اگلی شام کو ارسل نگہت بیگم کی عیادت کے لیے آیا تھا آنا تو وہ دن میں چاہتا تھا مگر حسین صاحب کی غیر موجودگی کی وجہ سے روحان نے اسے شام میں آنے کا بولا تھا جب وہ آیا تھا تب حسین صاحب گھر ہی تھے روحان نے ان کی اجازت سے ہی اسے اندر بلایا تھا
روحان کے ساتھ وہ سر جھکائے سیڑھیاں چڑھ گیا تھا اک دفعہ بھی سر اٹھا کے ادھر اُدھر نہیں تھا اسے بغور دیکھتے حسین صاحب اس کے معترف ہوئے تھے کہ آج کل کے دور میں بھی ایسے نوجوانوں ہوتے ہیں انہیں اس کے ماں باپ پہ فخر محسوس ہوا تھا
چونکہ نگہت بیگم کا بخار مکمل طور پہ ٹھیک نہیں ہوا تھا اس لیے ابھی تک ان دونوں کا کھانا نیچے سے ہی جاتا تھا ان کے اوپر جاتے ہی مریم نے دو کپ چائے بنا کر کچھ ریفریشمنٹ کے ساتھ روش کے ہاتھوں اوپر بھجوائی تھی
“ہان بھیا یہ چائے لے لیں” روش نے سیڑھیوں پہ ہی کھڑے ہو کر اسے صدا لگائی وہ اسے لاڈ سے ہان ہی کہتی تھی اس کی آواز سن کے روحان سیڑھیوں کی طرف آیا تھا اور اس کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر مسکرایا تھا
“تھینک یو بچے اور یہ یقیناً آپ کی آپا نے بھجوائی ہے انہیں بھی میری طرف سے شکریہ بولنا” پہلے اس کا سر تھپتھپا کے شفقت سے کہا تھا اور پھر کچن کے دروازے میں لہراتا آسمانی رنگ کا آنچل دیکھ کر شرارت سے بولا تھا
“بھیا وہ کوئی آپا شاپا نہیں ہیں وہ مریم ہے مریم” روش کو مریم کے لیے آپا لفظ پسند نہیں آیا اس لیے اس نے منہ بسورتے مریم پہ زور دیا تھا
“ہاں بھئی مریم کو شکریہ بولنا” روحان نے ہنستے ہوئے اس کے ہاتھ سے ٹرے لیا اور آگے بڑھ گیا تھا کمروں کے سامنے بنے برآمدے میں اس وقت وہ کرسیوں پہ بیٹھے تھے روحان نے جا کر ٹرے کرسیوں کے سامنے پڑے میز پہ رکھی تھی
“آنٹی تو طبعیت خرابی کی وجہ سے یہ بیٹھی ہیں تو چائے کہاں سے آئی ہے” ارسل نے اک نظر نگہت بیگم پہ ڈالی اور دوسری ٹرے پہ ڈالتے پوچھا تھا
“مریم نے بنا کر بھیجی ہو گی ماشاءاللّٰہ بڑی پیاری بچی ہے جس گھر میں جائے گی چار چاند لگا دے گی بلکہ حسین بھائی صاحب کی ساری بیٹیاں بہت سگھڑ اور سمجھدار ہیں لگتا ہی نہیں کہ بن ماں کے پلی بڑھی ہیں” نگہت بیگم کے لہجے میں ان سب کے لیے محبت ہی محبت تھی
“ویسے وہ چاند آپ اپنے گھر میں لگوانے کا کیوں نہیں سوچتیں؟” مریم کے نام پہ روحان کے چہرے پہ پھیلنے والی مسکراہٹ دیکھ کر ارسل نے کہا تھا اس کی بات سن کے روحان نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا تھا
“یہی ارادہ ہے ان شاءاللّٰہ بہت جلد بات کروں گی بھائی صاحب سے” نگہت بیگم کی بات پہ روحان نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے انہیں دیکھا تھا یعنی جس کو چپکے چپکے چاہنے لگا تھا بغیر کسی رکاوٹ کے اس کا نصیب بننے لگی تھی اس نے دل ہی دل میں اللّٰہ کا شکر ادا کیا اور ان دونوں کی طرف متوجہ ہو گیا تھا
فاتینا منیہا اور نویرہ حسین صاحب کے گھر آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی سارہ کے گھر چکی گئی تھیں کیونکہ وہ آج شاپنگ کر کے آئی تھی اور جب سے آئی تھی ستر دفعہ فون کر کے انہیں بلا چکی تھی کیونکہ جب تک وہ اپنی شاپنگ انہیں دیکھا نہ دیتی اسے چین کہاں ملنا تھا
