اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔ ہر وہ چیز۔۔۔ ہر وہ بات۔۔۔ ہر وہ راز جو کسی کو نہیں معلوم ہوتا وہ رب جانتا ہے۔۔۔
چھپا سکتے ہو کیا؟؟؟
نہیں نہ تم میں کوئی بھی۔۔۔ میں بھی اپنے رب سے کچھ چھپا ہی نہیں سکتا ۔۔۔ وہ یہاں رہتا ہے۔۔دائیں ہاتھ سے دل کی جانب اشارہ کیا گیا۔۔۔ ہاں وہ رب یہاں بستا ہے پھر کیسے تم سب۔۔۔۔ ہم سب بےپروا ہیں کہ وہ نہیں دیکھتا۔۔۔ نہیں جانتا۔۔۔
کیسے؟؟؟
ہے کوئی جواب کسی کے پاس؟؟
۔…
مجمے میں بیٹھے بہت سے لوگوں کی گردنیں جھک گئی تھی۔۔۔وہ ہر بات جانتا، سمجھتا ہے۔۔۔ ہر راز وہ رب جانتا ہے۔۔۔۔ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔۔۔وہ ہمارا پردہ رکھتا ہیں۔ ہر بار ہماری خطاوں پر وہی تو سونا رب معاف کرتا ہے۔۔۔آواز میں اتنا سحر تھا کے ہر کوئی آواز،الفاظ کے سحر میں کھو گیا تھا۔ہر طرف بس آواز کا ایک الگ ہی سرور تھا۔ مجمے میں بیٹھا ہر شخص اپنے آپ سے سکون محسوس کر رہا تھا۔۔۔
وہاں ہی بیٹھا ایک شخص ہر لمحہ سولی پر کاٹ رہا تھا۔۔ وہ آج پھر بہت تکلیف میں تھا اذیت میں تھا۔۔۔ اپنے آپ کو بہت بےبس محسوس کر رہا تھا۔۔۔ پہلی صف میں پہلے نمبر پر۔۔۔ سفید شلوار قمیض، سفید ہی سر پر ٹوپی پہنے ۔۔۔۔ وہ لڑکا اذیت کے تکلیف کے جس مراحل سے گزر رہا تھا۔۔۔ ممبر کی کرسی پر بیٹھےقاری عبدالفیف کی نظروں ںسے بچ نہیں پایا تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں چہرہ سب کچھ بیان کر رہا تھاکہ وہ کس کرب سے گزر رہا ہے۔ ایک نظر بیٹھے لڑکے کو دیکھ کے قاری صاحب نے پہلوں بدلہ۔۔۔ آواز میں پہلے سے زیادہ بھاری پن آیا۔۔۔
کیا ہم اپنا فرض پورا کر رہے ہیں؟؟؟
کبھی سوچا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کس مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے؟ کیوں ہمیں اس دنیا میں لایا گیا ہے آخر کیا وجہ ہے؟؟؟
سوال پر سوال آ رہا تھا اور بہت سے سر ندامت شرم سے جھک گے تھے۔۔
نہیں!!!!
ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ہمیں کس لیے پیدا کیا گیا ہیں، بلکے ہم نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔۔ ہم نےکبھی اپنے رب ک لیے وقت ہی نہیں نکلا۔۔ کبھی اس کی عبادت کو جانیے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ کبھی اس رب کی مقدس کتاب کے بارے میں سوچا نہیں۔۔۔
قرآن کے الفاظ اس کے ترجمے اس کی تفسیر پر غور کیا ہی نہیں۔۔۔ کے یہ قرآن ہم سے کیا کہنا چاہتا ہے۔۔۔ ہمیں کیا تعلیمات کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔ ہم دنیا کے ہو کے رہ گے ہیں۔ یہ دنیا یہ کائنات اتنی خوبصورت بنائی گی ہے کہ سب اس میں کھو چکے ہیں۔ یہ کائنات اپنی طرف سب کو کھینچ رہی ہیں تو آخر یہ اتنی خوبصورتی کس کے لیے اللہ نے بنائی۔۔۔ وہ بھی کیا خوب کہا گیا ہے کہ
“عشق پر عشق نازل ہوتا ہے
تبھی تو محمّد ؓ پر قرآن نازل ہوا”
۔۔۔،
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؓ کے لیے پہلے یہ کائنات بنائی پھر آخری نبی حضرت محمّدؓ کو اس دنیا میں بھیجا۔۔
بلند بھاری آواز، خوبصورت لہجہ، بیان میں چار چاند لگا رہا تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ کوئی چاہ کر بھی یہاں سے اٹھ نہیں پا رہا تھا۔ ہر کوئی پوری توجہ سے بیان سن رہا تھا۔ حال، صحن سب لوگوں سے بھرے پڑے تھے ہر طرف خاموشی تھی اگر کوئی آواز تھی تو وہ صرف قاری عبدالفیف کی تھی جو اپنے الفاظ اور اپنے اس بیان سے سننے والوں کے دلوں میں ایک سحر پیدا کر رہیں تھے۔ قاری صاحب کا بیان آخری مراحل میں تھا۔
اللہ تعالیٰ نے یہ جو زندگی دی ہے اس زندگی کو اس رب کی ہی راہ میں واقف کر دو۔ اپنے دلوں کو صاف کر لو۔۔ معاف کرنا سکھ لو۔۔۔ “احسان کر رہیں ہو تو کر کے ایسے چپ ہو جاؤ کے تم لوگوں کوبھی یاد نا رہیں”۔۔
اپنے اعمال بہتر بناؤ۔۔ اپنے سے جڑے لوگوں کی مدد کرو۔۔اپنے اندر مذبہی تعلم حاصل کرنے کا شوق پیدا کرو۔۔
عشق کرنا آسان نہیں رب سے
اپنا آپ کھونا پڑتا ہے
لوح لگ جائے جب رب سے
ذات پہچان لے بندہ اپنی
اک نام لے تو اپنے رب کا
ہر مشکل آسان ہو جائے
رب نام ہے وہ
جو اندھیرے سے روشنی میں لے آئے
اک بار اپنے رب کا بن کر تو دیکھ
ہر شے تیرے قدموں میں رکھ دے
رب سے اک بار مل کر تو دیکھ
ہر شے سے بے آس ہو جائے تو
رب کے سامنے جھک کے تو دیکھ
تجھے عاجز نا بنا دے تو کہنا
اپنے رب ک خوف سے ڈر کے تو دیکھ
تجھے ہر خوف سے آزاد نا کر دے تو کہنا
اک ہی سکون ہے جو ملے گا تیرے سنیے کو
وہی نام ہے سب اک رب کا
از: میری حسین۔۔۔
بیان اپنے احتتام کو تھا۔۔۔ سلامتی کی دعا کی گی۔۔۔
عصر کی نماز کا وقت ہوا چلا تھا۔۔ آج عصر کی امامت میرا بیٹا کروائے گا۔۔ قاری صاحب نے لڑکے کی جانب اشارہ کیا۔۔ بہت سی نظریں اس کے اوپر اٹھی تھی۔۔۔ وہ چلتا ہوا قاری صاحب کے پاس آیا۔۔۔
