ولیمہ کل شام کو ہے زیان! ابھی تم چلے جاو بازار مہجبین کے ساتھ اسے جوتے لینے ہیں کل کے فنکشن کے لیے۔ شمائلہ نے زیان کو چائے کا کپ تھماتے ہوئے کہا!
اور خود کام نبٹانے کے لیے چلی گئی۔
زیان نے وہیں بیٹھے بیٹھے مہجبین کو آوازیں دینا شروع کر دی۔یہ اس کا ایک شرارت بھرا روپ تھا۔وہ خود کو نارمل کرنا چاہتا تھا۔ رات بھر وہ مہجبین کے پہلو میں جاگتا رہا تھا، آج ہی رات کیا۔وہ تو جب سے انجبین کو دیکھ کر آیا تھا تب سے ہی بےچین تھا۔اسے راتوں میں نیند نہیں آتی تھی۔ دماغ میں بس ایک ہی سوال گردش کرتا تھا! “کیا یہی ہوتی پیار کی حقیقت اسکا انجام؟ میں نے تو اظہار بھی نہیں کیا پھر کیوں اذیت میں مبتلا ہوں”۔ میرے دل میں اب بھی اس لڑکی کے لیے جزباتی کیوں ہو جاتا ہوں۔میری بیوی اگر اس سچائی کو جان گئی تو کیا ہوگا؟ میں بھی کس قدر منافق ہوں، دل میں کسی کو بسایا ہوا ہے اور زندگی میں جگہ کسی دوسری عورت کو دے رہا ہوں۔ وہ کپ میں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو یوں ہی بنا کسی وجہ کے دیکھے جا رہا تھا۔ اسے پائل کی آواز سنائی دی تو اس نے اپنے پیچھے دیکھا۔ جہاں مہجبین آہستہ آہستہ چلتی ہوئی قریب آرہی تھی۔ وہ زیان کو سرپرائز دینے کے لیے آئی تھی مگر اچانک سے اسے سر کا درد ہونے لگا تو اس کے قدم ڈگمگانے لگے۔۔جس کی وجہ سے پائل کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
زیان لمحہ بھر کی تاخیر کیے بنا اٹھا اور مہجبین کے قریب جا پہنچا۔اسے اپنی بانہوں میں بھر کر صوفہ تک لے آیا۔مہجبین جیسے نیم بےہوشی کے عالم میں تھی، وہ زیان سے ایسے لپٹی ہوئی تھی جیسے کوئی بچہ اپنے پیاروں کی آغوش میں چھپ جاتا ہے۔۔۔ جب تک مہجبین سنبھل نہ گئی تب تک زیان اس کے پاس سے ہلا تک نہیں۔
جبین: چلیں مارکیٹ! جبین پاس سے اٹھتے ہوئے بولی۔
زیان: نہیں تمھاری طبعیت نہیں ہے اچھی اس لیے ابھی نہیں۔ زیان نے ہاتھ پکڑ کر پاس بیٹھا نے کی کوشش کی۔مگر مہجبین کہاں رکنے والی تھی،جلدی جلدی ہر کام نبٹا کر جب تک اچھے سے تسلی نہ کر لے تب تک بیٹھنا تو درکنار سوچنا بھی جرم۔ ہاں اور نہ کی کشمکش میں گاڑی میں
دونوں منہ پھلائے ہوئے مارکیٹ کی جانب چل دیے۔۔جوتے بس اٹھانے جانے تھے مگر زیان کو اس بات سے لاعلم رکھا گیا تھا کیونکہ اگر اسے بس اٹھانے کے بارے میں کہا جاتا تو یوں مہجبین کو کبھی بھی ساتھ نہ لے کر آتا۔
_______________________
وہاب: رات کسے کہ رہی تھی کہ آجائیں؟؟ وہاب نے انجبین سے سوال کیا جو ناشتہ لگا رہی تھی میز پہ۔وہاب کے پوچھنے پہ وہ ٹھٹکی تھی کہ کہیں بات بتانے پہ وہاب کا موڈ دوبارہ سے خراب نہ ہو جائے۔
انجبین: امی آنا چاہ رہی تھیں! رکیں گی نہیں شام میں چلی جائیں گی۔انجبین نے جیسے اپنی صفائی پیش کی تھی۔اس کے چہرے کی رنگت زردی مائل ہو گئی تھی۔وہ وہاب سے اسکے بدلے رویے کی بھی شکایت نہیں کرتی تھی۔
