سلیم آغا قزلباش(سرگودھا)
اکبر حمیدی کا شمار ستر کی دَہائی میں اُبھر نے والے چند اہم انشائیہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔ستر کی دہائی کو صنفِ انشائیہ کے دور ثانی سے بھی موسوم کیا جاتاہے ۔اکبر حمیدی کا نام اس حوالے سے بھی قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے ایک تسلسل سے صنفِ انشائیہ میں طبع آزمائی کی ہے جب کہ دوسرے بیشتر انشائیہ نگار اس معاملے میں تسلسل کو برقرار نہیں رکھ سکے۔مزید برآں یہ کہ اکبر حمیدی کو اردو انشائیہ پڑھنے والوں کے ایک بڑے حلقے میں کافی پذیرائی بھی ملی ہے۔تعداد کے اعتبار سے بھی انہوں نے سب سے زیادہ انشائیے قلم بند کیے ہیں۔مقدار کے ساتھ ساتھ معیار کو برقرار رکھنا ایک نہایت مشکل امر ہے۔تاہم اکبر حمیدی نے اس توازن کو ایک بڑی حد تک قائم رکھاہے۔ان کے انشائیوں کے چار مجموعے پہلے ہی شائع ہوچکے ہیں۔حال ہی میں ان کے انشائیوںکا پانچواں مجموعہ بعنوان ”اشتہاروں بھری دیواریں“منصۂ شہود پر آیا ہے۔
اکبر حمیدی کے اس تازہ مجموعے کے کم و بیش تمام انشائیوں میں رجائیت کا پہلو خاصا نمایاں ہے‘یوں بھی ان کا فلسفۂ زندگی مثبت زاویۂ نظر پر استوار رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ طنزیہ لب و لہجے کی کاٹ ان کے انشائیوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔البتہ شگفتنِ ذات کا پہلو ان کے انشائیوں میں تازگی کی خوشبو بھر دیتا ہے۔مثبت سوچ کا زاویۂ نظر اختیار کرنے کی بنا پر وہ ہمیشہ گلاس کو آدھا بھر ا ہواکہتے ہیں۔دوسری ایک خاص بات جو مجھے ان کے انشائیوں میں نظر آئی ہے وہ خود کلامی یا گفتگو کرنے کا انداز ہے۔صیغۂ واحد متکلم کے استعمال کی وجہ سے قاری اور لکھاری کے مابین فاصلہ کم ہو جاتا ہے ۔اور قاری محسوس کرتا ہے کہ ہر بات بلاواسطہ اس پر آشکار ہورہی ہے۔
انشائیے میں آغاز اور انجام بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ایک اچھے انشائیے کا پہلا جملہ ہی بڑا مو ثر ہوتا ہے جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتا ہے۔اسی طرح انشائیے کی اختتامی سطور بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ایک منجھا ہوا انشائیہ نگار ‘اختتامی سطور کو اس فنی چابکدستی سے احاطہ تحریر میں لاتا ہے کہ وہ بلا شبہ Punh Lineکا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔اکبر حمیدی کے متعدد انشائیوں میں یہ دونوں خصوصیات دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔
فلسفیانہ موشگافی یا دانش کی باتیں سہل و سادہ پیرائے میں بیان کرنا قطعاً آسان نہیں ہوتا۔اس ضمن میں معمولی سی لغزش قلم انشائیے کو بوجھل پن سے ہمکنار کرسکتی ہے ‘ جس سے انشائیے کی روانی میں تعطل نمودارہو جاتا ہے۔اکبر حمیدی کے انشائیوں میں دانائی اور حکمت کی باتوںکو اس خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے کہ کہیں بھی بوجھل پن کا احساس تک نہیں ہوتا۔دوسری طرف شگفتگی کا پہلو اُن کے انشائیوںمیں۔۔۔۔Read Abilityیعنی قابلِ مطالعہ ہونے کے عنصر میں اضافہ کر دیتا ہے اور اسی خاصیت کے باعث ان کے انشائیے قارئین کے ایک بڑے حلقے میں ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔
