ان دنوں اسکا لگاؤ شاعری سے کچھ زیادہ ہی ہوگیا تھا۔وہ پہلے بھی شاعری پڑھتا تھا مگر اب تو وہ رات گئے تک اسٹڈی میں بیٹھ کر مرزا غالب ، احمد فراز وغیرہ کی شاعری پڑھتا۔
(کتنی مختلف ہے باقی لڑکیوں سے، لڑکیاں میری ایک نظر دیکھنے کو ترستی ہیں مگر میں اسے دیکھتا ہوں تب بھی اگنور کرتی ہے مجھے۔)وہ مسلسل اسی کے بارے میں سوچے جا رہا تھا۔
کیا مجھے محبت ہو گئی ہے اس سے؟
میں بار بار اسی کے بارے میں سوچتا ہوں۔
آنکھیں بند کرتے ہی وہ سامنے آجاتی ہے۔
اس کے سامنے جاتا ہوں تو عجیب سی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہوں کیا یہ محبت ہے۔جس کا ذکر میرے دوست کرتے ہیں۔
کیا یہ وہی محبت ہے جس نے رانجھا کو جوگی بننے پر مجبور کر دیا تھا
جس میں مجنوں کو در بدر کر دیا گیا تھا۔
وہ اپنے دل سے پوچھ رہا تھا۔
ہاں یہ محبت ہے یہی پیار ہے جو تمہیں بار بار اسے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ دل سے آواز آئی۔
جو بھی ہے بہت خوب صورت احساس ہے۔جو مجھے ایک انجانے سے لطف سے دوچار کرتا ہے۔
وہ خود سے باتیں کرتا اپنے کمرے کیطرف بڑھ گیا۔
آج اس نے سوچ لیا تھا وہ ان سب کے پاس نہیں جاۓ گی۔اس نے عرفان کی خود پر پڑتی نگاہوں کو محسوس کر لیا تھا اور یہ وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ کوئی نامحرم اس کو گہری نظروں سے دیکھے۔
اسکی خوش قسمتی تھی کہ آج ماہی یونی نہیں آئی تھی اور اسے کیفے نہ جانے کا موقع مل گیا تھا۔فری کلاس میں وہ اپنے ڈیپارنمنٹ میں بیٹھ گئی۔
۔۔۔۔
ماہی تو آج یونی نہیں آئی مگر یہ فائزہ کدھر گم ہے؟ مسکان نے ان سب کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
میں تو ہوں نا۔باقی سب کی فکر چھوڑو۔عدیل نے کہا۔
مسکان نے اسے غصے سے گھورا۔عرفان کو بھی فائزہ کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔اپنے آس پاس اسکی موجودگی اسے لطف دیتی تھی۔
میں دیکھتا ہوں اسے۔عرفان اٹھ کھڑا ہوا۔
چھوڑو عرفان وہ تھوڑی ہم سے بات چیت کرتی ہے۔اسکے یہاں بیٹھنے یا نہ بیٹھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تانیہ نے کہا۔
اور کسی کو پڑتا ہو یا نہ ہو پر مجھے پڑتا ہے۔وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کیفے سے باہر نکل گیا۔عدیل اور کمال نے ناسمجھی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔اور پھر ایک دوسرے کے ہاتھ پر تالی مار کر ہنس پڑے۔
اسے کیا ہوا میں نے کچھ غلط تو نہیں کہا۔تانیہ حیران تھی۔
۔۔۔
وہ کاغذ پر آڑھی ترچھی لائنیں مار رہی تھی جب اسے خود پر نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔
اس نے ادھر اُدھر دیکھا جب بالکل سامنے عرفان کو دیکھ کر بوکھلاہٹ میں کھڑی ہو گئی۔اور گود میں رکھی پَن نیچے گر گئی۔
