھر ہی تھا، جس کے کوئی احساسات یا جذبات نہیں تھے۔ بابا جان اور ماما جان کے بعد اب بیوی نے بھی اسے گویا ضبط و برداشت کا پہاڑ سمجھ لیا تھا۔
“ٹھیک ہے تو پھر اب انتظار کرو میرے اظہار محبت کا معتداء! جب تک کہ تم خود میری نظروں میں معتبر ٹھہرو۔” اس نے بیڈ پہ پڑا اپنا کوٹ، سائیڈ ٹیبل سے موبائل اور گاڑی کی چابی اٹھائی اور زور دار آواز سے دروازہ بند کرتا کمرے سے نکل گیا۔
“کھانا کھا کر سو جانا، میں دیر سے آؤں گا۔” دروازے کی آواز پر وہ ایک دم دہل سی گئی تھی۔
“لو میں نے کیا کہہ دیا انھیں۔ پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں خود کو؟” اس نے منھ بسورا۔
“عدی کو کیا ہوا؟” آواز سن کر سعدیہ بھی آئی تھیں، عدی اور اتنا غصہ۔؟ کہ دروازے پہ اتارا جائے،
“پتا نہیں ماما جان!” اس نے نا سمجھی سے شانے اچکاتے ہوئے جواب دیا تھا۔
“چلو خیر۔۔ دو مہینوں میں آج پہلی بار پتا تو چلا کہ اس گھر میں ایک نارمل شادی شدہ جوڑا رہتا ہے، ورنہ تو الو ہی بولتے تھے۔” سعدیہ ہنستے ہوئے اسے حیران پریشان چھوڑ کر واپس چلی گئی تھیں۔
رات کو عدی کافی کا مگ لیے کمرے میں آیا تو اسے جاگتا پایا تھا۔ وہ جو اس انتظار میں تھی کہ وہ آئے گا تو اس کے لیے کافی بنا لائے گی۔ اس کے ہاتھ میں کافی دیکھ کر منھ بنا کر رہ گئی تھی۔
“سو جاؤ معتداء! مجھے تھوڑا کام ہے۔” وہ لائبریری میں چلا آیا تھا۔ دراز سے ہادی کی ڈائری نکالی اور کھول کر سامنے رکھی۔ وہ اب تک ساری پڑھ ہی نہیں پایا تھا۔ جا بہ جا اس کی یادیں بکھری تھیں۔ وہ چند صفحات پڑھ کر ہی اٹھ گیا تھا۔ ہادی نے اسے کیا کہا تھا یا اس ڈائری میں کیا راز پوشیدہ تھا۔ معتداء سے شادی کا فیصلہ اس نے ہادی کی آخری خواہش جب وہ اس سے ملتے وقت کہہ گیا تھا۔ (موتیا کا خیال رکھیے گا بھائی) اور ماما جان کی خوشی کی خاطر کر لیا تھا۔ اس نے ڈائری کا وہ صفحہ نکالا جہاں جلی حروف میں اس کا نام تحریر تھا۔
“عدی بھائی!” اس کے ہاتھ سے لکھے اپنے نام پہ انگلیاں پھیرتے اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ ذہن نے اس وقت کا تصور باندھا جب ہادی نے یہ سب لکھا ہو گا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“آپ کو یاد ہو گا نا کہ بچپن میں اپنے ہر مسئلے اور ہر مشکل کا حل نکالنے کے لیے میں آپ کے پاس آتا تھا اور آپ کیسے بھی کر کے میرا وہ مسئلہ حل کر دیا کرتے تھے۔” ہادی اپنے دل کے ہاتھوں بےحد پریشان تھا۔ آخر بہت سوچ سمجھ کر اس نے ذہن کی ہر الجھن لکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
“ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب کی بار بھی، میں آپ سے رجوع کرتا، اپنے مسئلے کا حل طلب کرتا۔ لیکن بات آپ سے متعلق تھی اور مجھے لگا کہ آپ سے متعلق بات کو ماما جان سے کیا جائے۔ اور بس، پھر یہیں سے سارے مسئلے نے جنم لیا۔” الفاظ دل سے نکل کر قلم کے ذریعے صفحے پہ بکھرتے چلے جا رہے تھے۔
