۔۔۔۔ہماری دنیا کا موجودہ غیرمتوازن،غیر منصفانہ اور غیر انسانی نقشہ ویسے تو آڑی ترچھی لکیروں کے ساتھ ایک عرصہ سے بن رہا تھا۔سوویت یونین کے خلاف پاکستان اور عرب ممالک کے ذریعے امریکہ سرکار کی طرف سے باقاعدہ” اسلامی جہاد“ کا اعلان کرایا جانا اوران مجاہدین کو امریکی اور دوسرے مغربی میڈیا پر بڑے پیمانے پر پیش کیا جانااور خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ انہیں ہر طرح کی فوجی اور مالی امداد بھی فراہم کی جانی۔پھر سینیئر بُش کے زمانے میں عراق پر وحشیانہ حملہ۔۔۔۔اور اس حملہ کے بعد سے اب تک عراق کے خلاف مختلف انسانیت سوزپابندیاں۔۔۔ورلڈ ٹریڈ سنٹرپر طیاروں کے حملہ کے ڈرامہ سے پہلے ہی ہندوستان کی بی جے پی سرکار کی اسرائیلی سرکار سے محبت کی پینگیں اور کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے کے لئے اسرائیلی بربریت کے طور طریقے جاننے کی کھلی خبریں۔۔۔پھرسپین سے مسلمانوں کے مکمل صفایا کی تاریخ کو زیادہ توجہ سے دیکھنے کا عمل۔۔۔یہ سب کچھ ایک ساتھ ہو رہا تھااور ایسے لگ رہا تھا کہ انتہا پسند یہودی اور انتہا پسند ہندو لابیوں کو کسی طویل منصوبہ بندی کے تحت مربوط کیا جا رہا ہے۔یہ سب کچھ امریکی سرکار کی ”جنبشِ ابرو“ سے ہو رہا تھا۔تاہم ابھی یہ سب ہلکی لکیریں سی ابھر رہی تھیں۔
۔۔۔۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہوائی جہازوں کے حملہ کے ڈرامہ کے بعد یہ ہلکی لکیریں ایک واضح پنسل اسکیچ کی طرح سامنے آگئی ہیں اور ابھی اس کے مزید خدو خال نمایاں ہورہے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی کی بے رحمانہ یہودیانہ سرگرمیوں کے ساتھ اسرائیل اپنے کئے ہوئے تمام تر معاہدوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فلسطینیوں پر جو قیامت ڈھا گیا ہے ہندوستان میں بی جے پی سرکار نے بالکل انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نہ صرف کشمیریوں کے خلاف وحشیانہ کاروائیاں تیز کردیں بلکہ گودھرا ریلوے اسٹیشن کے سانحہ کو بہانہ بنا کر گجرات میں تجرباتی طور پر مسلمانوں کا انتہائی سفاکانہ قتل عام شروع کرادیا۔میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتے ہیں۔اور خلوص دل سے دونوں ملکوں میں محبت کا رشتہ قائم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔بلکہ میں تو یورپی یونین کی طرز پر سارک ممالک میں اتحاد کا خواب بھی دیکھتا ہوں۔میں بہت سارے نیک طینت اور بہت ہی محبت کرنے والے ہندوؤں کو نہ صرف جانتا ہوں بلکہ بہت سوں سے میرے محبت کے تعلق بھی ہیں،اسی لئے میںسفاک لوگوں کے لئے ہندوؤں کے بجائے” انتہا پسند ہندوؤں“ کے الفاظ استعمال کررہا ہوں۔۔۔۔مجھے نہایت دکھ سے یہ اقرار کرنا پڑرہا ہے کہ مجھ جیسے پاکستانیوں اور میرے جیسے جذبات رکھنے والے ہندوستانیوں کی تمام تر نیک خواہشات کے باوجود اب مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایسی خلیج بڑھتی جا رہی ہے جسے پاٹنے کے لئے پتہ نہیں کتنا وقت لگے گا۔اور پھر بھی پتہ نہیں خلیج کم ہو گی یا مزید بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
یہ سارا منظر ایک واضح نقشہ کی صورت میں سامنے آتا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔ اگرچہ ابھی تک امریکہ اور انڈیا بظاہر اپنے کسی مذہبی تعصب سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو امریکہ،انڈیا اور اسرائیل کا نشانہ براہ راست مسلمان ہی ہیں۔ بے شک اس وقت امریکہ ،اسرائیل اور انڈیا کے انتہا پسند نسلی برتری کے اسی زعم میں مبتلا ہو گئے ہیںجس میں کبھی