ایک سیکنڈ کے لیے دونوں کی نظریں ملی اور فائزہ نے نظریں جھکا لی۔
نظر ملی اور آنکھیں جھکی
بس اتنی سی بات اور ہم برباد
عرفان کی جیسے زبان ہی کسی نے سلب کر لی۔اسے کچھ یاد نہیں رہا کہ وہ کیا کہنے آیا تھا۔فائزہ اسکی نظروں سے گھبرا کر جانے لگی تھی جب اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔
سب کیفے میں آپکا انتظار کر رہے ہیں۔اس نے کتابیں اٹھا کر قدم باہر کی جانب بڑھاۓ ہی تھے جب عرفان نے کہا۔
سنیں؟
اسکے بڑھتے قدم رک گئے۔
کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گی؟ اسے کبھی مشکل سے مشکل الفاظ بولنے میں دقت نہیں ہوئی جتنی ابھی ہو رہی تھی۔
مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔ وہ بغیر کچھ کہے باہر نکل گئی۔
عرفان نے گہرا سانس لیا جیسا بہت سی مسافت کے بعد یہاں پہنچا ہو۔
ایڈیٹ کتنی آسانی سے کہہ دیا دوستی کرو گی؟
دل کر رہا تھا ایک لات دوں گھما کر ساری عقل ٹھکانے آجاۓ۔وہ بڑبڑاتے ہوۓ برتن دھو رہی تھی اور ساری بھڑاس برتنوں کو پٹخ پٹخ کر نکال رہی تھی۔
آپی کس کی عقل کو ٹھکانے لگانے کا ارادہ ہے؟ عائزہ جس نے کچن میں داخل ہوتے ہوۓ اسکے آخری تین لفظ سنے بولی۔
وہی ایڈیٹ۔
کون ایڈیٹ ؟
ماہی کا دو۔۔۔۔ وہ بے خیالی میں اس سے کہنے والی تھی مگر جلدی سے منہ پر ہاتھ رکھا
تم کیوں پوچھ رہی ہو جاؤ اپنا کام کرو۔
بتا دو نا آپی۔عائزہ نے اصرار کیا۔
چپ ہو جا یہ نہ ہو میں تمہاری عقل ٹھکانے لگا دوں۔فائزہ نے دھلے ہوۓ برتن سمیٹتے ہوۓ کہا۔
ہاہاہا آپی آپ غصے میں بہت کیوٹ لگتی ہیں۔
مذاق اڑا رہی ہو میرا۔
نہیں بس تھوڑا سا جھوٹ بول رہی ہوں۔عائزہ اسکے ہاتھ میں چمچہ دیکھ کر اندر کیطرف بھاگی۔
اففف۔وہ دانت پیستی رہ گئی۔
آپی بتا دو نا شاید میں آپکی مدد کر سکوں۔ عائزہ نے التجا کی۔
عائزہ مجھے تنگ مت کرو۔ وہ اسے بار بار اصرار کر رہی تھی۔مگر وہ فائزہ ہی کیا جو آسانی سے بات بتا دے۔
اوکے میں نہیں پوچھوں گی اب۔آپ۔مجھے بہن سمجھتی ہی نہیں ہیں میں ہر بات آپ کے ساتھ شئیر کرتی ہوں مگر آپ۔ وہ ناراضگی سے منہ بسورنے لگی۔
اچھا اب یہ برا سا منہ نہ بناؤ۔بتاتی ہوں۔ فائزہ بھلا کب اسکی ناراضگی برداشت کر سکتی تھی۔
مجھے آج ایک لڑکے نے دوستی کی آفر کی۔
پھر آپ نے ایک تھپڑ اسکے منہ پر مار کر منع کر دیا ہوگا یہی بات ہے نا۔ عائزہ نے کہا۔کیونکہ وہ اپنی بہن کو اچھی طرح جانتی تھی۔
نہیں۔
تو کیا آپ نے دوستی کر لی۔ عائزہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی
پوری بات تو سنو۔ایک منٹ یہ ڈونگے جیسا منہ بند نہیں کر سکتی۔
اچھا یہ لیں۔اسنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔
وہ ماہی کا دوست ہے اس لیے میں نے کچھ نہیں کہا ورنہ وہ حال کرتی کہ زندگی بھر کسی سے دوستی کی نہ کہتا۔