وہاب: ارے رکیں گی کیوں نہیں امی جی۔
وہی مٹھاس وہی نرم لہجہ پھر سے۔۔۔ انجبین کے دل کی دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں تھی۔وہ کانپ اٹھی۔
انجبین: انکو چھٹی نہیں مل رہی۔۔ مختصر سا جواب دے کر انجبین کچن میں چلی گئی۔
“خود پسندی اور خود پرستی کا منطقی نتیجہ اپنے آپ سے اور دوسروں سے بیزاری ہے”۔وہاب میں یہ دونوں ہی خامیاں تھی۔ شادی کرنے میں پیار سے زیادہ زیان کی ضد وجہ بنی تھی۔ وہاب جب سے شادی سے لوٹ کر آیا تھا اس میں بہت بدلاؤ آگیا تھا۔ شام کی چائے،مل بیٹھ کر کھانا۔ یہ سب کچھ چھوٹ گیا تھا۔
انجبین کی امی اور کاشف جب گھر آئے تو وہاب دفتری کاموں کے لئے گھر سے باہر نکل گیا۔ ماں کے لاکھ کہنے کے باوجود کے تم ٹھیک نہیں لگ رہی ہو،تم کچھ چھپا رہی ہو کوئی پریشانی ہے۔۔۔۔۔ان سب سوالوں کے جوابات میں نہیں! کہ دینے کے ساتھ انجبین مسکراتی بھی جا رہی تھی۔ماتھے پہ ہونے والا زخم،اپنے بالوں کی لٹ کے پہچھے خھپائے ہوئے وہ بچوں کی طرح گھر کی بابا کی باقی سب کی باتیں پوچھے جا رہی تھی۔ وہ بہت دنوں کے بعد وہ آج کھل کر بول رہی تھی۔ اس نے شکوہ نہیں کیا کسی بات کا۔وہ اپنے زخم چھپا رہی تھی۔اس کے ماں باپ کی تربیت ایسی تو نہ تھی،وہ تو ضبط کرنا جانتی تھی۔۔۔
__________________
کہا جاتا ہے ” غم کتنا ہی سنگین ہو نیند سے پہلے تک” جانے یہ کون سی نیند ہوتی جو غم کو کم کر دیتی۔زیان کو نہ نیند آتی تھی نہ ہی سکون نصیب ہو رہا تھا۔کل کا دن باراز میں گزار کر وہ رات دیر سے گھر آیا تھا۔جوتے اٹھانے کے لیے گئے تھے مگر وہاں پہنچ کر یہ فہرست طویل ہی ہونے لگ گئی۔۔
جس کے بعد زیان اپنے سسرال بھی گیا! جہاں رات کا کھانا کھائے بنا مہجبین کی امی واپس جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔
“قربانی اور خودکشی میں بڑا فرق ہوتا ہے،خودکشی کرنے والے برباد ہو جاتے ہیں۔اور قربانی دینے والے شادابی کی منزل میں پہنچا دیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔اگر میں نے انجبین کے پیار کی قربانی دی ہے،
تو یہ ہے شادابی کی منزل؟ مہجبین خاور خان! خاور خان کی بیٹی۔ ایک مشہور انڈسٹریلسٹ کی بیٹی۔جو بہت سال قبل ایک چھوٹی سی بچی کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ کر صرف اس لیے چلے گئے تھے کہ ان کی بیوی اصول کے ساتھ رہنے والی عورت تھی۔ان کا اصول تھا وہ بھوکی رہ لیں گی مگر نہ ہی خود نہ اپنے بچوں کو کسی کا چھینا ہوا مال کھانے دیں گی۔ بڑے بچوں کو وہ صرف اس لیے ساتھ لے گئے تھے کہ ایک عورت کیا جانے اولاد کو کیسے پالا جاتا ہے۔مگر انہوں نے پال کر دیکھا تو دیا تھا۔
