وہ فجر کی نماز اور قراٰن پاک کی تلاوت کر کے صحن میں آگئی۔
اوس پڑی گھاس پر ننگے پاؤں چلتے ہوۓ وہ صبح کی تازگی کو اپنے اندر اتار رہی تھی۔پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو ہر سمت پھیلی تھی۔چڑیاں چہچہا رہی تھی۔وہ صبح کے اس حسین منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی یہ پہلی بار نہیں تھا یہ اسکا روز کا معمول تھا۔
سورج کے طلوع ہوتے ہی وہ کچن کیطرف بڑھی۔
چولہے پر چاۓ کا پانی چڑھا کر وہ چھوٹی بہن عائزہ کو جگانے کے لیے کمرے کی طرف بڑھی۔جو خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔
عائزہ اٹھ جاؤ۔صبح ہو گئی ہے۔کالج جانا ہے کہ نہیں۔وہ اسے زور زور سے جھنجوڑنے لگی۔
کیا ہے آپی سونے دو۔ابھی بہت وقت ہے۔عائزہ دوسری طرف کروٹ لے کر سو گئی۔
عائزہ۔ وہ پھر اسے بلانے لگی اس بار عائزہ تکیہ اپنے کانوں پہ رکھ کے سو گئی۔
مجھے کیا ہے؟ سو جاؤ دیر ہوئی تو مجھے مت کہنا جگایا نہیں ہے۔کاہل کہیں کی۔وہ اسے کوستی ہوئی واپس کچن کی طرف چل دی۔جہاں چاۓ کا پانی ابل ابل کر سوکھنے کے قریب تھا۔
فائزہ نے جلدی سے ناشتہ تیار کر کے ٹیبل پر لگایا اور ولید کو بلانے چلی گئی۔
ولید تو آگیا مگر عائزہ میڈم اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔آخر فائزہ ہی اسے بلانے کے لیے اٹھی۔مگر اس کے اٹھنے سے پہلے ہی عائزہ کالج یونیفارم میں جلدی کا شور مچاتی ہوئی آپہنچی۔
اففففف بہت دیر ہو گئی مجھے۔وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی اور بریڈ پر جیم لگا کر ایسے ٹھونسنے لگی جیسے برسوں سے کچھ کھایا پیا نہیں۔آخر فائزہ کو ہی ٹوکنا پڑا۔
یہ کیسے کھا رہی ہو؟
البتہ ولید خاموش رہا۔عائزہ روزانہ یہی کام کرتی تھی۔وقت پر اٹھتی نہیں تھی اور دیر ہونے پر جلدی جلدی کا شور مچاتی۔
جیسے سب کھاتے ہیں۔اچھا میں جا رہی ہوں ورنہ وین نکل جاۓ گی۔
وہ ہاتھ ہلاتی یہ جا وہ جا۔
تمہیں یونیورسٹی نہیں جانا کیا۔ولید نے اسے آرام سے ناشتہ کرتے دیکھ کر کہا۔
ابھی کافی ٹائم ہے۔
وہ برتن سمیٹتی کچن کی طرف چلی گئی۔
آج اسکا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔لڑکیوں اور لڑکوں کا ہجوم دیکھ کر وہ بوکھلا گئی۔وہ ادھر اُدھر دیکھتی مین بلاک کی طرف بڑھ گئی۔اپنا ڈیپارنمنٹ ڈھونڈ کر اس نے سکھ کا سانس لیا۔وہ ڈیپارنمنٹ میں سیکنڈ لاسٹ بنچ پر بیٹھ گئی۔خود پر پڑنے والی نظریں وہ محسوس کر چکی تھی۔دل تو چاہ رہا تھا سب کچھ چھوڑ کر گھر چلی کاۓ پھر مگر پڑھنا اسکی خواہش تھی۔اس لیے اپنے گرد اچھی طرح چادر لپیٹ کر اعتماد سے بیٹھی رہی۔
لکچر اٹینڈ کرنے کے بعد وہ کیفے کی طرف بڑھ گئی۔
