چوہدی رحمان کی اور بیگ فیملی مل کے بابا بلھّے شاہؒ کے مزار کے لیے روانہ ہوئیں۔ ابراہیم نے بھی سر اور نظریں زمین سے اوپر نہ اُٹھانے کی قسم کھا رکھی تھی۔۔ سب دربار پہنچے تو سب گاڑیوں سے گروپ کی شکل میں ہو گئے لڑکیاں الگ بزرگ الگ اور لڑکے الگ۔۔ اکبر نے آج پہلی دفعہ ابراہیم کو دیکھا تھا۔ اس دن والی مار پر معزرت کی پر ابراہیم صرف گردن ہلائی۔۔۔اور کچھ نہ بولا۔ دربار کے اندر داخل ہوئے تو ایک عجیب سے احساس کی سکون کی طرح دل میں اُتر گیا۔ کچھ ماحول کا اثر اور کچھ دل کو راحت اور قرار سا میسر ہوا۔۔ ایک طرف سےکونے میں کوئی ولی روح کلامِ بُلھّے شاہ پڑھنے میں ایسا مگن تھا کے ابراہیم کا دل کیا وہ بس یہی سنتا رہے قدم اپنے آپ اس کی طرف بڑھتے گئے۔۔ بہت مگن انداز میں کلام پڑھتے پڑھتے وہ بزرگ بالکل پاس بیٹھے والے کو دیکھ کر روکے اور ابراہیم کو غور سے دیکھا اورمسکرا دیئے ابراہیم نے پہلی دفعہ سر اُٹھا کے بزرگ کی طرف دیکھا۔ جنہوں نے کلام پڑھنا ترک کر دیا تھا۔۔
“بُلھے شاہ زہر ویکھ کے پیتا تے کی پیتا
عشق سوچ کے کیتا تے کی کیتا
دل دے کے , دل لین دی آس رکھی
پیار ایہو جیا کیتا تے کی کیتا”
بزرگ نے بابا بلھے شاہ کا ہی ایک کلام پڑھا ابراہیم کی آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے کے اسی اثنا پر بزرگ کے بالکل پیچھے سے وہی دشمنِ جان پرنظر پڑھ گئی۔ وہ آج بھی کالی چارد اُوڑھے پلوں سے اپنا چہرہ چُھپائے ہوئی تھی اور ابراہیم کو ہی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پر آج اسکی آنکھیں سُرخ ہو رہی تھی۔ جیسے اسکی حالت پر روئی ہو۔۔۔ ابراہیم کو اپنی آنکھوں میں کرچیاں چُبتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر سے سر جُھکا گیا۔ وہ بالکل پاس سے گُزر کے اندر کو چلی گئی کتنی دیر تک ابراہیم اُس کی خوشبوں کو اپنے اندر تک محسوس کرتا رہا۔
سب نے منت کی چادر چڑھائی اور خیر کی دعا کی۔
جانے سے پہلے ابراہیم اُٹھا فاتحہ پڑھی پتہ نہیں دل میں ایک خواہش نے جنم لیا ایک دفعہ اسکا دیدار ہو جائے چاہے آخری بار ہی صحیح۔ اور باہر کو چل دیا۔ سب گاڑیوں میں سوار ہو رہے تھے۔ وہ بالکل ابراہیم کے پاس سے گزری تو وہی خوشبو نے سر اُٹھانے پر مجبور کیا تو وہ ابراہیم ہی کی طرف دیکھ رہی تھی اور دھیرے سے اپنا پلوں چھوڑ دیا۔ ابراہیم کو لگا جیسے اسکی دل کی آواز اس تک پہنچ گئی ہو۔ وہ بس دیکھتا رہا اسی طرف۔ وہ سب جا بھی چکے تھے پھر بھی ابراہیم ایسے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جیسے وہ ابھی بھی وہی کھڑی ہو۔۔