یہ سب راز کی باتیں مسز کلثوم خاور خان نے کل رات ہی تو زیان کو بتائی تھیں!۔۔۔وہ راز جس میں انہوں نے مہجبین کو بھی کبھی شامل نہیں کیا تھا۔۔ مہجبین کے لیے زیان کے دل میں پیار نہیں تھا۔مگر وہ اس کی قدر کرتا تھا،وہ اسے اپنے آس پاس اچھی لگتی تھی۔اس کا ہونا اس کی باتیں زیان کے ہیجان انگیز صورتحال کو پر سکون کر دیتی تھی۔ وہ سوٹ کے اور اوپر پہنی ہوئی ٹائی کو ٹھیک کر رہا تھا۔ ولیمہ میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔۔۔وہ تیار ہو چکا تھا۔۔۔
_________________
دھاگا ٹوٹ جائے تو اسے جوڑا جاسکتا ہے۔لیکن گرہ ضرور لگ جاتی ہے۔
ایک ایسی ہی گرہ انجبین کے دل پہ بھی لگ چکی تھی۔یہ گرہ وہاب کے برے روئیے کی وجہ سے لگی تھی۔کل تک ناز نخرے اٹھانے والے وہاب نے آج انجبین کو کمرے میں بند کر کے موبائل تک لے لیا تھا۔ وہ اپنی دوست کی شادی میں نہیں جا سکتی تھی۔اسے کسی سے بات کی اجازت نہیں تھی۔اس کے لیے کھانا کمرے میں رکھ دیا گیا تھا۔وہ ایک سونے کے پنجرے میں قید تھی۔
وہ اپنی زندگی سے بےزار ہو چکی تھی،اسے اگر کوئی بات زندہ رکھے ہوئے تھی تو وہ تھی اس کی سانسوں سے جڑے سانسوں کا وہ سلسلہ جو انجبین کے اندر سانس لیتا تھا۔
وہاب کی الماری میں کپڑے رکھتے ہوئے انجبین کو کچھ فائلز دیکھائی دیں۔وہ یوں ہی ان کو کھول کر پڑھنے لگی۔”شاید یہ میری ہی ہیں اور کس کی ہو سکتی ہے”۔ بیڈ کے پاس زمین پہ بیٹھتے ہوئے انجبین اس فائل کو پڑھنے لگی۔اسے جو کچھ اس میں سے سمجھ آرہا تھا وہ اس قدر خوفناک تھا کہ انجبین دل ہی دل میں اس کے جھوٹے ہونے کی دعا کرنے لگی۔
پسینے سے شرابور پیشانی کو دوپٹے کے پلؤ کی مدد سے صاف کرتے ہوئے انجبین نے تیزی سے فائل کو بند کر دیا اور جلدی سے اٹھ کر فائل کو واپس اس کی جگہ پہ رکھ دیا۔۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کھانا کھایا۔۔ اور وہاب کا انتظار کرنے لگی تا کہ جو کچھ فائل میں پڑھا اس کے بارے میں مزید ریسرچ کر سکے۔۔
_______________________
دعوت ولیمہ بہت اچھے سے مکمل ہوگئی تھی۔سب لوگ گھر جاچکے تھے۔یہ زیان اور مہجبین تھے جو آئیسکریم کھانے کے لیے مارکیٹ میں گھوم رہے تھے۔دلہن کے لباس میں مہجبین کو دیکھ کر لوگ چلتے چلتے رک جاتے تھے۔
مگر وہ لوگوں کی نظروں کی پرواہ کیے بغیر ایک ہاتھ سے لہنگا سنبھالے ہوئے تو دوسرے سے زیان زیان کا بازو تھامے ہوئے چلی جا رہی تھی۔ ماں زیورات ساتھ لے گئی تھیں۔
آئسکریم کا آرڈر دے کر زیان سیٹ پر بیٹھنے کے لیے آگے بڑھا لیکن مہجبین نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا کہ وہ یہاں نہیں بیٹھے گی۔ مجبوراً زیان جبین کو ساتھ لے کر باہر آگیا۔
یہاں بھی تو کوئی مناسب جگہ نہیں ہے کہاں بیٹھیں؟؟
زیان نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اردگرد کا جائزہ لیا۔
“جگہ موجود ہے آئیں میرے ساتھ” مہجبین نے زیان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے کر اپنی گاڑی کے پاس آگئی۔یہ رہی جگہ!