اس کے پاس کافی دیر بیٹھنے کے بعد وہ گھر آئی تھیں فاتینا نے پہلے کچن میں جھانکا جہاں ہنڈیا دھیمی آنچ پہ چولہے پہ پڑی تھی مگر کچن میں کوئی نہیں تھا شاید مریم کوئی چیز لینے اندر گئی اور حسین صاحب سمیت باقی بھی شاید روم میں تھیں تھی اسی لیے برآمدے میں بھی کوئ نظر نہیں آ رہا تھا ہر چیز کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنا رخ سیڑھیوں کی طرف کیا تھا
“یہ تم نے کہاں منہ اٹھایا ہوا؟” اس سیڑھیوں کی طرف بڑھتے دیکھ کر نویرہ نے پوچھا تھا
“دن میں بس اک دفعہ اوپر گئی تھی آنٹی کیا سوچیں گی پھر مڑ کے خیر خبر نہیں لی بس ان کا حال احوال پوچھ کے ابھی آئی” اسے جواب دیتی وہ سیڑھیاں پھلانگتی اوپر چلی گئی تھی اور وہ دونوں نفی میں سر ہلاتیں روم میں چلی گئی تھیں
وہ اپنے دھیان میں اوپر آئی تھی مگر سامنے بیٹھے ارسل کو دیکھ کر وہ ٹھٹھک کے رکی تھی سامنے وہ اکیلا ہی بیٹھا تھا روحان ابھی نگہت بیگم کو ان کے کمرے میں چھوڑنے گیا تھا بخار کی وجہ سے کافی نقاہت تھی اس لیے ان سے زیادہ دیر بیٹھا نہیں گیا تھا انہی کے کہنے پہ روحان انہیں لے کر اندر گیا تھا
“ارے یہ پھر آ گیا اس سے پہلے کہ یہ میری اس دن والی حرکت پہ باز پرس کرے مجھے یہاں سے نو دو گیارہ ہو جانا چاہیے” وہ خود سے بڑبڑاتے تیزی سے پلٹی تھی ارسل نے اس دن کی شیرنی کو آج بھیگی بلی بن کے بھاگتے دیکھ کر اپنا قہقہہ بمشکل ضبط کیا تھا
“آپ کے ہان اپنی غلطی پہ سوری کہنے کا رواج نہیں ہے کیا؟” ارسل کی آواز اس کے پیروں کی زنجیر بنی تھی
“کس بات کی سوری؟” وہ ڈھٹائی کے سارے ریکارڈ توڑتے پلٹی تھی
“ارے بھئی اتنی جلدی بھول گئی آپ اس دن کیسے بغیر کسی قصور کے مجھے جھاڑ پلا دی بلکہ الزامات کی بارش کر دی تھی اور اب پوچھ رہی ہیں کس بات کی سوری؟” ارسل نے اسے گھوری سے نوازا تھا
“دیکھیں مسٹر غلطی میری نہیں ہے جس طرح آپ لڑکیوں والے گھر کے سامنے کھڑے تھے سوچنے والے کچھ بھی سوچ سکتے تھے کہ شاید آپ ہم بہنوں میں سے کسی کے لیے باہر کھڑے ہیں اور اس سے ہمارے ابا کی تربیت پہ حرف آتا جو ہم میں سے کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا اس لیے مجھے جو سمجھ آیا میں نے کیا اور اس بات کے لیے میں ہرگز شرمندہ نہیں ہوں” فاتینا سنجیدگی سے کہتے وہاں سے چلی گئی تھی اور ارسل نے مسکراتی نظروں سے اس کی پشت دیکھی تھی وہ لڑکی دو ملاقاتوں میں ہی اسے اپنا اسیر بنا چکی تھی
“مجھے لگتا ہے اس گھر کا اک چاند کسی کے دل کو اپنی چاندنی سے مہکا چکا ہے جس کے اثرات باہر تک نظر آ رہے ہیں” روحان جس نے فاتینا کی آخری باتیں سنی تھی اور اب ارسل کو ہنوز سیڑھیوں پہ نظریں جمائے دیکھ کر شرارت سے بولا تھا
“ہوں ہاں کیا کہہ رہے ہو تم؟” ارسل نے چونک روحان کو دیکھا تھا وہ سیڑھیوں کی طرف دیکھتے فاتینا کے لفظوں کے سحر میں جھکڑا اس قدر گم تھا کہ نہ اسے روحان کی آمد کا پتہ چلا اور نہ اس کی بات سمجھ سکا تھا کہ اس نے کیا کہا ہے
