“نینا گھر آتے ہی اپنے کمرے میں بند ہوگئی تھی۔۔۔”
“کیا واقع اسلام سچا مذہب ہے۔۔۔؟
“وہ خود سے سوال کرنے لگی۔۔۔”
“کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے موبائل اٹھایا اور کچھ ٹائپ کرنے لگی۔۔کچھ ہی لمحوں کے بعد اسکرین پر کئی ویڈیوز نظر آنے لگی۔۔۔نینا نے ایک ویڈیو اوپن کی دوسری کی تیسری کی اور کافی دیر تک وہ ان کو ویڈیوز کو دیکھتی رہی آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔۔۔نینا موبائل بیڈ پر اچھال دیا اور شکست خور انداز میں بیڈ پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔۔۔”
“کیا واقع یہ سب صحیح ہے جو میں کررہی ہوں۔۔۔یا وہ صحیح تو جو میں پہلے کرتی تھی۔۔۔؟
“بابا صحیح کہتے تھے یا پھر اسحاق انکل ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔؟
“اگر ہمارا مذہب ٹھیک ہے تو لوگ ہمارے مذہب کی طرف مائل کیوں نہیں ہوتے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں یہ سب لوگ جن کو سنا میں نے دیکھا میں نے انہوں نے اسلام مذہب ہی کیوں اختیار کیا۔۔۔اگر ہم ٹھیک ہے تو وہ ہمارے طرف کیوں نہیں آئے کیوں ہندو، عیسائی، سب اسلام قبول کرتے ہیں کیوں۔۔۔؟
“کیا واقع یہ بت ہمیں کچھ نہیں دیتے۔۔۔۔کیا واقع ہمارا مذہب صحیح نہیں ہم غلط راہ پر ہیں۔۔۔۔؟
“نینا تمہیں کیوں لگتا ہے کہ یہ بت پتھر کا ایک بت تمہیں سب دیتا ہے۔۔۔؟
“ایسے ہی کئی سوال وہ خود سے کررہی تھی۔۔۔جب اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔۔۔”
“نینا کے ذہن میں ماضی کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔۔۔”
“کچھ سال پہلے۔۔۔
“نویں دسویں جماعت کے امتحانات قریب تھے۔۔۔نینا پوری توجہ سے اپنے پیپرز کی تیاری میں مشغول تھی۔۔۔”
“نینا تمہیں کیا لگتا ہے اس بار تمہاری کیا پوزیشن آئے گی۔۔؟
“وہ لوگ اس وقت کالج کے عقبی حصے میں ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔۔جب ماہا نے نینا نے پوچھا۔۔۔۔”
“ہمم۔۔میری پوزیشن ہمیشہ کی طرح آگئی۔۔۔فرسٹ۔۔۔وہ فخریہ انداز میں بولی۔۔۔”
“تمہیں اتنا یقین کیسے ہے۔۔؟
“ماہا نے اس کے یقین پر حیرت سے پوچھا۔۔۔”
“کیونکہ میں نے بھگوان سے دعا کی ہے۔۔۔”وہ مصروف سے انداز میں بولی۔۔۔”
“ایک بات کہوں برا نہ مانو تو۔۔۔؟ “ماہا نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔۔”
“ہاں ضرور میں کیوں برا مانوں گی۔۔اس نے شانے اچکائے۔۔۔”
“نینا تمہیں کیوں لگتا ہے یہ بت ایک پتھر کا بت تمہیں سب دیتا ہے۔۔۔؟
“ماہا ہمت جما کرتے ہوئے بولی وہ اس کے ردعمل سے واقف تھی شاید جبھی احتیاط برت رہی تھی۔۔۔”
“اب ایسا تو مت ہو یار اور میری بچپن سے لے کر اب تک کی تمام خواہشات پوری ہوئیں ہیں میں نے جو مانگا مجھے ملا ہے اور مانگا جب بھگوان سے تو دیا بھی تو انہوں نے ہی نا۔۔۔نینا نے اس کے سوال پر حیرت سے اسے دیکھا اور پھر جواب دیا۔۔۔”