اردو انشائیہ کے مخالفین ‘یہ الزام ہمیشہ سے عائد کرتے رہے ہیںکہ اردو انشائیہ عصری مسائل پر روشنی نہیں ڈالتا۔یہ الزام سراسرمخالفین کی کج فہمی کا غماز ہے۔میرے نزدیک انشائیہ نے عصری مسائل اور عصریت کے زاویوں کو کمالِ ہنر مندی سے اُجاگر کیا ہے۔فرق صر ف اتنا ہے کہ انشائیہ بالواسطہ طریقے سے اُن مسائل کو چھوتا ہے ‘کیوں کہ انشائیہ کوئی تجزیاتی رپورٹ یا اخباری کالم نہیںجو مختلف النوع مسائل اور حالاتِ حاضرہ کو معروضی انداز میں پیش کرنے تک محدود رہے ۔اکبر حمیدی کے تحریر کردہ انشائیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے نہ صر ف یہ کہ ہم عصری مسائل کو بآسانی نشان زد کرسکتے ہیںبلکہ انشائیہ نگار کے زاویۂ نظر سے مختلف النوع مسائل کی ایک نئی حقیقت اور ماہیئت سے بھی آگاہ ہوجاتے ہیں۔
اکبر حمیدی کے انشائیوں میں دروں بینی کا پہلو بھی توجہ طلب ہے وہ مظاہر اور انسانی روابط کے خارجی پہلوؤں کی نشاندہی کرنے تک محدود نہیں رہتے بلکہ ان کے مخفی مفاہیم کو گرفت میں لینے کی کاوش بھی کرتے ہیں ۔
اسی لیے ان کے انشائیے ہمیں غورو فکر پر مائل کرتے ہیں۔اس سلسلے میں اکبر حمیدی اپنے اکثر انشائیوں میں ۔۔۔سوال اُٹھاتے ہیںاور قارئین کو سوچنے پر آمادہ کرتے ہیں۔وہ ان سوالات کے جوابات خود مہیا کرنے کی سعی نہیں کرتے ‘حالانکہ اُٹھائے گئے سوالات کے جوابات اُن کے انشائیوں کے غائر مطالعہ سے قاری از خود اخذ کر سکتا ہے۔بہرکیف دعوتِ فکر کا یہ پیرایہ ان کے انشائیوں کی معنی آفرینی میں اضافہ کر دیتا ہے۔
جس طرح تالاب میں کنکر پھینکنے سے دائرہ در دائرہ لہروں کا ایک سلسلہ نمودار ہو تا ہے جو کناروں تک پھیلتا چلا جاتا ہے۔بالکل اسی طر ح اکبر حمیدی کے انشائیوں میں سوچ کی کنکری ‘دائرہ در دائرہ خیالات کو جنم دیتی ہے ‘جو ایک دوسرے کو کروٹ دیتے ہوئے پھیلتے چلے جاتے ہیں۔دوسرے یہ کہ ان کے انشائیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے لخت لخت ہونے کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔میری رائے میں وحدتِ خیال اور وحدتِ تاثر کے پہلوؤں کو انشائیہ کی کامیابی کی واضح دلیل قرار دیا جاسکتا ہے۔اور اکبر حمیدی کے انشائیے اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔
”اشتہاروں بھری دیواریں“کے کل صفحات 106ہیں‘سالِ اشاعت 2007ءہے ۔مجموعے میں شامل انشائیوں کی تعداد 21ہے ۔کتاب کی کمپوزنگ معیاری ہے اور سرورق دیدئہ زیب ہے۔اسے بٹّر پبلشر اسلام آباد نے بڑے سلیقے سے شائع کیا ہے۔کتاب ملنے کا پتہ ہے:
”ہاؤس نمبر2029‘سٹریٹ 32‘سیکٹر آئی 10/2‘اسلام آباد۔“