“ہادی! سو جاؤ یار۔ بہت رات ہو گئی ہے۔” اس کے دوست نے لحاف سے منھ نکال کر اسے ہانک لگائی تھی۔
“ہاں اچھا۔۔ بس تھوڑا سا کام رہ گیا۔”
“فوج میں آنے کا ایک اہم مقصد آپ جیسا نڈر اور مضبوط اعصاب کا مالک بننا تھا۔ لیکن میں کبھی آپ جیسا نہیں بن سکتا۔ آپ جیسا کوئی نہیں ہے بھائی۔ آپ مجھے دنیا میں ہر شے سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ آپ کو معلوم ہے نا کہ جب بھی کوئی نئی چیز دیکھتا ہوں تو پہلے آپ کا خیال آتا ہے کہ یہ آپ کو پسند آئے گی، یہ آپ کو اچھا لگے گا۔” عدی ڈائری پڑھتے ہوئے نم آنکھوں سے مسکرایا تھا۔ ہادی ایسا ہی تھا۔ اپنی پسند پہ، اپنی ہر چیز پہ اس کو ترجیح دینے والا۔ اس نے ورق پلٹا:
“میرا جب صوفیہ خالہ کے گھر آنا جانا ہوا تھا تو ایک دن اچانک مجھے خیال آیا کہ موتیا آپ کے لیے ہر لحاظ سے مکمل اور بہترین لڑکی ہے۔” وہ جو سر جھکائے پڑھ رہا تھا اس جملے پہ ایک جھٹکے سے سیدھا ہوا تھا۔ کافی کا کپ میز پہ رکھا اور آگے پڑھنے لگا۔
“میں نے ماما جان کو فون پہ بتایا اور یہیں تقدیر نے اپنی چال چلی اور نیٹ ورک کی خرابی کی وجہ سے ماما جان نے کچھ کا کچھ سنا اور سمجھا۔ اور مجھے شہ مات ہو گئی۔ میں کچھ نہ کر سکا بھائی۔!” وہ دم سادھے سب پڑھتا گیا تھا۔ کہ کیسے ہادی نے سعدیہ سے اس رشتے سے انکار کیا تھا اور کیسے وہ ہار گیا تھا۔
“بھائی! میں نے موتیا کو کبھی اس رشتے میں قبول ہی نہیں کیا۔ میں کر ہی نہیں پایا، کرتا بھی کیسے؟ میرے دل نے اسے آپ کے لیے ہی پسند کیا تھا۔” عدی کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی۔
“بچپن میں جب کبھی آپ مجھ سے کوئی چیز نہیں لیتے تھے کہ میں چھوٹا ہوں تو اچھا نہیں لگتا۔ تب میں وہی چیز چپکے سے آپ کے سامان میں رکھ دیا کرتا تھا۔ آپ کے لیے پسند کی گئی چیز میں خود استعمال کرنا گناہ سمجھتا تھا۔” عدی کو سب یاد تھا، بھول کیسے سکتا تھا جب ہمیشہ ہاسٹل جا کر اسے سامان میں وہی چیز ملتی جو وہ ہادی سے لینے سے انکار کر چکا ہوتا تھا۔
“لیکن موتیا کوئی چیز تو نہیں ہے بھائی جو۔۔۔ وہ جیتا جاگتا وجود ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اس کے بھی اس شادی کو لے کر بہت سے خواب ہوں گے، لیکن میرا دل۔۔ میں کیا کروں بھائی؟ اسے نکاح میں تو لے لیا لیکن اب۔۔۔ اسے اپنا نہیں پا رہا اور چھوڑ بھی نہیں سکتا۔” عدی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے؟
“دعا میں بہت طاقت ہوتی ہے بھائی؟ آج مغرب کی نماز پڑھ کر میں نے اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگی تھی کہ مجھے شہادت نصیب فرما۔” عدی کا اب تنفس بھی بڑھنے لگا تھا۔
“مجھے یقین ہے کہ اللہ میری دعا قبول فرمائے گا۔ اور مجھ سے وعدہ کیجیے بھائی کہ میری شہادت کے بعد جب موتیا کی عدت گزر جائے گی تو آپ اس سے شادی کر لیں گے۔ وہ آپ کی زندگی کا بہترین رفیق ثابت ہو گی۔ میرا دعویٰ ہے۔” عدی نے ڈائری بند کر دی۔
