“آنکھوں میں نور بن کر سمایا وہ اس قدر
کسی اور کو تکنے کا جواز ہی مٹ گیا ہے”
شام کے پانچ بج رہے تھے اور وہ چھت پہ دھلے کپڑے پھیلانے کی غرض سے آئی تھی۔
“نین تارا۔۔۔۔ نین تارا۔۔۔۔ نجانے کدھر مر گئی ہے؟؟کم بخت ماری”۔ گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر اسنے پورے گھر کو سر پہ اٹھا رکھا تھا۔
کانوں میں ممتاز بیگم کی آواز گونجتے وہ تیزی سے چھت کا دروازہ بند کرتی سیڑھیوں کی جانب دوڑی۔ وہ اپنے پیچھے بائیں جانب کمروں کی قطار اور دائیں جانب لکڑی سے بنی نہایت عمدہ اور خوبصورت نئے طرز کی گرل کو پیچھے چھوڑے راہداری سے گزر رہی تھی پھر ممتاز بیگم کی پشت پہ بنی وسیع و عریض سیڑھیاں عبور کرتی اسکے قریب جا پہنچی۔
“جی تائی جان؟”۔ اب وہ اسکے قریب آ گئی تھی اور سانس بھی کافی حد تک پھولی ہوئی تھی۔
“کیا مر گئی تھی؟ جو تمھارے کانوں میں میری آواز تک نا سما سکی۔ گزرتے وقت کیساتھ کیا سماعت بھی ساتھ دینا چھوڑ رہی ہے؟؟”۔ اسنے بھڑاس نکالی۔
“ن۔ نہیں تائی جان وہ دراصل میں چھت پہ کپڑے پھیلانے کی غرض سے گئی تھی تو اس وجہ سے دیر ہو گئی”۔ سر جھکائے اسنے معذرت کی۔
“میری بات کان کھول کے سن لو پورے گھر کو اچھے سے چمکا دو کہیں مجھے گرد نظر نا آئے۔ میرا احتشام تین سال بعد واپس آ رہا ہے۔ اسکا کمرہ اچھے سے صاف کرنا اور چیزیں جیسے رکھیں ہیں ویسے ہی رہنے دینا ادھر ادھر مت کر دینا۔ اب جاو میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو؟؟”۔ احتشام کا نام برسوں بعد اسکے کانوں میں گونجا تھا۔ نیا دن۔۔ نیا سال۔۔ نیا مہینہ مگر تڑپ اور چاہت وہی پرانی تھی جو برسوں سے وہ اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔ سوچ میں ڈوبی وہ ممتاز بیگم کے چہرے کو تک رہی تھی جب اسنے تپ کر کہا۔
“ج۔ ج۔ جی”۔ پلکیں جھپکتے ہی وہ اثبات میں سر ہلاتی بائیں اور مڑ گئی تھی۔
“کیا ہوا ہے ماما آپ اتنی ہڑبڑائی ہوئی کیوں ہیں؟؟”۔ اسکو یوں غصہ کرتا دیکھ روہینہ بھی اس طرف آئی تھی۔
“ارے میں کہاں ہڑبڑائی ہوئی ہوں؟۔ سچ پوچھو تو میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہے”۔ بولتے ہی وہ اپنے روم کی جانب سیڑھیوں کی دائیں سائیڈ بڑھ گئی تھی۔
“ایسا کیا ہوا ہے ماما؟؟ مجھے بھی تو بتائیں”۔ روہینہ متجسس اسکے عقب میں آئی۔
“ارے احتشام کی کال آئی تھی وہ کل آرہا ہے”۔ اب اسنے اپنے کمرے کی دہلیز پار کر دی تھی جب اسنے روہینہ کو آگاہ کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کے نو بج رہے تھے وہ کام سے فارغ البالی اپنے روم میں آ گئی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا روم تھا جو بمشکل ایک انسان کو سرو کر سکتا تھا۔ عموما ملازمین کے زیر استعمال یہ روم اب نین تارا کی ملکیت میں تھا۔ نا ہی کوئی چارپائی نا ہی کوئی بیڈ بس تھا تو صرف ایک میٹرس جس پہ ایک سادہ چادر بچھی تھی اور ایک تکیہ رکھا تھا۔