ہاہاہاہا مجھے معلوم ہے جو آپ حال کرتی شیخ چلی کی طرح خیالی پلاؤ ہی پکاتی ہیں۔
نہیں میں حقیقی پلاؤ بھی پکا سکتی ہوں۔ فائزہ نے کہا۔
نہ جانے یہ آج کل کے لڑکوں کا معیار اتنا گر کیوں گیا ہے قدیم زمانے کی روحیں پسند آتی ہیں انکو۔
فائزہ نے بات سمجھ کر اس پر کشن اچھالنے شروع کر دیا جو وہ کیچ کر لیتی اور ساتھ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
آپ لوگوں نے ہمیں اسطرح یہاں کیوں بلایا ہے۔وہ تینوں عدیل اور کمال کے بلانے پر ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھیں۔
وہ دراصل ۔۔ بات ہی کچھ ایسی ہے کہ۔ کمال نے منہ لٹکا کر ادھوری بات چھوڑ دی۔
بتاؤ کیا بات ہے کمال بتاؤ۔ ماہی نے کہا۔
عدیل تم بتاؤ مجھ میں تو ہمت ہی نہیں ہو رہی۔اس نے مصنوعی آنسو صاف کیے۔
آخر آپ لوگ اسطرح ریکٹ کیوں کر رہے ہو؟ جو بات ہے کھل کر بتاؤ؟ تانیہ اور مسکان زچ ہو چکی تھی۔
وہ عرفان کو۔۔
کیا ہوا عرفان کو عدیل خدا کے لیے بتاؤ؟ ماہی نے عدیل کی بات کاٹ کر کہا۔
عرفان کو ایسا مرض لاحق ہوگیا ہے جس کا علاج ناممکن۔۔ عدیل چہرہ چھپا کر رونے لگا۔
_______
وہاٹ؟ یہ کیا کہہ رہے ہو آپ لوگ۔وہ تینوں شاکڈ تھی کل تک تو عرفان ٹھیک تھا اتنی جلدی اسے کیا ہوگیا۔
ہم ٹھیک کہہ رہیں ہیں۔عرفان دل کا مریض ہے اور اسکا کوئی علاج نہیں۔عدیل اور کمال کو ان تینوں کی شکل دیکھ کر ہنسی آگئی۔
تم لوگوں کو کس نے بتایا؟ تانیہ نے پوچھا۔
عرفان نے۔
ماہی نے جلدی سے عرفان کا نمبر ڈائل کیا۔
ی۔یہ اسکا نمبر کیوں آف ہے۔می۔میں اسکے گھر جا رہی ہوں۔وہ روہانسی ہو گئی۔
پاگل ہو کیا۔یہ بات صرف وہ جانتا ہے اور ہم لوگ۔ اسکے گھر والے اس بات سے بے خبر ہیں وہ تو تم لوگوں کو بھی بتانا نہیں چاہتا تھا۔ کل یونی آۓ گا تو بات کر لینا۔عدیل نے فوری طور پر بات بنائی۔
واہ بھلا یہ کیا بات ہوئی اسکے اپنے گھر والے اتنی بڑی بات سے بے خبر ہیں۔مسکان نے کہا۔
عرفان نہیں چاہتا اسکے گھر والے پریشان ہوں اس لیے۔
ماہی ریلیکس یار کچھ نہیں ہوگا عرفان کو ۔ماہی اب باقاعدہ رونے لگی تھی اور مسکان اور تانیہ اسے تسلیاں دے رہی تھی۔
۔۔
دوسرے دن عرفان یونی میں سب کے اترے چہرے دیکھ کر حیران ہوۓ بغیر نہ رہ سکا۔
ماہی خیر تو ہے لگتا ہے سدھر گئی ہو۔اور باقی لوگ بھی ماشاءاللہ ۔ عرفان نے سب کے اترے ہوۓ چہرے دیکھ کر کہا۔
اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ گھر والوں کی طرح تم ہمیں بھی بے خبر رکھو گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔اتنی بڑی بات بھلا تم کیسے ہم سے چھپا سکتے ہو۔ماہی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟ کونسی بات چھپا دی میں نے۔اس نے ناسمجھی سے کہا۔