“کچھ نہیں میرے یار میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ،
عشق نے نکما کیا غالب
ورنہ ہم بھی آدمی تھے بڑے کام
اسے دیکھتے روحان نے شرارت سے شعر پڑھا تو ارسل نے جھینپ کے اس کی کمر سینکی تھی اور ساتھ ہی اک گھوری سے نوازا تھا مگر روحان ڈھیٹ بنا ہنستا رہا تو ارسل نے تاسف سے سر نفی میں ہلایا تھا
سب کو شکل سے روحان بہت صوبر اور سنجیدہ لگتا تھا مگر اس کے قریبی لوگ جانتے تھے کہ وہ جیسے نظر آتا ہے ویسا ہے نہیں اس کی حس مزاح کافی اچھی تھی
______________________
آج سنڈے تھا اور حسبِ معمول آج تفصیلی صفائی ہونی تھی اور ہمیشہ کی طرح سب کو کاموں میں موت نظر آ رہی تھی وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی تھیں کہ کسی طرح مریم کا یہ صفائی کا بھوت ٹل جائے اور ان کی جان چھوٹ جائے
“یہ تم لوگ ابھی تک کس خوشی میں ایسے ہی بیٹھی ہوئی ہو؟” مریم اندر سے گندے کپڑوں کے ڈھیر کے ساتھ برآمد ہوئی تو سب کو سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر اس نے سختی سے پوچھا تھا
کپڑے دھونے کی ذمہ داری زینیا کی تھی مگر مریم خود سارے کپڑے لے کر آئی تھی تا کہ کوئی دھونے والا کپڑا رہ نہ جائے زینیا تو بس جان چھڑوانے کا کرتی تھی
“یار مریم ہر سنڈے تو تفصیلی صفائی ہوتی ہے اس سنڈے رہنے دیتے ہیں” منیہا نے لجاجت سے درخواست کی تھی
“ہرگز نہیں یہ جو تم لوگ ہر بات میں ڈنڈی مار جاتی ہو نہ کل کو میری اور ابا کی ناک کٹوانا سسرال جا کر کہ بڑی بہن اور باپ نے کچھ سکھایا ہی نہیں” مریم کی بات پہ وہ سب بلبلا اٹھی تھیں
“یار مریم کھبی کھبی مجھے لگتا ہے تم میں اماں کی روح سمائی ہوئی ہے جو ڈائیلاگ لوگوں کی مائیں بولتی ہیں وہ ہماری بہن کی طرف سے ناذل ہوتے ہیں” نویرہ نے جھنجھلا کے کہا تھا
“اور اک اور بات یہ چشماٹو تو کسی کام کو ہاتھ لگاتی نہیں ہے اور یہ مائرہ، منیہا اور نویرہ یونی چلی جاتی ہیں پیچھے میں اور زینیہ گھر کے سارے کام کرتی ہیں ہمیں تو اک دن چھٹی ملنی چاہیے کاموں سے چھ دن ویسے کام کرو اور ساتویں دن ان کے ساتھ تفصیلی صفائی کرواؤ یہ کہاں کا انصاف ہے؟” فاتینا نے جذباتی ہوتے اپنا مسئلہ سامنے رکھا تھا
“تم لوگ اٹھ رہی ہو یا نہیں؟” مریم نے سختی سے ان سب کو مخاطب کیا تو وہ منہ بناتے اٹھ گئی تھیں اور اپنے اپنے حصے کے کام کرنا شروع کیے تھے
“حق ہا کیا قسمت ہے میری بھی مستقبل کی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ مس مائرہ حسین جو بڑی بڑی کمپنیوں کا آڈٹ کرے گی وہ اپنے گھر میں جالے اتار رہی ہے” مائرہ نے سیڑھی پہ ٹنگے ہوئے جل دل کے پھپھوڑے پھوڑے تھے
“آڈیٹر صاحبہ اپنے کام پہ دھیان دیں یہ نہ ہو کہ اس گھر کی جلاد آ کر مستقبل کی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو وہ کھری کھری سنائے کہ اس کی اگلی پچھلی نسلیں یاد رکھیں” زینیہ نے وہاں سے گزرتے اس کے زخموں پہ مزید نمک چھڑکا تو مائرہ نے اسے گھوری سے نوازا تھا