میٹرس کے سرہانے دائیں سائیڈ ایک تپائی رکھی تھی جس پہ چند اشیا رکھی گئیں تھیں۔ سارا دن بغیر کسی وقفے کے کام کرنے کے بعد جب نین تارا اس میٹرس پہ لیٹتی تو جیسے دنیا بھر کا سکون مانو اس چھوٹے سے کمرے میں اس میٹرس پہ لیٹتے ہی اسکو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہو۔۔۔ تب نیند ہی اسکی ساتھی بنتی کیونکہ باقی گھر والے اس سے قطع تعلق کر لیتے سوائے ایک انسان کے جو اسکا ہما وقت احساس کرتا تھا لاکھ رکاوٹوں اور طعنوں کے اس سے پیار کرتا تھا اور وہ تھا نین تارا کی دادی قدسیہ جنہیں سب بی جان کہہ کر بلاتے تھے۔
“احتشام اب کیسے ہوں گے؟؟ کیسے دکھتے ہوں گے؟؟ کیا انہیں بھی کوئی لڑکی پسند ہوگی؟؟”۔
میٹرس پہ دائیں کروٹ لیٹے وہ سوچ کے بھنور میں پھنسی خود سے ہی ہم کلام تھی۔
“نہیں نہیں نین تارا اچھا اچھا سوچ۔۔۔ غلط خیال اور تصور کے نقوش اپنے ذہن سے مٹا دے۔۔۔ ایسا کرتی ہوں سو جاتی ہوں رات بہت ہو گئی ہے اگر تائی جان کو بھنک بھی پڑ گئی کہ میں رات کے اس پہر لائٹ جلائے انکے اکلوتے بیٹے کے بارے میں سوچ رہی ہوں تو وہ میری سوچوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی نوچ ڈالیں گی”۔ اپنے ذہن میں گردش کرتے تمام خیالات کو جھٹکتے اسنے ہاتھ بڑھا کر لائٹ آف کی پھر کپڑا منہ پہ کرتے خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
جب وہ روم کی دہلیز پہ آ کھڑا ہوا تو اسکا استقبال اندھیرے نے شان و شوکت سے کیا۔ ہاتھوں میں پکڑا بیگ اسنے بغیر لائٹ آن کیئے دائیں طرف صوفے پہ رکھا پھر ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی۔ کالر اور کف بٹنز کھولے وہ صوفے سے تھوڑا فاصلے پہ رکھے بیڈ کی پائینتی پہ جا بیٹھا تھا۔
کچھ سوچتے اسنے چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیا پھر ایک سرد آہ بھری۔
“جیسے بغیر روشنی کے دنیا سنسان رہتی ہے ٹھیک ویسے بغیر خوشی کے زندگی ویران رہتی ہے۔۔۔ اس مصنوعی روشنی کا کیا فائدہ جب میری زندگی میں اجالے کا دور دور تک کوئی امکان ہی نہیں”۔ اپنے آپکو ڈھیلا چھوڑتا وہ پیچھے کو ہوتا بیڈ پہ لیٹ گیا تھا جس سے اسکی نظر سیدھی لائٹ پہ پڑی جو اسکی نظر کے سامنے آب و تاب سے جگمگا کر اسکے روم کو روشن کر رہی تھی۔
“ارے مبشر بیٹا تم کب آئے؟؟”۔ اسکے روم کی لائٹ کو آن دیکھتے وہ بھی اس طرف آئی تھی۔