کیا آپ کو لگتا ہے کے میں اس قابل ہو۔۔۔ امامت یہ بہت بڑی زمیداری ہے۔۔۔ میرے سے نہیں ہو گا۔۔۔ آپ۔۔۔۔ آپ دیکھ رہے ہے۔۔ م۔۔۔میں پورا کانپ رہا ہو۔۔
مجھے پتا ہے کے تم کر سکتے ہو۔ یہ سمجھ لو آج اللہ تعالیٰ اپنا کلام اپنی اذان تمہاری آواز میں سننا چاہتا ہے۔۔۔
لڑکے کے چہرے پر اچانک خوشی نمایا ہوئی تھی جو کہ قاری صاحب نے کافی وقت کے بعد دیکھی تھی۔۔
کیا اللہ تعالیٰ کو میری آواز پسند ہے۔۔ و۔۔۔ وہ۔۔۔ مجھے موقع دے رہے ہے۔۔۔ خوشی صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔ نیلی آنکھیں خوشی سے نم ہو رہی تھی۔۔۔آپ سچ کہ رہے ہے نہ قاری۔۔۔ جی۔۔۔
پھر سے سوال کیا گیا۔۔۔
ہاں میرے بچے اللہ تعالیٰ خوش ہو گے آپ اذان دو اور پھر امامت بھی کرواں۔۔۔ نیلی آنکھوں والا لڑکا چند قدم آگے آیا۔۔ بہت سی نظریں اس خوبصورت جوان کو دیکھ کے لمحے کو ٹھہری تھی۔۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ لڑکا کسی ریاست کا بادشاہ ہے تو غلط نہ تھا۔۔۔ اذان ہوئی جماعت کروائی گی۔۔۔ اور بہت سے لوگ اس بادشاہ سے مل کر بھی گے۔۔۔
قاری صاحب نے سب کے جانےکے بعد اس کے پاس بیٹھ گے۔۔۔ مسجد کے صحن میں ان دونوں کے علاوہ کوئی اور نا تھا۔۔۔ آسمان صاف شفاف تھا۔۔۔ چاروں طرف بلند بلا پہاڑ۔۔۔ خوبصورتی ہی خوبصورتی ہر جانب۔۔۔ کوئی پہلی بار یہ منظر دیکھے تو آنکھیں جھپنکنا بھول جائے۔۔۔ اسلام آباد اور مری کے درمیان یہ خوبصورت چھوٹی سی وادی اپنی مثال آپ تھی۔۔
کیا بات ہے بچے آج پھر اتنے اداس ہو۔۔۔ کیا ہوا ہے۔۔۔ مجھے نہیں بتاؤ گے؟؟
قاری صاحب نے بہت نرم لہجے سے مخاطب کیا تھا۔۔۔
مجھے آج اس کی بہت بہت یاد آ رہی ہے۔۔۔ یاد تو ہر پل آتی ہے۔۔ پر آج مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میری بس ہو جائے گی۔۔۔ مجھے۔۔۔ اس۔۔۔ کے پاس جانا ہے۔۔۔۔ اس سے ملنا ہے۔۔۔۔ اک۔۔۔۔ک۔۔ ایک بار اپنی ان آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہو۔۔۔ میں بہت بے بس ہو۔۔۔ آواز میں بھاری پن تھا۔۔۔ نیلی آنکھیں مسلسل بہہ رہی تھی۔۔۔ چہرے پر رونے کی وجہ سے سرخی بھڑ رہی تھی۔۔۔ ہونٹ بات کرتے ہوئے کانپ رہے تھے۔۔۔ مجھے بہت بے چینی ہوتی ہے۔یہ بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے کافی دنوں سے جیسے وہ بہت دور جا رہی ہو اور ساتھ ساتھ مجھے بھلا رہی ہو مجھے آواز دے رہی ہو۔۔۔ آ۔۔ آپ۔۔۔ کو پتا ہے آنی جان کی طبیعت کچھ دنوں سے ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا نہ کے وہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ آپ۔۔ آپ۔ ۔۔۔ بولے میں کیا کرو کہا سے لے کے آؤ اُس کو۔۔۔۔ نیلی آنکھوں پر مسلسل ستم ہو رہا تھا۔۔۔