زیادہ بنو مت عرفان ہمیں سب پتہ چل گیا ہے۔مسکان نے بھی کہا۔
تم کیا سمجھتے تھے ہم بے خبر رہیں گے۔تانیہ نے بھی منہ کھولا۔وہ سب کو ناسمجھی سے دیکھ رہا تھا۔عدیل اور کمال ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بتاؤ عرفان؟
یہ کیا بتاۓ گا ہم بتاتے ہیں مسٹر عرفان کو دل کی ایک ایسی بیماری ہے جسکا علاج ناممکن ہے جسے ہم آسان لفظوں میں محبت کہتے ہیں۔ عدیل نے بتیسی نکالتے ہوۓ کہا۔
کمال ان تینوں کو دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔اور عرفان ان دونوں کی شرارت سمجھ کر مسکرا رہا تھا۔
کمینے انسان۔مسکان نے ہاتھ میں پکڑا رجسٹر عدیل کو دے مارا۔تانیہ بھی ان دونوں کو کڑے تیوروں سے گھور رہی تھی جیسے کچا چبا جاۓ گی۔اور ماہی بت بنی بیٹھی عرفان کو دیکھ رہی تھی۔
عدیل۔اور کمال عرفان کو ان تینوں کے ریکشن بتا کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
انہوں نے کچھ بھی غلط نہیں کہا۔عرفان نے مسکراتے ہوۓ کہا۔اتنے میں فائزہ بھی آگئی۔
آج کیا کوئی خاص بات تھی جو کلاس بنک کر کہ یہاں بیٹھے ہو سب۔فائزہ نے سب کو یہاں موجود دیکھ کر کہا۔
بہت خاص بات تھی آپ پہلے آجاتی تو آپ بھی سن لیتی اب رہنے دیں۔عدیل نے کہا۔
ماہی میں بالکل ٹھیک ہوں اب ریلیکس ہوجاؤ یہ کیا بت بنی بیٹھی ہو۔عرفان نے اسے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے دیکھ کر کہا۔
ایسا جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی میں رات بھر سو نہ سکی تمہاری صحت یابی کی دعائیں مانگتی رہی اور یہ لوگ مذاق اڑا رہے ہیں۔
اچھا اب معاف کر دو۔عدیل نے اسکے آگے ہاتھ جوڑے۔
ایسے تو معاف نہیں کروں گی تمہارا وہ حشر کروں گی جو زندگی بھر یاد رکھو گے تم دونوں۔
بتاؤ ذرا۔کیا حشر کرو گی؟ تمہیں زبان چلانی آتی ہے وہی چلاؤ۔عدیل کی بات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
مجھے ہاتھ چلانا بھی آتا ہے نہیں چھوڑوں گی تمہیں۔ماہی عدیل کے پیچھے بھاگی اور مسکان اور تانیہ نے رجسٹر سے کمال کی دھلائی کی۔
فائزہ ناسمجھی سے ان کے ڈرامے کو دیکھ رہی تھی۔
کوئی مجھے بتاۓ گا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
عرفان کو محبت ہو گئی ہے۔اور اسکا ایک ہی علاج ہے جو آپ پاس ہے۔کمال نے کہا۔
میرے پاس مگر کیسے؟
ایسے کہ تم عرفان کے۔۔۔ عرفان نے دو تین مکے اسکی کمر پر رسید کیے۔مرواۓ گا کیا۔عرفان نے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
ابھی سے ڈرتا ہے تو شادی کے بعد تیرا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
شادی تو ہونے دے۔
ہوجاۓ گی فکر نہ کر۔فائزہ ان دونوں کو دیکھ رہی تھی جو آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے۔اتنے میں ماہی بھی ہانپتی ہوئی آگئی۔
