شام کے ڈھلتے سورج کو وہ ریستورینٹ کی چھت سے دیکھ رہی تھی۔ کتنا حسین منظر تھا اسلام آباد شہر کی شام کا۔ گلابی، نارنگی اور جامنی رنگ کا ملا جلا سنگم آسمان کی خوبصورتی کو مزید نکھار رہا تھا۔ اس حسن سے کافی دور وہ اپنی ماضی کے ایسے ہی کسی حسین لمحات میں کھوئی ہوئی تھی۔ جب کسی نے میز پر ہلکی دستک سے اسے خیالوں سے بیدار کیا۔ تمکین نے لمبی لمبی پلکوں کو جھپکا کر سامنے کھڑے وجود کو دیکھا۔ حیرت امڑ کر تمکین کے چہرے پر نمودار ہوئی۔
“شہریار…تم…؟ ” تمکین کے پاوں سے جان ہی نکل گئی۔ ورنہ وہ تو اس شخص پر نظر پڑتے ہی یہاں سے دور بھاگ جاتی۔
” شکر تمھیں میں یاد تو ہوں۔” شہریار نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ تمکین کا دماغ مفلوج ہوگیا تھا۔ وہ بس یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔
” تم ٹھیک تو ہو؟” شہریار نے اس کے ماتھے پر آئے پسینے کو دیکھ کرسوال کیا۔
” تمھیں کیا ہوا ہے؟ ” تمکین نے اس کے برینڈڈ سوٹ کا نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ شہریار طنزیہ مسکرایہ اور اس کے مقابل رکھی سیٹ کھسکا کر اس پر بیٹھ گیا۔
“کیوں تمھارے مغرور باپ جیسا لگ رہا ہوں؟” اب کی بار اس کے لہجے میں نفرت اور طنز دونوں ہی واضح تھے۔ تمکین نے اسے گھور کر دیکھا اور اپنا غصہ ضبط کیا۔
” اچھا ہوا میرے ڈید نے تمھیں صاف انکار کردیا… نہیں تو میں تم جیسے شخص کے ساتھ کیسے گزارا کرتی جسے بات کرنے کی تمیز نہیں۔” تمکین غصے سے اٹھ کر جانے لگی لیکن شہریار نے اس کی سیٹ کے ہینڈل پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کا راستہ روک لیا۔
“جس پیسے نے تمھارے امیر باپ کو مجھے اوقات یاد دلانے کی جرت دی تھی۔ اسی دولت نے آج مجھے تمھارے باپ کو مغرور بلانے کی ہمت دی ہے۔” شہریار نے جملہ ختم کرکے اس کا ہاتھ پکڑ کر سیٹ پر جھٹکے سے بٹھایا۔ تمکین نے سرخ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
“نہ کرو… شہریار پلیز۔ خود کو میری نگاہوں میں مت گراو۔ میرے دل میں تمھاری بہت عزت ہے پلیز ایسی باتیں نہ کہو…” تمکین نے بھرائی ہوئی آواز میں اس سے التجا کی شہریار بات کے بیچھ میں طنزیہ ہسا۔
“مس تمکین محمد اپنے دل میں مجھے عزت کا درجہ تب دینا جب مجھے محبت دے سکو۔” شہریار کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ تمکین کے آنسو زیادہ دیر آنکھوں کی قید میں نہ رہ سکے۔ یہ دیکھ کر شہریار کی آنکھوں میں نمی آگئی اس کے بگڑے تیور اب نرم پڑ رہے تھے۔
“اس دن بھی تو تم ایسے ہی رو رہی تھیں۔ جب ایک معمولی تیس ہزار تنخواہ والا شہریار… تمھارے باپ سے رشتہ جوڑنے کی بات کرنے آیا تھا۔ کیا میں نے کچھ غلط مانگ لیا تھا؟” شہریار کی آواز پر تمکین سر جھکا گئی۔ وہ دونوں ہی خاموش محبت کرتے تھے لیکن تمکین کو چند زمہ داریوں نے جکڑ کر رکھا تھا۔