“بس ماما تھوڑی دیر پہلے ہی آیا ہوں”۔ کشور کی آواز کانوں میں گونجتے وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
“اچھا۔۔۔ ایسا کرو تم فریش ہو جاو میں کھانا لگاتی ہوں یا تمھارے روم میں ہی لے آوں؟؟”۔ جاتے جاتے اسنے پوچھا۔
“نہیں ماما کھانے کا بالکل موڈ نہیں ہے آپ ایسا کریں ایک گلاس دودھ لے آئیں”۔ اپنے آپکو پرسکون کرتا وہ کھڑا ہوا۔
ٹھیک ہے بیٹا مین لے آتی ہوں”۔ بولتے ہی وہ روم سے نکل گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
یہ پرانے طرز کا کشادہ، اونچا اور خوبصورت گھر تھا جو گھر کم اور حویلی زیادہ گردانہ جاتا تھا۔
باہر کی جانب لگا گیٹ لوہے کا بنا تھا جو کافی مضبوط تھا جہاں ہما وقت ایک چوکیدار کا سایہ پایا جاتا تھا۔
گیٹ سے انٹرنس تک ماربل کا فرش تھااور سامنے ہی کار پورچ بھی۔ اس راہداری کے دونوں اطراف لان تھے۔ انٹرنس کا دروازہ کافی قد آور تھا مانو راجہ مہاراجہ کی صدی سے یہاں کی زینت بنا ہو۔۔۔ پرانہ تو تھا ہی مگر بیش قیمت بھی۔ انٹرنس کے باہر جانب سیڑھیاں تھیں جو شمار میں پانچ تھیں جبکہ اندرونی جانب کچھ مسافت پہ مقابل ہی دوسری منزل تک رسائی کیلئے سیڑھیاں بنی تھیں جو کافی وسیع تھیں جہاں رومز کی قطار تھی جو با آسانی دیکھی جا سکتی تھی اور فرش پہ کھڑے رہتے رومز شمار کیئے جا سکتے تھے۔
کار کے ہارن کی آواز پہ اسکا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔۔۔ دھڑکنوں کی رفتار دگنی ہو گئی تھی۔ عجلت میں اسنے اپنا دائیاں ہاتھ اس کڑاہی کے ساتھ مار لیا تھا جس میں وہ حلوہ بنا رہی تھی۔
ادھر آنے کی آہٹ ہوئی اور ادھر مہر ثبت ہو گئی۔ یہ اندیشہ اچھا ہو خدا کرے”۔ ہاتھ کی پیشانی کو دیکھتے وہ مسکرا۔ “اے میرے دل کی دھڑکنو ذرا آرام سے ذرا دھیرے سے ۔۔۔ ابھی تو دیدار یار باقی ہے”۔ دل پہ ہاتھ رکھتے اسنے کہا پھر شرما دی۔
نین تارا ۔۔۔ ارے او نین تارا”۔ ممتاز آوازیں لگاتی کچن کی جانب آئی جب نین تارا فورا سے خیال جھٹکتے دوبارہ سے حلوے میں چمچہ ہلانے لگی۔
ج۔ ج۔ جی تائی جان؟؟”۔ وہ ہکلا اٹھی۔
حلوہ ہے یا پائے چڑھا رکھے ہیں چولہے پہ جو گل نہیں رہے؟”۔ حلوے کو دیکھتے اسنے تپ کر کہا۔
بس تائی جان بن گیا ہے”۔ بولتے ہی اسنے چولہا بند کر دیا۔
احتشام آ گیا ہے اس کیلئے جوس لے آو دھیان رکھنا زیادہ چینی نا ہو۔ جلدی آ جانا یہیں مت بیٹھی رہنا”۔ جاتے جاتے اسنے سختی سے تنبیہ کی۔
