یہ خیال کہ افتخار کلثوم عاشق زار ماں تھی ، یقیناً غلط۔ ارشاد اور فردوسی دونوں اُس کے اپنے پیٹ کے بچے تھے اور یہ واقعہ ہے کہ ارشاد پہلونٹی کا بچہ لڑکے کی ذات ، مگر جو لگن افتخار کو فردوسی کی تھی اُس سے آدھی کیا بلکہ چوتھائی بھی بچہ کی نہ تھی۔ دس گیارہ برس کا بچہ اور گندا سندا نہیں ، مَیلا کچیلا نہیں ، صاف سُتھرا اور گورا سفید لیکن ساری ساری رات بخار میں تڑپا اور اِس نیک بخت نے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ تعجب تو کم ہوتا نہیں مگر دل کو یہ کہہ کر تسکین دے لو کہ ماں ارشاد کو فقط دُودھ پلانے کی گنہگار تھی۔ وہ بھی ڈیڑھ دو برس نہیں ، گنتی کے آٹھ سات مہینے ، ورنہ وہ پَلا دادی کی آغوش میں اور بڑھا باپ کی گود میں۔ پورے پانچ برس کا بھی نہ تھا کہ کلکتہ بھیج دیا گیا اور گیا گیا لوٹا چار سال بعد۔ اس جدائی نے اگر افتخار کو اتنا صبر دے دیا کہ اس نے زندہ بچہ کو مُردہ سمجھ لیا تو اسی کا دل گردہ تھا۔ ہاں فردوسی کے ساتھ اس کو محبت اور عشق کیسا ، پروانہ تھی ، فدا تھی ، قُربان تھی۔ اس کا بس چلتا تو شاید کلیجہ چیر کر بچی کو اندر بٹھا لیتی کہ اس کو کسی دنیوی اذیت کی ہوا بھی نہ لگے۔
تیہے کی اتنی تیز اور مزاج کی اس قدر کڑوی کہ دوسرے رشتہ دار اور عزیز تو رہے طاق میں ، افتخار کی حقیق بہن بھائی کی اتنی مجال نہ تھی کہ بھانجی کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ لیں۔ جوان بیوہ ہوئی اور بیس پچیس روپے کی آمدنی کے سوا کوئی معقول اثاثہ بھی نہ تھا۔ مگر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ چُنی۔ ماں زندہ ، باپ جیتا ، بہنیں موجود ، بھائی موجود ، پَر محلہ بَسا الگ گھر میں رہی اور یہ گوارا نہ کیا کہ فردوسی کو کوئی عزیز آنکھ بھر کر دیکھ لے۔
چھوٹی بہن کی شادی میں بیسیوں نَکتوڑوں اور سینکڑوں نخروں سے آئی اور صرف اتنی سی بات پر کہ اور کسی نے نہیں ، فردوسی کی حقیقی نانی ، افتخار کی سگی ماں نے صرف اتنا کہہ دیا کہ میرا آٹھ آنے کا آئینہ تمہاری بچی نے توڑ دیا ، افتخار اٹھنّی آگے پھینک ڈولی منگوا چلتی ہوئی۔ ہر چند ماں نے سر پٹکا ، باپ نے منتیں کیں ، بہنوں نے ہاتھ جوڑے ، بھائیوں نے خوشامدیں کیں ، حد یہ ہے تمام مہمانوں نے کہا مگر وہ نہ رُکنا تھا نہ رُکی اور یہ بھی کہہ گئی کہ ” میری بچی شریر ہے اس وقت تو آٹھ آنے کا معاملہ تھا میں نے بھر دیا ، کوئی بڑا نقصان کر دیا تو کیا کرونگی ، آپ بھلی اور اپنا گھر بَھلا۔“ بھرا گھر دیکھتا رہا اور افتخار یہ جا وہ جا۔
(2)
