اسے مسجد الرحمۃ جاتے ہوئے دو مہینے ہو چکے تھے ۔اس دوران اسنے اسلام، اسکے عقائد، اسکی بنیادی معلومات ہر چیز کا مطالعہ کر لیا تھا۔اب اسے اسلام کے دین برحق ہونے میں نہ کوئی احتمال رہ گیا تھا اور نہ ہی مزید کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی رہ گئی تھی ۔اب بس رہ گیا تھا تو اس چیز کا اقرار کرنا جس پر اسکا دل ایمان لا چکا تھا۔اقرار اپنی زبان سے اقرار اپنے فعل سے۔
وہ اس وقت اپنے کمرے میں اپنے سامنے قرآن رکھے بیٹھا ہوا تھا۔گہری سوچ کی پرچھائیاں اسکے چہرے پر رقم تھیں۔اسے آج رات اپنی زندگی کا اہم فیصلہ کرنا تھا۔فیصلہ آگے جانے کا یا اپنے قدم واپس لینے کا۔وہ ایک سیدھی چٹان پر آنکھیں بند کیے کھڑا تھا۔اسلام قبول کرنے کے لئے اسے ایک پُش کی ضرورت تھی۔اسے اسلام کی صداقت پر کلی یقین تھا، اللہ کی وحدانیت اسکے دل پر راسخ ہو چکی تھی ۔مگر پھر بھی ۔۔۔پھر بھی اسے ایک علامت کی ضرورت تھی۔اسنے قرآن بند کر کے کھڑکی کے پار دیکھا۔یا اللہ آپ جانتے ہیں کہ میں آپ پر ایمان رکھتا ہوں ۔لیکن میرے دل کے اطمینان کے لئے، اسکی تسلی کے لئے آپ مجھے ایک اشارہ دے دیں ۔کوئی معمولی سا سی علامت ۔۔۔کوئی چھوٹا سا کنایہ۔۔آپ کے لئے تو کوئی چیز مشکل نہیں ہے ۔آپ کے لئے تو بس کُن کہنے کی دیر ہے اور وہ چیز ہو جاتی ہے ۔مجھے بس ایک اشارہ دے دیں ۔۔ایک علامت ۔۔ایک نشانی۔۔اپنے ہونے کا اشارہ، اپنی موجودگی کی علامت، اپنی کبریائی کی نشانی ۔۔۔آپ کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے ۔۔
خاموشی مزید گہری ہوتی جا رہی تھی ۔کھڑکی کے پار رات کا تاریک سایہ بڑھتا جا رہا تھا ۔کیا اسے ایک چھوٹا سا اشارہ نہیں دیا جا سکتا؟ اسنے کرسی کی پشت سے اپنا سر ٹکا لیا۔وہ اب مایوس ہو گیا تھا۔نا امیدی اور بے دلی پورے وجود پر پھیلنے لگی۔اسے تو یہ یقین چاہیے تھا کہ کوئی ہے جو اسکی بات سن رہا ہے ۔کوئی ہے جو اسے اپنے آس پاس موجود ہونے کا اشارہ دے رہا ہے۔مگر اسکی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی ۔اسنے بجھے ہوئے دل کے ساتھ قرآن کھولا اور یونہی بیچ سے بغیر کچھ سوچے سمجھے کھولے جانے والے اس صفحے پر اسکی نظریں پھسلتی چلی گئیں۔
“تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اس رحمان و رحیم کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ہے، جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں انکے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسان کی نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اسکے زریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں ۔”