ہیلو۔وہ اکیلی بیٹھی بور ہو رہی تھی جب اسکے عقب سے آواز ابھری۔اسنے پیچھے مڑ کے دیکھا۔
ایک ماڈرن سی لڑکی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ اسی کو دیکھ رہی تھی۔
ہیلو۔
کیا نام ہے آپکا۔آئی تھنک آپ نیو ایڈمیشن ہیں؟
فائزہ۔۔جی ہاں۔
آپ اکیلے بیٹھی بور ہو رہی ہیں۔ہمیں جوئن کر لیں۔اس نے سامنے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جہاں اسی جیسی ماڈرن لڑکیاں کسی بات پر کھلکھلا رہی تھی۔
(یہاں بور ہونے کی بجاۓ انہی کیساتھ وقت گزار لوں) وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔
اگر آپکو ہمارا ساتھ پسند۔۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں۔۔
تو پھر چلیں۔وہ۔اسکا۔ہاتھ پکڑ کر اپنے ٹیبل کیطرف لے گئی۔
یہ ہے ہماری نیو فرینڈ فائزہ۔اور فائزہ یہ ہے تانیہ، اس نے ایک گھنگریالے بالوں والی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو مسلسل منہ ہلا رہی تھی؛ اور یہ مسکان، اسنے دوسری لڑکی طرف اشارہ کیا جو سموسہ چٹ کر رہی تھی۔اور میں مناہل مگر سب دوست مجھے ماہی کہتے ہیں تم بھی کہہ سکتی ہو۔وہ بالوں کو پیچھے کرتی کرسی پر بیٹھ گئی اور ساتھ والی کرسی فائزہ کو بیٹھنے کے لیے دی
ہیلو۔مسکان اور تانیہ نے یک زبان ہوکر کہا۔
ہیلو۔وہ بار بار ہاتھوں کی انگلیاں مروڑ رہی تھا۔
وہ اس سےسوال پوچھ رہی تھی جنکا جواب وہ ہوں ہاں۔میں دے رہی تھی۔اسے عادت ہی کہاں تھی اتنا بولنے کی۔گھر اور تنہائی۔
ماہی دور سے آتے ہوۓ تین لڑکوں کو زورو شور سے ہاتھ ہلا رہی تھی۔تینوں لڑکے ساتھ والی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
ہم نے کہا تھا ہم پہلے کیفے پہنچیں گی۔دیکھ لو ہم جو کہتے ہیں کر کہ دکھاتے ہیں۔ ماہی گردن فخر اونچی کر کے انہیں کہہ رہی تھی۔
بس کر تیکھی مرچی۔وہ کون ہے۔اچانک ان۔میں سے ایک لڑکے کی نظر فائزہ پہ پڑی جو چادر میں لپٹی سر جھکاۓ بیٹھی تھی۔
اوہ یہ میری دوست ہے فائزہ۔
اچھا کل تک تو تمہاری ایسی کوئی دوست نہیں تھی۔اتنی جلدی بنا لی۔
میں نے کہاں بنائی بنی بنائی مل گئی۔وہ ہاتھ پہ ہاتھ مار کر دانت نکال رہی تھی پھر اچانک اسنے سر پر ہاتھ مارا
افففف میں نے آپ لوگوں کا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔
فائزہ یہ ہے عرفان میرا سب سے اچھا دوست؛ اس نے ایک گندمی رنگت والے لڑکے کی طرف اشارہ کیا جو ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا
اور یہ عدیل۔انتہائی دبلا پتلا سا لڑکا جو چیونگم چبا رہا تھا اور یہ کمال۔ماہی نے عرفان کے برابر بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔
یہ نام کا ہی کمال۔ہے انتہائی ڈھیٹ انسان ہے۔
ماہی تمہاری دوست گونگی تو نہیں مسلسل تم ہی قینچی کی طرح زبان چلا رہی ہو۔عدیل نے کہا۔
ہاہاہا یہ اسے بولنے کا موقع دے تو وہ بے چاری منہ کھولے نا۔کمال نے بھی ٹانگ اڑائی۔
وہ ان کی نوک جھونک پر مسلسل مسکراۓ جا رہی تھی۔اسی پل عرفان کی نظر اس پر پڑی۔چادر میں لپٹا نورانی چہرہ اور جان لیوا مسکراہٹ۔
اوہ ہاہاہا یہ بولتی ہے مگر بہت کم۔مگر کوئی بات نہیں میں اسے بولنا بھی سکھا دوں گی۔
خدا کے لیے ماہی ایک تم ہی دماغ کا ستیاناس کرنے کے لیے کافی ہو۔کسی اور کو بولنا مت سکھا دینا۔کمال بھلا کہاں چپ رہنے والا تھا۔
اور موٹی کو دیکھو کیسے پلیٹیں صاف کر رہی ہے۔
عدیل نے مسکان کی طرف دیکھ کر دانت نکالے جو مسلسل کھا رہی تھی۔
تم بھی کھاؤ نا۔شکل دیکھی ہے اپنی سوکھی سڑی۔کھاتے تو میری طرح ہوتے۔مسکان نے غصے سے گھوری دے کر کہا۔
میں تم جیسا نہیں ہونا چاہتا۔تانیہ جیسا ہونا چاہتا ہوں۔اسنے تانیہ کیطرف دیکھ کر آنکھ دبائی۔
(لاحولہ ولاقوة کن پاگل لوگوں میں پھنس گئی میں۔توبہ) وہ اس وقت کو کوس رہی تھی۔آخر ہمت کر کے بولی
میں جا رہی ہوں۔میں لکچر مس نہیں کرنا چاہتی۔
ہاں اٹھو سب۔ ہمیں۔بھی اگلی کلاس بنک نہیں کرنی۔
وہ چاروں اٹھ کر اپنے ڈیپارنمنٹ کی طرف بڑھ گئی۔
وہ دونوں ایک ساتھ ہی گھر میں پہنچی۔
اففف گرمی سے جان نکلی جا رہی ہے میری۔فائزہ نے چادر اتار کر بیڈ پر پھینکی اور کپڑوں کا ہم رنگ دوپٹہ رکھتے ہوۓ کہا۔
آپی آپ کو کس نے کہا تھا اتنی بڑی چادر رکھ کر جاؤ۔دوپٹہ اوڑھ کر چلی جاتی نا مگر آپ کو اس بڑی چادر میں نہ جانے کیسے سکون ملتا ہے۔سو سالا پرانی روح سمائی ہے آپ میں۔عائزہ نے ہاتھ نچا کر کہا۔
دماغ مت کھاؤ میرا۔جلدی سے چینج کر لو۔
عائزہ کپڑے بدل کر بیڈ پر لیٹ گئی۔
کھانا گرم کروں؟
نہیں می کیفے سے کچھ نہ کچھ لے کر کھا آئی تھی اب بھوک نہیں ہے۔اچھا چھوڑیں سب باتوں کو بتائیں آج پہلا دن کیسا گزرا۔عائزہ دلچسپ نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولی۔
بہت اچھا گزرا۔بہت مزہ آیا۔
کوئی دوست بنائی ہے یا چپ کا روزہ رکھ کے بیٹھی رہی جو آپ کی عادت ہے۔
تین دوستیں بنا لی میں نے۔کیا نام تھا انکا۔ہاں ہاں یاد آیا ماہی، تانیہ اور مسکان۔
اتنی دوست ایک دن میں بنا لی آپ نے۔میں تو سمجھ رہی تھی آپ سے کوئی دوستی نہیں کرے گا جس طرح آپ کی فطرت ہے۔
اوہ اس لڑکی نے خود مجھے دوستی کی آفر کی ہے۔
وہ بھی آپ کی طرح کی ہو گی۔عائزہ آنکھیں موندھے اس سے بات کر رہی تھی۔
نہیں۔وہ بہت ماڈرن ہے اور اسکی دوستیں بھی اور باتونی حد سے زیادہ میں بہت ہنسی ہوں ان تینوں کی کمپنی میں۔مگر ایک بات اسکی مجھے اچھی نہیں لگی وہ لڑکوں سے بہت فری ہے۔دوست ہیں اسکے۔۔۔۔۔۔