تیمور نے کندھا پر ہاتھ رکھا تو ابراہیم کو احساس ہوا کے وہ تو جا چُکی بہت دور جہاں وہ اس تک کبھی پہنچ ہی نہیں پائے گا۔ اور ہر طرف ویرانہ چھا گیا۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★
شانی جس تانگے سے کالج سے گھر جاتی تھی۔ بے چارے کی گھوڑی بیمار پڑ گئی تھی۔ تو اس وجہ سے وہ اسے لینے نہیں آپائے گا۔ پاججی نے بتایا تو شانی کا رنگ فق ہو گیا۔ اب وہ گھر کیسے جائے گی۔پاججی کےتانگے میں پہلے سے بہت ساری لڑکیاں سوارتھیں۔ آسیہ اور شانی کے بیٹھنے کی جگہ ہی نہ تھی تو دونوں پریشانی سے سڑک کی طرف چل دی کے کوئی سواری ہی مل جائے گاؤں جانے کی۔ کالج جو شہر کے راستے واقع تھا۔ پر گاؤں کی طرف جانے والی کوئی سواری نہ ملی تو دونوں نے پیدل چلنا شروع کر دیا اس بھروسے کبھی نہ کبھی تو گھر پہنچ ہی جائے گی۔ سامنے سے آتی گاڑی نظر آئی تو کوئی امید سی جاگی۔
“آسیہ کیا اس گاڑی والے کو روکوں ہمیں گاؤں تک ہی چھوڑ آئے میری تو ٹانگیں جواب دے گئی ہیں۔”
“نہ شانی کوئی پُٹھا کام نہ کری پہلے ہی تیری بہت سی حرکتوں سے نقصان اُٹھنا پڑتا ہے۔ اور وہ ہمیں گاؤں کی بجائے کہی اور لے گیا تو کیا کر لے گی تو۔”
“میں۔۔ میں ٹانگیں توڑ دو گی اس کی مکے مار مار دانت توڑ دینے کوئی بُری نظر سے دیکھ کے تو دیکھائے مجھے۔۔ شانی ہو میں کو عام سی نازک لڑکی نہیں ہو۔۔ ”
“آہو اتنی تم پہلوان اچھو کی جانشین رہتی نہیں۔۔” گاڑی اچانک سے پاس آکے روکی تو آسیہ شانی کے پیچھے ہو گئی جیسے سامنے کوئی جن ہو اور شانی اسکو بچا لے گی۔
“کھتے دیاں سواریاں نے سوہنیوں۔۔ سانوں وی موقعہ دو خدمت دا۔۔”
“اپنی ماں دی خدمتاں کر۔” شانی اور چپ کر کے سن جائے ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔
“مل کے خدمتاں کرلواں گے ساتھ تے دوں ایک دفعہ۔۔”
” اوے تو اپنے آپ کو کیا کوئی طوپ چیز سمجھتا ہے بہت سیدھے کیے ہیں تم جیسے چپ کر کے نکلتا بن ورنہ میرے سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔۔ ” اچانک سے گاڑی والا اپنی شاہ سواری سے اترا اور شانی کے سامنے آکے کھڑا ہوگیا۔ شانی کا دل دھک سے راہ گیا۔ پر پھر بھی ہمت کم نہ ہوئی آسیہ کا ہاتھ پکڑا جو ڈر سے کانپ رہی تھی اور آگے کو چل دی تو اس لڑکے نے شانی کا ہاتھ پکڑ لیا۔
“ہمیں بھی دیکھاؤ کتنی بڑی ہوہم بہت شوق سے دیکھے گے۔”
“بہت ہی کوئی کمینہ انسان ہے توں شرم تو پاس سے گزر ہی نہیں لگتا۔” اتنے میں ایک اور گاڑی پاس آکے روکی اترنے والے انسان کو دیکھ کے شانی کا رنگ ہی اُڑ گیا۔