ممتاز کے جاتے اسنے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے جوس بنایا پھر ٹرے میں گلاس سجائے لڑکھڑاتے قدموں سے باہر کی جانب بڑھی۔ جوں جوں وہ کچن کی دہلیز سے دور ہوتی جا رہی تھی قہقہوں اور گفتگو کی آواز اسکے کانوں میں واضح رقص کرنے لگیں تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“آپا میں آپکو کیا بتاوں میں اتنی بے تاب تھی میرا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اڑ کے پہنچ جاوں اپنے بھانجے سے ملنے۔۔۔ اللہ اسکو اب آپکی اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہی رکھے۔۔۔ کہاں ہے احتشام؟ لگتا ہے کہ آرام کر رہا ہے؟”۔ بولتے ہی اسنے اپنی نگاہوں کو ریڈار کی مانند ادھر ادھر دوڑاتے اندازہ لگایا۔
“نہیں تبسم احتشام ابھی ہی اپنے روم میں گیا ہے۔۔ جاو روہینہ بھائی کو بلا لاو”۔ بولتے ہی اسنے اپنے برابر بیٹھی روہینہ کو مخاطب کیا۔ ممتاز کے کہنے پہ روہینہ احتشام کے روم میں جانے کی غرض سے سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی۔
سندس نے جو ممتاز کے پہلو میں بیٹھی تھی،، گردن کو جنبش دیتے چہرے کو سیڑھیوں کی جانب موڑا اور چاہت بھری نظریں سیڑھیوں پہ ٹکا لیں۔
“اچھا آپا یہ بی جان کدھر ہیں؟؟”۔ تبسم کی نظریں احتشام کے روم کی طرف اٹھیں جہاں وہ روم کی دہلیز پار کر آیا تھا۔۔۔۔ پھر دوبارہ سے ممتاز کو مخاطب کیا۔
“کہاں ہونا ہے؟؟۔۔ اپنے روم میں آرام فرما ہیں اور انکا کام کیا ہے؟”۔ ممتاز نے نخوت سے کہا۔
“اسلام و علیکم خالہ جان”۔ احتشام اب قریب آ گیا تھا اور سرشاری سے تبسم کے سامنے ہلکا سا جھکا تھا۔
“وعلیکم السلام ۔۔۔ جیتے رہو میرے بچے خوش رہو۔۔۔ آباد رہو۔۔۔ پھولو پھلو”۔ تبسم نے اسکی پشت سہلاتے اسکی پیشانی پہ بوسہ دیا۔
“تم سناو سندس تم کیسی ہو؟؟”۔ وہ جو مسلسل اس پہ نظریں گاڑھے بیٹھی تھی،،، احتشام کے بلاتے ہی چوکنا ہوئی۔ تبسم کے برابر میں چیئر کو خالی پاتے وہ اس پہ ہی بیٹھ گیا تھا۔
نین تارا بھی چائے کے ہمراہ کھانے کی اشیا ٹرے میں سجائے اس طرف آئی تھی۔
“نین تارا؟”۔ جونہی وہ اشیا وسط میں پڑے ٹیبل پہ رکھتے دوبارہ کچن کی جانب پلٹی احتشام نے اسے پکارا تھا۔
سندس جسے نین تارا کا سائیڈ پوز نمایاں تھا،،، اسے قہر آلود نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
“جی؟”۔ احتشام کی جانب مڑتے ہی اسنے کہا۔
“مجھے ایک گلاس پانی لا دینا پلیز”۔
اثبات میں سر ہلاتے وہ کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔
“اور خالہ جان سنائیں تقی کیسا ہے؟؟؟ صنم آپی۔۔ فرحان۔۔ وہ نہیں آئے؟؟”۔ تبسم کو مخاطب کرتے اسنے مزید کہا۔
“تقی بھی بالکل ٹھیک ہے وہ بھی تم سے ملنے کو بے چین تھا مگر کیا کروں تمھارے خالو بھی تو شور مچا دیتے ہیں نا اس لیئے اسے گھر ہی چھوڑ کر آنا پڑا”۔ وضاحت کرتے اسنے خفگی کا اظہار کیا۔