وہ اسے یونیورسٹی کی باتیں بتا رہی تھی مگر عائزہ نیند کی گہری وادیوں میں اتر چکی تھی۔
عائزہ۔۔عائزہ۔ کیا پاگل لڑکی ہے یہ سو گئی نیند کی کچی وہ غصے سے اس پر کشن اچھالتی باہر آگئی۔
یونیورسٹی سے گھر آکر وہ واپس دوستوں کے ساتھ گھومنے چلا گیا واپس آیا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔لاؤنج میں ہی جاوید صاحب ، مسز جاوید اور ان کی بھانجی کومل بیٹھی تھی۔
یہ کوئی گھر آنے کا وقت ہے؟ جاوید صاحب نے غصے سے گھورتے ہوۓ اسے کہا۔
سوری ڈیڈ ۔دوستوں کے ساتھ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔عرفان نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
ایک تم اور وہ تمہارے نکمے دوست۔نہ جانے انہیں والدین نےاتنی شوٹ کیوں دے رکھی ہے۔۔۔۔۔۔
بس بھی کریں بچہ باہر سے آیا ہے۔جاؤ بیٹا فریش ہو کر آؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔
نہیں ممی میں دوستوں کیساتھ کھا کر آیا ہوں۔وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں آگیا۔
بچے پر اتنی سختی نہ کیا کریں جوان خون ہے باغی ہو جاۓ گا اسطرح۔ایک ہی تو بیٹا ہے ہمارا۔
تمہارے لاڈ پیار نے ہی اسے بگاڑ رکھا ہے۔
دوستوں کیساتھ تھا۔یہی موج مستی کے دن ہوتے ہیں۔اب یونیورسٹی لیول تک پہنچ گیا ہے۔اسکے بعد جاب پھر شادی۔انجواۓ کرنے دیں اسے۔
ہاں ماموں جان ممانی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔کومل جو کب کی چپ بیٹھی تھی اس نے بھی زبان کھولی۔
اچھا ٹھیک ہے اب زیادہ اسکی طرف داری نہ کرو تم دونوں۔وہ سگریٹ سلگاتے ہوۓ بولے۔
بستر پر لیٹ کر اس نے آنکھیں بند کی ہی تھی کہ چھناک سے ایک نورانی چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے آگیا۔
چہرے کے گرد چادر لپیٹے ہوۓ اور ہلکی سی ہونٹوں پر بکھرنے والی مسکراہٹ۔۔
وہ بار بار آنکھیں مَلتا مگر بار بار وہی چہرہ آنکھوں کے سامنے چھا جاتا۔
کیا مصیبت ہے یار۔یہ کیوں میری نظروں کے سامنے سے ہٹ نہیں رہی۔ اس نے سائڈ لیمپ آف کیا اور سر تک کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا مگر پھر بھی بار بار وہ اسکی نظروں کے سامنے چھا جاتی۔
اففففف۔یہ لڑکی کیوں آرہی ہے میرے ذہن میں۔میں تو اسے جانتا بھی نہیں نام بھی یاد نہیں پھر کیوں آجاتی ہے سامنے۔
کروٹیں بدل بدل کر نہ جانے کب اسکی آنکھ لگی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ آج وہ ان لڑکیوں کے پاس نہیں بیٹھے گی۔
وہ کیفے گئی ہی نہیں۔گراؤنڈ میں اکیلی بیٹھی ادھر اُدھر کا جائزہ لے رہی تھی کہ ماہی کی آواز پر اچھل پڑی۔