“باؤ جی آپ”۔ مہتاب نے زور سے شانی کا ہاتھ چھڑوایا اور دونوں کو گاڑی میں بیٹھے کا کہا۔ دونوں بنا چوچراں کیے گاڑی میں بیٹھ گئی تو مہتاب نے بُری طرح اس لڑکے کے منہ پر مکو، گھوسو کی برسات کر دی۔
“ہمت کیسی ہوئی میرے گاؤں کی لڑکیوں کو ہاتھ لگانے کی”۔ اور مارتا گیا جب تک وہ زمین پر نہ گر گیا۔ “آگے سے نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو ان ہاتھوں پیروں پر سلامت نہیں جاؤ گے۔۔” لڑکے میں تو ہوا ہی بھری تھی آگے سے مزاحمت تک نہ کر پایا تھا۔
مہتاب نے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی شانی پر غصے سے بھری نظر سے دیکھا تو شانی فوراٍ بول اُٹھی۔
“دیکھے اسے میں نے نہیں روکا تھا وہ کمینہ تو پیچھے ہی پر گیا تھا۔۔ اور یہ جو میری سہیلی ہے میرا ساتھ دینے کے میرے پیچھے چھپ گئی۔” مہتاب نے آنکھیں بڑی کر کے اور غصے سے بھنکارا۔۔۔
“ضررت کیا تھی اسکے منہ لگنے کی۔۔اور کالج میں چوکیدار سے کہہ کر کسی سواری کا انتظار نہیں کر سکتی تھی نکل پڑی خودی ہی جانسھی کی رانی کی طرح۔۔” اس دفعہ شانی نے کچھ نہیں کہا اور منہ دوسری طرف کر دیا۔ پر زیادہ دیر چپ نہ رہا گیا تو پھر سے شروع ہو گئی۔ مہتاب اپنا غصہ زبت کر کے گاڑی چلا رہا تھا۔
“آپ کو کیا اماں نے بھیجا ہے؟”
“نہیں فیکٹری کے کام سے گھر جا رہا تھا تو پا ججی نے بتایا تم لوگوں کا اور میں فوراً لینے آگیا۔۔”
“بہت شکریہ آپ کے آنے کا میری تو ٹانگیں جواب دے گئی تھی اوپر سے پیپر نے مت مار رکھی ہے اور کل کے پیپر کی الگ سے ٹینشن بندہ جائے تو جائے کہاں۔” مہتاب نے بھی اپنا موڈ صحیح کیا ورنہ جتنا غصہ اس لڑکے پر تھا اس سے کہیں زیادہ شانی پر۔۔ جو منہ اٹھا کر چل دی کسی سواری کا انتظار کیے بنا۔۔
“شانی آئندہ کچھ بھی ہو اماں یا مجھے فون کردیا کرنا اور کبھی بھی سواری کا انتظام کیے بغیر کالج سے باہر قدم مت رکھنا چاہے رات ہی کیوں نہ ہو جائے۔۔”
“ہمارے کالج میں موبائل لے جانا منع ہے۔۔ اور میرے پاس موبائل نہیں ہے۔”
“اتنی دور سے آنا ہوتا ہے کالج تو ضرورت کے وقت پر کیا کرتی ہو۔”
“چوکیدار چچا کا فون لے لیتی ہیں لڑکیاں۔۔ ”
“تو کیا تم فون لے کر گھر بتا نہیں سکتی تھی۔”
“ہمارے گھر کوئی مرد نہیں ہے جو میرے پیچھے آئیں مجھے اپنی حفاظت خود کرنا آتی ہے آج اگر آپ نہ آتے تو زندہ نہ ہوتا وہ انسان۔” مہتاب بیک ویومیرر میں شانی پر فوکس کر کے اسکی آنکھوں میں دیکھا جو غصے سے اسی کو گھور رہی تھی۔ مہتاب صرف مسکرا دیا۔ وہ اور کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا تھا جوآسیہ کی موجودگی میںسب کے لئے چٹخارے کا بعاص بنے ورنہ گاؤں میں تو ذارہ سی بات دوسرے گاؤں تک پھیلنے وقت ہی کتنا لگتا ہے ہے
