(Last Updated On: )
عشرت خواب سے دہکا کے بدن آنکھوں کا
بے خزاں رکھتے ہیں ہم لوگ چمن آنکھوں کا
رہ گئی شام سی ٹھہری ہوئی سر کنڈوں میں
کھا گیا سارے مناظر کو گہن آنکھوں کا
کیا خبر انگلیوں کو ذائقے چھونے کے ملیں
اور نغموں سے مہکنے لگے بن آنکھوں کا
آ کہ اس دھوپ کے پردیس میں آباد کریں
چشم و گیسو کے تصور سے وطن آنکھوں کا
رنج کیسا کہ زمانے کا طریقہ ہے یہی
وقت کے ساتھ بدلتا ہے چلن آنکھوں کا
تو کہ پس ماندۂ خواہش ہے، طلب کر خود سے
وہ زر خون جسے کہتے ہیں، دھن آنکھوں کا
٭٭٭