اس کے ہاتھ میں تب بھی عاص کے نام کی انگوٹھی نہیں تھی لیکن وہ اس سے منصوب تھی۔ دوسرا اسے اپنے ڈید کی عزت اور مان کا خیال تھا۔ ان کے فیصلے تمکین کے لیے بہت اہم تھے۔ وہ چاہ کر بھی ان کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی۔ شہریار سے اسے محبت ہے اور شاید رہے گی لیکن اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کا ہاتھ تھام سکے۔
” میں آج پھر آوں گا۔” شہریار کی آواز پر تمکین نے چونک کر اس کی جانب دیکھا لیکن وہ کسی اور سمت دیکھ رہا تھا۔ شاید اپنے آنکھوں میں چمکتی نمی کو چھپا رہا تھا۔
” پھر سے سوال دھوراں گا۔ پھر سے تمھیں مانگوں گا۔” آہستہ سے کہہ کر اس نے اب تمکین سے نظریں ملائیں۔
“اس بار بھی تمھارے باپ نے انکار کیا…. یا پھر تم نے میری محبت کو دغا دی۔” وہ اس کی جانب زرا سا جھکا۔
“تمھاری قسم میں تمھارے سامنے اپنی جان لوں گا۔” شہریار کے کہنے پر تمکین نے اپنی سانس روک لی۔ “ایک بار مرنا بہتر ہے تمھاری محبت میں بار بار مرنے سے۔” شہریار نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا جو خوف سے کانپ رہیں تھی۔
“کیونکہ میں کل کا سورج تمھاری محبت کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں نہیں تو مجھے آج کا آخری چاند مبارک۔” وہ کہہ کر نشست سے اٹھ گیا جبکہ تمکین مجسمے کی طرح ساکت اس سمت دیکھتی رہی جہاں کچھ لمحے پہلے شہریار کی نگاہیں موجود تھیں۔
شہریار نے آنکھ سے نمی صاف کی اور سیاہ چشمے سے انھیں ڈھانپ لیا مگر آگے بڑھتے قدم ایک دم تھم گئے۔ سامنے کھڑی لہر جیسی بناوٹ رکھتی، گہرے بھورے بالوں والی لڑکی نے اسے رکنے پر مجبور کردیا تھا۔
“مس کلماتی؟” شہریار کی آواز میں جانا پہچانا نام سن کر تمکین نے اس سمت دیکھا۔
“کیا حسین اتفاق ہے ایک دوست سے ملنے آئی تھی اور دوسرے سے ملاقات ہوگئی۔” ایلیاء نے مسکرا کر شہریار کے کندھے پر ہاتھ مارا اور سرخ نگاہوں والی تمکین کو دیکھا۔ اس کی بھویں حیرت سے جڑ گئی۔
•••••
ایک ہفتہ گزر گیا تھا اس کی بے چینی میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں آیا تھا۔ سفید ٹی-شرٹ اور سلیٹی رنگ کا ٹراوزر زیب تن کیے وہ بکھرے بالوں میں ہاتھوں کو پھیر کر کمرے میں چکر کاٹ رہا تھا۔ تمکین نے دو سال کے بعد اچانک منگنی سے کیسے انکار کردیا؟ یہ اس کی کون سی محبت تھی جو اچانک عاص کی خوشیوں کے درمیاں آگئی اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے والے عاص کے خواب کو چکناچور کردیا۔ تمکین کے شادی سے دو ماہ پہلے انکار نے سب کو حیران کر دیا تھا۔آج بھی اسے اپنے سوالات کے جواب نہیں ملے تھے۔
