مضمون آفرینی کے بارے میں بلراج کومل صاحب کے الفاظ میری ڈائری میں درج ہیں، انہوں نے کہا کہ ہر دس بارہ برسوں کے بعد شعراء کی ایک تازہ پود کچھ استعارے Permutation & combinationسے ترتیب دے لیتے ہیں جو دیکھنے یا سننے میں کانوں کو تازہ دم اور تازہ کار محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی روح اصل وہی اسی پرانی جڑ سے شاخ در شاخ پھوٹتی ہے۔ ان کے ساتھ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ مضمون آفرینی چونکہ غزل کی بنیادی صفت ہے، یہ جاننا ضروری ہو گا کہ غزل کے کسی شعر کو بھی مضمون کے چوکھٹے میں رکھ کر دیکھا جائے۔ لیکن ’’شعر‘‘ اپنے آپ میں ’’مضمون‘‘ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی ’’معنی‘‘ اور ’’مضمون‘‘ دو الگ الگ اجناس ہیں۔ مغربی شاعری کے طریق کار میں یہ تفریق نہیں ملتی ہے۔ اسے انگریزی میں کہا جائے تو کچھ یوں کہا جائے گا۔
مضمون :::: What the poem or couplet is about
معنی :::::::What the poem or couplet means
غزل کا ایک خاص مضمون اس مجموعی قسم All-inclusive categoryسے تعلق رکھتا ہے جسے خود ترحمیSelf pityکہا جا سکتا ہے، (اور جس کے تحت غزل کے بیشتر اشعاررکھے جا سکتے ہیں ) یہ ہے، ’’تنہائی‘‘، جس کے تحت اس طرح کی ضمنییا ذیلییا تحت التحریر مقاطعی اصطلاحات رکھی جا سکتی ہیں۔ عزلت، بیگانگی، اعتکاف، بیراگ، تیاگ، دست کشی، اجنبیت، سُونا پن، اداسی، جوگ وغیرہ۔ باتوں باتوں میں تین اشعار سامنے آئے۔ دو کلاسیکی شعراء کی تخلیق اور ایک ہمعصر شاعر کی اپج۔
وحشت دل سے شب تنہائی میں
صورت دودرہا سایہ گریزاں مجھ سے (غالبؔ )
کوئی جہت یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میرؔ
یہ طرفہ ہے شور جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں (میر تقی میرؔ )
اب تیسرا شعر جو ایک ہمعصر شاعر کا ہے، غور طلب ہے۔
وہی شب و روز ہیں زندگی کے، ہنسی بھی اشکوں کے سلسلے بھی
مگر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اندر سے مر گیا ہوں (سلیم احمد)
چہ آنکہ غالب اور میر کے اشعار سلیم احمد کے شعر سے بہتر ہیں، تو بھی سلیم احمد کا شعر صرف ’’اندر سے مر گیا ہوں میں ‘‘ استعاراتی سطح پر ایک نئی جہت کی تشکیل کرتا ہے اور سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔ اس شعر میں بھی البتہ شاعر اپنا دامن ’’شب و روز زندگی کے اور ’’اشکوں کے سلسلے‘‘ ‘ جیسے پارینہ، چبے چبائے ہوئے اور پیش پا افتادہ کلیشے کی قسم کی اصطلاحات سے اپنا دامن بچا نہیں پایا۔