اب ہم الفاظ کے غلط استعمال کا بیان کر کے ان کی اصلاح کرتے ہیں، جو آج کل ہندوستان کے مشرقی اور مغربی ملکوں میں بسبب ناواقفیت استعمال کیے جاتے ہیں اور لوگوں کو الفاظ کی صحت نہیں ہے۔ اس سبب سے وہ غلط بولنے پر مجبور ہیں۔
مغرب ہند کے الفاظ اور جملے
پوتے کی شادی سے دادے کی عمر دراز۔ دادے غلط استعمال ہے، فصحا دادا بولتے ہیں۔
ذرا انصاف سے کہیو خدا لگتی۔ کہیو غلط ہے۔ اس طرح بولنا چاہیے۔ ذرا انصاف سے خدا لگتی کہنا۔
آپ ایک سے زیادہ انعامات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس جملے کی ترکیب اور محاورہ غلط ہے۔ اس طرح بولنا چاہیے، آپ کئی انعام بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
ان انعامات کے دینے سے کیا مراد ہے۔ دینے سے زائد اور بے کار ہے۔ اِس کو ’’حشوِ قبیح‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح بولنا چاہیے، ان انعامات سے کیا مراد ہے۔
بواسیر کس طرح پیدا ہوتا ہے۔ بواسیر مونث ہے۔ بواسیر کس طرح پیدا ہوتی ہے، بولنا چاہیے۔
دانت خلال غلط ہے۔ خلال دندان یا دانتوں کا خلال بولنا چاہیے۔
کارخانہ عطریات و روغنیات، یہ بھی غلط ہے۔ اردو کا قاعدہ ہے کہ مفرد لفظ بجائے جمع مستعمل ہوتا ہے۔ جیسے آدمی تھے، چور تھے، نوکر تھے۔ ان کے بے قاعدہ جمع بنانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے ہی عطر روغن مفرد بجائے جمع بول سکتے ہیں۔ ان کو بے قاعدہ جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کافی ہے کہ کارخانہ عطر و روغن۔
پشیمانی ہوئی ایسی انہیں فرط ندامت سے
کہے کلمات سخت و سست آزردہ طبیعت ہے
دوسرے مصرع میں آزردہ طبیعت غلط ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ صفت جب اپنے موصوف کے ساتھ آتی ہے اور موصوف صفت مل کر فاعل کی صفت بن جاتے ہیں، اس وقت ’’سے‘‘ کا استعمال مخصوص مفعول کے لیے فاعل کے ساتھ ناجائز ہے۔ کیونکہ یہاں صفت خود جزوِ فاعل ہے۔ جیسے میں نے آزردہ دل سے کہا۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ میں نے اپنے دل سے کہا جو آزردہ تھا۔ لیکن یہ مطلب نہیں ہو سکتا ہے کہ میرا دل جو آزردہ تھا اس نے کہا۔ اس کو اس طرح بولنا چاہیے، میں نے آزردہ دل ہو کر کہا۔ کلمات سخت میں نے آزردہ ہو کر کہے۔ یہی ثقاتِ لکھنؤ کا فیصلہ ہے۔
برطانیہ کلاں اور ممالک غیر کے پولٹیکل حلقوں میں یہ یقین پھیلایا گیا ہے کہ ہندو مسلمان ہمیشہ سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ یقین پھیلایا گیا ہے غلط محاورہ ہے۔ یقین دلایا گیا ہے بولنا چاہیے۔
اس آدمی نے پوچھا تم کیا لو گے۔ پنڈت صاحب نے جواب دیا، جو آپ دو گے۔ آپ دو گے خلافِ محاورہ ہے۔ جو آپ دیں گے یا جو تم دو گے بولنا چاہیے۔
کوڑی کی چیز ریٹھ سے بہت مرضوں کا علاج، ریٹھ غلط ہے، ریٹھا۔
مسجد متصل مطبع رفاہ عام کا بھی امام پکڑا گیا۔ بھی حرف تاکید ہے، اسم سے پہلے اِس کا بولنا ناجائز ہے۔ اس طرح کہنا چاہیے، امام بھی پکڑا گیا۔
اگر گورنمنٹ نے قانون وضع کر دینے پر ہی اکتفا کر رکھا ہوتا، خلاف محاورہ ہے۔ قانون وضع کر دینے پر ہی اکتفا کیا ہوتا۔
