(Last Updated On: )
اسی گماں کا سراپا دل و دماغ میں آئے
وہ شہ گلاب میری زندگی کے باغ میں آئے
پڑھوں تو صبح تلک ہچکیوں میں پڑھتا ہی جاؤں
کشید حرف کچھ ایسی مرے ایاغ میں آئے
خلا بھی خالی نہیں ہے ادھر نگاہ کروں تو
پلٹ کے روشنی سی دل کے داغ داغ میں آئے
عذاب کارِ جہاں سے اسے نکلنا سکھاؤں
اسے کہو کہ مرے حجلۂ فراغ میں آئے
میں شب کے طاقچۂ لامکاں میں رکھا گیا ہوں
میری ہی چشم نما روشنی چراغ میں آئے
کرن کی تاب فزودہ سے جو بنایا گیا ہو
وہ مہر زادہ کہاں آنکھ کے سراغ میں آئے
٭٭٭