زیان: گاڑی میں؟ وہ چونک کر بولا۔
جبین: نہیں جی! گاڑی کے اوپر۔ جبین چہک کر بولی اور جلدی سے آئسکریم کو گاڑی پہ رکھ کے “ڈگی” پہ بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔
مگر لہنگا پہنے ہونے کی وجہ سے وہ یہ نہ کر پائی۔زیان پہلے تو اسے یہ سب کرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ھب اسے محسوس ہوا کے یہ کام مہجبین کے بس کا نہیں ہے تو وہ مدد کے لیے قریب آگیا۔۔ “میں کوئی مدد کروں؟”
جبین تو جیسے انتظار کر رہی تھی آفر کا۔وہ کھڑی ہو گئی گاڑی کے پاس اور اپنے بازوؤں کو ہوا میں معلق کر لیا۔
زیان: کیا؟ ہوا میں اڑان بھرنے لگی ہو؟ زیان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
مہجبین: مسٹر شوہر یہاں سے ہاتھ رکھ ک مجھے اونچا کریں اور بیٹھنے میں مدد بھی دیں! مہجبین نے بات کرتے کرتے ایک لمحے میں ہی زیان کے ہاتھ اپنی کمر پہ رکھ دیے کے یہاں سے پکڑ کے اٹھا لو۔
زیان اس حرکت کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا۔ وہ یہ سب دیکھ کر ایک لمحے کو شاک میں آگیا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا مہجبین نے اپنے مہندی لگے رنگے ہوئے ہاتھ زیان کے کندھوں پہ رکھے اور جمپ لگا کر گاڑی پہ بیٹھ گئی۔
وہ اس لمحے آس پاس کھڑی گاڑیوں میں آنے والے اور قریب سے گزرتے لوگوں کی موجودگی سے بے نیاز تھی۔
اس حرکت کے بعد زیان بھی مہجبین کے پہلو میں بیٹھ گیا۔جتنی دیر اسے بیٹھنے میں لگی اس کے دوران جبین لہنگا پھیلا کر بیٹھ چکی تھی۔
مہجبین: مجھے کچھ کہنا تھا آپ سے۔ ٹھنڈے موسم میں ٹھنڈی یخ آئسکریم کھاتے ہوئے نروس ہوتے زیان کو پکارا تھا۔
زیان نے جواب میں فقط ہوں ہی کہا!
مہجبین: آپکو معلوم ہے؟
زیان: کیا؟؟ زیان اپنے ہی خیالوں میں گم تھا۔
مہجبین “آئی لو یو زیان!” زیان کے یہ الفاظ بہت ہی غیر متوقع تھے۔وہ یہ بات سنتے ہی سناٹے میں آگیا۔۔۔ وہ کیا جواب دے! اسے اس موقع پہ کیا کہنا چاہئیے۔وہ نہیں جانتا تھا کہ دل میں کسی کو بسا کر زبانی طور پہ پیار کے اظہار کے لیے کون سے الفاظ موضوع ہوں گے۔
زیان کی خاموشی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مہجبین کے چہرے پہ بلا کا سکون تھا۔وہ تو جیسے یہی بات کہنے کو موقع تلاش کر رہی تھی۔
“میں آپ سے پیار کے بدلے میں پیار کی امید نہیں رکھوں گی،میں بس آپکی بیوی اور ایک دوست بن کر جینا چاہتی ہوں!”