مسلم لیگ کے بعض تقاروں نے نہایت جوش و خروش سے یہ بیان کیا، تقار غلط ہے۔ مقرروں نے چاہیے۔
اسی شخص سے سال دو سال بعد آپ کی دشمنی ہو جائے گی۔ آپ کی دشمنی غلط ہے۔ آپ سے دشمنی ہو جائے گی۔
مگر پھر آپس میں جوت پیزار پر اتر آتے ہیں۔ جوت پیزار غلط ہے۔ جوتی پیزار۔
میرے دو اپنے خاص مہربان دوست ہیں۔ غلط، میرے خاص مہربان دو دوست ہیں۔
بیٹھے بٹھائے ان کو روزگار کا خبط ہو آیا۔ غلط ہے۔ روزگار کا خبط ہو گیا۔
آپ ایک سولہ صفحہ کی کاپی بنا لو۔ غلط ہے۔ آپ ایک سولہ صفحہ کی کاپی بنا لیں۔
چند ایسے اصحاب جنہوں نے اسٹیشن پر اترنا تھا۔ غلط ہے۔ چند اصحاب جن کو اسٹیشن پر اترنا تھا۔
اور نیک و بد روح بھی شفا یاب ہو کر پرواز کر گئیں۔ روح مونث واحد ہے۔ مونث لفظ کو واحد بولنا اور جمع مراد لینا ناجائز ہے، اس لیے روحیں بولنا چاہیے۔
مجھ پر ہر طرف سے حیرانگی کا عالم طاری ہے۔ حیرانگی غلط ہے، حیرانی بولنا چاہیے۔
خواب میں یا بیداری میں مَیں تو ہکی بکی رہ گئی ہوں۔ ہکی بکی غلط ہے، ہکا بکا چاہیے۔
تمام بڑے شہروں میں چلت حساب بلا کسی اجرت کے رکھا جاتا ہے۔ چلت حساب غلط ہے، چلتا حساب صحیح ہے۔
تقریباً ۱۵۰ اخباریں مختلف قسم کی پڑھنے کے لیے رکھنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اخبار لفظ مذکر ہے۔ جمع کی حالت میں بھی واحد استعمال ہوتا ہے۔ اس کو ’یں‘ سے جمع کر کے مونث بنانا غلط ہے۔
مشرق ہند کے غلط الفاظ اور جملے
پتھر پر تھوک پھیکے اور ان کا دل دکھے، تھوک پھینکنا خلاف روزمرہ ہے۔ تھوکنا فصیح ہے۔
اس ملک سے خاص اردو زبان میں کوئی ایسی تصنیف نہیں نکلی کہ مصنفوں کی اس پر آنکھیں اٹھ جاتیں۔ آنکھیں اٹھ جانا خلاف محاورہ ہے۔ نظریں پڑتیں بولنا چاہیے۔
اس کی اطاعت اور فرماں برداری سے جہاز کے اہل خدمت کو سرتابی نہیں پہنچی۔ سرتابی پہنچنا خلاف محاورہ ہے۔ اس طرح بولنا چاہیے، اس کی اطاعت اور فرماں برداری سے جہاز کے اہل خدمت سرتابی نہیں کرتے۔
کل سے میرا لڑکا بد مزہ ہے۔ اور اس سے مطلب یہ ہے کہ کل سے میرا لڑکا بیمار ہے۔ اول تو بد مزہ اسم صفت ہے۔ اس کا موصوف لڑکا نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ یہ محاورہ اس طرح نہیں ہے، یوں بولنا چاہیے۔ کل سے میرے لڑکے کی طبیعت بد مزہ ہے۔ طبیعت بد مزہ ہونا محاورہ ہے یعنی ناساز ہے۔
بشرطیکہ وہ دھیان دے کر میری بات سنیں۔ دھیان دے کر محاورہ نہیں ہے۔ دھیان رکھ کر بولتے ہیں۔
اور قانون قدرت میں کوئی دفعہ ایسا نہیں ہے۔ دفعہ مونث ہے۔ کوئی دفعہ ایسی نہیں ہے۔
جب شیر شاہ نے صوبہ بہار کو قبضہ کر لیا۔ اس میں کو غلط ہے۔ صوبہ بہار پر قبضہ کرنا بولنا چاہیے۔
نیم کے درخت کی نمولیاں گرا دیتے تھے۔ غیر فصیح جملہ ہے۔ نیم کے درخت کی نیمکولیاں گرا دیتے تھے۔
آخر میں سند کے لیے لکھنؤ جا کر تقی میر کو اپنا کلام دکھایا۔ مشرقی ہند کا خاصہ یہ ہے کہ وہ ناموں کو تعقید سے استعمال کرتا ہے۔ یہ میر تقی کی خرابی ہے، تقی میر لکھا گیا۔
امتداد زمانہ نے ان کے سوانحات عمری کا آئینہ بنا کر۔ سوانحات جمع الجمع ہے۔ ایسے الفاظ اردو میں اب متروک ہو گئے ہیں۔ سوانح عمری بولنا چاہیے۔
