آخر لکیر اپنے فقیروں کو کھاگئی
بس اک فقیر بچ گیا ہٹ کر لکیر سے
۔۔۔ ۔ میرے ایک جوشیلے لیکن کم فہم دوست کا خیال ہے کہ اطاعت کا مادہ افراد اور قوموں کو فکری لحاظ سے بانجھ اور اپاہج بنا دیتا ہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ غلامی کی قدیم روایت نے آج کے مہذب دور میں اطاعت گزاری کی مہذّب صورت اختیار کرلی ہے۔ اطاعت گزاری کو ایک اعلیٰ خوبی کے طور پر پیش کرکے افراد اور قوموں کو اس کے جال میں پھنسا کر غلام بنایا جاتا ہے۔ میں نے اس وقت تو دوست کی بات میں بڑا وزن محسوس کیا لیکن بعد میں جب غور کیا تو مجھ پر لمحہ بہ لمحہ اطاعت گزاری کی برکات منکشف ہوتی گئیں۔
۔۔۔ عام حالات میں اطاعت گزاری کا مادہ ہزار نعمت کے برابر ہے جبکہ تنگ دستی کی حالت میں تولاکھ نعمت سے بھی بڑھ کر ہے۔ سچے اطاعت گزار اپنے آقایا ممدوح کی بات کبھی رد نہیں کرتے خواہ ظاہراً وہ بات کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو۔ کیونکہ وہ ظاہر بین نہیں بلکہ باطن بین ہوتے ہیں۔ اپنے اندر کی تیز فراست کے باعث انہیں یہ بھید معلوم ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ کسی سورج یا چاند کے نہیں، اپنے آقا کے اطاعت گزار ہیں۔
۔۔۔۔اطاعت گزاری، فرماں برداری اور وفا شعاری ایک ہی حقیقت کے مختلف چہرے ہیں ۔ اطاعت کا مادہ انسانی نفس کو سنگسار کرکے اس کی روح اور ذہن کو ہر طرح سے سبکسار کردیتا ہے، گویا اطاعت سے مراحلِ تصوّف کا آغاز ہوتا ہے اور کمال اطاعت تک وہ کامل صوفی بن جاتا ہے۔ دنیا کی لعنت ملامت یا اپنے ضمیر کی طعنہ زنی اسے اطاعت سے نہیں روک سکتی۔ کوئی عاشق اس وقت تک سچا اور کامیاب عاشق نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی وفا کے جوہر کو محبوب کی کامل اطاعت کے مقام تک نہ پہنچا دے۔ اسی لئے سچا عاشق اطاعت کی ایک ہی جست سے عشق کے سارے مرحلے طے کرکے فارغ ہوجاتا ہے۔
۔۔۔ ۔تجریدی تصویر کی طرح اطاعت گزاری بھی تہ در تہ نتائج(معانی) کی حامل ہے۔ آپ نے بڑے افسر کی اطاعت کی تو اس کے منظورِ نظر بن گئے۔ بڑے افسر کے منظورِ نظر بنتے ہی ماتحت عملہ کے اطاعت گزاروں کی ایک فوج آپ کے زیرِ نگیں آگئی۔ گویا افسروں کی اطاعت کرنے والوں کو بھی ایک افسری نصیب ہوجاتی ہے۔ آمروں کی اطاعت کرنے والوں کو اسی طرح ایک قسم کی آمریت مل جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک مسلسل جاری و ساری رہتا ہے۔ اطاعت گزاری ایک طرف حاکمِ اعلیٰ کے دل میں اطاعت گزار کے لئے محبت اور ہمدردی کے ساتھ نرم گوشہ پیدا کرتی ہے تو دوسری طرف اس اطاعت گزار کی اطاعت پر کمربستہ ہوجانے والے ماتحتوں کے دل میں بھی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ یوں اطاعت گزاری کے نتیجے میں دنیا امن اور محبت کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ تمام جماعتیں جو دُنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنانے پر تُلی ہوئی ہیں، سب سے زیادہ زور اپنی تنظیم کی اطاعت پر ہی دیتی ہیں۔ سچے اور کامل اطاعت گزار ایسی جماعتوں کے لئے روح کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی فرد یا چھوٹا سا گروہ ایسی کسی جماعت سے انحراف کرنے لگتا ہے تو جماعت کے سب چھوٹے بڑے اسے کچا چباڈالنے پر تُل جاتے ہیں اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک اسے تہ تیغ نہیں کردیتے یا پھر سے اطاعت پر مجبور نہیں کردیتے۔ ایسے نازک موقع پر اخلاقیات کے سارے اصول بالائے طاق بھی رکھ دیئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں، اغماض و درگزر کا تو خیر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ انحراف کرنے والوں کا مسئلہ پوری جماعت کی بقاءکا مسئلہ ہوتا ہے۔ منحرف ہونے والوں کا محاسبہ اور کردار کشی نہ کی جائے تو باقی اطاعت گزاروں کو اطاعت کُشی کے عمل سے کون روک سکتا ہے!