محمش میرے بچےکیوں نا امیدوں والی باتیں کر رہے ہو۔۔۔؟ کیوں مایوسی پیدا کر رہے ہو۔۔۔ نیلی آنکھوں والا محمش پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا۔۔۔ ہاں ایک جوان مرد مسجد میں اپنے رب سے اپنی محبّت کے لیے رو رہا تھا۔۔۔ اپنے گھر والوں کے لیے۔۔۔ اپنے پیاروں کے لیے۔۔۔ ہاں وہ رو رہا تھا اپنی زندگی کے لیے۔۔۔
قاری صاحب نے آگے بڑھ کے اسے گلے لگایا تھا۔۔۔
صبر۔۔۔ صبر۔۔۔ صبر۔۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ قاری صاحب کی آنکھیں بھی نم تھی۔۔۔ اللہ کسی کو اُس کے صبر سے زیادہ نہیں آزماتا۔۔ بہت جلد وہ تمہیں عطا کریں گا۔۔۔ بس میرے بچے اب رونا نہیں۔۔ گلے لگا کے پیٹھ تھپتھی گئی۔۔۔
———————————-
کمرے میں صبح کی روشنی پھلی ہوئی تھی۔۔۔ بیڈ کے چاروں جانب سفید جالی دار خوبصورت پردے لٹک رہیں تھے۔۔۔ بیڈ کے سامنے وال پر خوبصورت بلی آنکھوں والی کی مسکراتی تصویر موجود تھی۔۔۔ جبکے بائیں جانب ڈریسنگ ٹیبل پر اعلی اور مہینگی ترین پرفوم مکیپ کی کچھ چیزیں پڑی ہوئی تھی۔۔۔
۔۔۔،
اس کمرے کی شہزادی صبح کے 10:00 بجے بھی پرسکون نیند میں ڈوبی ہوئی تھی۔۔۔ لائٹ براؤن لمبے بال نرم وملائم تکیے پر بکھرےہوئے تھے۔۔۔ سلک مہروں بلکیکٹ منہ تک لیا ہوا تھا جیسے یہ شہزادی ابھی بھی اٹھنے کو تیار نا ہو۔۔
افنان نے ایک نظر پورے کمرے میں ڈالی اور پھر آگے بڑھ کے روم ونڈو کے پردے سائیڈ پر کیے۔۔۔ روشنی شیشوں کو چیرتی پورے کمرے کو روشن کر گی۔۔۔
یہ لڑکی اور ایک اس کی نیند۔۔۔ کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی۔۔ افنان بیڈ پر سوئی اس معصوم سی گڑیا کو دیکھ کے مسکرا رہا تھا۔۔آگے بڑھ کے بیڈ کی سائیڈ پر بیٹھ کے اس معصوم گڑیا کے بالوں میں اپنی انگلیاں چلا رہا تھا۔۔۔
معصوم گڑیا کی نیند میں خلل پیدا ہوا اور ذرا سی بلی آنکھوں کی گھنی پلکیں ہلی۔
عین میری جان اٹھ جاؤ۔۔۔ دیکھو سب نیچے ویٹ کر رہیں ہے آپ کا۔۔کان کے پاس افنان نے دھمے لہجے میں کہا۔۔۔اٹھ جاؤ نا عین بعد میں سو لینا پھر کوئی بھی نہیں اٹھائےگا۔۔۔
عین۔۔۔ گڑیا۔۔۔ پلزز ۔۔۔پلزز۔۔۔
بلی آنکھیں آھیستہ آھیستہ کھل گئی تھی۔۔اسلام و علیکم!!!! اینڈ گوڈ مارننگ۔۔۔
ایک ہاگ زور سے افنان کے ساتھ کیا گیا۔۔وعلیکم سلام!!!! میری چھوٹی سی جان۔۔۔شکر ہے آپ اٹھ گی۔۔ کب سے اٹھا رہا ہو۔۔۔
یہ صبح کیوں اتنی جلدی ہو جاتی ہے۔۔۔ ابھی تو نماز پڑھ کے سوئی تھی۔۔۔عجیب سے منہ کے زاویعے بنا کے بولا گیا۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ عین ایسی بات نہیں ہے کے ابھی سوئی تھی اور صبح جلدی ہو جاتی ہے۔۔ بچے۔۔۔۔۔آپ کی نیند نہیں پوری ہو سکتی بس۔۔ آپ کو زیادہ نیند آتی ہے بس اس لئے آپ کو لگتا ہے کے صبح جلدی آ گی۔۔۔