اک تو میری قسمت میں یہ برتن مانجھنا ہی رہ گیا ہے جس سے حساب سے میں برتن دھو رہی ہوں اک دن دیوانوں کی طرح گلیوں میں صدائیں لگاؤں گی برتن دھلوا لو، جلی ہوئی دیگچیاں اور ہنڈیاں منجوا لو” کچن میں سنک کے آگے کھڑی منیہا کے ہاتھ کم اور زبان زیادہ چل رہی تھی
پھر اللّٰہ اللّٰہ کر کے سب کے کام ختم ہوئے تو سب نے شکر ادا کیا تھا آج کچھ زیادہ ہی تھک گئی تھیں وہ نگہت بیگم کی طبعیت خرابی کی وجہ سے نیچے والے پورشن کے ساتھ انہوں نے اوپر والا پورشن بھی صاف کیا تھا نگہت بیگم نے لاکھ منع کیا مگر انہوں نے ان کی بات پہ کان ہی نہیں دھرے تھے ان سب کے اوپر آتے روحان گھر سے باہر چلا گیا تھا
وہ سب نہا دھو کے اب برآمدے میں پنکھے کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں روحان ابھی گھر آیا تھا ان پہ اک نظر ڈالے بغیر وہ اوپر چلا گیا تھا اس کی اس ادا پہ وہ سب اپنے بھائی کے واری صدقے گئی تھیں سوائے مریم کے کیونکہ وہ اس پہ زرا کم ہی دھیان دیتی تھی
“یار بڑا عرصہ ہو گیا ہے کیریاں نہیں کھائی” فاتینا نے کہا تو سب میں نظروں کا تبادلہ ہوا تھا
“تو کیا ہوا ابھی کھا لیتے ہیں کیوں نویرہ؟” مریم بولتے ہوئے نویرہ کی تائید چاہی تھی کیونکہ وہ ہی درخت پہ چڑھتی تھی نویرہ کے سر ہلانے کی دیر تھی وہ سب سیڑھی لیے باہر برآمدے میں آ گئی تھیں
روحان جو اپنے روم کے باہر کھڑا کسی کال سن رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر نیچے گئی تو ان سب کو سیڑھی سمیت برآمدے میں دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی کال ڈراپ کر کے وہ ذرا آگے بڑھا تھا یہ دیکھنے کہ وہ کیا کرنے لگی ہیں
اس کے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں بے سیڑھی دیوار کے ساتھ لگائی تھی جس پہ اب نویرہ چڑھ رہی سیڑھی کے آخری سٹیپ پہ پاؤں رکھتے نویرہ نے پہلے برابر والے گھر جھانک کر کسی کے نہ ہونے کی تسلی کی تھی پھر اطمینان سے سیڑھی سے دیوار پہ آئی اور دیوار سے درخت پہ چڑھی تھی
یہ سب لمحوں کا کھیل تھا اس کی پھرتی اور اس کا کام دیکھ کر روحان کا منہ حیرت سے کھلا تھا سب سے حیرت تو اسے مریم کو بھی ان کے ساتھ دیکھ کر ہوئی تھی اس کے نزدیک تو وہ اک سنجیدہ سی لڑکی تھی مگر یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی تھی وہ سب کو دیکھ کے نفی میں سر ہلاتے اپنے روم میں چلا گیا تھا
“تمہیں کیا ملتا ہے یہ بندروں والی حرکتیں کر کے” نویرہ جو اپنے دھیان میں کیریاں توڑ رہی تھی ارسلان کی اس دن کی طرح آج بھی اچانک آمد پہ اس نے دانت پیسے تھے
“تمہیں مسئلہ کیا ہے؟ جب بھی میں درخت پہ چڑھتی ہوں آن ٹپکتے ہو کسی دن تمہاری وجہ سے میری کوئی ہڈی پسلی ٹوٹ جانی ہے” نویرہ نے اپنی بات کے اختتام پہ ہاتھ میں پکڑی موٹی تازی کیری اسے کھینچ کے ماری تھی جس نے سیدھا جا کر اس کے ماتھے کو سلامی دی تھی ارسلان اس اچانک ہوئی واردات پہ بوکھلا گیا تھا کیری کافی زور سے لگی تھی اور یہ سب اک دم سے ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی چیخ نکل گئی تھی