مہجبین کا لہجا سنجیدہ تھا،اس کی ایک ایک بات پر اعتماد تھی۔ وہ زیان کو دیکھ رہی تھی لیکن یہ زیان تھا جس کی نظریں نہ جانے کیوں زمین سے اوپر اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔۔۔
زیان: مگر میں تمھیں پسند کرتا ہوں ایک بیوی کی حیثیت سے،ایک دوست کی طرح۔ وہ بول چکا تھا وہ کوئی وجہ تلاش کر رہا تھا کہ وہ وہاں سے واپسی کے لیے کہ سکے۔
مہجبین: بارش لگ گئی ہے! وہ بچوں کی طرح چہک اٹھی. میں اور انجبین نہاتے تھے بارش میں۔ انجو مس یو یارا!!!! جبین کی آنکھیں بھر آئیں تھی۔اس کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں اشکوں کی صورت اداسی چھلکنے کو تیار تھی۔۔ زیان نے عین اس لمحے مہجبین کو دیکھا جب وہ ہنستے ہوئے اپنی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوؤں کو صاف کر رہی تھی۔
زیان: چلیں! بارش لگ گئی ہے۔
مہجبین: کیوں؟
زیان: بارش۔۔۔
مہجبین: تھوڑی دیر رک جائیں نا نہانےدیں بارش میں۔بچوں کی طرح منہ بسورتی ہوئی بولی۔۔
زیان: نہیں درد ہوگا پھر سے سر میں تمھارے۔اور میں آج یہ رسک نہیں لے سکتا۔زیان نے اپنی بیوی کی کلائی کو نرمی سے تھام لیا اور گاڑی میں لے گیا۔ جبین کسی ناراض بچے کی طرح گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔۔۔
___________________
میری الماری کیوں کھولی تھی؟ کمرے میں داخل ہوتے ہی وہاب نے انجبین سے پوچھا جو کتاب کھولے اسے پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔اس کا دماغ ماؤف ہوا تھا۔وہاب کے پوچھنے پر اس نے مختصراً “کپڑے رکھنے تھے” کہ کر کمرے سے جانے کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا کے وہاب نے رکنے کا اشارہ کیا۔
انجبین بے دلی سے وہیں کھڑی ہو گئی۔
چلو ڈاکٹر جے پاس چلتے۔۔۔۔وہاب نے انجبین کو ایسے کھا جیسے اسے اسکی سچ مچ ایک دم سے پرواہ ہو گئی ہے۔۔
انجبین: آج ٹائم نہیں ہے۔دو دن بعد کا ہے۔انجبین ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
وہاب کا لہجہ ایک دم سے میٹھا ہو گیا۔اس نے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کا چہرہ اپنی جانب گھما لیا تھا اور اس کی آواز میں جادو تھا کہ انجبین پھر سے پگھلنے کو تھی۔
وہاب: سنو تو ایسے روٹھتے نہیں ہیں نا! میاں بیوی میں تو یہ نوک جھونک ہوتی رہتی ہے نا۔۔وہاب نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا تھا۔
انجبین: آپ بیٹھیں میں کھانا تیار کرتی ہوں۔انجبین نے اپنی سی کوشش کی تھی وہاب سے دور جانے کی۔لیکن وہاب نے انجبین کی کلائی کو اپنے ہاتھ میں جکڑا ہوا تھا۔وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے دور نہیں جا سکتی تھی۔
وہاب نے الماری کھولی ہی تھی کہ اسے الماری میں رکھی چیزوں کی ترتیب میں بدلاؤ محسوس ہوا۔ وہاب کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا۔اس کے ہاتھ کی گرفت کسی آہنی شکنجے کی مانند سخت ہو گئی تھی۔
“تم نے مجھ سے جھوٹ بولا! مجھے جھوٹ سے نفرت ہے”۔ یہ وہ آخری جملہ تھا جو وہاب کے منہ سے ادا ہوا۔اس کے بعد جو ہوا اس کے بارے میں سوش کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
وہاب نے جھوٹ کی سزا کے طور پہ انجبین کو کمرے سے تو کیا گھر کے اندرونی حصے سے بھی باہر نکال دیا۔
تیز بارش، سردی کے موسم کی اور پریگننٹ بیوی۔
____________________
زیان کو بیچینی کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی اس کے ساتھ پہلے ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔سینے پہ سر رکھ کر سوئی ہوئی مہجبین کو وہ ہلا بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ بہت کچی نیند والی ہے۔معمولی سی جنبشِ بھی اسے بیدار کر سکتی تھی۔ اسے جتنی آیات بھی یاد تھی سب پڑھ چکا تھا۔ہر طرح کا ورد وظیفہ جو اس وقت دماغ میں آرہا تھا زیان پڑھ پڑھ کے عاجز آچکا تھا۔
رات گھر آتے ہی مہجبین کو یاد آیا تھا کہ اسکی رپورٹس کو لے کر آنا ہے،شاید نظر وغیرہ کے ٹیسٹ لیے گئے یا خون کے۔وہ یہ بات نہیں جانتا تھا۔ رپورٹس کے بارے میں تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا جو اس بیچینی کا باعث بنتی۔
وہ سویا بھی تھا، لیکن پھر جاگ کیسے گیا؟ کسی کی سسکیوں کی آواز سنائی دی تھی زیان کو۔شاید خواب تھا!