یوں تو افتخار کی زندگی کے اکثر واقعات تعجب انگیز ہیں لیکن وہ تعجب جو اچنبھے اور حیرت سے بڑھ کر دل کو مشکل سے لگتا اور قیاس میں دقت سے آتا ہے ، ماں بیٹوں کے تعلقات ہیں۔ باپ کے بعد ارشاد کا کلکتہ رہنا ناممکن تھا۔ مگر تقدیر نے باپ کی موت کے ساتھ ہی ماں کا کلیجہ اتنا پتھر کر دیا تھا کہ اُس کو دیس اور پردیس دونوں یکساں تھے۔ یہ فیصلہ سر اور آنکھوں پر کہ فردوسی کی محبت نے اس کو اتنا اندھا اور بہرا کر دیا تھا کہ وہ سننے اور دیکھنے دونوں سے معذور تھی۔ مگر مقابلہ ایسا تعجب انگیز اور حیرت فزا ہے کہ عقل چکراتی ہے ، قیاس ٹکراتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ فردوسی کی عاشق زار ماں ارشاد کے واسطے ایسی ڈائن ہوئی کہ دُنیا نے پناہ مانگی۔ مجبوری یا معذوری دنیا دکھانے کو یا خدا کے خوف سے کھانا تو وہ دونوں وقت یتیم ارشاد کو پیٹ بھر کر دے دیتی ، وہ بھی فردوسی کے بعد ، اور اُس کا بچا کھچا۔ لیکن فصل کا میوہ ، موسم کی ترکاری ، یہ نہیں کہ آتی نہ ہو ، فردوسی کے لئے سب کچھ آتی مگر ارشاد کے واسطے حرام تھی۔ دونوں بچوں میں بیگم اور غلام کا فرق تھا۔ ہم کو یہ بھی تعجب ہے کہ افتخار نے یہ کیوں جائز سمجھا کہ ارشاد آپا کہے حالانکہ وہ نوکروں کی طرح منت و خوشامد کرتا ، پیچھے پیچھے پھرتا ، لڑائی جھگڑا تو درکنار اتنی ہستی نہ تھی کہ اُس کے حکم پر نا کر سکے۔ صرف اتنی سی بات پر کہ بہن کا کھلونا اور وہ بھی مٹی کا لنگڑا گھوڑا طاق سے نیچے اُتار لیا تھا ، دو تھپڑ ماں نے اس زور سے رسید کئے کہ کلّا لال ہو گیا۔
افتخار عورت کیا کھُرّا چنا تھی کہ سب سے الگ تھلگ رہتی۔ خود کہیں نہ جاتی نہ کسی کو بلاتی۔ ظالم کا حافظہ اس غضب کا تھا کہ اگر کسی سے بگڑتی تو باوا دادا کے وقت کی باتیں بیان کرتی۔ شبِ برات کے موقع پر دو ڈھائی آنے روز کی آتشبازی فردوسی منگواتی اور ارشاد چھوڑتا۔ کم بخت کی قضا جو آئی تو ماں سے کہنے لگا ،
” اگر تم مجھ کو اکٹھا سودا منگوا دو تو سب چیزیں میں خود تیار کر لوں اور ایک روپیہ میں چار پانچ روپیہ کا مال ہو جائے۔ “
نیکی اور پوچھ پوچھ ، افتخار کو کیا عذر ہو سکتا تھا ، بچی کے لئے جان تک حاضر تھی۔ روپیہ نکال دے دیا اور لڑکا جَھٹ پَٹ جا سودا لے آیا۔ بارود پیس رہا تھا کہ رگڑ لگی اور اس زور کا دھماکہ ہوا کہ غریب کی دونوں آنکھیں اور ایک ٹانگ رخصت ہوئی۔
