(Last Updated On: )
اتنے گہرے ساگر میں مدتوں سے پیاسا ہوں
بے پناہ سازش ہوں، دل فریب دھوکا ہوں
آ گیا ہوں منزل پر دگر یہ کوئی منزل ہے،
اب تو سوچنا یہ ہے میں کہاں سے آیا ہوں
اب تو سارے نقشوں نقشِ پائے بے منزل
شام، گر گئے پتے۔ ابر بن کے برسا ہوں
دست و پا مسافر ہیں، آنکھیں مائل پرواز
اک تلاش، اک گردش، کون ہوں میں اور کیا ہوں
جانور کی آنکھوں میں کس طرح کی جھلی ہے
جانے اس کی نظروں میں سرخ ہوں کہ پیلا ہوں
بے قرار تھا اسلمؔ خود میں محو تھا پہلے
سوختے کے اُوپر میں کس طرح سے پھیلا ہوں
٭٭٭