“میرا فون؟؟۔۔ میرا خیال ہے کہ میں فون روم میں ہی چھوڑ آیا ہوں۔۔ اچھا خالہ جان آپ بیٹھیں میری ایک ضروری کال آنی ہے ۔۔ میں ابھی آتا ہوں”۔ خیال آتے ہی اسنے کرتے کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا پھر اجازت لیتے متوازن چال چلتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
“تائی جان احتشام کدھر گئے؟؟”۔ جب وہ پانی کا گلاس لیئے اس طرف آئی تو اسے احتشام کی غیر حاضری کھٹکی تھی۔
“احتشام اپنے روم میں ہے۔۔۔ جاو اسے وہیں پانی دے آو”۔ ممتاز نے کہا۔
“ایک منٹ”۔ جونہی نین تارا سیڑھیوں کی جانب گھومی تبسم نے اسے ٹوکا تھا جس پہ اسکے قدم وہیں جم گئے تھے۔
“سندس تم جاو احتشام کو پانی دے آو”۔
تبسم کے کہنے پہ سندس نے اٹھ کر نین تارا کے ہاتھوں سے ٹرے لے لی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“جی اشتیاق صاحب مجھے علم ہے اس بات کا۔۔۔۔ میں اس بات سے قطعا انحراف نہیں ہوں بلکہ میں بات کی تہہ تک پہنچ گیا ہوں کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں مگر آپ خود ہی سوچیں ایسے اچانک ہمیں کوئی خبر ملے وہ بھی کسی تھرڈ پرسن سے تو کیا ہم یقین کر لیں گے؟؟ ایسا کہاں ہوتا ہے؟؟۔۔۔ عدالت ثبوت کے بنا پہ ہی اپنا فیصلہ سناتی ہے زبان حلفی پہ کون اعتبار کرتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔”۔ روم کی دہلیز کے سامنے ہی بیڈ تھا جسکا تاج دیوار کے ساتھ منسلک تھا۔۔۔ اسکے اوپر ہی احتشام کی تصویر تھی جو اسکے یونیفارم میں لی گئی تھی۔ احتشام کی تصویر کی وہاں موجودگی احتشام کی موجودگی کا پل پل احساس دلاتی تھی۔ یہاں تک کہ کسی چڑیا کی بھی مجال نا ہوتی کہ وہ اسکی عدم موجودگی میں اسکے روم میں پر بھی مار سکے۔
بیڈ کی پائینتی پہ تھوڑا فاصلے پہ کھڑا دہلیز کی جانب پشت کیئے وہ کان کے ساتھ فون لگائے کال سننے میں انہماک تھا اسی دوران وہ باتیں کرتے دروازے کی جانب گھوما جہاں سندس کھڑی اسکی باتیں سن رہی تھی۔
“میں آپکو کال بیک کرتا ہوں۔۔۔ بائے”۔ بولتے ہی اسنے کال کاٹ دی تھی۔
سندس بھی قدم اٹھاتی اسکے قریب آئی تھی۔
“ارے سندس تم نے تکلف کیوں کیا؟؟ نین تارا لے آتی”۔ فون پاکٹ میں رکھتے اسنے کہا۔
“اس میں تکلف کیسا احتشام؟؟ تم میرے کزن ہو۔۔ اور کزنز میں تو یہ سب چلتا ہی رہتا ہے۔۔ عام بات ہے”۔ احتشام کو گلاس تھامتے اسنے اسکا ہاتھ دانستہ چھوا تھا۔
“ہوتا ہو گا سندس مگر مجھے یہ سب پسند نہیں شاید تم اس بات سے ابھی تک ناواقف ہو۔ جو میرے قریبی ہیں وہ اس بات سے بالکل واقفیت رکھتے ہیں۔۔۔۔ اینی وے تھینکس”۔ احتشام کی آنکھوں کا اشارہ ہاتھوں کی جانب تھا۔۔۔۔۔ ہاتھ کو پیچھے کھینچتے اسنے سختی سے سرزنش کی پھر پانی کا گھونٹ حلق سے اتارا جبکہ احتشام کے اس رد عمل پہ سندس آگ بگولا ہو گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کے نو بج رہے تھے۔ ڈنر کے بعد سب اپنے اپنے رومز میں چلے گئے تھے۔۔۔ نین تارا کچن میں بائیں اور لگے سنک کے پاس کھڑی اس میں رکھے استعمال شدہ برتنوں کو دیکھ رہی تھی۔