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بیگ فارم ہاؤس پر ابراہیم کی مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا۔ گاؤں کی عورتوں نے ابراہیم کو ابٹن لگا کے سارا پیلا کررکھا تھا۔ ہر کوئی خوش تھا سوائے ابراہیم کے جس نے جو نظریں اُٹھا کے کچھ دیکھنا ہی نہیں چاہا تھا۔ بس سر جھکائے والد کے حکم کی تکمیل کر رہا تھا۔ تیمور کیمرہ لیے ساری محفل میں دنداناتا پھر رہا تھا ابراہیم کے پاس جا کے بولا۔
“اوئے یار سمائل کر تصویر زارا اچھی نہیں آرہی منہ ایسے لٹکا ہے جیسے رخصتی تمہاری ہونی ہو۔۔ شاباش دانت دیکھا پتہ چلے ہمارے بکرے کی دانت پورے ہیں جو کل ذیبح ہونے دینا ہے۔”
“بھاڑ میں جا۔”ابراہیم نےدانت پیستے ہوئے کہا۔
“چل دونوں بھائی ساتھ چلتے ہیں”۔ تیمور پر کون سا اثر ہونا تھا۔
ابراہیم نے اگنور کیا۔۔
“چچی میں جا سکتا ہو۔؟ ہوگئی آپ کی سب رسمیں۔؟”
“ہاں ہاں کیوں نہیں ہم کھانے لگوا دے مہمانوں کے لئے تب تک تم فریش ہو جاؤں۔”
“جی مہربانی۔”اتنا کہہ کر اُٹھ کھڑا ہو تو تیمور نے پیچھے آواز لگائی۔
“اوئے ہوئے میری پھولجھڑی کہاں چل دی۔” ابراہیم نے موڑ کے دیکھا اور پاس آکے ہلدی اور مہندی کے پیالوں میں دونوں ہاتھ ڈالے اور تیمور کے منہ سے سینے تک لگا دئیے۔
“جہاں اب تم جاؤں گے نہ وہی جا رہا ہو۔” اور کمرے کی طرف چل دیا۔ پوری محفل میں قہقہوں کی بوچھاڑ ہوگئی۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
شانی جب کالج سے گھر پر آئی تو سامنے مہتاب کو بیٹھے پایا تو ایک دم سے رنگ اُڑ گیا۔
“کہیں اماں کو تو نہیں بتا دیا انہوں نے کل والا قصہ۔” ادھر اُدھر دیکھتی مہتاب کے پاس پہنچی۔
“آپ نے اماں کو تو کچھ نہیں بتایا۔؟”
“کیوں بتانا نہیں چاہیے تھا آخر ماں ہیں تمہاری۔ سب اچھا بُرا پتہ ہونا چاہئے۔”
“وہ میراکالج جانا بند کروا دیں گی اور میں نہیں چاہتی کے ایسا ہو اور پریشانی الگ سے ہو گی۔ وہ تو منحوس ہے بھی میل والوں کا بیٹا اماں نے میرا ہر طرح سے دنیا سے رابطہ ہی ختم کروا دینا ہے۔ پہلے ہی چوہدرائن نے بڑی مشکل سے کالج میں پڑھنے کی اجازت دی ہے۔”
“ماں جی کیوں۔؟”