“آئے ہائے کیا ہو گیا میرے بچے ابھی تمہاری چیخ کی آواز سنائی دی” اس کی چیخ سن کے اندر سے اس کی اماں گرتی پڑتی باہر آئی تھیں ان کے سوال پہ ارسلان شرمندہ ہو گیا تھا جبکہ نویرہ نے اپنے قہقہے کا بڑی مشکلوں سے گلا گھونٹا تھا وہ ان کی آواز سن کے ہی پتوں میں چھپ گئی تھی اسے دیکھ کر وہ اک پل میں ساری بات سمجھ جاتیں اور اپنے سپوت کے ساتھ ہوئی کاروائی پہ اسے دن میں تارے دیکھا دیتیں
“بس اماں اک خطرناک اور خوفناک چوہیا کو دیکھ کر چیخ نکل گئی” ارسلان نے ٹیڑھی نظروں سے اوپر دیکھتے گویا اسے ہی سنایا تھا جبکہ خود کو خطرناک اور خوفناک چوہیا کہے جانے پہ نویرہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اس کے سر پہ کیریوں کی برسات کر کے اس کے چودہ طبق روشن کر دے
“اگر وہ اتنی ہی خطرناک تھی تو تُو نے اسے مارا کیوں نہیں؟” انہوں نے حیرت سے تھوڑی پہ ہاتھ جماتے پوچھا تھا
“بس اماں ارادہ تو یہی ہے عنقریب اس چوہیا کا کام تمام کر دوں گا” اس کی ذومعنی بات کا مطلب سمجھتے ناچاہتے ہوئے بھی نویرہ کی ہتھیلیاں بھیگی تھیں
“اچھا چلو ابھی تو اندر چلو یہ نہ ہو وہ دوبارہ آ جائے” اماں کی بات پہ وہ ہنستے ہوئے ان کے ساتھ ہو لیا تھا جبکہ نویرہ نے پتوں سے سر نکالتے اس کی پشت کو گھورا تھا اور ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑی دوسری کیری بھی پھینکنی چاہی مگر پھر اس کی اماں کے جلال کو سوچتے اپنا ارادہ ترک کر دیا تھا اور مزید دو چار کیریاں توڑنے کے بعد وہ نیچے آ گئی تھی
“یہ ارسلان کی باتوں کا کیا مطلب تھا؟” اس کے نیچے آتے ہی مریم نے سوال داغا تھا ساتھ ہی باقی سب کی بھی نظریں اس پہ جمی تھیں
“مجھے کیا پتہ تمہیں تو پتہ ہے وہ ایسی ہی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا ہے” نویرہ نے بات کو ٹالا تھا مریم بھی خاموش ہو گی تھی روش کی موجودگی کی وجہ سے کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی وجہ سے اس کے دماغ میں کوئی ایسی ویسی بات آئے اس نے نویرہ سے بعد میں بات کرنے کا سوچا تھا
_________________________
“ارے حسین کیا حال چال ہیں؟ کہاں ہوتے ہو آجکل کہی نظر نہیں آتے؟” حسین صاحب جو سٹور بند کرنے کا سوچ کے اٹھنے والے تھے کسی کہ پکارنے پہ انہوں نے چونک کے سامنے دیکھا تو ان کے چچیرے بھائی کھڑے تھے
“میں تو یہی ہوتا ہوں سٹور پہ کہاں جانا ہے میں نے” انہوں نے دھیمے سے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا
“بڑا عرصہ ہو گیا ہے گھر چکر نہیں لگایا تم نے؟”
“بس فرصت ہی میسر نہیں ہوتی پورا دن سٹور پہ ہی گزر جاتا ہے” حسین صاحب نے چیزیں سمیٹنا شروع کی تھیں کیونکہ ان کے جانے کے بعد ان کا ارادہ بھی گھر جانے کا تھا
“ویسے سنا ہے تم نے گھر کوئی کرائےدار رکھے ہوئے ہیں” ان کے سوال پہ حسین صاحب کے چلتے ہاتھ رکے تھے
“ہاں شکیل کے ہمسائے ہیں گھر میں کچھ کام کروا رہے ہیں اس لیے اک مہینے کے لیے کرائے پہ آئے ہیں” دوبارہ سے ہاتھ چلاتے انہوں نے جواب دیا تھا