اب ایسی بات بھی نہیں ہے افی بھائی کے ہم بہت زیادہ سوتے ہے۔۔۔ وہ تو بس خود ہی آ جاتی ہے اتنی نیند۔۔۔ آنکھیں چھوٹی کر کے معصومیت سے بولا گیا۔۔۔
اچھا بس بس۔۔۔ نیچے سب ویٹ کر رہے ہیں۔۔ جلدی سے فرش ہو کےآؤ۔۔
اوکے 5 منٹ بس۔۔۔
ہاں جاؤ میں ویٹ کر رہا ہو جلدی سے آؤ ساتھ چلے گے۔۔۔۔۔
واشروم کا دروازہ دس منٹ کے بعد کھولا تھا۔۔۔ عین ابھی تک چینج نہیں کیا آپ نے۔۔۔
نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے نہ پلزز۔۔۔ مجھے آ کے پھر سے سونا ہے۔۔ میں نے منہ دھو لیا ہے بس۔۔۔ اس سے زیادہ نہیں۔۔۔
اچھا چلو بہت لیٹ ہو گے ہے۔۔۔ ایسے ویٹ نہیں کرواتے اتنا کسی کو بھی۔۔۔
ھممم۔۔۔۔ نیکسٹ ٹائم نہیں ہو گا ایسا پکا۔۔۔
اچھا اب آرام سے زیادہ تیز نہیں چلو۔۔۔ عین کو تیز تیز قدم اٹھاتے چلتا دیکھ کے افنان نے ٹوکا تھا۔۔۔
اپس۔۔۔۔ سوری بھول گی۔۔۔
سڑھیاں اترتے وقت عین کو پورے گھر میں خاموشی ہی سنائی دی۔۔۔ کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔۔
بھائی یہاں تو کوئی بھی نہیں لگ رہا۔۔۔ ناراض ہو گے ہے؟؟؟ ہم آج زیادہ لیٹ ہو گے اس لئے ؟؟؟۔۔۔
نہیں نیچے ہی ہیں۔۔۔ ماما اور میره بھی۔۔
سامنے بڑے سے حال سے گزر کر ڈائینگ ٹیبل پر آیا گیا تھا۔۔۔
ایک لمحے کو سب روک سا گیا تھا۔۔۔ سب کچھ تھم گیا۔۔ آس پاس کون کیا ہے کچھ خبر نہ تھی۔۔۔
ڈیڈی۔۔۔ اوہ مائے گوڈ۔۔۔ آپ کب آئے۔۔ عین بھاگ کے اپنے ڈیڈی کے گلے لگی تھی۔۔
نور میری جان۔۔۔۔ میرا شہزادہ بچہ۔۔۔ کیسا ہے۔؟؟؟
نائل مصطفیٰ اپنی بیٹی کو گلے لگا کے ماتھا چوما تھا۔۔۔
آپ اتنے دنوں کے بعد آئے ہے۔۔۔
I really really miss you daddy..
Miss you too my jaan..۔
نہیں آپ نے بلکل بھی نہیں کیا۔۔۔اس لئے لیٹ آئے ہے۔۔۔ آپ کو پتا ہے نہ ہم نہیں رہ سکتے آپ کے بن۔۔۔ نور کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوؤں جھلک رہیں تھے۔۔۔پھر بھی آپ بہت لیٹ آئے ہے۔۔۔ ٹوو ویک ڈیڈی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔۔۔۔
اچھا بابا۔۔۔۔ سوری۔۔۔ ہم نیکسٹ ٹائم اتنے دن کے لئے نہیں جائے گے۔۔۔ پکا پرومیس۔۔۔۔بٹ آنسوؤں نہ آئے آپ کی آنکھوں میں۔۔۔۔
اوکے اس بار لسٹ ٹائم تھا۔۔۔ نور نے مسکرا کے معاف کیا تھا۔۔۔
اب بیٹھ بھی جاؤ سکون سے ناشتہ بھی کر لو۔۔ پیار بعد میں کر لینا۔۔۔ اور لاڈ بھی بعد میں۔۔۔ مھین نے باپ بیٹی کو ڈائینگ ٹیبل کی جانب متوجہ کیا تھا۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔۔ بلکل۔۔۔ آج سب مل کے ناشتہ کریں گے۔۔۔
نہیں مجھے آپ کے ہاتھ سے کھانا ہے۔۔۔۔ آپ اتنے دن بعد آئے ہے۔۔ اب آپ بس میرے ساتھ رہے گے۔۔۔ نور لاڈ سے نائل کے ساتھ لگی کہہ رہی تھی۔۔۔