“اوہ ہادی! میرے بھائی۔!” شدید ذہنی دباؤ کا عالم تھا وہ اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔ ذہن کچھ سوچنے سمجھنے سے قاصر لگ رہا تھا۔
“بے شک زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ موت کا وقت اور سبب سب مقرر ہے لیکن۔۔!” وہ جو سوچ رہا تھا اب اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ جسے سنانا تھا وہ تو اپنی کہہ کر منوں مٹی تلے جا سویا تھا۔
“وہ آپ کی زندگی کی بہترین رفیق ثابت ہو گی۔” اس نے ہادی کا جملہ دہرایا۔
” اس سب میں معتداء کا کیا قصور تھا؟ وہ ہادی کے دل کی بات تھی۔ تو اسے ہادی سے شادی کے بعد وہ چند دن نجانے کتنی اذیت سے گزرنا پڑا ہو گا؟” عدی کو ساتھ کمرے میں موجود اپنی بیوی کا خیال آیا۔
“اذیت تو میں نے بھی اسے کم نہیں دی۔ دو مہینے ہو گئے اپنا کوئی فرض پورا نہیں کیا۔” اسے سب یاد آنے لگا۔
“کیا وہ ایسی نہیں ہے کہ اسے چاہا اور سراہا جائے۔؟ عدی! جب زندگی میں کسی لڑکی کا وجود نہیں تھا تو اسے قبول کرنے میں اتنی دیر کیوں؟” وہ اپنے آپ کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کیے سرزنش کر رہا تھا۔
“میں اس کی ہر تکلیف کا مداوا کر دوں گا۔” وہ ایک عزم سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
“میں اس سے معافی مانگوں گا۔ مجھے امید ہے وہ مجھے معاف کر دے گی۔” اس نے وقت دیکھا گھڑی رات کے ایک بجا رہی تھی۔ وہ کمرے میں آیا تو وہ سو چکی تھی۔
“کوئی بات نہیں معتداء! میں تمھیں ہر خوشی دوں گا۔” وہ اپنی جگہ پہ سونے لیٹ گیا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
آنے والے کچھ دنوں میں وہ ہسپتال میں کچھ اس طرح مصروف ہوا تھا کہ دن رات کا فرق ہی بھول بیٹھا تھا۔ سعدیہ اس کے معمولات سے فکرمند تو رہتی تھیں لیکن اسے نہ کہہ پاتیں، جانتی تھیں کہ وہ اپنے اس پیشے کو لے کر کتنا حساس تھا۔ اس کا بس چلتا تو رات کو سونے کے لیے بھی گھر نہ آتا۔
“السلام علیکم!” وہ تھکا تھکا سا جب اندر آیا تو گھر کے تینوں مکین شام کی چائے پینے کی تیاری میں تھے۔
“بڑے اچھے وقت پہ آئے ہو بیٹا! جلدی سے آ جاؤ چائے پیتے ہیں۔” ابراھیم نے اسے کہا
“آپ لوگ پییں بابا جان! میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے ایک نگاہ معتداء کے چہرے پہ ڈالی تھی جو اس دن کے بعد سے اب تک اس سے گریز ہی برت رہی تھی۔ وہ اسے بلاتے بلاتے رک گیا اور سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا
“محبت میں پہل مرد کرتا ہے۔” اسے نئے سرے سے غصہ آیا تھا۔
“میں بھی نہیں کروں گا، کرو انتظار۔” پہلی بار وہ یوں ضد پہ آمادہ نظر آیا تھا۔
“ہونہہ! مردوں کے سینے میں تو دل کی جگہ پتھر نصب ہوتا ہے۔” کمرے میں آ کر، کوٹ بیڈ پر پھینکتے اس نے بیزاری سے سوچا۔
“کیا اس کا فرض نہیں تھا کہ شوہر تھکا ہارا گھر آیا ہے تو اس کے پاس آتی، حال پوچھتی، کھانے کا کہتی۔” وہ بھلے جتنا بڑا ڈاکٹر سہی اس وقت ایک روایتی مرد بن گیا تھا۔