“یا اللہ کتنے برتن اکھٹے ہو جاتے ہیں۔۔۔ تائی جان مجھ سے سارا دن گدھوں کی طرح کام کرواتی ہیں اور صلہ کیا دیتی ہیں؟؟ ۔۔۔ پتہ نہیں انکا منہ کیوں نہیں سیدھا رہتا؟”۔ بڑبڑاتے ہی اسنے برتن دھونا شروع کیئے جب احتشام عادتا دبے پاوں ہاتھ میں جگ پکڑے اسکے تعاقب میں آ کھڑا ہوا۔ احتشام نے اسے بلانے کی کوشش کی ہی تھی کہ نین تارا کو غصے میں بڑبڑاتا دیکھ اسنے خاموشی سادھ لی۔
“نین تارا ۔۔ ارے او نین تارا ۔۔ کہاں مر گئی؟؟ کیا سماعت کمزور ہو گئی جو تیرے کانوں تک میری آواز نا آ سکی؟”۔ گلا بھاری کرتے اسنے ممتاز کی نقل اتاری جس سے احتشام کے چہرے پہ بے ساختہ مسکراہٹ پھیلی۔
وہ اس بات سے بے نیاز تھی کہ اسکے ہاتھ پہ زخم ہے۔۔ اب اسے عادت سی ہو گئی تھی کیونکہ اس کے نزدیک اس زخم سے کئی گنا تھا اپنوں کی بے رخی اور ظالمانہ برتاو۔
“میں نے سنا تھا کہ جن بچوں کے سر سے ماں باپ کا سایہ رخصت ہو جائے وہ بگڑ جاتے ہیں۔۔ میں نے غلط سنا تھا یہاں تو الٹا ہے جن بچوں کے سر پہ ماں باپ کا سایہ نا ہو وہ ظالموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں”۔
احتشام کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں جو ابھی بھی نین تارا پہ جمیں تھیں بغیر کچھ کہے وہ خاموشی سے جگ وہیں رکھتا کچن سے باہر آ گیا تھا۔
“میری حالت پہ اب اللہ ہی رحم کرے یہ تائی جان تو میری ہڈیوں کا سرما نکال کے ہی دم لیں گیں”۔ ارد گرد ماحول سے بے خبر و بے نیاز وہ مسلسل دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
بظاہر وہ ممتاز کو اپنی تکلیفوں اور دکھوں کا قصور وار ٹھہرا رہی تھی در حقیقت اپنی ماں کو کوس رہی تھی جو اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اسکا دل خالی تھا ۔۔۔ ہر چیز سے خالی اور آنکھوں میں نمی تھی کسی کو نا نظر آنے والی نمی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سوائے واجد اور بی جان کے گھر کے بقیہ افراد ناشتے کی غرض سے کچن میں دائیں سائیڈ رکھے ڈائننگ ٹیبل پہ ناشتہ کرنے میں محو تھے۔
“ماما مجھے ایک گلاس جوس دینا”۔
احتشام کی پشت نین تارا کی جانب تھی جو چائے کو پیالیوں میں انڈیل رہی تھی۔
ممتاز نے گلاس میں جوس ڈال کر احتشام کی جانب بڑھایا جسے احتشام کچھ ہی دیر میں حلق سے اتار گیا۔۔۔ نین تارا بھی ٹرے ہاتھوں میں لیئے اس جانب آئی تھی۔