“ایسا نہیں ہے نینا۔۔۔میں تمہیں ایک قصہ سناتی ہوں۔۔۔
ماہا چند لمحے ٹہری اور پھر بولنا شروع کیا۔۔۔تم جانتی ہو حضرت ابرہیم علیہ السلام ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں جہاں بت تیار کیے جاتے ہوتے ہیں۔۔۔ان کا گھرانہ بت پرستی ہی کرتا ہوتا ہے۔۔۔لیکن حضرت ابرہیم سوچتے ہوتے ہیں کہ جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔یہ سوال بار بار ان کے ذہن میں آتا تھا۔۔۔اور ایک بار جب ان کے والد کی طبیعت خراب ہوئی تو انکے کہنے پر وہ بت بیچنے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھ سے یہ بت لے لو لیکن نہ تو یہ بولتا ہے نہ چلتا ہے نہ سنتا ہے لیکن پھر بھی یہ مجھ سے خرید لو۔۔۔تو لوگ انہیں مارتے اور کہتے کہ تم کیا کہہ رہے ہو تو وہ کہتے میں سچ کہہ رہا ہوں کیا یہ بولتا ہے۔۔۔؟
“کیا سنتا ہے۔۔۔؟ یا پھر یہ چلتا ہے۔۔۔؟ وہ اس طرح کے کئی سوال سے کرتے ہیں اور لوگ نفی میں سر ہلاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں پھر کیسے یہ تمہاری خواہشات پورا کرے گا جو خود کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔ایک بار ایسا ہوتا ہے سب لوگ میلے پر جاتے ہیں تو آپ بت خانے میں جاکر بتوں کو توڑ دیتے ہیں اور کہلاڑی کو بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیتے ہیں۔۔۔جب لوگ واپس آتے ہیں تو دیکھتے ہیں بت ٹوٹے ہوئے ہیں اور کہلاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھی ہے۔۔۔لوگ چوکیدار سے پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ شاید ابرہیم آیا تھا۔۔۔لوگ آگ بگولا ہوجاتے اور آپ کو بلاتے ہیں اور پوچھتے ہیں یہ سب تم نے کیا۔۔۔؟
“تو وہ جواب میں کہتے ہیں کہ اس بڑے بت سے پوچھ لو۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ کیسے بول سکتے ہیں۔۔۔۔
آپ کہتے ہیں ہوسکتا ہے سب کو انہوں نے ہی توڑا ہو دیکھو کہلاڑی ان کے کندھے پر ہے۔۔۔۔لوگ کہتے ہیں تم پاگل ہو یہ چل نہیں سکتے۔۔۔تو آپ مسکرانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں یہی تو میں کہہ رہا ہوں اگر یہ بول نہیں سکتے چل نہیں سکتے سن نہیں سکتے تو کیسے یہ خدا ہوسکتے ہیں۔۔۔؟
“ماہا پہلی بار اس سے مذہب کے بارے میں بات کررہی تھی۔۔۔اور اسے کافی حد تک اندازہ تھا کہ نینا ناراض ہوگی لیکن وہ اپنی دوست کو صحیح راستے پر لانا چاہتی تھی۔۔۔”
“ماہا بس بہت ہوگیا یہ سب صرف کہانیاں ہے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا میں کافی دیر سے تمہیں برداشت کررہی ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم کچھ بھی کہو۔۔۔کچھ لمحیں خاموش رہنے کے بعد وہ غصے سے بولی۔۔۔”