آیت سے گزرتی اسکی انگلیاں لرزنے لگیں ۔اس مقدس کتاب کا مصنف خود اس سے باتیں کر رہا تھا ۔اسکے سوالوں کے جواب دے رہا تھا ۔اسکے شبہات رفع کر رہا تھا ۔اسکی حجت وہ خود تمام کر رہا تھا۔ایلن نے کپکپاتے ہاتھوں سے قرآن بند کیا اور لڑکھڑاتا اپنے بیڈ تک آیا تھا۔گردن تک کمبل اوڑھے وہ بری طرح کانپنے لگا۔کوئی تھا جو اسے سن رہا تھا، اسکی طرف متوجہ تھا اور وہ اس سے بات بھی کر رہا تھا ۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ لئے تھے۔کیا وہ اندھا تھا جو اللہ سے نشانیاں مانگ رہا تھا؟ اپنی زندگی کے تئیس سال وہ اندھوں اور بہروں کی طرح گزار چکا تھا ۔کیا اس نے سورج کو طلوع ہوتے اور پھر غروب ہوتے نہیں دیکھا تھا؟ کیا اسنے اپنی پوری زندگی میں زمین و آسمان، چاند، تاروں اور سمندر پر غور نہیں کیا تھا؟ کیا یہ اللہ کی نشانیاں نہیں تھیں؟ کیا یہ سب اس بات کے علامات نہیں تھے کہ اللہ کا وجود ہے اور وہ لافانی بھی ہے؟ اسنے اپنا سر گھٹنے پر رکھ لیا۔گولڈن بال بکھر کر پیشانی تک گر گئے تھے ۔نیلی آنکھوں سے قطرہ قطرہ پگھلتا اشک تھوڑی تک آنے لگا۔اسے لگ رہا تھا کہ تئیس سالوں بعد اسے اسکی بصارت دی گئی تھی ۔آج اسے کائنات کی ہر شے میں چھپا رمز نظر آ رہا تھا ۔رمز اللہ کے وجود کا، اشارہ اسکی بالادستی کا، کنایہ اسکے یقین کا۔
بے شک ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں ۔۔۔۔
دوسرے دن وہ بے حد مضبوط قدموں سے مسجد الرحمۃ گیا ۔عشاء کی نماز سے پہلے وہ امام کے پیچھے اپنے لبوں کی لرزش اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا ۔
“میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔” وہ اب ان الفاظ کو انگریزی میں دہرا رہا تھا ۔زبان کے ساتھ اسکا دل بھی گواہی دے رہا تھا اور جسم کا ہر رواں جیسے سجدے میں جھکا جا رہا تھا ۔
” اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔”اسنے دائیں ہاتھ کی آستین سے اپنی آنکھیں رگڑیں اور امام کی جانب دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا۔
افریقی امام نے اسکی ہتھیلی کی پشت کو بوسہ دیتے ہوئے اسے اپنے گلے سے لگایا ۔اور پھر اسکی گردن اور ہاتھ کو بوسہ دینے والے لوگوں کا سلسلہ بندھ گیا تھا ۔وہ گیلی آنکھوں سے مسکراتا بیحد خوشدلی کے ساتھ اپنے اسلامی بھائیوں سے گلے ملتا رہا تھا ۔
عشاء کی نماز اسکی زندگی کی پہلی نماز تھی۔اور پہلے سجدے کے بعد وہ دیر تک اپنا سر نہیں اٹھا پایا۔اسے اس نعمت کا احساس تھا جس سے اسے نوازا گیا تھا ۔اسے اس ذمہ داری کا بار اپنے کندھوں پر محسوس ہوا تھا جو اسنے آج اٹھا لیا تھا۔
مسجد سے باہر نکلتا ہوا ایلن ہنری اب مکمل طور پر ایک مختلف انسان تھا۔خیر چاہنے والا اور شر سے پناہ مانگنے والا ۔امر بالمعروف اور نہی عنی المنکر پر یقین رکھنے والا۔ایلن سر تا پا تبدیل ہو گیا تھا ۔وہ اب حاشر تھا۔اسی نام سے اب اسے پہچانا جانا تھا۔یہی نام اب اسکی شناخت تھی۔
________
وہ آفس سے آ کر اپنے کمرے میں جانے کی بجائے نیچے ہی بیٹھ گیا تھا ۔گولڈن بال سلیقے سے جمے تھے اور نیلی آنکھوں سے تھکن مترشح تھی۔ابھی اسنے کچھ دنوں پہلے ہی جاب جوائن کی تھی۔دونوں پیروں کو اپنے سامنے میز پر رکھے اسنے ٹی وی آن کر لیا۔