مہجبین نے کروٹ لی اور اپنا مہندی سے رنگا ہاتھ سوتے میں زیان کے ہونٹوں پہ رکھ دیا۔زیان کی سوچوں کی تار ٹوٹ گئی تھی۔وہ جس خواب کو یاد کر رہا تھا، وہ محو ہو نے لگا تھا ذہن سے۔ بس اتنا ہی یاد تھا کہ کوئی لڑکی رو رہی تھی اور زیان کو پکار رہی تھی۔۔۔ زیان نے مہجبین کو اپنی بانہوں میں لے لیا اگرچہ وہ سو رہی تھی۔زیان نے اس کے مہندی لگے ہاتھ کو چومنا چاہا تھا مگر مہجبین کے لگائے ہوئے الارم کی بھدی سی ٹیون کی آواز سنتے ہی زیان چونک اٹھا۔ زیان نے جلدی سے الارم کو بند کر دیا مگر تب تک جبین کی آنکھیں کھل چکی تھی۔جاگتے ہی سب سے پہلے اس نے ایک نظر گھڑی کو دیکھا! وہ ابھی تک گھڑیوں پہ الارم لگاتی تھی۔
مہجبین: آپ کب سے جاگ رہے نماز کی تیاری کیوں نہیں کی؟؟ مہجبین نے آنکھ کھلتے ہی زیان سے سوالات کا آغاز کر دیا۔ادھر زیان ایسے آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا جیسےوہ ابھی تک سو رہا ہے۔۔
مہجبین نے گال پہ ہلکی سی تھپکی دی! اٹھ جائیں آج آپ کو آفس بھی جانا ہے۔۔
زیان: میں جاگ رہا یہ بات تم کو کیسے پتہ چلی؟ زیان نے رومنٹیک ہوتے ہوئے مہجبین کو پھر سے گلے لگانا چاہا تھا ایسے میٹھی بات کر کے۔۔۔مہجبین بھی خوب نیت جانتی تھی کہ یہ کیا جواب سننا چاہتے۔۔
مہجبین:وہ نا آپ کے دل کی دھڑکنوں نے بتایا تھا۔۔۔یہ سنا چاہتے ہیں آپ تو بھول جائیں!
یہ آلارم کوئی فرشتہ تو بند کرنے سے رہا۔ایک آپ ہی ہیں یہاں، اب اٹھیں اٹھکیلیاں بعد میں کیجیے گا۔ مہجبین نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔اس کی ہنسی اس کا یہ والہانہ انداز زیان کو اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔وہ دونوں نماز کے لیے اٹھ گئے تھے۔۔۔قریبی مسجد سے آذان کی آواز آنے لگی تھی تب تک۔۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر۔۔۔۔۔
____________________
وہ جیسے جیسے مسجد کی سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا ویسے ویسے اس کے اندر دکھوں اور غموں کا طوفان امڈ رہا تھا۔غموں کی لہریں الفاظ کا روپ دھارے ہوئے زبان کے ساحل پہ سر پٹخ رہی تھی۔
وہ آفس کےبجائے ڈاکٹر کے پاس گیا تھا سب سے پہلے۔
رپورٹس ملنے کے بعد وہ بہت دیر یوں ہی بھٹکتا رہا تھا۔
ڈاکٹر حقانی صاحب کے پاس ہیں رپورٹس۔ آپ ان سے مل لیں پلیز!