“اور ماما جان! مجھے تو کئی سبق پڑھاتی ہیں کہ بیوی کا خیال رکھوں، اس کی ضروریات کا احساس کروں، اپنی لاڈلی کو کیوں نہیں سمجھاتیں؟” بیڈ پر اوندھے منھ لیٹا وہ اوٹ پٹانگ باتیں سوچ رہا تھا۔ اور کب نیند آئی اسے کچھ خبر نہیں ہوئی تھی۔ وہ رات نو بجے تک بےسدھ ہو کر سویا تھا۔ وہ نہا کر آیا تو اس نے دیکھا کہ موتیا کمرے میں نہیں تھی۔
“کہاں ہو سکتی ہے؟” اس نے سوچا تھا۔ پھر کندھے اچکاتا، گرم شال لپیٹ کر کمرے سے نکلا۔ سردیوں کے باعث سبھی لوگ اس وقت تک عموماً اپنے کمروں میں چلے جاتے تھے۔ شاید معتداء بھی ماما جان کے کمرے میں ہو۔ وہ کافی کے ساتھ کچھ کھانے کا سوچ کر باورچی خانے میں آیا۔ چاول پلیٹ میں ڈال کر اوون میں رکھے تھے جب لان میں لیمپ پول کی مدھم روشنی میں اس نے موتیا کو دیکھا۔
“اففففف۔! ان لڑکیوں کی یہ عادتیں۔۔۔!” اوون کا سوئچ بند کرتے وہ کوفت سے باہر نکلا۔
“معتداء۔!” وہ اپنے دھیان میں تھی بری طرح ڈری تھی۔ لیکن اس کی طرف مڑنے سے پہلے وہ خود کو قابو کر چکی تھی۔
“اتنا ڈر لگتا ہے تو اکیلے گھوم کیوں رہی ہو؟” وہ بھی عدی تھا۔ سمجھ ہی گیا تھا۔
“ایسے اچانک پیچھے سے آواز دیں گے تو بندہ ڈرے گا ہی۔”جب راز عیاں ہو ہی گیا تھا تو چھپانے کا مقصد نہیں تھا۔
“تمھیں کیا لگا کسی جن نے آواز لگائی ہے؟” شرارتی اور متبسم لہجہ،
“آپ بھی جن سے کم ثابت نہیں ہوئے اس وقت۔” وہ بس سوچ کر رہ گئی تھی۔
“تم لڑکیوں کے دماغ پہ کیا کسی بھوت کا بسیرا ہوتا ہے جو رات کے اندھیرے میں بھٹکتی پھرتی ہیں؟”
“آپ خود کو بھوت سمجھتے ہیں تو میں کیا کہہ سکتی ہوں؟” اس نے پھر سوچا تھا۔
“اب اندر چلو، بیمار ہونے کا ارادہ ہے کیا؟”
“اللہ رے اتنی خوش اخلاقی، اتنی فکر۔!؟” اس نے تحیر سے عدی کو دیکھا۔ وہ نظروں کا مفہوم بآسانی سمجھ گیا تھا۔
“ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے یہ فکر اور یہ خوش اخلاقی میرا پیشہ ورانہ اور اخلاقی فرض ہے معتداء!” وہ اسے چلنے کا اشارہ کرتے خود بھی اندر آیا تھا۔ “میں اگر اپنے مریضوں سے ہی خوش مزاجی سے پیش نہ آؤں تو تف ہے میری ڈاکٹری پہ۔ مریض کی آدھی بیماری ڈاکٹر کے اچھے رویے سے دور ہو جاتی ہے۔” آج تو وہ بلا تکان بولے جا رہا تھا
“اور تم چونکہ میری بیوی ہو تو تمھارے حوالے سے میری یہ ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔”
“یہ الگ بات ہے کہ آپ کو کبھی اس ذمہ داری کا احساس نہیں ہوا۔” اس کی تقلید کرتے، وہ ایک بار پھر محض سوچ کر ہی رہ گئی۔
“جو بات دل میں ہو، وہ کہہ دینی چاہیے۔” عدی نے بنا اسے دیکھے کہا تھا۔
“کافی پیو گی؟”
“پتا نہیں کیسے پی لیتے ہیں سیاہ، کڑوی کسیلی کافی؟”
“آج پی کر یہ بھی دیکھ لو کہ کیسے پیتا ہوں۔؟” عدی نے باورچی خانے کے دروازے کے پاس رک کر سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