“لو بھلہ اس میں کیوں والی بات کہاں سے آگئی۔ اماں کام کرتی ہیں حویلی میں تو چوہدرائن سے پوچھے بنا تھوڑی نہ چلے گی۔ میرے کپڑے سے لے کر ہمارے گھر کیا آئےگا سب چوہدرائن ہی تو کرتی ہیں کہیں سے لگتا یہ حویلی کی ملازمہ کا گھر بس ایک مجھے حویلی میں یا اس کے آس پاس آنے کی اجازت نہیں ہیں۔ خاص کر تب سے جب سے آپ شہر سے آئیں ہیں۔ جب آپ حویلی سے دور جاتے ہیں میں تو پچھلے دروازے سے حویلی میں اماں اور مریم باجی سے مل آتی تھی آسیہ کے ساتھ جاکے۔” مہتاب حیرانی سے سب باتیں سن رہا تھا۔ جسے ان باتوں سے خاص کچھ ہو ہی نہ دنیا میں یا جب بھی وہ شانی کے ساتھ ہوتا تھا اور کچھ خاص ہوتا ہی نہ تھا اسکے لیے۔
“اور پھر بھی تم چوہدرائن سے ناراض رہتی ہو اور کہتی کوئی پیار ہی نہیں کرتا تم سے۔؟؟” ایک دم سے شانی کو اس رات والی بات یاد آگئی۔
“میں کرتا ہو نہ تم سے پیار۔” پھر ایک خیال آنے پر اپنی خفت مٹانے کے لئے بولی۔
“مجھے پتہ سب میرا بھلا سوچتے اس دن بھی آپ نے مجھے رونے سے چپ کروانے کےلئے وہ کہا تھا۔ میں جانتی ہو۔۔ ورنہ ایک دو دفعہ ملنے سے کوئی پیار تھوڑی نہ ہو جاتا ہے اور کوئی بول بھی نہیں دیتا۔”
“میں جھوٹ تو کچھ نہیں کہا تھا ایک دو دفعہ کب ملے ہم میں تو بہت پہلے سے جانتا ہو تم کو۔”
“وہ کیسے۔۔؟” ابھی سوال شانی کے منہ میں ہی تھا اماں چائے لے کر کمرے میں آئی ساتھ میں کچھ لوازمات کی ٹریے بھری ہوئی تھی۔
“شانی تم کب آئی اور پتہ بھی نہیں چلا تیرا پُتر۔”
“وہ۔۔ وہ اماں میں ابھی ہی تو آئی ہو تمہارے آگے آگے تو سامنے باؤجی کو دیکھا تو سلام کر رہی تھی کیوں صحیح کہہ رہی ہونا نہ باؤ جی۔” اور اماں کی پیچھے جا کر ہاتھ جوڑنے لگ گئی۔ مہتاب کے لیے اپنی مسکراہٹ کنڑول کرنا مشکل ہوگیا تو گرما گرم چائے اُٹھا کے منہ کو لگا لی۔
“جی اماں ابھی آئی ہے سلام تو ابھی کیا ہی نہیں۔”
‘او۔۔ ہاں اسلام علیکم باؤ جی ۔ اب میں چلتی ہو اچھا لگا آپ ہمارے گھر آئے چوہددرائن جی کو بتا کے آئیں ہیں نہ منع نہیں تو نہیں کیا انہوں نے آپ کو۔” اماں ایک دم ہربرا سی گئی اور شانی کی طرف موڑ کے آنکھیں دیکھا کے تنبیہ کیا۔
“شانی جاؤ جا کے یونیفام بدلوں شاباش” اور شانی کی گستاخیوں کی صفائی دینے لگی۔
“وہ کیا ہیں نہ باؤ جی باپ تو ہیں نہیں سر پر میں بھی اکثر حویلی رہتی ہو تو سہیلوں کے ساتھ رہ رہ کر تھوڑی زبان دراز ہو گئی ہے پر دل کی بہت اچھی اور معصوم ہے۔ اس کی بات کا بُرا مت مانئیے گا۔”
“ارے اماں ایسا کیوں کہتی ہیں آپ میں اسکی باتوں کا بُرا کیوں مناؤں گا۔ اور میں نے تو آپ کو تنگ کردیا ہے آکے پہلے ہی بیمار ہیں اور یہ سارے لوازمات دیکھ کے مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ کیوں آیا۔”
“نہیں باؤجی ایسا کیوں کہتے ہیں مجھے تو خوشی ہوئی آپ پہلی دفعہ ہمارے گھر آئیں اور ایسے تو نہ جانے دے سکتی ہو نہ میں۔”