میری جان اب بس ڈیڈی آپ کے پاس ہی ہے۔ کہی نہیں جائے گے سارا ٹائم میری دونوں بیٹیوں کا ہو گا۔۔
شکر ہے میرا خیال بھی آیا آپ سب کو۔۔۔ میره نے شکوہ کیا تھا۔۔
آہہ۔۔۔ہہ۔۔۔۔ آپ بہت اچھی ہے نہ آپ کو ہم بھلا بھول سکتے ہے۔۔۔ نور نے آگے بڑھ کے اپنی بہن کو زور سے گلے لگایا تھا۔۔۔
ڈیڈی آپ درمیان میں بیٹھے میں اور میره آپی آپ کے سائیڈ پر بیٹھے گے۔۔۔ ٹھیک ہے نہ۔۔۔ نور نے بہت سمجداری سے بات کا حال نکالا۔۔۔۔
ہاں۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔
میں سوچ رہی تھی رات کو بھائی صاحب کو ڈنر پر بولا لے۔۔۔ سب مل بیٹھ لے گے۔۔۔ مھین بیگم نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔ بہت اچھا رہے گا۔۔۔
بس مجھے اور نہیں کھانا۔۔ نور نے سختی سے اپنے ڈیڈی کو روکا۔۔
سب کی نظریں نور پر جم گئی تھی۔۔۔ ہوش سب سے پہلے افنان کو آیا تھا۔۔۔ عین کیا ہوا ہے۔۔۔ ابھی تھوڑا سا تو کھایا ہے ۔۔۔
نہیں بھائی بس۔۔ عین کہہ کے چپ ہو گی تھی۔۔۔آنکھوں میں آئی نمی کو بہت مشکل سے بہنے سے روکا تھا۔۔۔
نور۔۔۔ کیا ہوا ہے؟؟؟ آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نہ۔۔۔مھین اپنی چیئر سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ بچے بولو کیا ہوا ہے؟؟؟
نہیں ہمیں بس رات ڈنر میں سب کے سامنے نہیں آنا۔۔۔ آپ ہمیں نہیں بولے گے آنے کو۔۔۔ پلززز۔۔۔پلززز۔۔ نور کے کب کے نکلے آنسوؤں بہہ نکلے تھے۔۔۔
اوکے کوئی بھی آپ کو نہیں بولے گا کہ آپ آوں۔۔۔ پر عین آپ اپنے بھائی کو نہیں وہ بات بتائے گی۔۔۔ جس سے آپ ہرٹ ہو رہی ہو۔۔۔
سب اس معصوم گڑیا کے لئے پریشان تھے۔ اور ہوتے بھی کیوں نہ، اس گھر کی جان اس بلی آنکھوں والی گڑیا نورالعین میں تھی۔۔۔ ذرا سی تکلیف پر سب کی جان ہوا ہونے کو ہوتی تھی۔۔۔
سب نورالعین کو پیار سے نور بولتے تھے۔۔۔ پر افنان کی تو مانو اس میں جان تھی۔۔۔ یا پھر یہ کہنا مناسب ہے کے افنان کی جان زندگی عین تھی۔۔۔ عین کہنے کا حق بھی صرف افنان کے پاس تھا۔۔۔
دلوں پر راج کرنے والی یہ گڑیا صرف پیار کرنے کے لئے پیدا کی گئی تھی۔۔۔اپنی باتوں اپنی معصومیت سے دل کو مول لینے والی یہ لڑکی اپنی مثال آپ تھی۔۔۔وائٹ شرٹ پنک پلازوں۔۔ لمبے بالوں کو میسی جوڑا میں بندھا گیا تھا۔۔۔ چند لٹے آگے چہرے پر پڑ رہی تھی۔۔۔۔ سرخ چہرہ رونے کی وجہ سے مزید سرخ ہوا۔۔۔ بلی آنکھیں اپنی ناقدری پر رو رہی تھی۔۔۔ ہونٹ ابھی بھی کپکپا رہیں تھے۔۔۔
افنان نے آنکھوں سے اشارہ کرکے سب کو چپ رهنے کا کہا تھا۔۔۔کچھ قدم آگے چل کے عین کے پاس آیا تھا۔۔۔ کندھوں سے تھام کے عین کا رُخ اپنی جانب کیا تھا۔۔ اور پھر اپنے ساتھ لگایا تھا۔۔۔