نرس نے کمرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زیان کو بتایا۔ زیان کا دماغ اسے کسی بری خبر کے ملنے کا اشارہ دے رہا تھا۔
وہ کمرے میں داخل ہوا ڈاکٹر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کسی مریض کی رپورٹس دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔
خاموشی اور انتظار کے یہ پل زیان کے لیے بے حد کٹھن تھے۔وہ اضطراب کی حالت میں اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو چٹخنے لگا۔زیان کی ٹانگ مسلسل ہل رہی تھی،وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
ڈاکٹر: آپ مہجبین خاور کے کیا لگتے ہیں؟ نظریں رپورٹ پہ جمائے ہوئے ڈاکٹر نے استفسار کیا۔۔۔ ڈاکٹر حقانی ساٹھ برس کے قریب عمر اور چہرے پے لمبی داڑھی!
زیان: جی میں مہجبین کا شوہر ہوں، دل کی دھڑکن اب اسے اپنے جسم کی مختلف جگہوں پر محسوس ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر:مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس آپ کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔۔۔۔
اس جملے کے بعد ڈاکٹر صاحب بولتے چلے گئے اور زیان کی زندگی میں جلنے والے اس دیئے کی لو مدھم ہو کر ٹمٹمانے لگی تھی۔
پھر سے پاس آتی ہوئی خوشیاں ہاتھوں سے ریت کی مانند کھسکنے لگی تھی۔۔۔۔
وہ رو رہا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
مسجد کے صحن میں دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ کیا مانگ رہے تھے،اسے کیا کیا چاہئیے تھا وہ نہیں جانتا تھا۔ سات روز پہلے زندگی میں آنے والی لڑکی کے اس سے جدا ہو جانے کی وجہ اس کے ہاتھ میں تھی۔۔۔۔۔
___________________
وہاب کو ترس نہیں آیا تھا،لیکن یہ منظر دیکھ کر اسکے اوسان خطا ہو گئے تھے۔رات بھر سردی میں کھڑی رہںنے اور بھوک پیاس کی وجہ سے انجبین کی حالت مزید بگڑ گئی تھی۔وہ بے ہوش پڑی تھی۔ اس کا جسم سردی کی شددت سے اکڑ گیا تھا۔وہاب اسے اب بھی ڈاکٹر کے پاس لے کر نہ گیا وہ ڈاکٹر کو گھر لے آیا تھا۔ایک سائکو پیتھ کے لیے دوسروں کو اذیت دینے میں ہی خوشی ہوتی ہے۔انجبین اس بات سے واقف ہو گئی تھی کہ اس کا شوہر ایک ذہنی مریض ہے۔۔وہاب نے اب کی بار اپنے بھائی اور بھابھی کو بھی خبر نہیں دی تھی انجبین کے بے ہوش ہونے کی۔وہ تو اکیلا ہی انجبین کے دوبارہ ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
انجبین جیسے ہی ہوش میں آئی وہ ڈرتے ہوئے بیڈ پہ ایک طرف دوسری جانب کو لپکی۔
انجبین: پلیز! نہیں مجھے نہیں ماریں مجھے ۔ وہ ایسے گھبراہٹ سے وہاب کو دیکھ رہی تھی جیسے اسے جان سے مار ڈالے گا۔۔
وہاب نے آنکھوں میں آنسوں لاتے ہوئے اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی غلطی کی اپنی کوتاہی کی معافی مانگی وہ اس قدر شددت سے یہ ناٹک کر رہا تھا کہ انجبین کا دل پھر سے موم ہونے لگا تھا۔۔۔لیکن اسے رات بھولی نہیں تھی۔۔۔وہ رات بھر کیسے ٹھنڈ میں بنا روئے چپ چاپ کھڑی رہی تھی۔۔۔اس نے اللّٰہ تعالٰی کے ساتھ بہت سی باتیں کی تھی۔اسے مہجبین کی کہی ہوئی باتیں یاد آنے لگی تھی جو ہمیشہ انجبین کو کہتی تھی کہ اپنا اخلاق اچھا رکھو ۔۔۔