جرمنی کا ہٹلر مبتلا ہوا تھا۔ہٹلر کے زعم کی وجوہات اور تھیں۔اس کا ٹکراؤخود یہودی نسل پرستوں سے تھا۔ اس لئے یہ ایک جیسے ذہن رکھنے والے دو مختلف نسل پرستوں کا ٹکراؤتھا ۔اُس کے برعکس اِس وقت مسلمانوں کے خلاف یہودیوں،مسیحیوں اور ہندوؤں کی انتہا پسندقوتیں اپنی ماضی کی نفسیاتی وجوہات کے باعث سرگرم عمل ہیں۔ان تمام نفسیاتی گرہوں میں” شدید احساسِ کمتری“ایک اہم فیکٹر ہے جو مسلمان حکمرانوںکی صدیوں کی حکمرانیوں کے باعث ان قوموں میں سرایت کرگیا تھا اور جو اِس مہذب دور میں بھی ،اِن پڑھے لکھے ، شائستہ ،معتدل اور وسیع القلب امریکی اور انڈین حکمرانوں کے ذہنوں اور دلوں سے نہیں نکل سکا۔بی جے پی کے ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی نے جب سرِ عام یہ کہاکہ مسلمان بادشاہوں نے بہت ظلم کئے تھے اور پھر غصے میں یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے دو چہرے ہیں تو در اصل یہ ان کا وہی نفسیاتی احساسِ کمتری بول رہا تھا جس سے وہ نسلوں بعد بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔اور جب امریکی صدر جونیئر بش طالبان اور القاعدہ کا بہانہ بنا کر افغانستان کے بے سروسامان افغان عوام پر وحشیانہ بمباری شروع کراتے ہوئے بے ساختگی سے کہتے ہیں کہ اب صلیبی جنگ شروع ہو گئی ہے تو اس بیان میں بھی لا شعوری طور پر سہی ان کا وہی نفسیاتی احساسِ کمتری اپنی پوری شدت کے ساتھ کارفرما تھا۔
۔۔۔۔میں اس نفسیاتی وجہ کو اس لئے بیان نہیں کررہا کہ اس سے کسی مذہب سے متعلق لوگوں کی تحقیر کی جائے، بلکہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ اس وقت مسلمانوں پر جو قیامتیں ڈھائی جا رہی ہیں ان کی وجہ اپنے اصل پس منظر کے ساتھ سامنے آسکے۔
۔۔۔۔اس وقت مہذب دنیا بالخصوص امریکہ اور یورپ کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسلمانوںکے پُرکھوں کی اپنے پُرکھوں سے کی گئی مبینہ کردہ اور ناکردہ زیادتیوں کی سزا ان مسلمان لوگوں کو مت دیں جوآج کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں ۔نسل پرستی اور برتری کے منفی رویوں سے چھٹکارا پائیں اور اپنی سائنسی ترقیات اور انسانیت کو فیض پہنچانے والی ایجادات سے بلا امتیاز پوری انسانیت کو فیضیاب کریں۔گلوبل ولیج کا منظر ہی آج کی اور آنے والے زمانے کی حقیقت ہو ،تاکہ اس دھرتی کو بلا امتیاز سارے انسانوں کے لئے امن ،سکون،خوشحالی اور محبت کا گہوارا بنایا جا سکے ۔اس وقت ویسے تو بلاشبہ مسلمانوں میں بھی بہت سے اصلاح طلب امور ہیں۔فرقہ واریت،دوسرے مسلک اور مذہب کے لوگوں کے معاملات میں عدم برداشت،جدید زمانے کی رفتار کا ساتھ نہ دے پانے کے مسائل،علاقائی تعصبات،اسلام سے نام کی حد تک وابستگی اورذاتی مفاد پرستی ایسے امور ہیں جن سے خود مسلمانوں نے اپنے آپ کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی موجودہ ذلت آمیز حیثیت کے اسباب میں یہ سارے امور شامل ہیں اور تاحال ان خرابیوں کے دور ہونے کی کوئی صورت بھی دکھائی نہیں دے رہی۔تاہم ان خرابیوں کے باعث امریکہ،اسرائیل اور انڈیاکے انتہا پسندوں کو مسلمانوں کی نسل کشی کا لائسنس دے دیا جانا انتہائی شرمناک رویہ ہے۔
۔۔۔۔اس وقت دنیا کے باقی مذاہب کے لوگوں کے لئے اور خاص طور پر امریکہ اور انڈیا کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفسیاتی اثرات کے خول سے باہر نکلیں اور دنیا میں عالمِ اسلام کے سلسلے میں موجودہ عدم توازن کو خود دور کریں۔گجرات کے سانحہ پر مغربی حکومتوں اور پریس کا ردِ عمل غیر موثر ہے۔ایسا سانحہ جو گزشتہ ایک صدی کا سب سے ہولناک سانحہ ہے اور جسے اڑھائی ماہ گزرنے کے بعد بھی بی جے پی کی حکومت نے جان بوجھ کر ختم نہیں ہونے دیا۔۔اس پر مغربی میڈیا نے جتناردِ عمل ظاہر کیا ہے اس سے صرف مغربی میڈیا کا منافقانہ کردار مزید واضح ہوتا ہے۔ اس ”ردِ عمل“ کو پنجابی میں”گونگلواں توں مٹی جھاڑنا“(شلجم سے مٹی جھاڑنے)کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اس سے زیادہ موثر تو خود انڈیا کے مہذب پریس کا ردِ عمل رہا ہے۔صاف ظاہر ہے یہ ظلم ، اور اس پر مسلم دشمنی پر تلی ہوئی”مہذب“دنیا کا ردِ عمل بھی ان کے صدیوںکے نفسیاتی اثرات کا نتیجہ ہے۔ دنیا میں امن،سکون اور محبت کے فروغ کے لئے زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً عدم توازن کو ختم کرنا ہوگا سب کے لئے یکساں انصاف کرنا ہوگا۔دہشت گردی کی آڑ میں مسلمانوں کی نسل کشی پر تلی ہوئی ساری” مہذب“دنیاسے مودبانہ گزارش ہے کہ ذہنی طور پر سابقہ زمانوں کے حساب کے پھیر سے نکلیں اور کھلے دل کے ساتھ دنیا کی قیادت کریں۔
۔۔۔۔ سابقہ زمانوں کے حساب کتاب میں پڑیں گے تو پھر سب کے ذمہ” بہت کچھ واجب الادا“نکلے گا۔
اور آج کا زمانہ بھی تو ایک دن سابقہ زمانوں ہی میں شمار ہوگا۔
٭٭٭