ساتھ لگانے کی دیر تھی۔۔ عین پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔۔۔۔وہ۔۔۔ثا۔۔۔ ثانیہ آپی۔۔۔ نہ۔۔۔ نہیں اچھی۔۔۔۔ وؤ۔۔۔وہ۔۔۔ بولتی ہے۔۔۔ کہ میں سب کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہو۔۔۔ مجھے نہیں پتا۔۔۔ ان سب کا۔۔ کیا۔۔ مطلب ہیں۔۔۔ پر وہ اچھے وورڈس یوز نہیں کر رہی تھی۔۔۔ اور بھی بہت ایسی باتیں کی ہے۔۔۔ رونے کی وجہ سے آواز میں بھاری پن تھا۔۔۔ روک روک کے الفاظ ادا ہو رہے تھے۔۔۔ انہوں نے کہا کے آپ سب میرے سے پیار نہیں کرتے۔۔۔ مجبور ہیں سب۔۔۔
ایسا نہیں نہ ہے بھائی۔۔۔ وہ جھوٹ بولتی ہے۔۔۔ آپ سب تو میرے ساتھ بہت۔۔۔ بہت۔۔پیار کرتے ہیں نہ۔۔۔۔ وہ اسی باتوں سے ہرٹ کرتی ہے ہمیں۔۔۔۔ سسکیوں سے بتایا گیا تھا۔۔۔ الفاظ ختم ہو گے تھے۔۔۔
گھر کے سب افراد پر سکتہ تاری ہو چکا تھا۔۔۔ میره کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ثانیہ اس حد تک چلی جائے گی۔۔۔ایسی باتیں جو حقیقت میں بہت بری ثابت ہو سکتی تھی۔۔۔
نور کے لئے یہ سب سننا اور برداشت کرنا آسان نہیں تھا۔۔۔ وہ عام انسان کی طرح مظبوط نہیں تھی۔۔۔ وہ تو نازک سی معصوم گڑیا تھی۔۔۔ جس کے لئے ان باتوں کا مطلب بھی اچھے سے معلوم نہ تھا۔۔۔ صاف دل کی مورت۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ کب کہا آپ سے ثانیہ نے یہ سب۔۔۔ آپ نے ہمیں کیوں نہیں بتایا عین۔۔۔۔ افنان غصے کو بہت مشکل سے کنٹرول کر رہا تھا۔۔۔ افنان کا بس نہیں چل رہا تھا کے ثانیہ کے پاس جا کے اس کا منہ توڑ دے۔۔۔
وہ لسٹ ویک جب ہم ان کے گھر گے تھے تب۔۔ سب اندر تھے کسی کو بھی نہیں پتا ان سب باتوں کا۔۔۔تب ہی وہ ایسے بولی تھی ہم سے۔۔ عین، افنان کے ساتھ لگی بتا رہی تھی۔۔
تو اس لئے آپ اس دن روی تھی۔۔ سب کے پوچھنے پر بھی آپ نے کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔ ہاں نہ۔۔۔
ج۔۔۔جی۔۔۔ عین کہہ کے چپ ہو گی تھی۔۔۔
غلط بات ہے نہ نور۔۔ آپ کو بتانا چاہیے تھا نہ۔ایسے کوئی کرتا ہے۔۔ ہم تب ہی ثانیہ کی خبر لیتے۔۔ کیسے ہمت ہوئی ہماری بیٹی کو کچھ کہنے کی۔۔۔مھین بیگم پاس آ کے نور کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔
آپ۔۔۔۔آپ۔۔۔ کیا کرتی ماما۔۔۔۔
ڈیڈی ۔۔۔۔ اور بھائی۔۔۔ جب پاس نہیں ہوتے سب ایسا ہوتا ہے۔۔۔ یہ کیوں چھوڑ کے جاتے ہیں ہمیں۔۔۔ ڈیڈی امریکا چلے گے اور بھائی بھی یہاں نہیں تھے۔۔۔ اس لئے وہ ایسے کرتی ہے۔۔۔ بہت۔۔ بہت۔۔۔ بُری ہے وہ۔۔۔سب سے زیادہ بُری۔۔۔ نور کسی بھی طرح بھول نہیں رہی تھی۔۔ جیسے ڈر ہو کے اگر وہ یہاں آئی تو سب کے سامنے ایسا بول کے وہ نور کو ان سب سے دور کر دے گی۔۔۔۔
افنان۔۔۔۔ کہا گے تھے آپ اس دن۔۔۔ غصے سے بلند آواز سے افنان سے پوچھا گیا۔۔۔نور ڈر کے افنان کے ساتھ کچھ اور ساتھ لگ گی تھی اور آنکھیں زور سے بند کر لی۔۔۔