“نہیں پینی! پھر نیند نہیں آئے گی مجھے۔” وہ اس کی مزید سنے بغیر وہاں سے چلی گئی تھی۔ عدی محض شانے ہی اچکا کر رہ گیا تھا۔ کافی کے ساتھ چاول کھا کر وہ کمرے میں آیا تھا موتیا نہیں تھی، لائبریری کا دروازہ ہلکا سا کھلا تھا۔ اسے لگا وہ وہیں ہوگی ورنہ وہ تو آج وہاں گیا ہی نہیں تھا۔ وہ دبے پاؤں اندر داخل ہوا۔ اور اس کے ہاتھ میں ڈائری دیکھ کر دھک سے رہ گیا تھا۔
“عدی بھائی!” اس نے ڈائری کھول کر ابھی یہ دو لفظ ہی پڑھے تھے کہ پیچھے سے عدی نے ہاتھ بڑھا کر ڈائری اس کے ہاتھ سے لے لی تھی۔
“کیا کسی نے تمھیں یہ نہیں سکھایا کہ کسی کے رازوں میں ایسے مداخلت نہیں کرتے” انداز عام سا لیکن لہجہ تنبیہ لیے ہوئے تھا۔
“کیا آپ کو کسی نے نہیں بتایا کہ ایک مرے ہوئے انسان کے راز سنبھالنے سے زیادہ اہم، زندہ انسان کے دل کا حال جاننا ہے؟” وہ بھی پھٹ پڑی تھی۔
“میرے بھائی کا ذکر ایسے مت کرو معتداء!” عدی کو سچ میں بہت تکلیف پہنچی تھی۔ اسے بھی اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہوا تو فوراً سے معافی مانگی۔
“تم لڑکیوں کا ایک یہی مسئلہ ہوتا ہے، صرف اپنے دل کی فکر ہوتی ہے۔ ہمارے دل پہ کیا گزرتی ہے فکر نہیں کرتیں۔ پہلے اظہار کرنے کو معیوب جانتی ہیں، لیکن لفظوں کے نشتر چبھونا معیوب نہیں سمجھتیں۔” عدی نے کچھ دن قبل کی بات کا حوالہ دیا۔ وہ چپ چاپ سنے گئی تھی۔
“غصے کا فوراً اظہار کرتے ہوئے جب شوہر کو بہت کچھ سنا سکتی ہو تو محبت کے دو بول بول کر پہل کیوں نہیں کر سکتی موتیا!؟” اتنے عرصے میں آج پہلی بار عدی نے اسے موتیا کہہ کر پکارا تھا۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی۔ دل عجب سر تال میں دھڑکنے لگا تھا۔
“ہم مردوں کا دل بھی اتنا ہی دکھتا ہے جتنا تم لڑکیوں کا۔ ہمارا کیا قصور ہے؟ اگر اللہ نے ہم میں برداشت کا مادہ زیادہ رکھا ہے۔ احساسات و جذبات تو ایک سے ہوتے ہیں۔” اس نے پہلی بار عدی کو یوں کھل کر بولتے دیکھا تھا۔ اپنے آپ کو بیان کرتے سنا تھا۔ سعدیہ بھی یہی بتاتی تھیں کہ وہ ہر کسی پہ نہیں کھلتا، جذبات کا اظہار کھلم کھلا نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہی لگتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ
عدی کی مثال ایک بند کتاب کی سی تھی۔ خوبصورت اور دل کو لبھاتی جلد والی ایسی کتاب جو اپنے اندر بہت سے اسرار چھپائے ہوئے تھی۔ اسے کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا لیکن اب وہ اس بند کتاب جیسے شخص کو پڑھنا چاہتی تھی۔ وہ عدی ابراهيم نام کی اس کتاب کو تسخیر کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہ بند کتاب سا شخص اب مسخر ہونے کو تیار نہیں تھا۔ سر تک کمبل تان کر لیٹ گیا تھا۔
“شب بخیر معتداء! وقت پہ سو جانا۔” وہ ہکا بکا اسے بےسدھ سوتے دیکھتی رہ گئی جبکہ ابھی رات کے صرف دس ہی تو بجے تھے۔
“ہونہہ! پتا نہیں سمجھتے کیا ہیں خود کو۔” اپنا مخصوص جملہ زیرِ لب بڑبڑاتے وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔
“تمھارا شوہر!” اس کے جانے کے بعد عدی نے بلند آواز سے سوچا تھا۔