ان کے کمال میں ہرج ڈالنے کا قصد کیا۔ ہرج ڈالنا محاورہ نہیں ہے۔ ایسے موقع پر خلل ڈالنا بولنا چاہیے۔ ہرج ہمیشہ کرنا کے ساتھ بولا جاتا ہے اور قیاس بھی اس کو مقتضی ہے کہ علامت مفعول ہے۔ علامت مضاف نہیں ہے اور جملہ مضاف الیہ و مضاف واقع ہوا ہے۔ اس لیے اسی کا مقتضی بولنا چاہیے۔
جب تک عام خلقت کو اس طرف خیال نہ ہو، یہ بھی غلط ہے۔ جب تک عام خلقت کا اس طرف خیال نہ ہو۔ یا عام خلقت کو اس طرف رغبت نہ ہو بولنا چاہیے۔
ذرہ بھر کمی بیشی کا اس میں دخل ممکن نہ تھا۔ یا ذرہ بھر کمی بیشی کو اس میں دخل ممکن نہ تھا۔
نوکروں کو بھی یوں ہی بتا بتا کر عادت دو۔ عادت دینا خلاف محاورہ ہے۔ عادت ڈالو بولنا چاہیے۔
کچھ دنوں تقلید سے کام لو اور اسی قدم چلو جس قدم فصیح لوگ چلتے، بالکل غیر فصیح ہے۔ وہی قدم چلو جو فصیح لوگ چلتے ہیں بولنا چاہیے۔
جن کی پوری توجہ فوائد عام کی طرف معلوم ہوتی ہو۔ توجہ معلوم ہونا خلاف محاورہ ہے۔ جن کی پوری توجہ فائدہ عام کی طرف ہو
طرز یاران طریقت نہ فراموش رہا۔ اس میں رہا غیر فصیح ہے، ہوا لکھنا چاہیے۔
جب قریش با خود ہا میں ملاقات کرتے ہیں تو خوش اور مسرور ہوتے ہیں۔ با خود ہا میں غلط ہے، صرف با خود ہا چاہیے۔
تم کب آئے۔ رات آئے۔ ایسے جملے کا استعمال بہت ہے۔ خصوصاً مشرقِ ہند میں، عموماً ہند میں۔ مگر فصحائے حال اس سے احتیاط کرتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ رات ظرف مکان ہے اور مفعول فیہ ہے۔ اُس کی علامت (کو) حذف کر دی جاتی ہے۔ لیکن اس میں نقص یہ واقع ہوتا ہے کہ یہ جملہ ایک فعل مضارع کا شبہ پیدا کرتا ہے۔ جیسے رات آئے تو ہم سفر کریں۔ رات آئے تو داستان شروع ہو۔ اور حقیقت میں متکلم کی غرض فعل ماضی ہے۔ اس لیے رات آئے بولنا اور اس سے فعل ماضی مراد لینا خلاف قاعدہ ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے موقع پر علامت بولیں تاکہ سامع کو سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ یعنی رات کو آئے کہیں اور مضارع کے محل پر رات آئے بولیں جس میں دونوں کا فرق قائم رہے۔
اسی طرح دن آئے، شام آئے۔ ماضی کے معنی پر بغیر (کو) کے فصحا نہیں بولتے۔ دیر آئے بھی نہیں بولتے۔ دیر میں آئے یا دیر کو آئے بولتے ہیں۔ شہر آئے بھی نہیں بولتے۔ شہر میں آئے بولتے ہیں۔ سرائے آئے بھی نہیں۔ دوپہر آئے بھی نہیں بولتے۔ دوپہر کو آئے۔
اسم عدد کے ساتھ بھی بعض جگہ بغیر علامت بولنا ناجائز ہے۔ جیسے دو گھنٹے آئے، چار گھنٹے آئے۔ اِسے بھی دو گھنٹے میں، چار گھنٹے میں آئے۔ اور سحر آئے، صبح آئے بھی ناجائز ہے۔
لیکن بعض مفعول فیہ میں (کو) اور (میں ) لانا غیر فصیح ہے۔ جیسے آج آئے، کل آئے، پرسوں آئے، دو بجے آئے، چار بجے آئے، اِس وقت آئے، اُس وقت آئے۔
اسی طرح عرصے میں آئے، مدت میں آئے، دنیا میں آئے۔ ان میں آئے لانا فصیح ہے۔
بعض ایسے ہیں جن کو دونوں طرح بولتے ہیں، جیسے گھر آئے اور گھر میں آئے۔ مکان آئے اور مکان میں آئے۔
فصحا جس جس مقام پر علامت کو حذف کر دیتے ہیں وہی صحیح ہے اگرچہ قاعدہ کے خلاف ہے۔ کیونکہ محاورے میں قاعدے کی پابندی لازم نہیں ہے۔ اس میں اطاعتِ جمہور کرنا پڑتی ہے۔
تمام شد