۔۔۔ ۔ہمارے معاشرے میں گھریلو ناچاقیوں کے باعث کئی گھروں میں طلاقیں ہوجاتی ہیں اور کئی گھر مستقل طور پر میدانِ کارزار بنے رہتے ہیں۔ ایسے گھر دراصل اطاعت کی نعمت سے محرومی کے باعث جہنم کا نقشہ بنتے ہیں۔ ساس، بہو میں سے کوئی ایک اور میاں بیوی میں سے اگر دونوں ہی اطاعت گزاری اختیار کرلیں یعنی اپنی آنکھیں ،کان اور ہونٹ پوری طرح مقفّل کرلیں تو نہ صرف ازدواجی زندگی خوشگوار اور مثالی ہوجائے گی بلکہ سارا گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا۔
۔۔۔ ۔کامل اطاعت کے وصف سے محروم لوگوں کو بھیڑوں، بکریوں کے گلّوں سے سبق سیکھنا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ اشرف المخلوقات کا لقب تو بھیڑ بکریوں کو ملنا چاہئے جن کے ہاں سر تسلیم خم کرنے بلکہ قلم کرانے کا وصف پیدائشی ہوتا ہے۔
۔۔۔۔ سچے اطاعت گزار کاکمال یہ ہے کہ جو سانحہ اس کے اپنے گروہ کے ساتھ گزرے اسے تو وہ خدا کی طرف سے آزمائش اور امتحان قرار دیتا ہے لیکن اگر ویسا ہی سانحہ بلکہ اس سے بھی کم تر سانحہ کسی دوسرے گروہ کو پیش آئے تو پورے ایمانی جوش و خروش کے ساتھ اسے عذابِ الہٰی سے تعبیر کرتا ہے۔ کیسا صحیح رویّہ ہے!
ایں سعادت بزور بازو است
۔۔۔ ۔اچھا اطاعت گزار اول تو اپنے کھونٹے سے بندھے رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے تاہم اگر گھومنا پھرنا چاہے تو شاہی فرمان کے مطابق تین کھونٹ کے علاقوں تک ہی سفر کرتا ہے، چوتھے کھونٹ کی طرف کبھی نہیں جاتا۔ نتیجةً آگہی کی ان ساری اذیتوں اور عذابوں سے محفوظ رہتا ہے جو ہر اُس شخص کا مقدر ہوتے ہیں جو چوتھی کھونٹ کی طرف نکل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ادب میں بھی اطاعت گزاری کے باقاعدہ سلسلے جاری ہیں۔ نظریاتی اطاعت گزاروں نے اپنے اپنے کیمپوں کو سجارکھا ہے۔ ادبی گدی نشینوں کی ساری توقیر اطاعت گزاروں کے دم قدم سے ہے، جبکہ اطاعت گزاروں کو یہ سہولت حاصل ہے کہ ان کے لئے مراعات کا دروازہ ”کھُل جا سم سم“ کہے بغیر ہی کھل جاتا ہے۔ یوں اطاعت گزاری کے وصف کے باعث انہیں چوتھی کھونٹ کا سفر کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اطاعت گزار ادیب ادب میں چوتھی کھونٹ کے سفر کی ساری صعوبتوں سے محفوظ ومامون رہتے ہیں۔ سچ ہے جنہیں اللہ رکھے انہیں کون چکھے!
۔۔۔ ۔اطاعت گزاری کا جوہر نہ صرف بغاوت، سرکشی اور انحراف کے جذبات کو ختم کرتا ہے بلکہ انسانی ذہن کو زیادہ سوچنے کے عمل سے روک کر اسے بہت سی مشکلات سے بھی نجات بخش دیتا ہے۔ زیادہ سوچنے والے لوگ یعنی آزادانہ طور پر غوروفکر کرنے والے لوگ، جب سوچتے ہیں تو بُرے بھلے میں حدِّ فاصل قائم کرکے تعصب اور آویزش کو ہوا دینے لگتے ہیں۔ سقراط اور گلیلیو ایسے ہی باغی لوگ تھے جو ہر وقت ذہن کو استعمال کرنے کی بدعادت میں مبتلا تھے۔ صبح و شام غور و فکر میں ڈوبے رہتے اور پھر اپنے باغیانہ خیالات سے اطاعت گزاروں کی نئی نسل کو بھی گمراہ کرتے۔ سب جانتے ہیں کہ ان” بدبختوں“ کا انجام کیا ہوا۔ سچے اطاعت گزار آج بھی ان کے انجام سے عبرت پکڑتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی؟۔
یہ سوال میں نے اپنے آپ سے کیا ہے اور اب اس کا جواب سوچ رہاہوں!
۔ ۔۔۔ظاہر ہے جواب سوچنے کے لئے اپنا ذہن استعمال کرنا پڑے گا اور اپنے ذہن کو استعمال کرنے والوں کا انجام مجھے(خاص طور پر مجھے) اچھی طرح معلوم ہے۔
٭٭٭