کامران کاظمی(راولپنڈی)
اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں کے حوالے سے محمد عاصم بٹ کی کہانیوں کے کرداروں کا تجزیاتی مطالعہ
’’اشتہار آدمی اور دوسری کہانیاں ‘‘ محمد عاصم بٹ کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے ۔ اس 112صفحات کے مجموعے میں کل 6کہانیاں شامل ہیں ۔ عاصم بٹ کا ایک ناول ’’دائرہ‘‘ بھی حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ جبکہ عاصم بٹ نے کافکا کی کہانیوں کے بھی تراجم کیے ہیں ۔ عاصم بٹ نے فلسفہ میں ایم اے کر رکھا ہے یوں ان کی فلسفیانہ مباحث پر بھی دسترس قابل داد ہے۔عاصم بٹ کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 90کی دہائی میں نمایاں ہونے والے افسانہ نگاروں میں شامل ہیں ۔ جبکہ 90کی دہائی پاکستان کو ورثے میں ملے گذشتہ سالوں کے مسائل کے علاوہ مارشل لاء اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے اطمینانی ، خود غرضی ، انتشار اور بدعنوانی جیسے دیگر امراض میں گھری ہوئی ہے۔
اس نئے عہد میں مارشل لاء نے سیاسی انتشار کا جو بیج بویا تھا اس نے ملکی سماجی ڈھانچے پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کیے۔ ہمارے سماجی ڈھانچے میں جہاں انتشار اور خود غرضی کے رویوں نے جڑ پکڑی وہیں فرد کے تنہا ہو جانے اور ڈر اور خوف میں مبتلا ہو جانے کا المیہ انتہائی شدت سے ہمارے ادب کا بھی حصہ بنا ۔ المیہ یہ بھی تھا کہ سماجی تنہائی کا شکار فرد فکری و جذباتی سطح پر اس قدر عدم تحفظ کا شکار تھا کہ وہ اس سماجی گٹھن کے خلاف آواز اٹھانے میں بھی خود کو بے بس اور مجبور محض سمجھتا تھا ۔ پاکستانی اردو افسانے نے انسانی المیے کے اس بنیادی مسئلے کی تصویر کشی عمدگی سے کی ہے ۔ 90کی دہائی یعنی موجودہ عہد میں ابھی گذشتہ تین نسلیں افسانے کے افق پر موجود ہیں جو ان سب حالات سے گذر کر ان کے اظہار کا ہر طرح کا اسلوب اختیار کیے ہوئے ہیں ۔اس عہد کے افسانوں میں فکری لحاظ سے خوف ، دہشت پسندی ، اعصابی تشنج ، مایوسی ، بے خوابی اور بے چینی جیسے موضوعات عام ہیں۔ معاشرتی اقدار کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شکستگی ، تنہائی اور بے سمتی بھی اردو افسانے کا موضوع رہے ہیں ۔ اظہار کا اسلوب علامتی ہو یا سادہ بیانیہ ،افسانے نے نہ صرف یہ کہ ان مسائل کو گرفت میں لیا بلکہ اپنے قاری کو بھی متاثر کیا۔