افتخار میں مروت ، محبت ، شفقت ، انسانیت اگر کوئی چیز ہو گی تو شاید شوہر کی زندگی میں۔ اب تو اُس کی دنیا و دین ، جنت و دوزخ جو کچھ تھی وہ فردوسی اور صرف فردوسی۔ لُطف یہ تھا کہ زخمی ارشاد ہوا اور بُخار چڑھا فردوسی کو۔ افتخار اگر اس کے اختیار میں ہوتا تو ارشاد جیسے سات لڑکے اور پرائے نہیں اپنے پیٹ کے فردوسی پر قربان کر دیتی۔ غریب پڑا تڑپ رہا تھا اور ماں بچی کو گود میں لئے اُس کے زخموں پر یہ کہہ کہہ کر اور نمک چھڑک رہی تھی کہ تُو تو مرد ذات ہے لوٹ پوٹ کر اچھا ہو جائے گا ، میری پھُول سی بچی کیسی پڑی ، اگر ایسی ویسی ہو گئی تو میں تیرا کیا کر لُوں گی۔
فردوسی کا بُخار معمولی تھا صبح کو اُتر گیا مگر ارشاد کی حالت روز بروز ردّی ہوتی گئی ، دوا ہوئی نہیں آرام کس طرح ہوتا۔ خدا بھلا کرے دادی کا کہ وہ پوتے کو اپنے ہاں لے گئی اور بدنصیب بچہ کا دَم بجائے ماں کی گود کے ، باپ کی ماں کی گود میں نکلا۔
(3)
جس ماں نے ارشاد جیسا بچہ فردوسی پر قربان کر دیا اس سے یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ ایک غیر مرد کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بچی کو چھوڑ بیٹھتی۔ جو پیغام آتا وہ حقارت سے نامنظور اور نفرت سے مُسترد۔ لینا چاہتی تھی گھر داماد ، مگر شرط یہ تھی کہ اپنی دولت لائے اور یہاں بیٹھ کر لُٹائے۔ فردوسی کی عُمر ڈھل رہی تھی مگر بات ڈھنگ کی نہ آئی۔ عزیزوں میں سے کسی کی اتنی مجال نہ تھی کہ افتخار کو ٹوک سکتا ، محلے والے یا ملنے والے تو حق ہی کیا رکھتے تھے ، مگر جن ڈھونڈھیاں اُن پائیاں۔ دُنیا دیکھتی کی دیکھتی رہی اور بی فردوسی کی شادی رَچ گئی۔ تحریری اقرار اور زبانی مُعاہدوں میں جس طرح افتخار نے داماد کو جکڑا اُس کو دیکھ دیکھ کر اور سُن سُن کر مرد بھی دنگ تھے۔ داماد دوسَو (200) رُوپے کا ملازم اور بیوی اور ساس دونوں کا غلام تھا۔ فردوسی کی طرف سے ایسی لغزشیں ہوئیں کہ دوسرا شوہر مشکل سے صبر کرتا ، مگر اُس نے اگر ٹیڑھی آنکھ سے بھی بیوی کو دیکھ لیا تو افتخار نے حشر برپا کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم اپنے گھر میں خوش اور میں اپنے۔ میری بچی رزق کی ماری نہیں ، سلائی سیوں گی اور اُس کا پیٹ پالوں گی۔
اس کامیابی کی تہہ میں کہ ایک بُڈھا شوہر جوان بیوی کی ناز برداری کر رہا ہے ، جو مُصیبت پنہاں ہوتی ہے وہ افتخار اور فردوسی دونوں کے سر پر منڈلا رہی تھی۔ یہ درُست ہے کہ سُہاگ کے دس بارہ سال فردوسی کے ایسے گزرے کہ سبحان اللہ۔ مگر بالآخر شوہر کی موت نے فردوسی کی گود میں دو معصوم بچے ڈال سہاگ کا خاتمہ کیا۔ اور اب اس دورِ عیش کی یادگار یہ دو بچے تھے۔