“پہلی دفعہ۔” مہتاب نے مسکراہتے ہوئے ہلکی سی آواز میں کہا جو رشیدہ نہ سن سکی۔
“کچھ کہا باؤ۔؟”
“نہیں۔۔ نہیں تو کچھ بھی نہیں”
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بڑی دھوم دھام سے ابراہیم کی بارات نکلی سارا کا سارا گاؤں شادی پر موجود تھا۔ ابرا ہیم نے سفید رنگ کی شیروانی پہنی ہوئی تھی ساتھ میں کُلا اور سرما پہنائی کی رسم کی گئی پیسوں اور پھولوں والے ہار پہنائے گئے۔ امتیاز بیگ صدقے واری جا رہے تھے اپنے بیٹے کے جس نے آج فخر سے سر بلند کر دیا تھا ابراہیم کو گلے لگایا۔
“یار میں تو سوچ رہا تھا تم ہزار نخرے کرنے والے ہو ان رسموں کے لئے کبھی سُرما نہیں پہنا وہ بھی آرام سے پہن لیا کُلے پر اعتراض نہیں اس پر یہ پیسوں اور پھولوں والا ہار پہنے کارٹون لگ رہے ہو۔”
“بابا آپ خوش ہیں نہ۔”
“ہاں بہت زیادہ اتنا کے میرا دل کر رہا ہے بارات کے سب سے آگے جا کے بھنگڑا ڈالوں۔” اور قہقہ لگا دیا۔ ابراہیم بھی مسکرا دیا کہ آج کتنا خوش ہیں بابا جان اور کیا میں انکی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتا۔
“کیوں نہیں انکل آئیں ہم بھنگڑا کرتے ہیں اس سڑیل کی شادی پر۔ بدلے میں یہ میری شادی کے سارے کام کرے گا۔” دھوم دھام سے بارات حویلی پہنچی خوب استقبال کیا گیا۔ جب نکاح پڑھایا گیا تو ابراہیم نے مسکرا کر سب کی طرف دیکھا۔
“بس اتنا ہی ساتھ تھا یا اللہ اسکا اور میرا کاش کے اس دل میں جگہ ہی نہ دی ہوتی۔ ان کے لیے بس دعا کرتا ہو جس کا ساتھ آپ نے مقدر میں لکھا ہے وہ خوش بختی سے نبھا سکوں۔” رخصتی ہوئی تو رونے والوں میں جس پر سب حیرت زدہ ہو رہے تھے وہ چوہدری اکبر رحمان ملک تھے اپنی اکلوتی بہن کو دور جاتا دکھتے ہوئیں رہا نہ گیا ہو ہچکیوں سے رونے لگ گئے۔ ابراہیم کو گلے لگا کر کہا۔
“ایک اکوتی بہن ہے میری بہت لاڈ پیار سے پالا ہے سختی کیا ہوتی ہے وہ اسنے کبھی نہیں دیکھی اگر بھول چوک سے کبھی کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کردینا۔” اور اپنے ہاتھ جوڑ دئیے۔ “بیٹیوں سے ڈر نہیں لگتا بیٹیوں کے نصیبوں سے ڈر لگتا ہے۔”
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ابراہیم نے کمرے میں قدم رکھا تو ہزار سوچوں میں گھرا ہوا تھا۔ اور ضویا دلہن بنے سامنے تھی ایک حقیقت کا سامنا کرنا تھا۔ جو اللہ کے نام لے کر کیا۔