“اور سناؤ مریم کے رشتے کی کوئی بات چلائی ہے یا نہیں؟” وہ شاید آج فرصت سے آئے تھے اس لیے شاید ان کا انٹرویو لے کر جانے ارادہ تھا ان کے سوال پہ اک دفعہ حسین صاحب کا دل کیا کہہ دے کہ آپ کے گھر بھی جوان جہان لڑکے ہیں آپ نے کھبی جھوٹے منہ نہیں رشتے کی بات کی کہ چچا زاد بھائی کی ذمہ داریاں کم ہوں لیکن وہ سر جھٹک گئے تھے
“جب اللّٰہ کی مرضی ہوئی چل جائے گی بات بھی کہی” سنجیدگی سے جواب دیا گیا تھا
“میں تو مشورہ دے رہا تھا اس طرح گھر بیٹھائے رکھو گے تو عمر نکل جائے گی پھر رشتے ملنا بھی مشکل ہو جائیں گے” انہوں نے اپنا خلوص دیکھانا چاہا تھا
“کوئی بات نہیں میری بیٹیاں مجھ پہ بوجھ نہیں میں ساری زندگی انہیں گھر رکھ کے بھی کھلا سکتا ہوں ان کا باپ زندہ ہے ابھی اور ان شاءاللّٰہ پھر کھبی ملاقات ہو گی ابھی میری بیٹیاں میرا انتظار کر رہی ہوں گی اللّٰہ حافظ چھوٹو ان کے جانے کے بعد تم بھی سٹور بند کر کے چلے جانا” حسین صاحب نے پہلے انہیں کہا اور اپنے ہیلپر کو آواز دے کر سٹور بند کرنے کا کہہ کے خود چلے گئے تھے پیچھے ان کی چچاذاد بھائی نے ان کی پشت کو گھورا تھا
“بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے” وہ بھی بڑبڑاتے ہوئے وہاں سے چلے گئے تھے
گھر پہنچنے تک حسین صاحب کے دماغ میں ان کی باتیں گھومتی رہی تھیں ان کو تو وہ جواب دے آئے تھے مگر وہ اب واقعی ہی مریم کی طرف سے فکرمند ہو گئے تھے ان کا ارادہ جلد ہی رشتے کروانے والی بوا سے ملنے کا تھا جو انہی کے محلے میں ہی ہیں
گھر کے اندر قدم رکھنے سے پہلے انہوں نے اپنے دماغ سے ہر سوچ جھٹک دی تھی اور گھر میں داخل ہوتے ہی حسب معمول اونچی آواز میں سلام کیا تھا جسے سن کے وہ سب باہر آ گئی تھیں اور مریم کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا جسے دیکھ کر وہ مسکرائے تھے
وہ سب وہی صحن میں بیٹھ گئے تھے اور ان سب نے باری باری اپنی دن کی روداد سنانے شروع کی تھی کہ مریم نے ان پہ کون سے ظلم کے پہاڑ توڑے تھے اور مریم ان سب کو گھورنے میں مصروف تھی انہیں بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازے پہ دستک ہوئی تھے
مریم نے جانا چاہا مگر حسین صاحب اسے منع کرتے خود دروازے کی طرف بڑھے تھے دروازہ کھولتے ہی سامنے رشتے کروانے والی بوا اور ان کے ساتھ اک اجنبی مرد اور عورت کو دیکھتے حسین صاحب حیران ہوئے تھے
“ارے حسین میاں کیا سوچ رہے ہو ہمیں اندر نہیں آنے دو گے کیا؟” بوا نے انہیں اک ہی جگہ جما دیکھ کر کہا تو انہوں جلدی سے اک سائیڈ پہ ہوتے انہیں اندر آنے کا رستہ دیا تھا
وہ حیران تو بہت ہو رہے تھے مگر انہیں لیے برآمدے میں آ گئے جہاں اک طرف کرسیاں اور ٹیبل پڑا ہوا تھا وہ سب بھی انہیں حیرت سے دیکھتیں اپنے کمرے میں چلی گئی تھی اور مریم ہمیشہ کی طرح کچن میں
“بھئی حسین میاں تم بھی یہی سوچ رہے ہو گے میں اچانک بن بتائے کیسے آ گئی اور ساتھ جن کو لے کر آئی ہوں وہ کون ہیں” بوا نے کہا تھا
“ارے نہیں نہیں بوا مہمان تو اللّٰہ کی رحمت ہوتے ہیں میں کیوں ایسا سوچوں گا” حسین صاحب نے بوکھلاتے ہوئے جلدی جلدی وضاحت دی تھی تو سامنے بیٹھے تینوں نفوس مسکرا دیے تھے