“اوکے ماما اب میں چلتا ہوں۔۔۔ او شٹ۔۔۔ آئی ایم سوری”۔ جونہی اسنے اٹھتے چیئر پیچھے دھکیلی اسکا ہاتھ ٹرے کے ساتھ جا لگا جو ابھی بھی نین تارا کے ہاتھوں میں تھی۔
جھٹکا لگتے ہی ٹرے نین تارا کے پیروں میں جا گری اور ساری پیالیاں ٹوٹ کر بکھر گئیں جس سے نین تارا کے پیر جل گئے تھے۔
“ارے اندھی ہو کیا؟؟ نظر نہیں آتا؟؟ میرے بچے پہ چائے گر جاتی تو وہ جل جاتا۔۔۔ منحوس ماری ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتا”۔ ممتاز بیگم بھی نشست چھوڑتے اس جانب آئیں تھیں۔ روہینہ جو ڈائننگ کے دوسری طرف بیٹھی تھی زیر لب مسکرا دی تھی۔
“ماما اٹس اوکے ۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔۔۔ نین تارا تم ٹھیک ہو؟؟”۔ ممتاز کے دائیں شانے پہ ہاتھ رکھتے اسنے نین تارا کو از راہ ہمدردی مخاطب کیا۔
“ج۔ جی”۔ مستقل اذیتوں اور تکلیفوں کے پیش نظر وہ اپنے لب سی چکی تھی۔
“اوکے ماما اب میں چلتا ہوں۔۔۔ اللہ حافظ”۔ بولتے ہی وہ کچن کی دہلیز پار کر گیا۔
“اب جلدی یہاں کی صفائی کرو”۔ ممتاز بیگم بھی تلخی میں بولتیں وہاں سے باہر نکل گئیں۔
“سو سیڈ ۔۔۔۔ تمھارے تو پاوں جل گئے۔۔۔۔ اب تو تم سے کام نہیں ہو گا نا؟؟ مگر کرنا تو تمھیں ہی پڑے گا”۔ روہینہ نین تارا کے قریب آتے ہی اسکے زخم کریدنے میں لگی تھی۔
نین تارا نے پر شکوہ آنکھوں سے روہینہ کو دیکھا جہاں آنسو آنکھوں کی باڑ توڑے گر جانے پہ تلے تھے۔
“مگر مچھ کے آنسو بہانے کا فائدہ ۔۔۔۔ میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو ۔۔ یہاں کی صفائی کرو”۔ اسکے نایاب موتیوں کا مذاق بناتے اسنے آگ برساتی زبان سے نین تارا کو کہا پھر وہاں سے چلی گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
یونی کے عین سامنے بنے چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں وسط میں رکھے ٹیبل پہ بیٹھی سر جھکائے وہ فون پہ لگی تھی جب اسے محسوس ہوا کہ اسکے سر کی پشت پہ کسی نے تھپکی دی ہے تو فورا سے اسنے اپنا چہرہ اوپر کو کیا۔
“بلال تم۔۔۔ تم لیٹ کیوں آئے؟؟ تم جانتے ہو میں کب سے تمھارا انتظار کر رہی ہوں”۔ اسنے خفگی کا اظہار کرتے چڑ کر کہا۔
“سو سوری یار ایکچوئلی میں رش میں پھنس گیا تھا اس وجہ سے دیر ہو گئی”۔ معذرت کرتے ہی وہ اسکے مقابل رکھی چیئر پہ بیٹھ گیا تھا۔
“سوری سے کام نہیں چلے گا”۔ بولتے ہی اسنے منہ پھیرا۔
“تو پھر؟؟”۔ آنکھوں میں تجسس لیئے وہ بولا۔
“میں تمھارا کب سے ویٹ کر رہی ہوں۔۔ اب تو میرا ناشتہ بھی ہضم ہو گیا ہے۔۔ میرے کھانے کیلئے کچھ منگواو تب مانوں گی”۔ متبسم اسنے بلال کے چہرے کو دیکھا۔