“بھائی…عارف انکل آئے ہیں۔” سلیمان نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اطلاع دی جس پر اس نے بس سر اثبات میں ہلادیا۔
“تمھارا رشتہ لے کر۔” جملہ سن کر عاص نے اس کی جانب حیرت سے دیکھا اور سلیمان نے اسے پوری بتیسی دکھائی۔
“احسان کرو اور باتوں باتوں میں ان سے پوچھ کر بتاو کہ مس کلماتی کہاں ہیں؟” عاص جلدی سے اپنی الماری کی جانب بڑھا اور ساتھ ہی اسے حکم سادر کیا۔
” اوے ہوئے یہ بے چینی… ” سلیمان کے چھیڑنے پر عاص نے اسے گھورا۔ وہ تو قہقہ لگا کر باہر چلا گیا۔ عاص نے سیاہ جینز اور ہلکی گلابی شرٹ نکالی اور تبدیل کرنے کی غرض سے باتھ روم میں چلا گیا۔
ایک سوال تھا جس کا آج اسے ایلیاء سے کسی بھی حال میں جواب حاصل کرنا تھا۔
•••••••
“ہیپی برتھ ڈے ڈارلنگ…” ایلیاء نے مسکرا کر بلند آواز میں اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو کیک کھلاتے ہوئے کہا پھر اسے باہوں میں لیا۔
“تھینک یو سو مچ سوئیٹی۔” اس نے پیچھے ہٹتے ہوئے ایلیاء کے ایک گال پر گلابی یونیکارن کیک کے چھوٹے پیس سے لائن لگا دی تھی۔
” بے حیا..” ایلیاء نے اس کے کندھے پر چپت لگائی۔
ریستورینٹ میں یہ کوئی انیس، بیس لڑکیوں کا گروپ تھا۔ جو اپنی سہیلی کی سالگرہ کی خوشی میں شریک تھا۔ ایلیاء بھی سنہرے تاروں کی شرٹ اور سفید جینز میں ملبوس بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ سالگرہ کی تھیم سنہری ، گلابی رنگ میں رنگے یونیکارن کی تھی۔ ایلیاء نے سیلفی کے لیے موبائل اٹھایا تو انجان نمبر کی کال وائبرٹ موڈ کی وجہ سے وائبریشن پر تھی۔ ایلیاء نے چہرے کے پاس جھولتی لٹ کو کان کے پیچھے سرکاتے ہوئے کال اٹینڈ کی۔
“اسلام و علیکم…” ایلیاء نے پونی میں بندھے بالوں کو ہاتھ سے کندھے کے پیچھے جھٹکا۔
“وعلیکم اسلام.. مس کلماتی؟” سوالیہ انداز میں اس کا نام لیا گیا اور یہ آواز اور لہجہ وہ فوراً پہچان گئی۔
“مسٹر عاص؟” ایلیاء نے حیرت سے بھویں جوڑے فرش کو گھورا۔ بھلا وہ کیوں کال کرے گا؟
“آپ دو منٹ کے لیے باہر آسکتی ہیں۔” اس کے لہجے سے بےتابی صاف جھلک رہی تھی۔
“آپ یہاں ہیں؟” ایلیاء نے حیرت سے سوال کیا اور رخ موڑ کر دیکھا تو عاص کی پرکشش پرسنیلٹی نے اس کی نظروں کو متوجہ کیا۔ انجانے میں ایلیاء کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایا ہوگئے۔
” آاا میں نے آپ کو دیکھ لیا۔ بس ابھی آئی۔ ” اس نے مسکرا کر جملہ کہا۔ عاص بھی اب اس کو دیکھ چکا تھا۔
وہ اپنی کسی سہیلی سے بات کر رہی تھی۔ پھر پلٹ کر عاص کی جانب دیکھ کر ہاتھ ہلایا جواب میں عاص نے بھی ہاتھ ہلایا۔ ایلیاء کو اپنی جانب آتا دیکھ کر عاص نے دروازے کی سمت قدم بڑھائے اور ایلیاء کے دروازہ کھولنے سے پہلے عاص نے اس کے لیے دروازہ کھول دیا۔