اس نے وہاب کو نہیں دیکھا وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتی رہی۔
_____________________
“عشق صادق ہے تو عقیدہ رکھ
یار کے غم سزا نہیں ہوتے… ”
یہ سزا ہی تو تھی جو زیان کو مل رہی تھی۔وہ نہ جانے کتنے دن کے بعد رویا تھا۔اس نے آج دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تھے۔اس کے الفاظ نے ساتھ نہیں نبھایا تھا،یہ تو اسکے اشکوں نے ہی دل کی بات بیان کی تھی۔اس نے خدا سے اپنے لیے آج بھی نہیں مانگا تھا۔وہ تو ہر حال راضی رہتا تھا،اسے اپنی ہستی کے لیے مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آتا تھا۔وہ گھر آچکا تھا۔ جہاں مہجبین موجود نہیں تھی۔وہ اپنی امی کے پاس رہنے کو گئی تھی۔۔
شمائلہ:کیا ہوا ہیرو؟؟ بہن نے بھائی کو ایسے اداس بیٹھا دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
زیان نے جواب دینے کے بجائے رپورٹس بہن کی طرف بڑھا دی۔اور خود چپ چاپ جا کر ماں کے قدموں میں زمین پر بیٹھ گیا۔ماں نے بیٹے کے اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بھانپ لیا تھا جہ معاملہ ایسا ویسا نہیں ہے۔ورنہ زیان کا چہرہ پریشانی کو ظاہر کرنے والا نہیں۔ماں نے بیٹے کا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اس کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا،
ماں: کیا ہوا زیان سب ٹھیک تو ہے؟ زیان کے جواب سے پہلے شمائلہ اپنی اشکوں سے لبریز آنکھیں لیے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔
ماں نے جونہی بات مکمل کی زیان بلک بلک کر رونے لگا۔وہ سسکیاں بھر رہا تھا۔
زیان: امی میری کیا غلطی ہے؟ میرے سے اللّٰہ تعالیٰ کیوں ناراض ہیں۔میں بہت گنہگار ہوں امی؟ زیان بچوں کی طرح رو رہا تھا وہ اپنی ماں کی گود میں چھپ جانا چاہتا تھا۔زمانے بھر کے دکھ تکلیف سہ کر بھی عزم و حوصلہ کی چٹان بنے رہنے والے زیان کا حوصلہ جواب دے گیا تھا۔
ماں اپنے بیٹے کو یوں روتے دیکھ کر خود بھی رونے لگیں۔
_______________
“بے بس انسان کا سجدہ ہی بے بسی کا علاج ہوا کرتا ہے۔اس علاج کی تلاش میں ایک جانب زیان اپنی بیوی کی صحت کے لیے سجدہ ریز تھا تو دوسری جانب انجبین کی پیشانی اپنے کئے گے گناہوں کی معافی کے لیے سجدہ میں تھی۔زیان نے مہجبین کو بھی اس بیماری کے متعلق نہیں بتایا تھا۔اسے صرف یہ ہی بتایا گیا تھا کہ اسے سر کے درد اور چکر آنے کی وجہ سے دوائی کا استعمال کروایا جا رہا ہے۔ اسنے بھی بنا کچھ کہے اس بات پر یقین کر لیا تھا۔کیونکہ کہنے والا اسکا زیان تھا۔۔
وقت بہتا دریا جو اپنے ساتھ کبھی قیمتی موتیوں جیسی خوشیاں لاتا ہے، اور کبھی طغیانی کی صورت غموں کو ساتھ بہا لے آتی ہے۔۔۔ وقت نے اب کون سا رخ دیکھانا تھا یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...