“ساری باتیں چھوڑو میاں اور ان سے ملو یہ ہیں ارشد آفندی اور یہ ان کی بیگم صائمہ آفندی” بوا نے ان کا تعارف کروایا تو حسین صاحب نے خوش دلی سے مسکرا کے انہیں دیکھا تھا
“میاں تمہیں پتہ تو ہے میرے کام کا رشتے کرواتی ہوں میں سمجھو آج بھی اسی سلسلے میں یہاں آنا ہوا ہے” بوا نے تمہید باندھی تو حسین صاحب بھی خوشگوار حیرت کے زیرِ اثر الرٹ ہوئے تھے ابھی تو انہوں نے سوچا ہی تھا اور اللّٰہ نے وسیلہ بھی بنا دیا تھا
“یہ ارشد آفندی کا ماشاءاللّٰہ جما جمایا کاروبار ہے کپڑے کا کارخانہ ہے اچھی آمدن اور گزر بسر ہے دو ہی بیٹے ہیں ان کا بڑا بیٹا پڑھ ہے وہ کیا مشکل نام ہے،،،” بوا اس کے کورس کے نام پہ الجھی تھیں
“سی اے” صائمہ آفندی نے مسکرا کے بتایا تھا
“ہاں وہی اک پرچہ رہ گیا ہے اس کے بعد نوکری لگ جائے گی یہ اپنے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کر رہی تھیں اسی سلسلے میں مجھ سے ملنے آئی تھیں جب جانے لگیں تو رستے میں مائرہ بیٹی کو گزرتے دیکھا پڑھائی کر کے واپس آ رہی تھی مجھ دیکھ کر رکی اور سلام کر کے آگے بڑھ گئی تھی انہوں بے اس کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا بڑی نیک اور سلجھی ہوئی بچی ہے تبھی انہوں نے ضد پکڑ لی تھی یہاں آنے کی میں نے تو کہا تھا پہلے میں حسین سے بات کر لوں پھر بتاتی ہوں مگر انہوں نے ضد پکڑ لی تھی کہ میں ان سے پہلے نہ جاؤں ان کے ساتھ ہی جاؤں تو ان کی مانتے آج ان کے ساتھ حاضر ہو گئی ہوں” بوا نے تفصیلی بات بتائی تھی جبکہ مریم کی بجائے مائرہ کے لیے آنے کا سن کے ان کا رنگ تھوڑا بجھا تھا
دوسری طرف سے کان لگا کے کھڑی ان سب میں موجود مائرہ کی نظروں میں دو دن پہلے کا منظر گھوما تھا جب یونی سے واپسی پہ اس نے بوا کو ان کے گھر کے گیٹ پہ کھڑا تھا جہاں ان کے ساتھ اک مرد اور اک عورت کھڑت تھے اس نے پہلے تو قریب سے ویسے ہی گزر جانا چاہا تھا
مگر جانتی تھی اس کے سلام نہ کرنے پہ بوا نے شکایت لے کر پہنچ جانا تھا ابا کے پاس کہ تمہاری بیٹی گزری میرے سامنے سے مگر مجال ہے جو سلام بھی کیا ہو اب انہیں اپنے گھر دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی اور اس سے زیادہ ان کے پرپوزل پہ ہوئی تھی اور کہی نہ کہی ان کا سر نیم آفندی کھٹک رہا تھا اور اس کا دھیان بار بار عادل آفندی کی طرف جا رہا تھا
“ہاں بھائی صاحب آپ کی بیٹی بہت بھا گئی ہے مجھے آپ پلیز اسے ہماری بیٹی بنا دیں یہ رہی ہمارے بیٹے عادل کی تصویر” صائمہ آفندی نے درخواست کی تھی اور ساتھ ہی اپنے بیگ سے فوٹو نکال کے ان کی طرف بڑھائی تھی اندر مائرہ یہ نام سن کے ساکت ہوئی تھی
“وہ سب تو ٹھیک ہے بہن لیکن اتنی جلدی آپ ہمارے لیے اجنبی،،،، ” انہوں نے فوٹو پکڑ کے جھجھکتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی تھی
“جی ہم سمجھ سکتے ہیں ایسے ہی تو کوئی نہیں اپنی بیٹی کا ہاتھ تھما دیتا کسی کے ہاتھ میں آپ پہلے اپنی پوری تسلی کروا لیں پھر آپ کا جو جواب ہوا وہ ہم تک پہنچا دیجیے گا” ارشد آفندی نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا تھا ان کی بات پہ حسین صاحب نے سر ہلایا تھا اتنے میں مریم چائے بھی لے آئی تھی