” شکریہ..” ایلیاء کے شکریہ ادا کرنے پر عاص نے صرف اثبات میں سر ہلایا اور دونوں ریستورینٹ سے دور پارکنگ کی جانب چل دئیے۔
“مسٹر عاص سلطان آفس چھوڑ کر آج یہاں… حیرت ہے؟” ایلیاء نےمضحکہ خیز انداز میں کہا۔
“عارف انکل میرے گھر پر موجود ہیں۔ آپ وجہ جانتی ہیں؟” عاص نے رک کر سوال پوچھا ایلیاء نے آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا اور عاص کی جانب دیکھا۔
“تو پھر میں آپ سے وہ سوال پوچھنا چاہوں گا جس کا جواب فل وقت میرے پاس نہیں ہے۔” عاص کی بات سن کر ایلیاء نے سانس خارج کی اور اس کی نگاہوں میں دیکھا۔ وہ اس کا سوال جانتی تھی۔
“میں نے آپ کے سامنے قسم کھائی تھی کے جیسے ہی اس کے ہاتھ خالی نظر آئیں گے میں ان کو تھام لوں گی۔” ایلیاء نے جملہ ادا کر کے ایک قدم اس کی جانب بڑھایا اور نظریں جھکا کر عاص کے ہاتھوں کو دیکھا۔
“میں تمھارے ہاتھ تھامنا چاہتی ہوں۔” ایلیاء نے اس کی الجھی نظروں میں دیکھا۔ “اب انکار نہیں کرنا۔” ایلیاء کی بات سمجھتے ہی عاص نے حیرت سے اس کی نگاہوں میں دیکھا۔ محبت کے سوا کوئی جزبہ نہیں تھا مگر وہ جواب میں کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
چند سیکنڈ یوںہی خاموشی کی نظر ہوئے ایلیاء کی نظروں میں اداسی نظر آئی۔ اس نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ قدم پیچھے ہٹائے اور رخ موڑ کر جانے لگی۔ اچانک عاص نے اس کا ہاتھ تھام لیا ایلیاء نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ عاص نے نارمل انداز میں جیب سے رمال نکالا اور ایک قدم آگے بڑھ کر اس کے گال پر لگے کیک کو نرمی سے صاف کیا۔
” وعدہ کرو بیچ راہ میں نہیں چھوڑو گی۔” عاص کے سوال پر ایلیاء کِھل کر مسکرائی۔
“میں اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتی۔ چڑیلوں کے رکاڈ بیٹ کیئے ہیں۔” ایلیاء نے ایک آنکھ دبا کر مضحکہ خیز انداز میں کہا۔
“انکل میرے منتظر ہوں گے۔” عاص نے اب اس سے نظر ملائی اور رومال اس کے ہاتھ میں تھما کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
“تم خوش ہو نا؟” ایلیاء کے سوال پر عاص نے دوسری جانب دیکھ کر کندھے اچکائے۔
“معلوم نہیں؟ ہاں لیکن… اب سکون میں ہوں۔” اس نے ایلیاء کو دیکھ کر کہا اور پھر زبردستی ہلکا سا مسکرا کر وہاں سے اپنی گاڑی کی جانب چل دیا۔ایلیاء نے اس کے رومال کی مہک کو سونگھ کر اپنے اندر اتارا۔
” پر میں بہت خوش ہوں۔ الحمد اللہ..” ایلیاء نے مسکرا کر اس جانب دیکھا جہاں عاص کی گاڑی پارکنگ ایریا سے باہر نکل رہی تھی۔
کبھی کبھی کچھ فیصلے ہمیں دوسروں کی خوشی کے لیے کرنے پڑتے ہیں۔ ایلیاء سے رشتہ جوڑنا بھی عارف صاحب کی خوشی کے لیے تھا۔ جس میں وہ ایلیاء کی رضامندی بھی چاہتا تھا۔
••••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...