اففف تم یہاں چھپی بیٹھی ہو اور میں نے تمہاری تلاش میں یونی کا چپہ چپہ چھان مارا۔ بس اعلان کروانا باقی تھا۔
وہ سخت شرمندہ ہوئی۔
اوہ آئم سوری دراصل میں۔۔ یہاں ایک لڑکی سے بات کرنا چاہتی تھی تو کیفے نہیں آئی۔اس نے اپنے پاس سے بہانہ بنایا۔
بات کر لی۔
ہ۔ہاں کر لی۔
چلو پھر۔وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کیفے کی طرف بڑھی۔
ان دونوں کو دور سے آتا دیکھ کر چاروں نے ہاتھ ہلایا۔
یہ عرفان کدھر گیا؟ ماہی عرفان کو ان چاروں کے درمیان نہ پا کر بولی۔
وہ تو تمہارے پیچھے گیا تھا تمہیں نہیں ملا کیا۔ عدیل نے کہا۔
نہیں تو۔ او ہو آج کا دن ہی بیکار ہے پہلے فائزہ نہیں تھی اب یہ عرفان کہیں چلا گیا۔چلو اب یہاں بیٹھ کر کیا کریں ڈیپارنمنٹ میں ہی چلتے ہیں۔
فائزہ اگر تم وقت پر یہاں ہوتی تو آج ہمیں عرفان سونگ سناتا۔تم اب ہماری دوست ہو تمہارے بغیر ہم سونگ کیسے انجواۓ کرتے۔مسکان نے افسوس سے کہا۔
آئم سوری۔وہ شرمندگی سے نظریں جھکا کر بولی۔
واہ شکل کے ساتھ آپ کی آواز بھی پیاری ہے۔آپ ہی کچھ سنا دیں۔کمال نے اسکی خفت مٹانے کے لیے کہا۔
ابھی اسکی پھنسی پھنسی آواز نکلی ہے اور تم کچھ سنانے کی کہہ رہے ہو۔ عدیل نے اسے چپت لگائی۔
ہاہاہا ماہی کی سنگت میں رہ کہ وہ سب سناۓ گی تم سب دیکھ لینا۔ ماہی نے فخر سے کہا۔
عرفان نہیں ہے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔تانیہ نے کہا۔
ہمارا یار ہی تو محفل کی رونق ہے۔کمال نے کہا۔
اچھا چلو اب۔تانیہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
کوئی موٹی بھینس کی ہلپ کر دو ۔بیچاری سے اٹھا بھی نہیں جا رہا۔عدیل یہ کہہ کر بھاگ کھڑا ہوا۔
سڑیل کہیں کا مجھے بھینس کہہ گیا۔مسکان اسکو کوستی ہی رہ گئی۔اور وہ تینوں کھلکھلا کر ہنس پڑی
عشق محبت کرنے والے اکثر پاگل ہو جاتے ہیں
ایسی آگ میں جلنے والے اکثر پاگل ہو جاتے ہیں
ہم ان کے دیوانے کیوں ہیں یہ سمجھائیں تم کو
ان کی آنکھیں تکنے والے اکثر پاگل ہو جاتے ہیں
عرفان نے جان بوجھ کر یونیورسٹی میں اسکا سامنا نہیں کیا تھا یہ پھر اسکا معمول بن گیا وہ جہاں ہوتی وہ وہاں جانے سے ہچکچاتا تھا مگر پھر بھی وہ اسکے حواسوں پر چھا چکی تھی۔وہ آنکھیں بند کرتا تو وہی چہرہ وہی مسکراہٹ۔آہستہ آہستہ یہ احساس اسے لطف دینے لگا تھا۔وہ آنکھیں بند کر کے اسے محسوس کرتا مگر اسے دیکھنے پر نہ جانے کیوں اسکی عجیب سی کیفیت ہو جاتی تھی۔
حیا تھی ان کی آنکھوں میں ورنہ
یار سامنے ہو تو کون نہیں دیکھتا
وہ آج چاروں صبح صبح کلاس بنک کر کے کیفے میں بیٹھی تھی۔جب عدیل نے انٹری دی۔
ہیلو کیا ہو رہا ہے؟