“اب میری بھی ضد ہے معتداء! تم ہی قدم بڑھاؤ گی۔”
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“یہاں کیوں بیٹھی ہو موتیا؟” سعدیہ نے اسے ہال کمرے میں دیکھا تو پریشان ہو گئیں۔ اسے بھی سمجھ نہیں آئی کہ کیا جواب دے کیا کہے؟
“میں وہ بس۔۔۔ ڈرامہ دیکھنے آئی تھی تو۔۔” ریمورٹ اٹھاتے اسے بر وقت بہانہ سوجھا تھا۔
“تو بچہ! اپنے کمرے ہی میں دیکھ لیتیں۔ یہاں اکیلے اور سردی میں کہیں بیمار ہی نہ پڑ جاؤ” انھوں نے کہا تھا۔
“وہ سو رہے تھے تو میں نے سوچا کہ ان کی نیند خراب نہ ہو تو۔۔!” اس کا یہ کہنا ہی غضب ہوا تھا
“ارے۔! یہ لڑکا تب سے سو رہا ہے؟ تم اسے جگاؤ کہ اٹھ کر کچھ کھائے، اپنی صحت کا خیال تو اس نے رکھنا ہی نہیں ہے۔” اب وہ انھیں کیا بتاتی کہ وہ جاگ کر دوبارہ سو چکا ہے۔
“چلو شاباش! جاؤ اپنے کمرے میں۔ اکیلے مت بیٹھو۔”
“جی اچھا۔!” اس نے آہستگی سے کہا اور جانے لگی
“موتیا۔!” سعدیہ نے پیچھے سے پکارا۔
“سب ٹھیک ہے نا!” اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا لیکن پھر کچھ سوچ کر، پلٹ کر ان کو بلایا تھا۔
“ماما جان! کیا ضروری ہے کہ محبت میں پہل ہمیشہ مرد ہی کرے؟” انھوں نے اچنبھے سے اور مسکرا کر اسے دیکھا اور دل میں کہا۔
(چلو شکر ہے کہ نوبت یہاں تک آ ہی گئی۔)
“میاں بیوی کے رشتے میں یہ باتیں غیر ضروری ہوتی ہیں بیٹا! پہل شوہر نے کی یا بیوی نے، کیا فرق پڑتا ہے؟ ہیں تو دونوں ایک ہی راہ کے مسافر، اور اس رشتے کے ناطے وصل کی تمنا تو دونوں ہی کو ہوتی ہے۔” وہ اسے صوفے پہ بٹھا کر پیار سے سمجھانے لگی تھیں۔
“لیکن ماما جان! ایک عورت ہونے کے ناطے تو بیوی کا دل چاہتا ہی ہو گا نا کہ شوہر پہلے اظہار کرے۔” وہ ابھی بھی اسی بات پہ ڈٹی تھی۔
“بالکل چاہتا ہو گا، چاہتا بھی ہے۔ لیکن بچے! یہ میاں بیوی کا رشتہ برابری کی بنیاد پر چلتا ہے، تم اس کی ضروریات کا خیال رکھو، وہ تمھاری ضرورتوں کا خیال رکھے گا۔ اور ایک بار پہل کرو گی تو اس کے بعد ہر قدم پر اسے اپنے ساتھ پاؤ گی۔ مگر ابھی اس فضول سی ضد پہ تم اسے خود سے دور ضرور کر دو گی۔” وہ بہت کچھ سمجھ چکی تھی۔ اسے یاد آیا تھا کہ اس دن عدی کے چہرے سے اس کی محبت میں پہل کرنے والی بات سن کر کیسے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔
“اور ایک بات بتاؤں بیٹا!” اس نے سوالیہ نگاہیں ان کے چہرے پر ڈالیں۔
“باہر کی دنیا میں مرد کو بھلے کوئی پوچھے یا نہ پوچھے، اسے زیادہ پروا نہیں ہوتی لیکن یہ بات اسے بہت خوشی دیتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے اہم ہے۔ اور بیوی کے لیے شوہر کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہونا چاہیے۔” پانی پی کر انھوں نے سلسلہ کلام پھر سے وہیں سے جوڑا تھا