ہم افتخار کے استقلال کی داد دیتے ہیں کہ اس نازک وقت میں بھی اُس کا قدم نہ ڈگمگایا اور اُس نے مطلق کسی عزیز کی پرواہ نہ کی۔ داماد نے جو تھوڑا سا زیور چھوڑا تھا اُس کو فروخت کیا اور اس مُرغی کی طرح جو چیل کے جھپٹے سے بچائے اپنے بچوں کو پروں میں لئے بیٹھی ہے ، فردوسی اور اُس کے بچوں کو کلیجہ سے لگائے مردانہ وار ہر تکلیف کا مقابلہ کرتی رہی اور گھر کی ہوا نہ بگڑنے دی۔ زیور ختم ہو چکا تو اب وہ مکان تھا جو افتخار کی دُور اندیشی سے فردوسی کی ملکیت ہو چکا تھا۔ مگر اس خیال سے کہ بچی کسی کی نظروں میں ذلیل نہ ہو اُس نے اپنے دونوں مکان علیحدہ کر کے بچوں کی پرورش کی اور فردوسی کی حویلی پر آنچ نہ آنے دی۔
فردوسی کا بڑا لڑکا ظہیر جس نے باپ کے بعد چنے کھا کر پڑھا ، انٹرنس کے بعد ڈاکٹری میں پہنچا اور وہ منظر دیکھنے کے قابل تھا جب افتخار امتحان کے دنوں میں نواسہ کے ساتھ دروازے تک آتی ، ایک باسی روٹی اُس کو دیتی اور کہتی اِس وقت گھر میں اس کے سِوا کچھ موجود نہیں۔ خدا تیرے ساتھ ہے ، ہمت نہ ہار ، بیڑا پار ہے۔
(4)
ظہیر تین سو روپے ماہوار کا نوکر ہے۔ چار ہزار رُوپے اُس کی تنخواہ میں سے ماں جمع کر چکی ہے اور جس گھر میں مُٹھی بھر چنوں کے لالے تھے۔ آج اُس میں گہما گہمی ہو رہی ہے۔ ظہیر کی شادی ہو رہی ہے ، مہمان بھرے ہیں ، دُلہن کا جوڑا اور زیور کشتیوں میں چُنا ہوا ہے۔ مردانہ میں دیگیں چڑھی ہوئی ہیں۔ کمروں میں اُجلی چاندنیاں ، دالانوں میں نئے قالین۔ انگنائی میں کورے تخت ، فردوسی باغ باغ اور نہال نہال اِدھر اُدھر پھر رہی ہے۔ چاروں طرف سے مُبارکبادیں مل رہی ہیں اور ہنس ہنس کر اور کھِل کھِل کر شکر ادا کر رہی ہے۔
اس مکان کے چپہ چپہ اور کونہ کونہ پر خوشی کی چھڑیاں لگ رہی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رنج و غم کا اس سر زمین پر کبھی گزر ہی نہیں ہوا۔ البتہ صدر دالان کی برابر والی کوٹھڑی میں ایک بُڑھیا جس کی عُمر نوّے برس کے قریب ہے اور جو اب ہڈیوں کی مالا ہے۔ اس لئے کہ فالج نے اُس کا ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ بیکار کر دی۔ خاموش پڑی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چھت کی کڑیاں گِن رہی ہے۔ اس کے قویٰ بیکار ہیں ، بصارت جواب دے چکی ہے ، ہاتھ پاؤں کا سکت جاتا رہا۔ چلنے پھرنے کے قابل نہیں ، کھانسی نے جان پر بنا دی ، کمر جھُک گئی ، چُپکی لیٹی ہے۔ مگر نہ معلوم عُمرِ گذشتہ کے کیا کیا خیالات اُس کے دماغ میں چکر لگا رہے ہیں۔
بریانی اور متنجن کی خوشبو اُس کے دماغ میں آئی اور اُس نے خیالی پُلاؤ پکانے شروع کئے۔ ”کھانا آگیا سب سے پہلے فردوسی مجھ کو لا کر دے گی۔ میں کھاؤں گی ہی کتنا ، ایسے میں تو گرم گرم ہے ، پھر ٹھنڈا کس کام کا۔“