اففف تھک گئی ہوں میں۔وہ کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔
کس نے کہا تھا اسکے پیچھے بھاگو۔اسکے پیچھے موٹی کو بھاگنا چاہیے تھا جسکا حق بنتا ہے۔کمال نے کہا۔
میں کیوں بھاگوں؟
سمجھا کر نا۔اچھا تم لوگ بیٹھو میں کچھ کھانے کو لاتا ہوں۔پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اگر کچھ کھانے کو نہ ملا تو وہ مجھے کھا جائیں گے۔کمال کی اس بات پر سب ہنس دیے
دن یونہی گزر رہے تھے اور عرفان کی محبت میں شدت آتی جا رہی تھی۔فائزہ جتنا اس سے دور بھاگتی وہ اتنا اسکے قریب جاتا۔وہ جہاں بیٹھی ہوتی عرفان بے اختیار ہو کر اسے تکتا رہتا اور جب وہ اٹھ کر چلی جاتی تب بھی ہونق بنا اس جگہ کو دیکھتا رہتا۔
ماہی سمیت سبکو اسکی محبت کا پتا تھا اور ماہی نے فائزہ کو منانے کی کوشش بھی کی تھی مگر وہ فائزہ تھی کوئی عام لڑکی نہیں ۔
عشق نے کر دیا نکما عرفان کو
ورنہ بچہ بڑے کام۔کا ہوا کرتا تھا
وہ درخت کیساتھ کھڑا نہ جانے کن خیالوں میں کھویا تھا جب کمال نے شعر کیساتھ انٹری دی۔
کمال صاحب آپ شاعری نہ ہی کریں تو اچھا ہے ورنہ اپنے شعروں کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر غالب صاحب ہوش و حواس سے بیگانہ ہوجائیں گے۔
عرفان نے لطیف سا طنز کیا۔
ہاہاہاہا تو بھی کوئی شعر لکھ دے اسکے سراپے پہ۔آخر عشق تو تجھے بھی ہوا ہے۔
اور تجھے تانیہ کیساتھ عشق نہیں ہوا کیا؟ بیٹا پہلے تم بعد میں، میں۔
ارے۔مجھے ابھی عشق نے اتنا نکما نہیں کیا مگر تجھے دیکھ کر مجھے لگتا ہے تو زیادہ ہی کچھ نکما ہوگیا۔ کمال نے “زیادہ” کو لمبا کر کے کہا۔
ہاہاہا ٹھیک کہتے ہو مگر مجھے شعراء کیطرح مصرع بنانا نہیں آتا۔
واہ میں نے تو سنا تھا عاشق لوگ شاعری کرتے ہیں۔مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔
ہاہاہا۔وہ دونوں بحث کرتے کلاس کیطرف چل دیے۔
ابھی کافی وقت ہے میں لائبریری سے کچھ کتابیں ایشو کروا لوں۔اسنے گھڑی پر وقت دیکھ کر دل ہی دل میں کہا اور لائبریری کی طرف بڑھ گئی۔اسے اسائمنٹ بنانے کے لیے کچھ کتابوں کی ضرورت تھی۔کتابیں ڈھونڈ کر ایشو کروائی اور پھر لائبریری میں ایک چئیر پر بیٹھ کر اوراق پلٹ کر دیکھنے لگی۔ابھی کافی وقت تھا اس لیے وہ ریلیکس بیٹھی تھی۔
پندرہ منٹ ابھی چھٹی کو رہتے ہیں فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے کچھ پڑھ لوں۔
فائزہ اسلامی واقعات کی کتاب لے کر پڑھنے لگی۔وہ کتاب پڑھنے میں اتنا گم ہوچکی تھی کہ وقت کا پتا ہی نہ چلا اور جب گھڑی پر نظر پڑھی تو چھٹی ہوۓ دس منٹ گزر چکے تھے۔
ابھی بس نہیں گئی ہوگی۔اس نے جلدی سے کتابیں بیگ میں رکھی اور باہر کیطرف بھاگی مگر گیٹ تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی بس چلی گئی۔
او شٹ۔اب کیا کروں۔