“نینا یہ کہانیاں نہیں ہے یہ سچ ہے وہ ہمارے نبی تھے۔۔۔نینا تم غلط راہ پر ہو پلیز لوٹ آؤ اس کی طرف جس نے تمہیں بنایا ہے میں نہیں چاہتی تم جہنمی لوگوں سے ہوجاؤ۔۔۔ماہا بےبسی سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔”
“میں نے کبھی تمہارے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں کہا تو تم کیوں کہہ رہی ہو اور (For Kind Your Information) کہ غلط راہ پر میں نہیں غلط راہ پر تم ہو۔۔۔”نینا سختی سے بولی۔۔۔”
“میں کیسے سمجھاؤں تمہیں۔۔۔۔ماہا نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔۔۔”
“کیسے بھی نہیں میں صحیح ہوں میں جانتی ہوں اور تم کون ہوتی ہو مجھے مذہب سیکھانے والی۔۔۔میں نے تمہیں اچھا دوست سمجھا اور تم۔۔۔۔
“میں تمہاری دوست ہی ہوں اور ایک اچھے دوست ہونے کے ناطے میرا فرض ہے تمہیں صحیح راستہ دیکھانا۔۔۔ماہا اس کی بات کاٹتے ہوئے نرمی سے بولی۔۔۔۔”
“تم۔۔۔۔مجھے تم سے بات ہی نہیں کرنی ہے میں جارہی ہوں آئندہ کبھی مجھ سے بات مت کرنا۔۔۔نینا اپنی کتابیں سمیٹتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔”
“نینا تمہارے لیے اللہ سے دعا کروں گی کہ وہ تمہیں نیک راستے پر چلائے اور تمہیں ایمان نصیب کریں۔۔۔”
“ماہا کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔۔۔”
“اس کے بعد نینا اور ماہا کی کبھی بات نہیں ہوئی تھی ماہا کوشش بھی کرتی تو نینا اس سے بات نہیں کرتی اور اس کے بعد ماہا حیدرآباد شفٹ ہوگئی اور نینا اپنی زندگی میں مصروف ہوگئی اتنی کہ اسے یاد ہی نہیں رہا کہ اس کی کوئی دوست ماہا بھی تھی۔۔۔۔”
“ماہا۔۔۔۔”نینا کے آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔۔۔۔”
“کیا واقع ہمارا رب کوئی اور ہے۔۔۔؟
“نینا خود سے ہمکلام تھی۔۔۔”
“کیوں میں بےسکون رہی ہو؟؟۔۔۔کیوں اس فقیر نے کہا کہ اللہ کو تلاش کرو۔۔۔۔؟؟۔۔۔اور کیوں میں نے اس کی بات پر عمل کیا جب کہ میں تو اس پر یقین نہیں رکھتی تھی۔۔۔؟؟
“کیوں میں اسحاق انکل کے گھر جاتی ہوں۔۔۔؟؟۔۔۔کیوں ان کی باتیں مجھے سچ لگتی ہیں۔۔۔؟؟۔۔۔کیوں مجھے اپنا مذہب غلط لگنے لگا ہے۔۔۔؟؟۔۔۔کیوں میرے ذہن میں مذہب کو لے کر اتنے سوالات آتے ہیں۔۔۔؟؟۔۔۔۔میں سب کیا کررہی ہوں کیوں کررہی ہوں یہاں اس لیے تو نہیں آئی تھی۔۔۔؟؟کیوں میں اتنی الجھ جاتی ہوں۔۔؟؟ کیوں اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔۔۔؟؟۔۔۔کیوں سب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پر ایمان لے آتے ہیں۔۔۔؟؟۔۔۔کیوں وہ بوڑھی عورت ان کے صرف اس بات کے اقرار پر ایمان لے آئی کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔۔۔؟؟۔۔ایسا کیا تھا ان میں جو سب ان کی طرف مائل ہوجاتے تھے۔۔۔۔؟؟اور ایسی کیا کشش ہے جو مجھے اسحاق صاحب کے گھر جانے پر مجبور کردیتی ہے۔۔۔؟؟؟
“کیا یہ کشش کافی نہیں کہ اسحاق صاحب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرتے ہیں ان کی بات کرتے ہیں۔۔۔؟