” ہائیں ! یہ تو سب کھا بھی رہے ہیں ، کیا فردوسی مجھے بھول گئی ، اُس کو میری مطلق پرواہ نہیں۔“
افتخار دل ہی دل میں بلکہ تھوڑی بہت آواز سے بھی یہ باتیں کر رہی تھی کہ کسی کے قدموں کی آہٹ اُس کے کان تک پہنچی اور اُس کی افسُردگی خوشی سے بدلی۔ مگر جب آواز اِدھر آنے کی بجائے اُدھر جاتی معلوم ہوئی تو افتخار نے آہستہ آہستہ پُکارا۔
فردوسی ، اے بی فردوسی !“ مگر اُس کی آواز کا کسی نے جواب بھی نہ دیا۔ مہمانوں کے کھانے پینے کی آوازیں برابر کان میں آتی رہیں اور آج افتخار کو معلوم ہوا کہ اُس نے اپنی عُمر میں اچھے بیج نہ بوئے۔ یہاں تک کہ کھانا ختم ہوا اور ایک بیوی جو کسی ضرورت سے ادھر آنکلی تھیں گھبرا کر باہر آئیں اور کہا ،
”فردوسی بیگم ! تم نے تو دماغ سڑا دیا۔ تُمہاری اماں والی کوٹھری سے تو ایسی بدبُو آ رہی ہے کہ مغز پھٹا جاتا ہے۔“
فردوسی نے بغیر کسی تامل کے کہا ،
”بُوا کیا کروں ، مَر بھی تو نہیں چُکتیں ، دم ناک میں ہے ، ساری کوٹھری بَلغَم اور غلاظت سے سڑا رکھی ہے۔ اور پھر مزاج ساتویں آسمان پر ، ایک کہوں تو ہزار سُنوں۔“
اتنا کہہ کر فردوسی ماں کے پاس آئی جس کے کانوں میں یہ آواز اچھی طرح آ رہی تھی اور کہا ،
”مہمانوں تک میں ناک کٹوا دی۔ اس کوٹھری کو تین دفعہ بند کر چکی ہوں کہ اندر مری رہو ، مگر بغیر کھولے چین نہیں ، اب تو ہاتھ خاصا اُٹھ جاتا ہے۔“
بُڑھیا چھ سات روز سے دَمہ میں مَر رہی تھی مگر سُوکھی پَنچیوں میں جوش آگیا۔ جواب کا قصد کیا لیکن سانس نے زبان نہ اُٹھنے دی اور شدت کی کھانسی اُٹھی۔ ایک میلی سی ڈِپیا افتخار کے سرہانے جَل رہی تھی۔ وہ کھانسی میں بے چین تھی مگر اُس کی نگاہ بیٹی کے چہرہ پر تھی اور اس نگاہ میں اظہارِ مجبوری و لاچاری کے سوا عُمرِ گذشتہ کی پُوری داستان تھی۔ وہ آنکھیں جو اس بے کسی کے عَالم میں اپنی گُذشتہ خدمات اپنا عشق و فریفتگی جتا کر صرف چاولوں کے ایک نوالہ کی خواستگار تھیں ، ابھی زبان سے کچھ کہنے نہ پائی تھیں کہ ہمیشہ کے لئے سو گئیں۔
افتخار کا انجام ماؤں کے واسطے دَرسِ عبرت ہے۔ فردوسی کے عشق میں ارشاد کے حقوق کا پامال کرنا آسان نہ تھا اور وہ یقیناً اُس سلوک کی سزاوار تھی ، مگر بد نصیب فردوسی جس نے افتخار جیسی عاشق زار ماں کی یہ گت بنائی ، قُدرت کی زبردست طاقت سے اُس وقت آگاہ ہوئی کہ ابھی وہ کھڑی ماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی کہ یہ آواز اُس کے کان میں پہنچی،
”غضب ہُوا ، دُولھا موٹر سے گر پڑا اور مغز پھٹ گیا۔“ 1920