عاصم بٹ کی مذکورہ کہانیاں انھیں مسائل کے گرد گھومتی ہیں ۔عاصم بٹ وسیع مطالعہ اور مشاہدہ رکھتے ہیں سو ان کے فن میں عصری شعور واضح ہے اور ان کے ادراک کی سمت درست ہے ۔ عاصم بٹ نے مارشل لاء کے فوراَ بعد کی صورتحال کو گرفت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے افسانوں کا بنیادی مسئلہ فرد کی بے سمتی ، خود فریبی اور تنہائی ہے۔ البتہ اس کتاب کا پہلا افسانہ اس صورتحال سے قدرے مختلف ہے۔’’تیز بارش میں ہونے والا واقعہ‘‘ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو وقت سے آگے نکل جاتا ہے اور آنے والے واقعات کا ادراک حاصل کرلیتا ہے ۔ مگر وہ انھیں یا ان کی ترتیب بدلنے پر قادر نہیں ہوتا ۔ یوں اس کا المیہ جنم لیتا ہے ۔اس افسانے کا ہیرو ایک متوسط طبقے کا فرد ہے اور اس طبقے کے افراد کی یہ دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی معجزہ رونما ہو جائے جو ان کی زندگی کے حالات بدل دے ۔چونکہ ا ن کے ارد گرد کے ماحول میں ایسے مواقع موجود نہیں ہوتے کہ جو تبدیلی میں ان کے معاون کا کردار ادا کرسکیں۔ افسانے کا ہیرو ’حمید ناصر‘ بظاہر زندگی سے معمور شخص نہیں لگتا ۔ زندگی سے اکتاہٹ اور بیزاری اس کے کردار سے جھلکتی ہے ۔ تاہم ایک بوڑھی خاتون کے مرجانے پر وہ چونکتا ہے گویا اسے کچھ دیر کے لیے احساس ہوتا ہے کہ اس کا ماضی ناکارہ ہو چکا ہے ۔اسے یہ احساس بھی ستاتا ہے کہ وہ اس مری ہوئی عورت کی کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔ اس کہانی میں ہیرو حمید ناصر وہ مرکزی کردار ہے جو ماضی ،حال اور مستقبل تینوں زمانوں سے جڑت رکھتا ہے ۔ تاہم وہ وقت کی ناگزیریت اور جبریت کو بدلنے سے قاصر رہتا ہے ۔
دوسرا افسانہ’’ شکاری ‘‘ ایک ریٹائرڈ شخص کا قصہ ہے جو رنگ برنگی تتلیوں اور مچھلیوں کا شکار کرنا چاہتا ہے ایسی تتلیاں اور مچھلیاں جو لافانی ہوں ۔ اس کہانی کا پیرا یہء اظہار علامتی ہے ۔ ریٹائرڈ شخص گویا زندگی کی گہما گہمی سے نکل چکا فرد ہے اور مچھلیاں اور تتلیاں ایک تخلیقی احساس کے بطور ہیں یا ایسی تخلیق کی علامت ہیں جو لافانی ہو جائے ۔ شکاری کا ہیرو بھی پہلی کہانی کے حمید ناصر کی طرح زندگی سے کٹ کر اس کے ثمرات حاصل کرنا چاہتا ہے جوکہ ممکن نہیں ۔ افسانہ نگار نے اس معاشرتی رویے کو ان دو کرداروں کے ذریعے سے بڑی خوبی سے دکھایا ہے کہ کیسے اس نئے عہد میں کہ جس میں زندگی کی تیز رفتاری بڑھ چکی ہے ہماری ایک خاص کلاس یا طبقہ بے عملی کا شکار رہتے ہوئے بھی زندگی کی آسائشوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ تاہم شکاری کا کردار جب یہ احساس کرلیتا ہے کہ زندگی جدوجہد میں ہے تو وہ ایک سفر پر روانہ ہونے کی خواہش کرتا ہے ۔ البتہ وہ ایک ایسی خیالی دنیا بسا لیتا ہے جہاں اس کے نام کا ڈنکا بج رہا ہو۔ اور وہ وقت کے سفر میں امر ہوچکا ہو۔ دراصل یہ ایک ایسا کردار ہے جو کہ جب متحرک تھا بھی تو زندگی سے کچھ نہ کشید کرسکا اور اب ریٹائرڈہو جانے کے بعد اسے لافانی ہونے کی لایعنی خواہش نے اپنا اسیر بنا لیا ہے اور اب وہ اپنے موجودہ حالات سے فرار کی راہ تلاش رہاہے ۔