“نینا خود میں الجھی خود سے بہت سے سوالات کررہی تھی جب اس کے دل سے آواز آئی۔۔۔۔”
“وہ ٹھٹھک کر رہ گئی چند لمحے لگا کہ سانس نہیں لے پائے گی۔۔۔۔ان کے وجود کے اندر ایک عجیب ہی طوفان برپا تھا وہ ایک بھنور میں محسوس کررہی تھی خود کو اور کافی جدوجہد کے بعد بھی اس بھنور سے نکل نہیں پارہی تھی۔۔۔وہ فیصلہ نہیں کرپارہی تھی وہ جانتی تھی وہ راہ غلط ہے جس پر وہ چل رہی تھی۔۔وہ جانتی تھی کہ محمد کا رب بھی سچا ہے اور محمد بھی سچے ہیں۔۔۔لیکن بس اعتراف کرنا اس کے لیے مشکل ہورہا تھا کیونکہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرنا اس کے لیے اتنا آسان نہیں تھا۔۔۔۔”
“کافی دیر تک وہ یونہی بے وجہ بیٹھی رہی اور روتی رہی روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔۔۔لیکن وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کرپارہی تھی۔۔۔وہ خود کو بےبس محسوس کررہی تھی۔۔۔”
“اگلے کئی دن تک وہ یونیورسٹی نہیں گئی اور نہ ہی اسحاق صاحب کے گھر گئی۔۔۔وہ بس اپنے کمرے میں خاموش گم سم سی بیٹھی رہتی اور ناجانے کیا سوچ سوچ کر روتی رہتی۔۔۔پوجا سے اس کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔۔اور اس کے گھر والوں کو اس بات سے مخفی رکھنا اسے ٹھیک نہیں لگا تو اس نے ویشال کمار کو کال کی اور ساری صورتحال سے آگاہ کردیا۔۔۔انہوں نے جلد وہاں آنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔۔۔پوجا کو لگا تھا کہ ویشال کمار اسے سنبھال لیں گے۔۔۔وہ انہیں کچھ بتا دے گی۔۔۔لیکن وہ نہیں جانتی تھی۔۔کہ ویشال کمار بھی اسے نہیں سنبھال سکتے تھے اب۔۔۔۔”
“نینا۔۔۔
“نینا کو آج کافی دن بعد یونیورسٹی میں دیکھ کر ذوالقرنین اسے آواز دیتا ہوا اس کے قریب آگیا۔۔۔”
“جی۔۔۔وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔۔”
“آپ کہاں تھیں اتنے دن۔۔۔گھر بھی نہیں آئی اور نہ ہی یونیورسٹی۔۔؟؟
“ذوالقرنین نے اس کی سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔”
“بس طبعیت ٹھیک۔۔نہیں تھی۔۔ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔۔”
“نینا انسان کے دل کا حال اس کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔۔۔آپ کے چہرے اور آنکھوں کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ کسی الجھن میں مبتلا ہیں۔۔۔اور وہ الجھن کیا ہے وہ شاید میں بھی جانتا ہوں۔۔۔نینا تم خود یہ بات جانتی ہو کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔۔تم اپنی منزل کے بہت قریب ہو۔۔۔تمہیں بس اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔نینا کچھ لمحیں تنہائی میں بیٹھ کر آنکھیں بند کرکے اپنے دل سے پوچھیے گا۔۔۔کہ آپ کو کس راہ پر جانا ہے۔۔کیا صحیح ہے کیا غلط۔۔پھر دل جو کہے وہ راہ چن لینا۔۔اس طرح آپ کی الجھن اور پریشانی ختم ہو جائے گی۔۔۔امید ہے میری بات سمجھ آئی ہوگی۔۔اب میں چلتا ہوں۔۔۔وہ رسںانیت سے بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔۔۔”