آگیا بھوکا ندیدہ۔چھپا لو یہ ورنہ یہ ہی کھا لے گا۔مسکان نے دل کی بھڑاس نکالی۔
تم سے کم ہی بھوکا ہوں نہ تمہارے طرح ہر وقت منہ ہلاتا ہوں۔عدیل نے اسکی نقل اتاری۔ویسے یہ ہے کیا؟ عدیل بھی انہی کے ساتھ بیٹھ گیا۔
بریانی۔ تانیہ نے جواب دیا۔
واؤ بریانی۔عدیل کے منہ میں پانی آگیا۔اس نے دور کھڑے کمال اور عرفان کو آواز دی۔
آجاؤ یہاں سرپرائز ہے۔ جلدی کرو۔
وہ دونوں سرپرائز کا سن کر بھاگتے ہوۓ آۓ۔
میں نے کہا تھا نا۔مسکان نے کہا۔
کوئی بات نہیں مل بانٹ کر کھا لیں گے۔ ماہی نے سخاوت کا مظاہرہ کیا۔
دیکھا چھوٹی سی لڑکی ہے اور اتنا بڑا دل ہے اور تم موٹی ہوتی جا رہی ہو اور تمہارا دل چھوٹااااا ہوتا جا رہا ہے۔عدیل نے “چھوٹا” کو لمبا کر کے کہا۔
ارے کوئی ہمیں بتاۓ گا کیا سرپرائز ہے؟ کمال نے سنجیدگی سے کہا جو وہ کم ہی اختیار کرتا تھا البتہ عرفان خاموشی سے ان سب کی بک بک سن رہا تھ اور بار بار دشمنِ جان پر بھی نظر بھٹک جاتی۔جو ہر بات سے بے خبر ان کی باتوں کو انجواۓ کر رہی تھی۔
آج فائزہ ہمارے لیے بریانی بنا کر لائی ہے۔ماہی نے بتایا۔
واؤؤ بھئی دوست ہو تو ایسی۔اچھا ذرا ہمیں بھی چکھا دو۔عدیل نے عرفان کے دل۔کی بات ہی کہہ دی۔
ماہی نے سب کو پلیٹوں میں بریانی ڈال کر دی۔وہ سب بریانی کھا رہے تھے اور ساتھ تعریفیں بھی کر رہے تھے۔
نہ جانے کون خوش نصیب ہوگا جس کی قسمت میں آپ ہوں گی اتنا ذائقہ دار کھانا روز اسے نصیب ہوگا۔کمال نے کہا۔
ہاں تمہاری اس بات سے ہم متفق ہیں۔پہلی بار تم نے کوئی عقل استعال کی ہے۔تانیہ نے کہا
ان کے ہاتھ کی بریانی کھا کر اسکی عقل ٹخنوں سے نکل کر دماغ تک پہنچ گئی۔ عدیل کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔
عرفان تم کیوں خاموش بیٹھے ہو؟ ماہی نے اسکی خاموشی نوٹ کرتے ہوۓ کہا۔
ن نہیں تو۔وہ جیسے نیند سے جاگا۔
یہ مستقبل کے سپنے سجا آہ۔۔۔۔ عرفان کے مکے نے اسکی بولتی بند کر دی۔
اففف اتنا بھاری ہاتھ کہیں اپنی ہونے والی ان پر نہ اٹھا دینا۔عدیل کمر سہلاتے ہوۓ کہا۔
ارے وہ زندگی میں تو آۓ۔عرفان نے فائزہ کو ایک نظر دیکھتے ہوۓ کہا جسے اور کسی نے نوٹس کیا ہو یا نہ کیا ہو مگر ماہی نے ضرور کیا تھا۔یکدم اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا۔
اوۓ ہوۓ۔آجاۓ گی غم نہ کر تیری کھچڑی بھی بناۓ گی اور قیمہ بھی۔کمال نے اسکو دلاسے دیتے ہوۓ کہا۔
اگر آپ لوگوں کا اگلی کلاس بھی بنک کرنے کا ارادہ ہے تو بیٹھیں رہیں میں جا رہی ہوں۔ماہی کی پیروی کرتے ہوۓ فائزہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔اسے تو موقع چاہیے تھا اٹھنے کا جو اسے ماہی نے فراہم کیا۔عرفان کی نگاہوں کی تپش وہ محسوس کر چکی تھی۔