سماجی انتشار میں کہ جب انسان یا فرد تخلیق کی قوت سے محروم ہوجاتا ہے اور وہ حالات اس میں عموماََ دو طرح کے رجحان پیدا کرتے ہیں ایک تبدیلی اور دوسرے فرار کی کیفیت۔ کافکا اپنی کسی کہانی میں کہتا ہے کہ میرے گھوڑے پر زین کس دو مجھے یہاں سے جانا ہے، البتہ کافکا کے ہاں گھوڑے کی علامت بطور متحرک کردار کے ہے جبکہ شکاری کا ہیرو نچلے متوسط طبقے کے فرد کی طرح کچھ نہ کرسکنے کا احساس لیے ایک تخیلاتی دنیا میں رنگ برنگی تتلیوں اور کبھی نہ مرنے والی مچھلیوں کی دنیا میں بس جاتا ہے۔ اور اگر عزم سفر کرتا بھی ہے تو اس تخیلاتی دنیا کو،جو کہ بظاہر ناممکن ہے ‘ آباد کرنا چاہتا ہے عاصم بٹ کی ابھی تک کی زیربحث دونوں کہانیوں کے ہیرو حقیقت اور خواب کے درمیان کی تفریق کا شعور نہیں کرپارہے۔اور یہی رویہ ’’خواب کہانی‘‘ کے کرداروں کا بھی ہے۔
’’خواب کہانی‘‘ کے کردار روایتی خیر اور شر کے کردار ہیں کہ یہ دونوں قوتیں ازل سے برسر پیکار ہیں۔ عاصم بٹ نے پنجابی فلموں کے روایتی ہیرو اور ولن کے کرداروں کو اپنی کہانی میں استعمال کرتے ہوئے سماج کا مخصوص سماجی تضادا بھارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک عام سے موضوع کو اپنے مشاہدے اور تیکنیک سے عاصم بٹ نے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔افسانہ اپنے تخلیق کار کے تخیل میں آگے بڑھتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیاافسانہ نگار افسانے کو کسی حتمی انجام تک پہنچا سکا ہے؟ اس کہانی کے دونوں کردار ایک جیسے ماحول میں ایک جیسی خصوصیات رکھتے ہیں۔ فرق صرف طاقت اور اس کے استعمال کا ہے۔ بقول سلیم الرحمٰن : ۔
’’ ولن اگرانتہائی ظالم ہے تو ہیرو بھی کم وحشی نہیں ہے لیکن وہ (ہیرو) اتنی طاقت رکھتا ہے کہ وہ ولن کے ہر ایسے ظلم کو ختم کرسکتا ہے جو وہ انجام دیتا ہے۔ ‘‘
تاہم افسانے کے دونوں کردار اچھائی یا برائی کا کوئی فکری تصور پیدا نہیں کرسکتے کہ اگر ایک کردار گم ہو جاتا ہے تو ہیرو ’جو کہ بظاہر خیر کا نمائندہ ہے‘ وہ بھی بے اثر ہوجاتا ہے ۔ اس طرح اس کہانی کا بڑا کردار بھی پہلی دو کہانیوں کی طرح جمود کا شکار لگتا ہے۔ ’’شکاری‘‘کے ہیرو کی مانند وہ خود سے کوئی فعل انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا جب تک کہ اسے کوئی مبازرت درپیش نہ ہو۔ اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ مقابلہ بھی صرف پردہ ء سکرین تک ہی محدود ہے۔ جس طرح ’’شکاری‘‘ کے ہیرو کے ہاں زندگی لغو بن کر رہ گئی ہے وہی صورت یہاں بھی ہیرو کو درپیش ہے کہ اسے ایک ہی طرح کے کردار میں رہنا ہے ۔ ہیرو ہمیشہ لوگوں کی محرومیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور جب قانون اپنے ہی شہریوں کی مدد نہیں کر رہا ہوتا تو لوگ ایسے افراد کو ہیرو بنالیتے ہیں جو ماورائے قانون جا کر ’ شر‘ کی قوتوں کو شکست دے سکیں ۔ چاہے وہ ایسا پردہ ٔ سکرین پر ہی دیکھ رہے ہوں اس طرح ان کا کتھارسس ہوتا رہتا ہے۔ تاہم اس افسانے کا ہیرو لوگوں کو یا ہجوم کو کوئی منظم شکل نہیں دے سکتا ۔ کیونکہ وہ ہجوم خود اس ہیرو جیسے کسی فرد کے انتظار میں رہتا ہے جو قوانین و ضوابط کو پرکاہ برابر حیثیت بھی نہ دے ۔البتہ ایسے افراد خود اپنی کھال بچانے کی ہی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔
عاصم بٹ کی زیر بحث کہانیوں میں ایک اہم کہانی ’’ عہد گذشتہ کی کہانی‘‘ ہے۔ کہانی کا موضوع سورج کا گم ہونا اور پھر لوگوں کو روشنی کی تگ و دو کرنے کی بجائے تاریکی سے سمجھوتہ کرنا ہے۔ اس کہانی کا ہیرو ’’وہ‘‘ ہے ہمارے افسانوں میں کرداروں کے نام گم ہونا دراصل ان کی شناخت کے گم ہونے کا علامتی اظہار ہیں۔ جب سماج میں انسان کے حقیقی وجود کی نفی ہوجاتی ہے تو اس کی شناخت گم ہوجاتی ہے۔ اس کہانی کا بنیادی مسئلہ تنہائی اور اجنبیت ہے۔ لوگوں کے اجتماعی رویے بے گانگی کا شکار ہو چکے ہیں اور انفرادی سطح پر وہ سوشل ہونے کی بجائے خود غرض ہوچکے ہیں۔ اس افسانے کا ہیرو بھی درمیانے طبقے کا نمائندہ ہے۔ تاریکی چھا جانے اور سورج گم ہونے کی بے چینی کے چوہے اسے کاٹتے ہیں ۔ اس کہانی کی ایک علامتی سطح بھی بنتی ہے اور وہ ۹۰ء کی دہائی میں ختم ہونے والا مارشل لاء ہے۔ چوہے وہ آزار ہیں جو افراد کو ، اجتماع کو منتشر کردیتے ہیں اور گھروں یعنی انسانوں کی پناہ گاہوں میں خود آبستے ہیں۔ گویا ایک سطح پر چوہے خود غرضی کی علامت بن جاتے ہیں۔اس کہانی میں پہلی کہانیوں کے برعکس ہیرو کے ہاں خارجی مسائل اس کے داخل کا حصہ بنتے ہیں اور زندگی جو کہ اپنی حقیقی شکل میں لغویت کا شکار ہے پھر بھی اس کہانی کا ہیرو چوہوں اور تاریکی کے آزار کے خلاف ردعمل کی خواہش رکھتا ہے بلکہ اس سے نجات کی کوشش بھی کرتا ہے کہ کسی طرح تاریکی ختم ہو۔ جبکہ لوگوں کا اجتماعی رویہ یہ ہے کہ وہ عمل تولید تیز کر دیتے ہیں تاکہ تعداد کے لحاظ سے وہ کثرت میں ہوجائیں تو پھر شاید وہ چوہوں کا مقابلہ کرسکیں۔
عاصم بٹ کی کہانیوں میں فرد کی تنہائی اور اجتماعی سطح پر بے گانگی اور زندگی کی یکسانیت و لغویت عام رویہ ہے ۔ مگر اس کہانی میں جو اپنی ترتیب میں تیسری کہانی ہے پہلی بار ایک کردار عملی کوشش سے کچھ کرنے کا اظہار کرتا ہے۔ اور وہ یہ ادراک بھی رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ جو کچھ بیت رہا ہے یہ سب مسلط کرنے والے کون لوگ ہیں۔ عام افراد جن سماجی حالات سے مطابقت پیدا کرسکتے ہیں عاصم بٹ کی کہانیوں کے ہیرو ان حالات سے مطابقت پیدا نہیں کرسکتے تاہم ان میں دوطرح کے رویے رد عمل کے طور پر پیدا ہوتے ہیں ۔ یا تو وہ زندگی سے فرار کی راہ اپناتے ہیں جیسا کہ ’’شکاری‘‘ کا کردار محض تمثیل کی دنیا کو نکل جاتا ہے ۔ یا پھر وہ زندگی میں مقصدیت پیدا کرناچاہتے ہیں۔ اور مؤخر الذکر رویہ اپنے مبہم انداز میں ہی سہی مگر تیسری کہانی میں نظر آتا ہے۔ کہ اس کہانی کا کردار بے مقصد اور اجنبیت کا شکار ہوتی زندگی میں سورج کی خواہش رکھتا ہے اور چوہوں سے نفرت کرتا ہے ۔ گویا وہ سمجھوتہ نہیں کرناچاہتا۔ایک ایسا سمجھوتا کہ جسے شخصی حکومتیں یا آمریت فروغ دیتی ہے۔شخصی حکومتوں کا خاصا ہوتا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو نوازنا چاہتی ہیں کہ جو ان کی حکومت و اقتدار کو طول دے سکے۔ کہانیوں کے اس مجموعے میں ’’اشتہار آدمی ‘‘ موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح پر اہم کہانی ہے ۔ اور یہی وہ کہانی ہے کہ جو عاصم بٹ کے آئندہ فنی سفر کے ارتقا کی نشاندہی کرتی ہے۔ بقول سلیم الرحمٰن :۔
’’ اشتہار آدمی ایک دروں بیں شخص کے کردار کی نفسیات کی کہانی ہے ۔ وہ خود کو اپنی پیدا کردہ سحر انگیز تخیلاتی دنیا میں گم کردیتا ہے جو ان ماڈل لڑکیوں کی وجہ سے ہے جن پر وہ فریفتہ ہوچکا ہے ۔ یقین کے ساتھ یہ کہنا بھی ناممکن ہے کہ ایسی زندگی جس میں وہ ADکے ذریعے سے تسکین حاصل کرتا ہے اس زندگی سے بہتر ہے جو خارج میں موجود اپنی بدصورتی اور انتشار میں حقیقی ہے ۔‘‘
اس کہانی کا ہیرو شہری زندگی کا محروم آدمی ہے اوراسکی یہ محرومیاں میڈیا پہ بڑھتی ہوئی کمرشل ازم کی پیدا کردہ ہیں اورمیڈیا کا کردار اس قدر ہماری روزمرہ زندگی میں حاوی ہے کہ اس کے ذریعے عام آدمی ہی کیا کسی دانشور کو بھی سچ سے آگاہ نہیں ہونے دیا جاتا۔ اس کہانی کا ہیرو سچ کو اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے یعنی وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے وہ سچ ہے۔ اس طرح وہ ایک خیالی دنیا بسا لیتا ہے۔ جہاں اس کی من پسند ماڈل اس سے محبت کرتی ہے اس کا ایک اہم رویہ یہ بھی ہے کہ محبت کے معاملے میں ہرجائی بھی ہے۔ جب اس ماڈل کی شادی ہوجاتی ہے تو وہ ایک اور خوبصورت ماڈل سے محبت کرنے لگتا ہے۔اس ہیرو کا تعلق بھی ایسے طبقے سے ہے جو کمرشل ازم سے متاثر ہوتا ہے اور ہر اشتہار میں آنے والی چیز کو اپنے گھر کا حصہ بنانا چاہتا ہے حالانکہ وہ اس کے وسائل نہیں رکھتا اور کوشش کے باوجود بھی انھیں حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے۔’اشتہار آدمی‘ اس مجموعے کی واحد کہانی ہے کہ جہاں ہیرو کا براہ راست مسئلہ تنہائی یا جبر کے نتیجے میں پیدا شدہ خود غرضی ، بے گانگی اور بے شناخت ہونے کا دکھ نہیں بلکہ یہاں دکھ مختلف ہے کہ کم ہوتے ہوئے وسائل نے فرد کو زندگی کی دوڑ میں لاکھڑا کیا ہے ۔ جہاں اس کی ضروریات جو محض اس کی خواہشات کا حصہ تھیں انھیں زندگی کا لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اور یہ سب عالمی سرمایہ دار کمپنیوں نے گلیمر کے زور پر کر دکھایا ہے ۔ اس کہانی کا ہیرو خود ایک اشتہار بن جاتا ہے ۔ اور اب وہ زندگی کے ایک ایسے حصے میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے۔
عاصم بٹ کے افسانوی مجموعے کی پہلی چار کہانیاں اور ان کے ہیرو قاری سے اپنے لیے کسی قسم کے جذبات پیدا نہیں کراسکے۔ البتہ اشتہار آدمی سے قاری کا ایک سمبندھ بن جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عاصم بٹ کی کہانیوں میں کرداروں کی بے چہرگی ہے۔ اور اشتہار آدمی ایسا افسانہ ہے جس کے ہیرو کی باقاعدہ شناخت ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کے لیے زندگی اس قدر بے معنی اور یکسانیت کا شکار نہیں جتنی باقی کرداروں کے لیے ہے۔ مثلاَ چوتھی کہانی میں ہیرو جبر کے خلاف لڑنا چاہتا ہے البتہ وہ اپنے باقی افراد سے بھی کمک مانگتا ہے۔اور ان کی بے عملی کی تصویر ان کے کرداروں سے بار بار جھلکتی ہے۔ افسانہ نگار نے اس کہانی میں تیکنیک ایسی برتی ہے کہ کہانی آگے بڑھتی معلوم ہوتی ہے البتہ اس کہانی کے پس منظر سے ایک کردار سامنے آتا ہے جو چوہوں کی وجہ سے ایک موت کا خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے اور ان چوہوں کو مارنے کا عہد کرتا ہے ۔ مگر یہ کردار بھی تضاد کا شکار ہے کہ موت کے خوف کی وجہ سے تہہ خانے سے باہرتک بھی نہیں آتا اور محض اپنا احساس گناہ کم کرنے کے لیے خود کو ہر قسم کے چوہے مار دینے کے وعدے سے بہلاتا رہتا ہے۔
اس مجموعے کی آخری کہانی ’’گڑھے کھودنے والے‘‘ ہے۔ یہ کہانی دراصل روزمرہ کے ایک جیسے مشینی انداز میں سر انجام دیے جانے والے دفتری کاموں پر ایک گہرا طنز ہے۔ دفتری زندگی کے روزانہ ایک جیسے معمولات سے پیدا شدہ بیزاری اور یکسانیت انسان کو مشین میں بدل دیتی ہے ۔ اس کہانی کا ہیروزندگی سے بیزاری کے حوالے سے تو باقی کہانیوں کے کرداروں جیسا ہی ہے تاہم اس کی ذہنی و علمی سطح باقی کرداروں سے کم ہے مثلاَ پہلی کہانی کا کردار وقت کے مسئلے پر نہ صرف خود غور کرتا ہے بلکہ وقت کے پیدا کردہ جبر سے مات بھی کھا جاتا ہے۔ مگر اس کی شعوری سطح نسبتاَ بہتر ہے۔ تاہم اس آخری کہانی کا ہیرو ’’ خواب کہانی‘‘ کے وحشی جٹ سے کچھ مماثلتیں بھی رکھتا ہے۔ اور وہ یہ کہ وہاں وحشی جٹ اپنی بقا محض نوری نت کے موجود ہونے میں سمجھتا ہے جبکہ اس کہانی کے ہیرو میں بھی یہی رویہ موجود ہے کہ زندگی کی یکسانیت ہی اسے زندگی دے سکتی ہے۔ گویا اگر وہ قدرے زیادہ توانائی استعمال کرے اور ایک آدھ گڑھا مزید کھود لے تو شاید اس کی اجرت میں اضافہ ہوجائے۔ اس یکسانیت اور بیزاریت کے خلاف اس کی زندگی میں اگر کوئی رویہ بیدار بھی ہوتا ہے تو وہ اس سردرد کو والیم کی گولیاں کھلا کر ضبط کرلیتا ہے۔ اوراسے پنپنے نہیں دیتا۔ اور اگر از خود یہ درد تیز ہوجائے تو وہ اپنے بھیجے میں خود بارود بھری گولی مار لیتا ہے ۔ یہ واحد کردار ہے جو زندگی کی لغویت اور یکسانیت کے خلاف کوئی ردعمل نہیں کرتا اور از خود پیدا ہونے والے ردعمل کو خود ہی ختم کردیتا ہے۔ان چھ کہانیوں کے کردار گو کہ روزمرہ زندگی کے کردار ہیں اور ان میں مشترک بات زندگی سے بیزاری اور اکتاہٹ ہے۔ تاہم بعض کردار اس یکسانیت سے فرار کی خواہش رکھتے ہیں ۔ اور کچھ اس یکسانیت اور لغویت کو اپنے اوپر اوڑھ لیتے ہیں۔ یعنی اسی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرلیتے ہیں۔ مثلاَ ’’اشتہار آدمی‘‘ اور ’’گڑھے کھودنے والے‘‘ کے کردار اپنے معمولات کو حتمی تصور کرتے ہیں اور اس میں تبدیلی کی خواہش تک نہیں رکھتے اور اگر تبدیلی حالات کا جبر بنا ہی دے تو بھی وہ حالات کا دھارا بدلنے کی خواہش نہیں کریں گے بلکہ اپنا بھیجا اڑادیں گے۔ اور نہ ہی بدلتے حالات کا ساتھ دینے کی صلاحیت پیدا کریں گے۔
ان کرداروں کا ایک اور اہم مسئلہ ان میں پیدا شدہ ’’بنجر پن‘‘ ہے ۔ گویا وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ کرنے کا اختیار تک نہیں ہے یعنی اگر ایک کردار وقت کے سفر میں آگے نکل بھی جاتا ہے تو بھی وہ حالات کو بدلنے پر خود کو قادر نہیں پاتا۔ گویا عملی سطح پر وہ زندگی کے معمول کو ایک بڑے کینوس پر بدلنا نہیں چاہتا۔ محض ایک تلمیح کا سہارا لے کرخود کو بری الذمہ قرار دے لیتا ہے۔
عاصم بٹ کے کرداروں کی اکثریت گو کہ بے چہرگی کا شکار ہے مگر ایک اہم مسئلہ تقریباَ سب کے ساتھ مشترک ہے اور وہ اپنی بے عملی یا فرار کے لیے جواز تراش لانے کا رویہ ہے۔ چونکہ یہ کہانیاں ایک خاص قسم کے جبر کے حالات کے بعد کی پیدا شدہ صورتحال کی عکاس ہیں۔ اور تب جو فرد منٹو اور اس کے عہد کے افسانہ نگاروں کے پاس مکمل شکل میں تھا اسے جبر نے منقسم کردیا تھا۔ اور نہ صرف وہ منقسم ہوا بلکہ گم بھی ہوتا چلا گیا۔ سوعاصم بٹ کی کہانیوں کے کردار بے چہرہ اور عملی زندگی سے بھاگے ہوئے کردار ہیں۔ مارشل لا کے عہد میں لوگوں کا ایک عمومی رویہ تخیلاتی دنیا بسا کر اس میں بس رہنے کا تھا۔ اور وہ اس کا طلسم ٹوٹنے بھی نہیں دینا چاہتے تھے۔ سو ان کرداروں کے ہاں بیزاری اور اکتاہٹ تو موجود ہے مگر وہ اسے کم کرنے یا دور کرنے یا اس سے ہم آہنگ ہونے کا رویہ اختیار کرتے ہیں یا پھر اس سے فرار کی سبیل نکالتے نظر آتے ہیں۔