“اور بےشک عدی بہت مضبوط کردار کا مرد ہے۔ لیکن ہے تو مرد نا! جب گھر میں بیوی سے اسے خوشی نہیں ملے گی تو خدانخواستہ۔۔۔”اس نے یکدم خوفزدہ ہو کر انھیں دیکھا تھا۔ وہ جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“میں اس کی ماں ہو کر تمھیں مشورہ نہیں دے رہی، بلکہ ایک عورت ہونے کے ناطے مشورہ دے رہی ہوں۔ اب سب کچھ تمھارے ہی ہاتھ میں ہے موتیا!” رات بہت بیت چکی تھی۔
“اب جاؤ! سو جاؤ۔” وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ ایک نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
اگلے چند دن عدی نے اسے یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ اس کے لیے ناشتہ بنا سکے یا اس کا کوئی کام کر پائے۔ عجیب سی چپ تھی جو عدی نے اختیار کر رکھی تھی۔ وہ اس سب سے جیسے تھک سی گئی تھی۔ جب ان کی زندگی میں کوئی دوسری عورت نہیں ہے تو پھر وہ کیوں مجھ سے اتنا گریز برت رہے ہیں؟ دماغ بس اسی ادھیڑ بن میں مصروف رہتا تھا۔ صاف صاف بات کرنے کا یارا بھی نہیں ہوتا تھا اگر اس نے کہہ دیا کہ “کوئی اور ہے” تو کیا کرے گی؟ وہ تو اب اس سے محبت کرنے لگی تھی، اس کے بغیر رہنا محال لگتا تھا۔ وہ بےشک بات نہیں کرتا تھا لیکن یہ احساس ہی خوش گوار ہوتا تھا کہ وہ قریب تو ہے، اسے دیکھ تو سکتی ہے۔ یہ محبت بھی۔۔۔ اس نے سر پٹخا۔ اسے اب وصل کی تمنا تھی۔ وہ اب خود عدی سے اظہار کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ موقع دیتا تب نا۔!
وہ جمعہ کا دن تھا۔ عدی ہسپتال سے جلدی آ گیا تھا۔ شاور لے کر آیا تو بیڈ پہ رکھا پینٹ کوٹ دیکھ کر تعجب سے پوچھا:
“کیا ہم کہیں جا رہے ہیں؟”
“نہیں! میں نے تو یونہی آپ کے لیے سوٹ نکال دیا۔” اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا تھا۔
“میں جمعہ کے دن شلوار قمیض پہنتا ہوں معتداء! اور وہ میں اس وقت پہنے ہوئے ہوں۔” آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں برش کرتے عدی نے اس کے عکس پہ نظر جمائی۔ وہ شرمندہ سی نظریں جھکائے، ہاتھ مسلتے، اس کے دل میں اترتی چلی گئی تھی۔
“آپ کیا اپنے مریضوں کو بھی ایسے ہی پریشان کرتے ہیں؟” اس کی نظروں سے خائف ہوتے وہ چڑ کر بولی تھی۔ کف لنکس بند کرتے اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور بولا:
“میں ان کا علاج کرتا ہوں، انھیں گھورتا نہیں ہوں۔” گویا وہ مان رہا تھا کہ وہ اسے گھور رہا تھا۔ وہ جی بھر کر جز بز ہوئی تھی۔
“اور تمھیں بتایا تھا نا کہ میرے مریضوں کی آدھی بیماری میری باتیں سن کر ہی دور ہو جاتی ہے۔”
“لیکن آپ کی باتوں سے میری بیماری تو بڑھ ہی جاتی ہے۔”
“ایسی کون سی باتیں کہی ہیں میں نے؟” اس نے اچنبھے سے پوچھا۔
“کیا آپ کسی اور کو پسند کرتے ہیں؟ کیا آپ کی مجھ سے شادی زبردستی کروائی گئی تھی؟” اس کی باتوں سے عدی کا دماغ گھوم گیا تھا
“تم سے کس نے کہا یہ سب؟”
“وقت پہ گھر نہ آنا، مجھ سے بات نہ کرنا میرے ہاتھ سے کوئی کام نہ کروانا۔” وہ گھبرا کر بولتی چلی گئی۔