“کافی لوگے؟” ہنری کچن سے نکل کر اسکی جانب آ رہا تھا ۔اسنے اپنے ہاتھ میں کافی کے دو مگ بھی اٹھا رکھے تھے ۔ان دونوں کے تعلقات پہلے کی نسبت کافی بہتر ہو چکے تھے ۔ہنری خود اپنے بیٹے کی اس تبدیلی پر حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی تھا۔جب اسے معلوم ہوا تھا کہ ایلن نے اسلام قبول کر لیا ہے تو اسنے اس بات پر اسکی مخالفت کی اور سختی سے اسے سمجھایا بھی۔مگر رفتہ رفتہ اسے یہ احساس ہو گیا کہ اس نئے مذہب نے ایلن پر بہت مثبت اثر ڈالا ہے ۔وہ اسکی بہت عزت کرنے لگا تھا ۔اسنے اپنے باپ سے اپنے سارے اختلافات، سارے جھگڑے ختم کر لئے تھے۔پہلے کی طرح وہ ہر وقت نشے میں نہیں پایا جاتا تھا ۔بلکہ اسنے ڈرنک کرنا بالکل ہی چھوڑ دیا تھا ۔
“تھینکس ڈیڈ!” اسنے ایک ہاتھ سے کافی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے کشن ہٹا کر اسکے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔
“تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے ایلن؟” اسنے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
ڈیڈ! میں حاشر ہوں ۔مجھے حاشر ہی کہا کریں۔”اسنے نرمی سے کہا۔” اور اللہ کا شکر ہے جاب کافی اچھی ہے ۔”کافی کا مگ لبوں سے لگاتے ہوئے وہ چینل سرفنگ کرنے لگا۔
” کوشش کرونگا۔”ہنری نے کہا۔وہ کوشش کے باوجود اسے اسکے نئے نام سے نہیں بلا پاتا تھا ۔” اپنی مام سے بات ہوئی تھی تمہاری ۔اسنے دو دفعہ کال کی تھی اور تم گھر پر نہیں تھے۔”
” ہاں ہو گئی میری بات ۔اس ہفتے وہ نیویارک آ رہی ہیں تو میں سوچ رہا ہوں کہ ۔۔۔” کچھ کہتے کہتے اسکے لب تھمے اور وہ ایک نیوز چینل پر آکر رک گیا تھا ۔
بے اختیار سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے اسنے رموٹ سے والیوم بڑھایا۔کسی چرچ میں ایسٹر سیرمنی کا لائیو ٹیلی کاسٹ آ رہا تھا ۔اسکرین پر سفید اوور کوٹ پر سیاہ پینٹس میں ملبوس اس سیاہ آنکھوں اور گندمی رنگت والی لڑکی کو وہ لمحہ کے ہزارویں حصے میں پہچان گیا تھا ۔اسکرین پر نشر ہوتی تصویریں دیکھ کر اسکا چہرہ سفید پڑتا جا رہا تھا ۔نیلی آنکھوں میں بیک وقت پریشانی اور گھبراہٹ آئی۔وہ اب مزید یہاں بیٹھا نہیں رہ سکتا تھا ۔اسے اُسکے پاس جانا تھا ۔اسے اسکے پاس ہونا تھا ۔رموٹ میز پر رکھ کر کھڑے ہوتے ہوئے اسنے اوور کوٹ پہنا۔
“ایلن۔۔۔حاشر!ابھی پھر کہاں جا رہے ہو؟” ہنری نے اسکی عجلت کو حیرت سے دیکھا ۔
“کسی کو میری ضرورت ہے ڈیڈ!” وہ جھک کر میز سے چابیاں اٹھاتا باہر کی طرف بھاگا تھا ۔