“اسلام علیکم۔! ہماری آج سے پہلے کبھی کوئی بات نہیں ہوئی میں اپنے بارے میں کچھ بتا نا چاہوں گا کوئی بھی رشتہ جھوٹ پر نہیں ہوتا میں بھی حقیقت بتانا چاہتا ہوں۔ میں نے بابا جان کے کہنے پر ہامی تو بھر لی تھی آپ سے شادی کی پر دل مطمئن نہیں تھا۔ جس کے ساتھ ساری زندگی گزارنی ہے اسے ایک نظر دیکھنا تو چاہئے نہ میں بھی اسی وجہ سے گاؤں آیا تھا۔ پر یہاں میرا سامنا ایک لڑکی سے ہو گیا۔ پہلے تو بس آنکھوں پر دل ہار بیٹھا بالکل کانچ کی طرح شفاف ہر گرد سے پاک جیسے صرف میرے لیے ہو۔ میں بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ پھر میں نے اس نے اس میں ازیت دیکھی جسے وہ مجھے مار کھاتا دیکھ نہ پا رہی ہو۔ اسکے بعد اس کا دیدار ہوا تو چند پلوں میں وہ مجھے سے دور ہو گئی بہت دور کوئی راہ اس طرف جاتی ہی نہ ہو۔ اس رات اللہ سے بہت شکوا کیا کہ اگر آپ کے لیے ہی منتحب کرنا تھا تو اس کو اس دل کی بستی پر کیوں اُتارا۔۔ میں زندگی میں پہلی بار اس رات کو رویا ایک لڑکی کے لئے۔۔۔ اور بھر دربار میں دعا کی کی ایک آخری دفعہ ہی صحیح دیدارے یار ہو جائے تب اچانک سے میری دعا قبول ہو گئی۔۔ تو سوچا اللہ سنتا ہے کبھی کبھی ہم بندے ہی اکثر طریقہ نہیں جانتے مانگنے کا۔۔ پر آج نکاح نامے پر دستخط کیے تو سچے دل سے اس رشتے کو قبول کیا۔ کیونکے میں ساری زندگی سیراب کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہتا۔
ابراہیم نے دیکھا ضویا بالکل خاموش بیٹھی سن رہی ہے تو رُکا۔۔ پھر سے بولا۔۔
”بہت برا لگ رہا ہوگا میرا یوں سچ کہنا۔ پر چاہتا ہوں سچ سے شروعات کروں اپنی نئی زندگی کی۔ سچ ازیت ناک تو ہوتا ہیں پر کچھ عرصے کے لئے۔”
“کچھ بولو گی نہیں۔؟ کوئی شکایت نہیں کروں گی۔؟”
“نہیں۔ مجھے آپ ایسے ہی قبول ہیں ساری زندگی کے لیے۔” ابراہیم نے مخملی ڈبے می بند سونے کا سیٹ اور بلینک چیک دیا جو بابا جان نے اسے تھمایا تھا۔ خود تو ہوش تک نہ تھی اپنی دلہن کے لئے کچھ لیا جائے۔
ابراہیم نے گھونگھٹ اُٹھایا ایک منٹ کے لئے حیران رہ گیا ہو جیسے اپنی آنکھوں پر شُبہ ہو کے دیکھائی نہیں دے رہا۔ آنکھوں کو مسلا پھر سے دیکھا تو اپنا وہم جانا کہ کیااب وہ اسکو اس روپ میں بھی نظر آئے گی۔ ضویا اس کی حرکت پر دیرے سے سر اپر اُٹھا کے دیکھا کے کہیں ناراض تو نہیں پر وہ تو اپنی آنکھوں کو بار بار مسل رہے تھے۔
“کیا ہوا آپ کو۔”
‘پتہ نہیں مجھے آپ میں بھی وہی لڑکی دیکھ رہی ہے ہلانکہ کے میں ایسا چاہتا تو نہیں پر مجھے پتہ نہیں کیا ہو رہا ہے۔” ضویا پہلے مسکرائی۔ پھر ہنسنا شروع ہوئی تو ہنستی چلی گئی۔۔۔ ہنسی روک ہی نہیں پا رہی تھی۔ ابراہیم کو اسکی دماغی حالت پر شُبہ ہُوا۔
“آپ ٹھیک تو ہیں نہ۔”