“ان سب سے تم نے یہ نتیجہ نکالا کہ میں کسی اور سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اور مجھے تمھارے لیے مجبور کیا گیا تھا؟” اس کی طرف دیکھتے دبے دبے غصے سے وہ پوچھ رہا تھا اس نے سر ہلایا۔
“میں با شعور مرد ہوں معتداء! مجبور ہونے یا مجبور کرنے کی حد سے نکل چکا ہوں۔ میں نے اپنے دل و دماغ کی مکمل آمادگی کے ساتھ تمھیں اپنایا ہے۔ میری مصروفیت میرے کام کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور تم نے سوچ لیا کہ۔۔۔” وہ تاسف سے سر جھٹک کر بولا تھا۔
“سارا دن فارغ رہتی ہو تو خالی دماغ میں شیطان ایسے ہی وسوسے ڈالے گا۔ کچھ ڈھنگ کے کام کیا کرو۔” وہ غیر محسوس سے انداز میں اپنے اور اس کے درمیان فاصلہ کم کرتا جا رہا تھا۔
“اچھا چھوڑو یہ سب باتیں! تم بیماری کا ذکر کر رہی تھی۔”
اس کا اتنا قریب آنا موتیا کو بوکھلائے دے رہا تھا۔
“ابھی ٹھیک کیے دیتا ہوں تمھاری ہر بیماری۔! کہو کیا بیماری ہے؟”
“مریض عشق ہوں میں۔!” اس نے جی کڑا کر کے کہا تھا۔
“میں تو دماغ کا طبیب ہوں۔” وہ اس سے دو قدم کے فاصلے پر رک گیا تھا۔
“علاج تو آپ ہی کے پاس ہے۔” وہ نظریں جھکا گئی۔
؎ مت کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
“مجھے آپ سے جیتنا بھی نہیں ہے۔”
“کب تک؟” عدی نے اس کے ہاتھ تھامے۔
“ہمیشہ!” دل کی بے قابو دھڑکن کو سنبھالتے اس نے جواب دیا۔
“میری مصروفیت کو کسی اور عورت کے نام کبھی مت کرنا موتیا۔” اس نے دوسری بار اسے موتیا کہا تھا۔ اسے سن کر بہت اچھا لگا تھا۔
میری زندگی میں پہلی ترجیح میرا کام ہے اور اس کے بعد میرا گھر اور گھر والے۔” اس کے ہاتھ عدی کے ہاتھ میں تھے۔ دل جیسے کانوں میں دھڑک رہا تھا۔
“تمھیں میرے لیے بنایا گیا تھا۔ میری تقدیر میں تھیں اور مجھ تک ہی پہنچ گئیں۔ ہاں بس مجھ تک آنے کے لیے راستے تھوڑے پرپیچ ہو گئے تھے۔” اس نے حیرت سے عدی کو دیکھا۔ وہ ابھی آیا کہہ کر اپنے لاکر کی طرف گیا تھا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک تصویر تھی۔
“یہ۔۔!” موتیا نے بہت حیران ہو کر وہ تصویر دیکھی تھی۔ یہ ان کی شادی کی تصویر تو تھی ہی نہیں۔ سرخ اور سنہرے رنگ کا عروسی لباس پہنے موتیا اور گہرے سرمئی رنگ کے سوٹ میں اس کے ساتھ کھڑا عدی۔
“یہ تو ہادی اور اس کی۔۔۔” اسے یاد آیا تھا۔ عدی اچانک ہی اس جگہ آ کھڑا ہوا تھا۔ لیکن قدرت کے فیصلے۔۔۔
“مجھ تک آنے کے لیے راستے تھوڑے پرپیچ ہو گئے تھے۔” اسے ابھی کہی گئی عدی کی بات یاد آئی، دل یکبارگی زور سے سکڑ کر سمٹا اور دھڑکا تھا۔
“میں گزرے دنوں کی تکلیف تو کم نہیں کر سکتا موتیا! لیکن اس کا ازالہ ضرور کروں گا۔ میرا تم سے وعدہ ہے کہ میری محبت تمھاری ہر تکلیف اور ہر دکھ ختم کرے گی۔” اس نے بھرپور انداز میں اسے یقین دلایا تھا۔ موتیا نے مسکرا کر طمانیت سے اس کے سینے پر سر رکھ دیا تھا۔ سکون کی ایک لہر تھی جس نےعدی کے وجود کو گھیرے میں لیا تھا۔ وصل کی تمنا لیے دو دلوں کو بالآخر وصل نصیب ہو ہی گیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
(ختم شد)