“نینا کافی دیر اس جگہ کو ساکت کھڑی دیکھتی رہی جہاں پر وہ کچھ دیر پہلے کھڑا تھا۔۔”
“گھر آکر نینا نے وہی کیا جو اسے ذوالقرنین نے کہا تھا۔۔وہ صحیح کہہ رہا تھا۔۔جو فیصلہ وہ اتنے دن میں نہیں کر پائی تھی آج وہ فیصلہ اس نے چند لمحوں میں کرلیا تھا اور اب وہ اپنی تمام پینٹنگز کو ایک بیگ میں رکھ رہی تھی۔۔۔جب پوجا کمرے میں آئی۔۔۔”
“تم کہاں لے جارہی ہو ان کو۔۔۔؟؟
“پوجا حیرت سے پوچھا۔۔۔”
“وہی جہاں انہیں ہونا چاہیے۔۔۔”
“نینا نے بیگ دونوں ہاتھوں میں اٹھا لیا۔۔۔اور باہر آگئی۔۔۔”
“لیکن کہاں۔۔۔؟
“پوجا قدرے ناسمجھی سے بولتی ہوئی کمرے سے نکل آئی۔۔۔”
“جلانے۔۔۔نینا اب ایک کالی چادر اپنے گرد لپیٹ رہی تھی۔۔۔”
“مگر کیوں۔۔۔؟
“پوجا کو شاکڈ لگا۔۔۔۔”
“اگر نہ جلائیں تو ایک دن اس آگ میں ان کی جگہ میں ہوں گی۔۔۔اور میں ایسا کبھی چاہتی۔۔۔نینا نے بیگ اٹھایا اور گھر سے نکل گئی۔۔۔پوجا حیرت سے اسے جاتا دیکھنے لگی۔۔۔”
“اس وقت وہ اسحاق صاحب کے گھر آئی ہوئی تھی۔۔اسحاق صاحب اسے اس وقت دیکھ کر حیران ہوئے تھے کیونکہ وہ ہمیشہ ظہر یا عصر کے بعد آتی تھی اور آج عشاء ہونے والی تھی۔۔۔اسحاق صاحب کے مقابلے نین اتنا حیران نہیں ہوا تھا شاید وہ اس کے آنے کی وجہ سے واقف تھا یا اسے ایسا لگتا تھا۔۔اسے آئے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی لیکن وہ جب سے آئی تھی خاموش بیٹھی تھی۔۔اسحاق صاحب کچھ دیر اس کے بولنے کا انتظار کرتے رہے لیکن جب وہ کچھ نہیں بولی تو اسحاق صاحب نے کچھ ناسمجھی کے عالم میں اسے دیکھا۔۔۔نینا نے سحاق صاحب کو اپنی طرف دیکھتے دیکھا تو اس نے اپنی بنا کچھ کہے اپنی بند مٹھی کھول دی۔۔۔اسحاق صاحب کی نظر اس کے ہاتھ گئی جس میں کسی جلی ہوئی چیز کی راکھ تھوڑی سی راکھ رکھی ہوئی تھی۔۔۔اسحاق صاحب ہے لب مسکرا اٹھے تھے۔۔۔”
“یہ دیکھ کر انہیں سمجھنے میں ایک لمحہ نہیں لگا تھا کہ وہ ان کے پاس کس لیے آئی ہے۔۔۔انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کیں۔۔۔اب صرف ان کے لب ہل رہے تھے۔۔۔نینا کے کانوں میں بس اسحاق صاحب کے کلمہ پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔۔۔اس نے ان کے ساتھ کلمے کو دہرانا شروع کردیا۔۔۔نین نے جب یہ دیکھا تو اس کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑی تھی۔۔۔وہ سوچ رہا تھا کہ کتنی خوبصورتی گواہی ہے نا “اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔”
کتنی خوبصورت گواہی ہے نا کہ ایک غیر مسلم کو مسلم بنا دیتی ہے ایک بھٹکے ہوئے کو راہ دیکھ دیتی ہے۔۔۔۔بس ایک گواہی اس کی پوری دنیا بدل دیتی ہے۔۔۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...