چائے پی کے تھوڑی دیر بیٹھ کے وہ چلے گئے تھے ان کے انداز و اطوار سے تو حسین صاحب کو وہ لوگ اچھے لگے تھے آگے اللّٰہ بہتر جانتا تھا ان لوگوں کے جانے کے بعد حسین صاحب نے ان سب کو باہر بلایا تھا
ان کی بیوی تو تھی نہیں جن سے انہوں نے مشورہ کرنا تھا اور کسی اور رشتے دار سے ان کے ایسے تعلقات نہیں تھے ایسے معاملات میں انوالو کرتے پیچھے ان کی بیٹیاں ہی بچتی تھیں جنہیں انہوں نے ابھی بلایا تھا اور ساری بات ان کے گوش گزار دی تھی
“چھان بین کروا لیں اگر اچھے لوگ ہیں تو پھر کوئی مضائقہ تو نہیں اس رشتے میں” ان کی ساری باتیں سننے کے بعد مریم نے کہا تھا
“لیکن بڑی سے پہلے چھوٹی کی کیسے،،،،،
“ابا اب آپ غلط بات کر رہے ہیں جو جس کا نصیب ہوتا ہے وہ مقررہ وقت پہ اسی کو ہی ملتا کوئی دوسرا نہ کسی کا نصیب چھین سکتا ہے اور نہ اپنا نصیب کسی کو دے سکتا ہے آپ بسم اللّٰہ کریں” مریم ان کی بات کاٹتے ہوئے بولی تھی
“لیکن لوگ کیا کہیں گے خدانخواستہ بڑی میں کوئی عی،،،،” انہوں نے اپنی بات ادھوری چھوڑی تھی
“جو چھوٹی کا رشتہ بڑی سے پہلے کر رہا ہوں” انہوں نے تھکے تھکے لہجے میں اپنی بات مکمل کی تھی ان سب کو اپنے باپ پہ ترس آیا تھا جس کے کندھوں پہ سات بیٹیوں کی ذمہ داری کے ساتھ لوگوں کی باتوں کے خوف کا بوجھ بھی تھا
“ابا اس بات کو سمجھ لیں کہ لوگوں کا کام بس باتیں بنانا ہے آپ کی سات بیٹیوں پہ بھی انہوں نے باتیں بنائی، ان کو پڑھانے پہ بھی انہوں نے باتیں بنائی، میرا ابھی تک رشتہ نہ ہونے پہ بھی انہوں نے باتیں بنائی، اب مائرہ کا رشتہ مجھ سے پہلے ہونے پہ بھی باتیں بنائیں گے، اگر میرا رشتہ ہو گیا تو بھی کسی نہ کسی بات کو جواز بنا کے باتیں ہی بنائیں گے لوگ کسی حال میں راضی نہیں ہوتے تو ان کی باتوں کو خود پہ سوار کرنے کا فائدہ؟” مریم اپنی بات مکمل کرتے سنجیدگی سے ان سے سوال کیا تھا صرف وہ دونوں باپ بیٹی بول رہے تھے باقی سب خاموش بیٹھی تھیں
“آپ میری مانیں تو ابا بسم اللّٰہ کریں اللّٰہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے اور اس میں بھی ہو گی جو فلحال ہمیں نظر نہیں آ رہی” مریم نے کہا تو انہوں نے سر ہلایا اور ساتھ ہی اک فخریہ نظر اپنی بیٹیوں پہ ڈالی تھی
آج ان کا دل کر رہا تھا بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے والوں کو چیخ چیخ کے بتائیں بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں، وہ تو اک خوبصورت ذمہ داری ہوتی ہیں،حساس دل رکھنے والی نازک سی پریاں ہوتی ہیں جو اکثر اپنے باپ کی پگڑی اور اپنی ماں کے اک آنسو کے صدقے اپنی خوشیاں اپنی خواہشات تک ان پہ وار دیتی ہیں، بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں وہ تو باپ کے دل کا سکون ہوتی ہیں ان کی آنکھ کا تارہ ہوتی ہیں اور اللّٰہ کا عطا کردہ اک انمول تحفہ ہوتی ہیں
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...