گویا وہ حالات کے جبر کو بدلنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کرتے۔ عاصم بٹ جس طبقے سے ہیرو یا دیگر کرداروں کا انتخاب کرتا ہے وہ اس مخصوص طبقے کی نمائندگی بھی خوب کرتا ہے۔ اگر یہ کردار بے زار ،اکتاہٹ زدہ ، یبوست کا شکار اور زندگی سے فرار کرتے دکھائی دیتے ہیں تو یہ المیہ اس معاشرے کا ہے جس میں ایسا سب کچھ موجود ہے۔ عاصم بٹ نے جیسے معاشرے کے کردار ہیں انھیں محض فنی ردوبدل کے علاوہ اسی طرح من و عن پیش کردیا ہے۔ اور ان کرداروں نے جو خیالی دنیا تشکیل دے رکھی ہے اسے بھی ویسا ہی پیش کردیا ہے۔ یعنی اس کی تصویر کشی بڑی عمدگی سے کی ہے۔ان کے کردار اپنے بکھرے ہوئے زمانے کے سیاسی و سماجی ماحول سے تخلیق پاتے ہیں۔ اور خود بے چہرہ ہوتے ہوئے بھی اس عہد کی تصویر کشی بخوبی کر جاتے ہیں۔ عاصم بٹ کے یہ کردار ’میں‘ سے کم اور ’وہ‘ سے زیادہ تخلیق ہوتے ہیں ۔اور یہ اہم بات ہے کہ’ میں‘ انسان یا تخلیق کار کے محض داخل کی واردات ہے۔ جبکہ’ وہ‘ اسکے خارجی رویے کا مظہر ہے۔ ’میں‘ اور ’وہ‘ میں مکالمہ کرنے والے کردار زیادہ تر تجریدی تخلیق کاروں کے کردار تھے بقول اعجاز راہی: ۔
’’ نئے افسانے نے لفظ کی انفرادی اور اجتماعی نوعیت کو بدل دیا ہے اس کی ماہئیت اور اثر خیزی کی نئی شکلیں بنائی ہیں اس کے معنی اور معنی کی وضعی اور غیر وضعی صورتوں کو تنوع اور ہریالی بخشی ہے۔‘‘
گویا ’میں‘ اور ’وہ‘ محض ایک کردار نہیں رہتے بلکہ ایک کُل کی صورت بن جاتے ہیں۔ یہی رویہ عاصم بٹ کے ہاں بھی نمایاں ہے۔ وہ گہرے سماجی شعور کے ساتھ کردار تخلیق کرتا ہے اور ان کا LOCALE وضع کرنے کے بعد کردار نگاری اسی LOCALE میں رکھ کر کرتا ہے ۔ اس لیے ہمیں اس کے کرداروں کے سماجی حوالے تلاش کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔
گوعاصم بٹ کے تخلیق کردہ کردار بے عملی کا شکار اور فراریت کا رویہ رکھتے ہیں تاہم وہ اس معاشرے کے اندرسے پھوٹتے ہوئے زندہ کردار ہیں اور ایسی بے چہرہ اور اکتاہٹ کا شکار زندگی رکھنے والے کردار ہمیں اپنے آس پاس زندگی بِتاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور تخلیقی سطح پر یہی عاصم بٹ کی کامیابی ہے کہ وہ حقیقی زندگی سے کردار کشید کرتا ہے اور معاشرے کے ہی کسی سلگتے موضوع کے تناظر میں ان کی کہانی بیان کرتا ہے ۔ اور قاری کے لیے کوئی اخلاقی درس دینے کی بجائے ایک کہانی اور ایک تحیر چھوڑ جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عاصم بٹ زندگی کی یکسانیت اور اس سے پیدا ہونے والی لغویت سے نہ صرف یہ کہ خود آگاہ ہے بلکہ وہ اپنے قاری کو بھی اسکا احساس دلاتا ہے ۔ اور جھنجھوڑتا ہے کہ وہ اس ٹھہرے ہوئے پانی میں کیسے پتھر مارسکتا ہے ۔ یہی اسکی کامیابی ہے۔