“جی۔۔ پر لگتا آپ کو یقین نہیں آیا میں وہی لڑکی ہو جس سے آپ کو عشق ہوا ہے۔ اور میں معذرت چاہتی ہو میرا اس میں کوئی قصور نہیں بابا جان نے روکا تھا آپ کو نہ بتاؤ۔ اور اُس دن جب آپ کنوئیں والی زمین پر آئے تھے تو ویر جی شہر سے آئے تھے انہوں نے بھی آپ کو اسی لئے نہیں پہچانا تھا اور میں صرف دیکھ سکتی تھی ویر جی اور سب لڑکیوں کے درمیاں آکے یہ تھوڑی کہہ سکتی تھی یہ وہی ہیں جن کو ربّ نے میرے لیے بھیجا ہے صرف میرے لیے۔”
“تم۔۔”ابراہیم کو سمجھ نہ آیا کے کسطرح ری ایکٹ کریں۔
“اس دن جب تمہاری دوست یا کزن اس نے کہا تھا۔ کہ تم راشی ہو۔۔۔ اسکا پتہ بھی ہے میں زندگی میں پہلی دفعہ اتنا رویا تھا صرف تمہارے لئے اللہ سے شکوے کیے اور وہ تو میری ہر دعا سن رہا تھا میں ہی انجان تھا اُس سے۔”
”ساری غلطی آپ کی ہے ۔۔آپ کو تھوڑی سی تو سزا ملنی چاہئے تھی۔۔
“اس دن آپ نے راشی کے منگیتر کو رشوت دی تھی۔ حویلی کی ساری خبر آپ تک پہنچانے کی۔ آپ نے سوچ بھی کیسے ہمارے ملازم ہم سے غداری کرئیں گے۔ مجھے بابا جان نے اپنے گھر کا فون نمبر دیا تھا جب بھی دل کرے ان سے بات کر لوں۔ ابا جی سے پُو چھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور ابا جی کو بھی کہہ دیا تھا کہ یہ ہماری امانت ہے کوئی روک ٹوک نہیں رکھنی جو کرنا چاہئے کرنے دینا تو میں نے بابا جان کو آپ کے بارے میں بتایا کے کیا کیا کرتے پھر رہے ہیں آپ اور چچا جان کو بھی سب پتا ہے۔”
“اور یہ سب تم لوگوں کی ملی بھکت ہے چھوڑوں گا نہیں تم سب کو میں۔”
“مہتاب پُتر ہن تے بہن کی بھی شادی ہوگئی ہے اب تو کروالوں شادی عمر نکلتی جا رہی ہے۔ مجھے بھی اس حویلی میں اپنے پوتے پوتیوں کو کھیلتے دیکھنا ہے۔ کل قُبرا ماسی آئی تھی اپنی نواسی کےرشتے کی بات کررہی تھیں۔ پر میں کہہ دیا میں اپنے مہتاب کی خوشی سے ہی اسکی کی شادی کروں گی۔”
“ماں جی مجھے ابھی شادی نہیں کرنی میں نے۔ اور ابھی کچھ فیکٹری کے کام کو بھی وقت ہے پھر ہی کچھ سوچوں گا اسے پہلے نہیں۔”
“پُتر تب تک کے لئے بات ہی پکی کر لیتے ہیں۔ ماشااللہ سے کڑی بہت سوہنی ہے۔ توں دیکھے گا تو دیکھتا رہ جائے گا۔”
“ماں جی۔ میری پسند سے کروں گے شادی تو صبر کریں میں آپ کو اپنی پسند بتا دوں گا۔ پر آپ انکار مت کرنا پھر۔”
چوہدائن اتنے میں ہی خوش ہو گئی تھی کوئی ہے مہتاب کی زندگی میں۔۔
”توصحیح فیکڑی کے کام کی وجہ سے بتا نہیں رہا۔“
اور مہتاب صحیح وقت کے انتظار میں تھا کے کوئی ثبوت اسکے ہاتھ لگ جائے۔ تاکے وہ بات کر سکے۔۔
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...