نائل مصطفیٰ بہت کم غصے میں آتے تھے پر یہاں بات ان کی بیٹی کی تھی جس کو اتنی باتیں سنائی گی تھی۔۔۔ڈیڈ۔۔۔ مجھے میٹنگ سے آتے دیر ہو گی تھی میں کافی لیٹ آیا تھا۔۔۔ افنان کو بتاتے ہوۓ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ اس کی وجہ سے عین کو یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑا۔۔
نیکسٹ ٹائم ایسا نہ ہو افنان۔۔۔۔ اگر ہم یہاں نہیں ہوتے تو آپ کی ذمہ داری ہے کے یہاں سب کی حفاظت کریں۔۔۔ ہم یہاں سب کو آپ کی زمیداری پر چھوڑ کر گے تھے۔۔۔ اور آپ۔۔۔ نائل صاف غصے کا اظہار کر رہے تھے۔۔
ایم سوری۔۔۔ ڈیڈ نیکسٹ ٹائم ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔ افنان نے ایک نظر عین پر ڈال کر بات کو ختم کرنا چاہا۔۔۔
ہممم۔۔۔
افنان کو محسوس ہوا کے عین لمبی لمبی سانس لے رہی ہے۔۔۔عین کو کندھے سے پکڑ کے اپنے سامنے کیا تھا۔۔۔عین۔۔۔عین۔۔۔۔ ماما پانی دے جلدی۔۔۔ عین یہاں دیکھو۔۔۔ عین۔۔۔ سانس لو۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔ ہم ہیں نہ سب یہاں۔۔۔۔
یہ لو پانی۔۔۔ نور پانی پیو۔۔۔مھین نے پانی کا گلاس نور کے منہ کو لگایا تھا۔۔۔ دو۔۔ تین۔۔۔ گھونٹ پی کے بس کر دیا۔۔۔
نور یہ دیکھو ہم سب ہے نہ آپ کے پاس۔۔۔۔ڈیڈی۔۔ ماما۔۔۔ بھائی۔۔۔۔ میں۔۔۔ ہم ایسے ہی رہے گے سب ساتھ۔۔۔ ہممم۔۔۔ میره نے نور کے پاس نیچے بیٹھ کر کہا۔۔۔
میں عین کو اپنے روم میں لے کر جا رہا ہو۔ ماما جوس اور عین کی میڈیسن بھیج دے۔۔ افنان کہہ کر عین کو ساتھ لیے اوپر اپنے کمرے کی جانب چلا گیا تھا۔۔۔ کمرے میں آ کے عین کو اپنے بیڈ پر لیٹا کے اوپر بلنکیکٹ دیا۔۔۔ عین کچھ نہیں ہو گا۔۔ میں ہو نہ آپ کے پاس۔۔۔ آپ کو اب کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا۔۔۔میں سب ٹھیک کر دو گا۔۔۔ بھائی ہے نہ آپ کا۔۔۔
افنان نے اپنی اس چھوٹی سی بہن کو اپنے ہونے کا یقین دلایا تھا۔۔۔ بھائی ہونے کا۔۔۔۔ مظبوط رشتے کا احساس۔۔۔یقین۔۔۔ حفاظت کا احساس۔۔۔ مان۔۔۔ بھروسے کا احساس۔۔۔ کیا کچھ نہ تھا جو اس وقت افنان کی باتوں سے نہ جھلک رہا تھا۔۔۔
میره ٹرے میں ناشتہ لے کے آئی تھی۔۔۔ افنان کو پتا تھا کے عین کچھ بھی نہیں کھائے گی۔۔۔ عین کو زبردستی جوس کا گلاس دے کر میڈیسن دی تھی۔۔ سو جاؤ عین میں یہاں ہی ہو آپ کے پاس۔۔۔
ہممم۔۔۔ عین نے سوتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔۔ ہاتھ اب بھی افنان کا نہیں چھوڑا تھا۔ ڈر تھا کے یہ ہاتھ کہی چھوٹ نہ جائے۔۔۔ افنان نے بھی عین کا ہاتھ نہیں چوڑا تھا۔۔ بلکے پاس بیٹھ کے اس کے بالوں میں ایک ہاتھ سے بالوں کو سہلا رہا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...