_______
آج ایسٹر تھا۔عیسائیوں کا ایک تہوار جو 21 مارچ یا اسکے بعد آنے والے اتوار کو منایا جاتا ہے ۔عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق اسی دن حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنی قبر سے دوبارہ زندہ ہو کر اٹھے تھے۔عیسائی اس دن اسی چیز کی خوشیاں مناتے ہیں ۔مدر ٹریسا مشنری میں اس دفعہ کا ایسٹر بہت خاص تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک مسلمان لڑکی اپنا مذہب چھوڑ کر انکے مذہب میں داخل ہونے والی تھی۔وہ لوگ اسکی ذہن سازی کرنے میں اپنے طور پر پوری طرح کامیاب ہو چکے تھے ۔اس موقع کو اور زیادہ بڑا اور ہائی لائٹ کرنے کے لئے انہوں نے دو تین مقامی ٹی وی چینل کو چرچ آنے کی دعوت دی تھی تاکہ وہ لوگ بپتسما(عیسائی مذہب کی ایک رسم جس میں بچے کے پیدا ہونے یا کسی غیر عیسائی شخص کے سر پر مقدس پانی کے چھینٹے مارے جاتے ہیں اور اسے عیسائی مان لیا جاتا ہے) کی رسم کا لائیو ٹیلی کاسٹ کر سکیں ۔
زنیرہ ادیب دیگر لڑکیوں کے ساتھ چرچ جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی ۔اسنے سبز لمبے ٹاپ پر سیاہ پینٹس پہن رکھے تھے ۔گھٹنوں تک سفید اوور کوٹ پہنتے ہوئے اسنے آئینہ دیکھا ۔آئینہ میں سرخ ڈورے والی آنکھوں اور زرد چہرے کی حامل زنیرہ کا عکس ابھرا تھا۔آج اسکی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہونے والی تھی۔اپنا ظاہر تو وہ مہینوں پہلے بدل چکی تھی اور آج شاید باطن بھی بدلنے والا تھا ۔”رابرٹ! کیا تم نے کبھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا کہ اسنے تمہیں دوسرے لوگوں کی طرح چلنے پھرنے کے قابل کیوں نہیں بنایا؟” خشک پپڑی زدہ لبوں پر لپ اسٹک پھیرتے ہوئے اسکے ذہن میں رابرٹ کی باتیں گونجنے لگیں ۔حالانکہ اسنے وہاں کئی دن پہلے ہی جانا چھوڑ دیا تھا ۔مگر جانے اسکی سحر زدہ باتیں اسکے ذہن کی سطح سے مٹتی کیوں نہیں تھیں؟” کیوں شکوہ کروں میں اس سے۔۔۔اسنے کم از کم مجھے سوچنے اور سمجھنے کے قابل تو بنایا ہے ۔اسنے مجھ سے میرا دل و دماغ تو نہیں چھینا۔اور یہ زندگی جو ہمیں مل رہی ہے اور جسکا ہر لمحہ ہم گزار رہے ہیں وہ ہمارے لئے نعمت ہی تو ہے ۔میں تو اپنے رب کا اسکی دی ہوئی زندگی کے ہر سیکنڈ کا شکر ادا کرتا ہوں ۔۔۔”اسکی مسحور کن آواز اور ٹھہرا ہوا لہجہ اسکے کانوں میں وحی کی طرح اترنے لگا تھا۔اس خوبصورت آواز سے پیچھا چھڑاتے ہوئے اسنے لپ اسٹک واپس رکھی اور سفید اوور کوٹ کی آستین زرا سا سرکائی۔بیلٹ سے پڑے نیلے اور سیاہ زخم جیسے نشانات جن میں اب تک گہری ٹیس باقی تھی۔ایسے ہی ان گنت داغ اسکے جسم کے ہر حصے میں موجود تھے۔اور ان سے بھی زیادہ تکلیف دہ وہ احساسات تھے جو اسکے دل میں ثبت ہو چکے تھے ۔کیا وہ ان چیزوں کا شکریہ ادا کرے؟ رابرٹ کی باتیں اس سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں ۔اسنے کھلے سیاہ بالوں پر ایک دفعہ پھر برش پھیرا اور باہر نکلتی لڑکیوں کے ساتھ وہ بھی باہر نکل گئی تھی ۔
________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...