“جو حکم عالی جاہ۔۔۔ ویٹر”۔ سر میں خم لاتے اسنے کہا پھر چہرے کو حرکت دیتے بائیں سائیڈ ریسپشن کی طرف دیکھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ہر آسائش سے منور کمفرٹیبل کیبن میں بیٹھے وہ ہاتھ میں پکڑی فائل کا مطالعہ کرنے میں انہماک تھا۔ پشت پہ بنی دیوار کے سرے پہ لگا اے-سی اپنی ٹھنڈی ہوا سے پورے کیبن کو اپنے ٹھنڈے سحر میں لیئے ہوئے تھا۔ دروازے پہ ناک نے سکون اور خاموشی دونوں میں خلل پیدا کیا۔
“کم ان”۔ بغیر نگاہ اٹھائے اسنے کہا پھر فائل کے ورق ٹٹولنے لگا۔
“گڈ مارننگ سر”۔ اب وہ اسکے قریب آ گیا تھا اور تپاک سے اسے سلوٹ کیا۔
“گڈ مارننگ ۔۔۔ ہاں سعد کہو کیا صورت حال ہے؟؟”۔ فائل کو سائیڈ پہ رکھتے وہ اسکی جانب اپنی پوری توجہ مرکوز کیئے ہوئے تھا۔ لگے ہاتھوں اسنے اپنے آپکو ڈھیلا چھوڑتے پشت چیئر کی بیک سے لگا لی تھی۔
“سر کوشش جاری ہے مگر کوئی سراغ نہیں مل رہا لگتا ہے کہ گینگ بہت شاطر ہے؟”۔ تفصیل دیتے اسنے اندازہ لگایا۔
“مجرم کتنا ہی عقل مند اور ہوشیار کیوں نا ہو سعد قانون کی پہنچ سے دور نہیں بھاگ سکتا۔۔۔ قانون کے ہاتھ تو ویسے بھی لمبے ہوتے ہیں”۔ بولتے ہی وہ طنزا ہنس دیا تھا۔
“لیکن سر فلوقت تو ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔۔۔ ممکن ہے کہ یہ ایک مذاق ہو؟ ایک بھدا مذاق جو صرف اور صرف ہمیں الجھانے کیلئے کیا گیا ہے”۔ اسنے اندیشہ ظاہر کیا۔
“اگر ایسا ہے نا سعد تو مذاق کرنے والے کے ساتھ مل بیٹھ کر ہم بھی دو چار لطیفے سنا ہی دیں گے”۔
“پھر تو سر اسے اپنی خیر منا لینی چاہیئے کیونکہ آپکا مذاق بھی برداشت سے باہر ہوتا ہے”۔ احتشام کی بات پہ وہ بھی ہنس دیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“روہینہ تم ابھی تک گھر نہیں گئی؟”۔ یونیورسٹی کی چھٹی ہو چکی تھی۔۔۔ ایسے میں وہ سڑک کے کنارے کھڑی کیب کی منتظر تھی جب بلال بائیک پہ سوار اسکے قریب آ کر پوچھنے لگا۔
“نہیں میں ٹیکسی کا ویٹ کر رہی تھی مگر لگتا ہے کہ ہڑتال ہی ہو گئی ہے کوئی نظر ہی نہیں آ رہی”۔ اسنے افسردگی ظاہر کی۔
“تو میرے ساتھ آ جاو میں تمھیں ڈراپ کر دیتا ہوں”۔ ہیلمٹ اتارتے ہی وہ اسے سیٹ کرنے لگا۔
“نہیں بلال تم جاو میں چلی جاوں گی۔۔ میرا گھر دوسری طرف ہے تمھیں خواہ مخواہ میں تکلیف ہو گی”۔ نفی کرتے وہ دوبارہ سے دائیں بائیں دیکھنے لگی تھی۔
“روہینہ یہ ہمارے درمیان تکلفانہ رسومات کب سے دراڑیں ڈالنے لگیں؟؟ ۔۔۔ ایک دفعہ کہا ہے نا کہ میں تمھیں ڈراپ کر دوں گا تو مطلب کر دوں گا۔۔۔ کہیں اور نہیں لے کے جا رہا تمھیں جو تم ڈر رہی ہو”۔ ہیلمٹ دوبارہ سے پہنتے اسنے شیشہ اوپر کو کیا۔
بلال کے یوں اصرار کرنے پہ روہینہ اسکے ساتھ بیٹھنے پہ آمادہ ہو گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